وہ چیزیں جو محرم کو پہننا ممنوع ہیں

عن عبد الله بن عمر : أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما يلبس من الثياب ؟ فقال : " لا تلبسوا القمص ولا العمائم ولا السراويلات ولا البرانس ولا الخفاف إلا أحد لا يجد نعلين فيلبس خفين وليقطعهما أسفل الكعبين ولا تلبسوا من الثياب شيئا مسه زعفران ولا ورس " . متفق عليه وزاد البخاري في رواية : " ولا تنتقب المرأة المحرمة ولا تلبس القفازين "-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ محرم کپڑوں میں سے کیا چیزیں پہن سکتا ہے اور کیا چیزیں نہیں پہن سکتا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہ تو قمیص و کرتہ پہنو، نہ عمامہ باندھو، نہ پاجامہ پہنو، نہ برنس اوڑھو اور نہ موزے پہنو، ہاں جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن سکتا ہے مگر اس طرح کہ موزہ دونوں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے، نیز کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس پر زعفران یا ورس لگی ہو۔ (بخاری ومسلم ) بخاری نے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ محرم عورت نقاب نہ ڈالے اور اور نہ دستانے پہنے۔ تشریح قمیص و کرتہ اور پاجامہ پننے سے مراد ان کو اس طرح پہننا ہے جس طرح کہ عام طور پر یہ چیزیں پہنی جاتی ہیں جیسے قمیص و کرتہ کو گلے میں ڈال کر پہنتے ہیں یا پاجامہ ٹانگوں میں ڈال کر پہنا جاتا ہے، چنانچہ احرام کی حالت میں ان چیزوں کو اس طرح پہننا ممنوع ہے۔ ہاں اگر کوئی محرم ان چیزوں کو مروج طریقہ پر پہننے کی بجائے بدن پر چادر کی طرح ڈالے تو یہ ممنوع نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے قمیص و کرتہ پہنا ہے یا پاجامہ پہنا ہے۔ " برنس" اس لمبی ٹوپی کو کہتے ہیں جو عرب میں اوڑھی جاتی تھی اور برنس وہ لباس بھی ہوتا ہے جس کا کچھ حصہ ٹوپی کی جگہ کام دیتا ہے جیسے برساتی وغیرہ۔ چنانچہ نہ برنس اوڑھو، سے مراد یہ ہے کہ ایسی کوئی چیز نہ اوڑھو جو سر کو ڈھانپ لے خواہ وہ ٹوپی ہو یا برساتی اور خواہ کوئی اور چیز ۔ ہاں جو چیز ایسی ہو جس پر عرف عام میں پہننے یا اوڑھنے کا اطلاق نہ ہوتا ہو مثلاً سر پر کونڈا یا گھڑا وغیرہ رکھ لینا یا سر پر گٹھر اٹھا لینا تو اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ " وہ موزہ دونوں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے" میں یہاں ٹخنے سے مراد حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک وہ ہڈی ہے جو پیر کی پشت پر بیچ میں ہوتی ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں وہی متعارف ٹخنہ مراد ہے جس کو وضو میں دھونا فرض ہے۔ اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس شخص کے پاس جوتے نہ ہوں اور وہ موزے پہن لے تو آیا اس پر فدیہ واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی تو یہ کہتے ہیں کہ اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر فدیہ واجب ہوتا ہے ۔ جس طرح یہ مسئلہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں کسی کو سر منڈانے کی احتیاج و ضرورت لاحق ہو جائے تو وہ سر منڈا لے اور فدیہ ادا کرے۔ " ورس " ایک قسم کی گھاس کا نام ہے جو زرد رنگت کی اور زعفران کے مشابہ ہوتی ہے۔ اس گھاس سے رنگائی کا کام لیا جاتا ہے۔ زعفران اور اس کے رنگ آلود کپڑوں کو پہننے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ان میں خوشبو ہوتی ہے۔ " محرم عورت نقاب نہ ڈالے" کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے منہ کو برقع اور نقاب سے نہ ڈھانکے ہاں اگر وہ پردہ کی خاطر کسی ایسی چیز سے اپنے منہ کو چھپائے جو منہ سے الگ رہے تو جائز ہے، اسی طرح حنفیہ کے ہاں مرد کو بھی عورت کی طرح احرام کی حالت میں منہ ڈھانکنا حرام ہے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی ایک روایت کے مطابق یہی ہے جب کہ امام شافعی کا مسلک اس کے برخلاف ہے۔ ہودج میں بیٹھنا ممنوع ہے بشرطیکہ سر ہودج میں لگتا ہو، اگر سر ہودج میں نہ لگتا ہو تو پھر اس میں بیٹھنا ممنوع نہیں ہے، اسی طرح اگر کعبہ کا پردہ یا خیمہ سر میں لگتا ہو تو ان کے نیچے کھڑا ہونا ممنوع ہے اور اگر سر میں نہ لگتا ہو تو ممنوع نہیں ہے۔
