وہ دس چیزیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برا سمجھتے تھے

وعن ابن مسعود قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكره عشر خلال : الصفرة يعني الخلوق وتغيير الشيب وجر الأزرار والتختم بالذهب والتبرج بالزينة لغير محلها والضرب بالكعاب والرقى إلا بالمعوذات وعقد التمائم وعزل الماء لغير محله وفساد الصبي غير محرمه . رواه أبو داود والنسائي-
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو برا سمجھتے تھے ایک تو زردی یعنی خلوق کے استعمال کو، دوسرے بڑھاپا تبدیل کرنے کو ، تیسرے (ٹخنوں سے نیچے ) تہبند (یا پاجامہ کو لٹکا کر ) کھینچتے ہوئے چلنے کو، چوتھے (مردوں کے لئے ) سونے کی انگوٹھی پہننے کو، پانچویں عورت کا بے محل زینت ظاہر کرنے کو چھویں نرد (چونسر ) کھیلنے کو، ساتویں بجز معوذات کے جھاڑ پھونک کرنے کو، آٹھویں کوڑیوں اور منکوں کے باندھنے کو نویں بے موقع عزل یعنی عورت کی شرم گاہ سے باہر منی گرانے کو اور دسویں بچے کے خراب کرنے کو، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حرام نہیں فرماتے تھے ۔" (ابوداؤد ) تشریح " خلوق " ایک قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں جو زعفران وغیرہ سے بنائی جاتی ہے، خلوق استعمال کرنے کی یہ ممانعت صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کو اس کا لگانا درست ہے اگرچہ ایسی احادیث بھی منقول ہیں جن سے مردوں کے لئے بھی خلوق کے استمعال کی اباحت ثابت ہوتی ہے لیکن ایسی احادیث زیادہ منقول ہیں جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اباحت کی حدیثیں منسوخ ہیں مردوں کے لئے خلوق کا استعمال اس لئے ممنوع ہے کہ وہ خاص طور پر عورتوں کی خوشبو ہے بڑھاپے کو تبدیل کرنا خواہ سفید بالوں کو چننے کی صورت میں ہو یا سیاہ خضاب لگانے کے ذریعہ ہو یہ بہر صورت ممنوع ہے البتہ مہندی کا خضاب مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے جواز میں احادیث کے منقول ہونے کی بنا پر وہ بالاتفاق درست ہے، سفید بالوں کو اکھاڑنے اور چننے کے بارے میں حنفیہ کا مختار قول حرمت و کراہت کا ہے ۔ والتبرج بالزینۃ لغیرمحلہا میں لفظ محل حاء کے زیر کے ساتھ ہے جو " موضع حل " کے معنی میں ہے یعنی وہ جگہ جہاں عورت کو اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنا حلال ہے اور وہ جگہ اس کا شوہر اور اس کے محارم جیسے باپ اور بھائی وغیرہ ہیں، گویا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے خاوند اور اپنے محارم کے علاوہ دوسرے مردوں کے سامنے بناؤ سنگار ظاہر کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے ا یت (ولایبدین زینتہن الا لبعولتہن او ابآئہن) الا یہ ۔ بعض حضرات نے " محلہا " میں لفظ " محل " حاء کے زیر کے ساتھ بھی کہا ہے جو " حلول " سے ہے ۔ " کعاب " کعب کی جمع ہے اور چوسر کی گوٹوں اور مہروں (پانسوں ) کے معنی میں ہے جن کو قرعہ کی مانند پھینک پھینک کر چوسر کھیلا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ کھیل ممنوع ہے ، چنانچہ اہل علم صحابہ کی اکثریت کے نزدیک یہ کھیل حرام تھا ، حنفیہ شطرنج کھیلنے کو بھی مکروہ تحریمی کہتے ہیں ۔ " رقی " رقیہ کی جمع ہے جس کے معنی منتر پڑھ کر پھونکنے کے ہیں اور " معوذات " سے مراد قرآن کی وہ آیتیں ہیں جو استعاذہ کے معنی پر مشتمل ہیں، خواہ وہ یہ دونوں سورتیں ہوں یا ان کے علاوہ دوسری آیات ۔ حاصل یہ کہ قرآن کریم کی آیات، احادیث میں منقول دعاؤں اور اسماء الہٰی کے ذریعہ جھاڑ پھونک جائز ہے ان کے علاوہ حرام ہے، خاص طور پر ایسے الفاظ کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا جن کے معنی معلوم نہ ہوں نہ صرف حرام ہے، بلکہ کفر کی حد میں داخل ہو جانے کے خوف کا بھی محتمل ہے ۔ " تمائم " تمیمہ کی جمع ہے اس کے معنی ان منکوں (دانوں ) اور ہڈیوں کے ہیں جن کو جوڑ کر عرب نظر نہ لگنے کے لئے بچوں کے گلے میں لٹکاتے تھے یہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا خاص طریقہ تھا لیکن اسلام نے اس کی ممانعت فرما دی، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ " تمائم " سے مراد وہ گنڈے اور منتر ہیں جن کی نوعیت مشرکانہ ہوتی ہے اور جو زمانہ جاہلیت میں رائج تھے، لیکن وہ تعویذات وغیرہ جن میں آیات قرآنی منقول دعائیں اور اسماء الہٰی لکھے ہوتے ہیں گلے میں لٹکانا جائز ہیں جیسا کہ حصن حصین میں منقول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے ۔ " بے موقع عزل " کا مطلب یہ ہے کہ حمل ٹھہر جانے کے خوف سے عزل کرنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ عورت (بیوی ) کی رضامندی حاصل ہو اگر اس کی رضامندی کے بغیر عزل کیا جائے گا تو وہ ایسا عزل ہو گا جو بے موقع کھلائے گا ۔ جس کی ممانعت اس حدیث میں مذکور ہے البتہ اگر عورت آزاد نہ ہو بلکہ لونڈی ہو تو وہ (لونڈی ) چونکہ محل عزل ہے اس لئے اس کی رضامندی کے بغیر عزل کرنا جائز ہے ۔ " بچے کو خراب کرنے " کا مطلب یہ ہے کہ اس عورت کے ساتھ صحبت کی جائے جس کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو اور اس صحبت کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو جائے، چونکہ اس حمل کی وجہ سے اس کا دودھ خراب ہو جاتا ہے اور وہ دودھ بچے کو نقصان پہنچاتا ہے کہ اس کو ضعف وغیرہ لاحق ہو جاتا ہے اس لئے دودھ پلانے والی عورت کے ساتھ صحبت کرنا گویا بچے کو نقصان پہنچانا ہے ۔ دودھ والی عورت کے ساتھ صحبت کرنے کو " غیل " کہتے ہیں اور اس کا ذکر باب المباشرت میں گزر چکا ہے ۔ " اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حرام نہیں فرماتے تھے " کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دودھ پلانے کے زمانے میں عورت کے ساتھ صحبت کرنے اور بچے کو نقصان پہنچانے کو ناپسند فرماتے تھے لیکن اس کو حرام قرار نہیں دیتے تھے کیونکہ منکوحہ عورت کے ساتھ جماع کرنا حلال ہے اور محض حمل کے احتمال سے کہ جس سے بچے کو مذکورہ نقصان پہنچنے کا تعلق ہے وہ عورت حرام نہیں ہوتی ۔
-