وضو کی سنتوں کا بیان

--
یہاں وضو کی سنتوں سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال و اقوال ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں منقول ہیں خواہ ان کا تعلق وضو کے فرائض سے ہو یا سنت یا آداب وضو سے۔
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا سْتَےْقَظَ أَحَدُکُمْ مِنْ نَّوْمِہٖ فَلَا ےَغْمِسْ ےَدَہُ فِی الْاِنَآءِ حَتّٰی ےَغْسِلَھَا ثَلٰثًا فَاِنَّہُ لَا ےَدْرِیْ اَےْنَ بَاتَتْ ےَدُہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی سو کر اٹھے تو (اسے چاہئے کہ) اپنے ہاتھ کو پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک اسے (پہنچوں تک) تین بار دھو نہ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ رات بھر اس کا ہاتھ کہاں رہا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو سے پہلے ہاتھوں کو دھونا سنت ہے، جہاں تک سو کر اٹھنے کے بعد کی قید کا سوال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں پانی کی قلت ہوتی ہے ، خاص طور پر زمانۂ نبوت میں تو پانی بہت ہی کم مقدار میں دستیاب ہوتا تھا، اس لیے اکثر و بیشتر لوگ پانی سے استنجاء نہیں کرتے تھے پہلے ڈھیلوں سے یا پتھروں سے صاف کر لیا کرتے تھے، اور یہ ظاہر ہے کہ گرم ہوا کی بنا پر سوتے میں استنجاء کے مقام پر پسینہ آجاتا ہے، اس صورت میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت ہاتھ استنجاء کے مقام پر پہنچ جائے جس سے ہاتھ گندے ہو جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا ہاتھ رات کو سوتے وقت کہاں رہا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب کوئی آدمی سو کر اٹھے تو چاہئے کہ وہ پہلے اپنے ہاتھوں کو پانی کے برتن میں نہ ڈال دے بلکہ ہاتھ تین مرتبہ دھو ڈالے تاکہ وہ پاک و صاف ہو جائیں اس کے بعد برتن سے پانی لے کر وضو کر لے۔ بہر حال یہاں نیند کی قید تو اس لیے ہے کہ اس میں ہاتھوں کو نجاست لگنے کا احتمال ہے ورنہ ہر ایک وضو کرنے والے کو پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھونا چاہئے اس لیے کہ علماء لکھتے ہیں کہ اس طرح ہاتھ دھونا اس آدمی کے لیے بھی سنت ہے جو سو کر نہ اٹھا ہو کیونکہ ہاتھ دھونے کا سبب یعنی ہاتھ کو نجاست و میل لگنے کا احتمال جاگنے کی حالت میں بھی موجود ہے۔ ہاتھ دھونے کا یہ حکم فرض اور واجب نہیں ہے بلکہ مسنون کے درجہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم احتیاط کے طور پر دیا ہے اگر کوئی آدمی ہاتھ نہ دھوئے تو بھی وہ پاک ہے کہ اگر بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دے تو اس سے پانی ناپاک و نجس نہیں ہوتا کیونکہ سوتے میں ہاتھ کا ناپاک ہونا یقینی نہیں ہے بلکہ احتمال کے درجہ کی چیز ہے مگر حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ کا دھونا واجب ہے، اگر کوئی آدمی سو کر اٹھا اور اس نے بغیر دھوئے ہاتھ پانی میں ڈال دیا تو پانی ناپاک ہو جائے گا۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا اسْتَیْقَظَ اَحَدُکُمْ مِنْ مَّنَامِہٖ فَتَوَضَّأَ فَلْیَسْتَنْثِرْ ثَلَاثًا فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَبِیْتُ عَلَی خَیْشُوْمِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے اور وضو کا ارادہ کرے تو تین مرتبہ (ناک میں پانی دے کر ) ناک کو جھاڑے اس لیے کہ اس کی ناک کے بانسے پر شیطان رات گزارتا ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح : انسان کی ناک کے بانسے پر شیطان کا رہنا اور اس پر رات گزارنے کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی حقیقت و کیفیت کا علم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کے رموز و اسرار کی معرفت سے ہماری عقلیں قاصر ہیں۔ لہٰذا ایسے امور کے معاملہ میں جن کی خبر شارع نے دی ہے۔ بہتر اور اولیٰ طریقہ یہی ہے کہ صرف ان کی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی حقیقت و کیفیت کے بیان کرنے میں سکوت اختیار کیا جائے۔ بعض حضرات نے اس کی بڑی دلچسپ تاویل بھی کی ہے، مثلاً یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان سو جاتا ہے تو بخارات، رینٹھ اور گرد و غبار ناک میں جمع ہو جاتے ہیں جو دماغ کا قریبی حصہ ہے اس کی بنا پر دماغ جو حو اس و شعور کی جگہ ہے مکدر ہو جاتا ہے اور یہ چیز تلاوت قرآن کے آداب کو کماحقہ، ادا کرنے اور اس کے معنی و مطلب کے سمجھنے میں مانع ہوتی ہے، نیز یہ عبادات کی ادائیگی میں سستی اور کسل کا باعث بھی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں شیطان کی منشاء کے عین مطابق اور اس کی خوشی کا باعث ہیں، اس لیے اس مشابہت سے کہا گیا ہے کہ سونے والے کی ناک کے بانسہ کے اوپر رات بھر شیطان بیٹھا رہتا ہے۔ بہر حال یہ احتمالات ہیں، ان پر بھی کوئی یقینی حکم نہیں لگایا جا سکتا اس لیے بہتر اور اولیٰ طریقہ وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے۔
-
وَقِیْلَ لْعَبْدِ اﷲِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَاَفْرَغَ عَلَی یَدَیْہِ فَغَسَلَ یَدَیْہِ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلَ وَجْھَہ، ثَلَاثًا ثُمَّ غَسَلً یَدَیْہِ مَرَّتَیْنِ اِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ثُمَّ مَسَحَ رَّأسَہُ بِیَدِہٖ فَاَقْبَلَ بِھِمَا وَاَدْبَرَ بَدَأ بِمُقَدَّمِ رَأسِہِ ثُمَّ ذَھَبَ بِھِمَا اِلَی قَفَاہُ ثُمَّ رَدَّھُمَا حَتّٰی رَجَعَ اِلَی الْمَکَانِ الَّذِیْ بَدَأَ مِنْہُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ رَوَاہُ مَالِکٌ وَالنِّسَائِیُّ وَالِاَبِی دَاؤدَ نَھْوَہُ ذَکَرَہ، صَاحِبُ الْجَامِعِ وَفِی الْمُتَّفَقَ عَلَیْہِ قَیْلَ لِعَبْدِ اﷲِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَاصِمٍ تَوَضَّا لَنَا وُضُوْءَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَدَعَا بِاِنَآءٍ فَاَ کْفَأَ مِنْہُ عَلٰی یَدَ ْیہٖ فَغَسَلَھُمَا ثَلَاثًا ثُمَّ اَدْخَلَ یَدَہُ فَاسْتَخْرَجَھَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ کَفٍ وَاحِدَۃٍ فَفَعْلَ ذٰلِکَ ثَلَاثًا ثُمَّ اَدْخَلَ یَدَہ، فَاسْتَخْرَجَھَا فَغَسَلَ وَجْھَہُ ثَلَاثًا ثُمَّ اَدْخَلَ یَدَہُ فَاسْتَخْرَجَھَا فَغَسَلَ یَدَیْہِ اِلَی الْمِرْفَقَیْنِ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ اَدْخَلَ یَدَہُ فَاسْتَخْرَجَھَا فَمَسَحَ بِرَأسِہٖ فَاَقْبَلَ بِیَدِیْہٖ وَاَدْبَرَثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہٖ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ قَالَ ھٰکَذَا کَانَ وُضُوْءُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَفِیْ رَوَاےَۃٍ فَاَقْبَلَ بِھِمَا وَاَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأَسِہٖ ثُمَّ ذَھَبَ بِھِمَا اِلٰی قَفَاہُ ثُمَّ رَدَّھُمَا حَتّٰی رَجََعَ اِلَی الْمَکَانِ الَّذِیْ بَدَأَ مِنْہُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَےْہِ وَفِیْ رَوَاےَۃٍفَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلٰثًا بِثَلٰثِ غُرُفَاتٍ مِّنْ مَّآءٍ وَّفِیْ اُخْرٰی فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ کَفَّۃٍ وَّاحِدَۃٍ فَفَعَلَ ذٰلِکَ ثَلٰثًا وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّلْبُخَارِیِّ فَمَسَحَ رَأْسَہُ فَاَقْبَلَ بِھِمَا وَاَدْبَرَ مَرَّۃً وَّاحِدَۃً ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَےْہِ اِلَی الْکَعْبَےْنِ وَفِیْ اُخْرٰی لَہٌ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ مِّنْ غُرْفَۃٍ وَّاحِدَۃٍ۔-