-
وعن ابن عباس قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطب وهو يقول : " إذا لم يجد المحرم نعلين لبس خفين وإذا لم يجد إزارا لبس سراويل "-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر محرم کو جوتے میسر نہ ہوں تو وہ موزے پہن سکتا ہے اور جس محرم کے پاس تہہ بند نہ ہو تو وہ پائجامہ پہن سکتا ہے۔ (بخاری مسلم) تشریح موزوں کے استعمال کے بارہ میں تو گزشتہ حدیث میں بتایا جا چکا ہے کہ جوتے میسر نہ ہوں تو محرم موزے پہن سکتا ہے۔ اس صورت میں امام شافعی کے نزدیک اس پر کوئی فدیہ واجب نہیں ہو گا۔ لیکن حضرت امام اعظم کا مسلک اس بارہ میں یہ ہے کہ اگر تہہ بند نہ ہو تو پائجامہ کو پھاڑ کر اسے تہ بند کی صورت میں باندھ لیا جائے اور اگر کوئی شخص اسے پھاڑ کر استعمال نہ کرے بلکہ پائجامہ ہی پہن لے تو اس پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہوگا۔
-
وعن يعلى بن أمية قال : كنا عند النبي صلى الله عليه و سلم بالجعرانة إذ جاء رجل أعرابي عليه جبة وهو متضمخ بالخلوق فقال : يا رسول الله إني أحرمت بالعمرة وهذه علي . فقال : " أما الطيب الذي بك فاغسله ثلاث مرات وأما الجبة فانزعها ثم اصنع في عمرتك كما تصنع في حجك "-
حضرت یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ جعرانہ میں (کہ جو مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ایک مقام ہے اور جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص جو دیہاتی تھا آیا اس نے کرتہ پہنا ہوا تھا، نیز وہ شخص خلوق میں رنگا بسا تھا (خلوق ایک خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار ہوتی تھی) اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے عمرہ کا احرام اس حالت میں باندھا تھا کہ یہ کرتہ میرے جسم پر تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے اوپر جو خوشبو لگی ہوئی ہے اسے تو تین مرتبہ دھو ڈالو اور کرتہ کو اتار دو اور پھر اپنے عمرہ کے احرام میں وہی کرو جو تم اپنے حج کے احرام میں کرتے ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح زعفران کا استعمال چونکہ مردوں کے لئے حرام ہے اور خلوق زعفران ہی سے تیار ہوتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو یہ حکم دیا کہ وہ اسے دھو ڈالے نیز تین مرتبہ دھونے کا حکم صرف اس لئے دیا تاکہ وہ خوب اچھی طرح چھوٹ جائے ورنہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ خلوق کو بالکل صاف کر دو خواہ وہ کسی طرح اور کتنی ہی مرتبہ میں صاف ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں حج کے احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہی عمرہ کے احرام کی حالت میں بھی ممنوع ہیں اس لئے تم عمرہ کے احرام کی حالت میں ان تمام چیزوں سے پرہیز کرو جن سے حج کے احرام کی حالت میں پرہیز کیا جاتا ہے۔ مسئلہ احرام کی حالت میں بغیر خوشبو سرمہ لگانا جائز ہے بشرطیکہ اس سے زیب و زینت مقصود نہ ہو۔ اگر کوئی شخص زیب و زینت کے بغیر خوشبو کا بھی سرمہ لگائے تو مکروہ ہوگا۔ اس موقع پر ایک خاص بات یہ جان لینی چاہئے کہ جو چیزیں احرام کی حالت میں حرام ہو جاتی ہیں ان کا ارتکاب اگر قصداً ہو گا تو متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک اس کی وجہ سے مرتکب پر فدیہ لازم ہوگا۔ ہاں بھول چوک سے ارتکاب کرنے والے پر فدیہ واجب نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت امام شافعی ، ثوری ، احمد ، اور اسحق رحمہم اللہ کا قول ہے البتہ امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کے نزدیک اس صورت میں بھی فدیہ واجب ہوگا۔
-