ٹھنڈا پانی اور تندرستی، خدا کی بڑی نعمت ہے

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أول ما يسأل العبد يوم القيامة من النعيم أن يقال له ألم نصح جسمك ؟ ونروك من الماء البارد ؟ . رواه الترمذي-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے نعمتوں کے بارے میں جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہوگا کہ " کیا ہم نے تیرے بدن کو تندرستی عطا کی تھی اور تجھ کو ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا " ۔ (ترمذی) تشریح : یوں تو ہر وہ چیز خدا کی نعمت ہے جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی نعمت تندرستی اور پانی ہے، اسی لئے قیامت کے دن سب سے پہلے انہی دونوں نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایک بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنے مرید سے فرمایا " پانی ٹھنڈا کر کے پیا کرو کیونکہ ٹھنڈا پانی، خدا کا شکر، دل کی گہرائیوں سے ادا کراتا ہے۔ نیز حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے والد ماجدرحمہ اللہ کے بارے میں خوب یاد ہے کہ وہ جب بھی ٹھنڈا پانی پیتے بے خود ہوجاتے ، اور جب تھوڑی دیر تک اسی عالم بے خودی میں رہنے کے بعد اپنی حالت پر واپس آتے ، تو فرماتے سبحان اللہ! یہ ٹھنڈا پانی بھی کیا چیز ہے اور خدا نے اس کو کتنا بہترین جوہر بنایا ہے؟ اور اسی طرح کے عالم ذوق وتوحید سے متعلق کلمات ارشاد فرماتے! حاصل یہ کہ پانی بذات خود تو بہت بڑی نعمت ہے ہی، لیکن ٹھنڈا پانی جو کیف ولذات اور جو فوائد اپنے اندر رکھتا ہے ان کی وجہ سے اس نعمت کا درجہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ قدرت نے پانی کو چیز تو ایسی عزیز اور اہم بنایا کہ زندگی کا مدار ہی اس پر ہے لیکن عام اتنا کیا کہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس موقع پر ایک بڑی دلچسپ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کسی طرح بھٹک کر کہیں اور جنگل میں پہنچ گیا، وہاں اس کو پیاس لگی مگر آس پاس کہیں پانی کا نام ونشان تک نہیں تھا، پیاس کے ساتھ اس کا اضطراب بڑھتا رہا یہاں تک کہ مرنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تو اچانک اس کے سامنے ایک عارف یا کوئی فرشتہ نمودار ہوا اور بولا کہ اگر میں تمہیں پانی پلادوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ بادشاہ نے فوراً جواب دیا کہ اپنا آدھا ملک! اس غیبی انسان نے اس کو پانی پلادیا ، اور اس کے بعد اس کا پیشاب رک گیا۔ اس نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح پیشاب کر لے، مگر مانراد رہا۔ اور سخت پریشانی میں مبتلا ہوگیا آخر کار پھر وہی غیبی انسان نمودار ہوا اور کہا کہ اگر میں تمہارے اس مرض کا علاج کردوں اور تمہارا پیشاب کھل جائے تو مجھے کیا انعام دو گے؟ بادشاہ نے کہا کہ " باقی آدھا ملک بھی تمہیں ہی دے دوں گا۔ اس نے علاج کیا اور بادشاہ کا پیشاب کھل گیا۔ تب اسی غیبی انسان نے کہا کہ " بادشاہ سلامت! آپ اپنا ملک خود سنبھالئے، مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، لیکن اپنی سلطنت اور اپنے ملک کی حیثیت دیکھ لیجئے ( کہ ذرا سے پانی اور پیشاب کے لئے آپ نے تمام ملک وسلطنت کو قربان کرنے کا فیصلہ کرلیا، لہٰذا اتنی بے حیثیت چیز اور اس کی ظاہری چمک دمک پر کبھی گھمنڈ نہ کیجئے گا " آخر میں ایک بات یہ ملحوظ رہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں تندرستی اور پانی دونوں نعمتوں کو ایک ساتھ ذکر کرنے میں گویا اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ دونوں اتنی عظیم الشان اور اہم نعمتیں ہیں کہ تمام ملک وسلطنت ایک طرف اور یہ دونوں نعمتیں ایک طرف۔
-