" اور حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عاصم ہے ابن ام عمارہ کے نام سے مشہور ہیں، ابومحمد کنیت ہے، آپ بزمانہ یزید ٦٤ھ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) سے پوچھا گیا کہ سر کاردو عالم کس طرح وضو فرمایا کرتے تھے (یہ سن کر) حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا (جب پانی آگیا تو) انہوں نے دونوں ہاتھوں پر (پانی) ڈالا اور انہیں پہنچوں تک) دو دو مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور پانی ڈال کر ناک کو جھاڑا تین مرتبہ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک لائے یعنی انہوں نے اپنے سر کی اگلی جانب سے شروع کیا اور دونوں ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان کو (پھیر کر) اسی جگہ واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا اور پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔ (مالک، سنن نسائی، ابوداؤد) اور صحیح البخاری و صحیح مسلم میں یہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے وضو کریں چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (پانی کا ) برتن منگوایا (جب پانی کا برتن آگیا تو ) انہوں نے اسے جھکایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں تین مرتبہ دھویا پھر ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس سے پانی نکالا پھر (اسی) ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اس طرح انہوں نے تین مرتبہ کیا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی نکالا اور تین مرتبہ منہ دھویا، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر نکالا اور سر کا مسح (اس طرح) کیا کہ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے، اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا، پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی وضو تھا اور صحیح البخاری و صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ " (مسح کے لیے) اپنے ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی طرف لائے یعنی اپنے سر کے اگلے حصہ سے (مسح) شروع کیا اور (ہاتھوں کو) گدی کی طرف لے گئے پھر گدی کی طرف سے وہیں لے آئے جہاں سے (مسح) شروع کیا تھا اور پھر اپنے پاؤں کو دھویا " صحیحین کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ " کلی کی ناک میں پانی دیا اور ناک تین مرتبہ جھاڑی تین چلوؤں سے ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ " پس کلی کی اور ایک ہی چلو سے ناک میں پانی ڈالا ۔" اس طرح تین مرتبہ کیا ۔صحیح البخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " پس سر کا مسح کیا (اس طرح کہ ) اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے اور آگے سے پیچھے کی طرف لے آئے اور یہ ایک مرتبہ کیا پھر دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا " بخاری ہی کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں بس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ صرف ایک چلو سے۔" تشریح اس حدیث کے پہلے جزء سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے ہاتھوں کو دو مرتبہ دھویا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دوسری روایتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ ہاتھ تین مرتبہ دھوتے تھے، اس سلسلہ میں علماء کرام یہ تاویل کرتے ہیں کہ سنت تو تین ہی مرتبہ دھونا ہے مگر چونکہ دو مرتبہ بھی دھو لینا جائز ہے اس لیے حضرت عبدا اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان جواز کے لیے اپنے ہاتھوں کو پہنچوں تک دو مرتبہ دھویا۔ تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ دو مرتبہ دھونا جائز ہے۔ اس سلسلہ میں مرتین کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے، حالانکہ ایک ہی مرتبہ لانا کافی تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ مرتین صرف ایک ہی مرتبہ ذکر کیا جاتا تو اس سے یہ وہم پیدا ہو سکتا تھا کہ دونوں ہاتھ متفرق طور پر دو مرتبہ دھوئے ہوں گے، یعنی ایک مرتبہ ایک ہاتھ دھویا اور ایک مرتبہ ایک دھویا، لہٰذا اس وہم سے بچانے کے لیے مرتین کو دو مرتبہ ذکر کیا تاکہ یہ بات صاف ہو جائے کہ دونوں ہاتھ ملا کر دو مرتبہ دھوئے۔ سر کے مسح کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی تین انگلیاں سر کے آگے کی جانب رکھی جائیں اور دونو ہاتھوں کے انگوٹھوں کو اور شہادت کی انگلیوں کو نیز ہتھیلیوں کو سر سے جدا رکھا جائے اس طرح چھ انگلیوں کو گدی کی طرف لے کر جائیں پھر، دو ہتھیلیاں سر کے پچھلے حصہ پر رکھ کر آگے کی طرف لائی جائیں اور پھر دونوں کانوں کے اوپر کے حصہ پر دونوں انگوٹھوں سے اور کانوں کے دونوں سوراخوں میں شہادت کی انگلیوں سے مسح کیا جائے۔ وفی المقفق علیہ کے بعد جو روایتں نقل کی گئی ہیں وہ صاحب مصابیح کی نقل کردہ نہیں ہیں بلکہ صاحب مشکوٰۃ نے ان کا اضافہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ما قبل کی روایت باوجودیکہ صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں ہے مگر صاحب مصابیح نے انہیں صحاح یعنی فصل اوّل میں نقل کیا ہے اس لیے مصنف مشکوٰۃ ان روایتوں کو جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول ہیں آگے اضافہ کر دیا ہے تاکہ ترتیب صحیح رہے۔ صحیح البخاری کی آخری روایت جس کے الفاظ یہ ہیں۔" پس کلی کی اور ناک جھاڑی تین مرتبہ ایک چلو سے " کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی چلو سے ناک میں تین مرتبہ پانی دے کر اسے جھاڑے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین دفعہ میں ہر مرتبہ ایک ایک چلو سے ناک میں پانی دے کے اسے جھاڑا یعنی تین مرتبہ کے لیے تین چلو بھی استعمال کئے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات جان لینی چاہئے کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، چنانچہ بعض احادیث میں کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا اور بعض روایات میں ایک ہی چلو سے فصل و وصل کے ساتھ منقول ہے یعنی تین چلو سے کلی کرنا اور پھر تین چلو سے ناک میں پانی دینا بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ دونوں ایک ہی چلو سے بھی ثابت ہے، اس طرح اسکی کئی صورتیں ہیں، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک قول صحیح کے مطابق یہ ہے کہ دونوں تین چلو میں کئے جائیں اس طرح کے پہلے ایک چلو پانی لیا جائے اور اس میں تھوڑے پانی سے کلی کرلی جائے اور بقیہ پانی ناک میں ڈالے پھر دوسرا چلو اور تیسرا چلو لے کر اسی طرح کیا جائے۔ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ ہر ایک تین تین چلو سے کئے جائیں یعنی کلی کے لیے تین چلو استعمال کئے جائیں اور پھر ناک میں پانی دینے کے لیے بھی تین ہی چلو الگ سے استعمال کئے جائیں۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اس طریقہ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ قیاس کے مطابق ہے اس لیے کہ منہ اور ناک دونوں علیحدہ علیحدہ عضو ہیں لہٰذا جس طرح دیگر اعضاء وضو کو جمع نہیں کیا جاتا اسی طرح ان دونوں عضو کو بھی جمع نہیں کیا جائے گا اور اصل فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ جو حدیث قیاس کے موافق ہوا سے ترجیح دی جائے۔ جہاں تک شوافع و حنفیہ کے مذہب میں تطبیق کا تعلق ہے اس سلسلہ میں شمنی نے فتاوی ظہریہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کے یہاں وصل بھی جائز ہے یعنی امام شافعی علیہ الرحمۃ کا جو مسلک ہے وہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک بھی صحیح ہے ، اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے یہاں فصل بھی جائز ہے، یعنی جو مسلک امام اعظم کا ہے وہ امام شافعی کے یہاں بھی صحیح اور جائز ہے۔ نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کو ایک ہی چلو کے ساتھ جمع کرنا جائز ہے لیکن میں اسے زیادہ پسند کرتا ہوں کہ ان دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ چلو استعمال کئے جائیں، اس قول سے صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت ہوگئی کہ حنفیہ اور شوافع کے مسلک میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔
-
وعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍص قَالَ تَوَضَّاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّۃً مَرَّۃً لَّمْ ےَزِدْ عَلٰی ھٰذَا۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا (یعنی تمام اعضاء وضو کو صرف ایک ایک مرتبہ دھویا اور اس پر زیادہ نہیں کیا۔" (صحیح البخاری )
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ زَےْدٍص اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلمتَوَضَّأَ مَرَّتَےْنِ مَرَّتَےْنِ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہے اور کنیت ابومحمد ہے آپ انصاری ہیں اور آپ صحابی ہیں۔ ٣٢ھ میں بعمر ٦٤سال آپ کی وفات ہوئی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ، مرتبہ وضو کیا (یعنی اعضاء وضو کو دو دو بار دھویا)۔" (صحیح البخاری )
-
وَعَنْ عُثْمَانَ اَنَّہُ تَوَضَّأَ بِالْمَقَاعِدِ فَقَالَ اَلَا اُرِےْکُمْ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَوَضَّأَ ثَلٰثًا ثَلٰثًا۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مقام مقاعد میں وضو کیا اور کہا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو نہ دکھلاؤں؟چنانچہ انہوں نے تین تین مرتبہ وضو کیا (یعنی انہوں نے اعضاء وضو کو تین تین بار دھو کر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح وضو فرماتے تھے۔" (صحیح مسلم) تشریح ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعضاء وضو کو کبھی ایک ایک مرتبہ دھوتے تھے کبھی دو دو مرتبہ دھوتے تھے اور کبھی تین تین مرتبہ دھوتے تھے ، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اکثر تین تین مرتبہ ہی دھوتے تھے۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوگی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعضاء وضو کو کبھی کبھی ایک ایک مرتبہ دھونا بیان جواز کے لیے تھا یعنی اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک ایک مرتبہ دھونا جائز ہے اور اس طرح وضوء ہو جاتا ہے کیونکہ یہ ادنی درجہ ہے اور فرض بھی ایک ایک مرتبہ ہی دھونا ہے، اسی طرح دو دو مرتبہ بھی بیان جواز کے لیے دھوتے تھے کہ اس طرح بھی وضو ہوجاتا ہے اور اکثر و بیشتر تین تین مرتبہ اس لیے دھوتے ہیں کہ یہ طہارت کا انتہائی درجہ ہے، لہٰذا عضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اس پر زیادتی کرنا منع ہے، بعض احادیث میں بعض اعضاء کو تین تین مرتبہ بعض اعضاء کو دو دو مرتبہ اور بعض اعضاء کو ایک ایک مرتبہ بھی دھونا ثابت ہے چنانچہ یہ سب طریقے بھی بیان جواز کے لیے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھونا گناہ ہے کیونکہ اس طرح سنت مشہورہ ترک ہوتی ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ جب خود احادیث سے ایک ایک مرتبہ دھونا ثابت ہے اسے گناہ کہنا مناسب نہیں ہے۔ آخر حدیث کے یہ الفاظ کہ " تین تین مرتبہ وضو کیا " یعنی اعضاء وضو کو تین بار دھویا۔ اس سے بظاہر تو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سر کا مسح بھی تین مرتبہ کیا ہوگا لیکن جن روایتوں میں اعضاء وضو کے دھونے کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے جیسے کہ صحیحین کی روایتیں گزری ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک ہی مرتبہ ہے۔
-
وَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوص قَالَ رَجَعْنَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ مَّکَّۃَ اِلَی الْمَدِےْنَۃِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِمَآءٍ بِالطَّرِےْقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَالْعَصْرِ فَتَوَضَّؤُا وَھُمْ عُجَّالٌ فَانْتَھَےْنَا اِلَےْھِمْ وَاَعْقَابُھُمْ تَلُوْحُ لَمْ ےَمَسَّھَا الْمَآءُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَےْلٌ لِّلاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ اَسْبِغُوا الْوُضُوْءَ ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (یعنی خشک رہ گئی تھیں کیونکہ) ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ویل(خرابی) ہے ایڑیوں کے لیے آگ سے !وضو کو پورا کرو۔" (صحیح مسلم) تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے واپس لوٹ رہے تھے درمیان سفر عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، راستہ میں ایک جگہ پانی کے قریب یہ قافلہ رک گیا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے، وضو کرنے کے لیے پانی کی طرف لپکے چنانچہ وہ لوگ تیز چل کر اس جماعت سے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تھے آگے نکل گئے اور پانی پر پہلے پہنچ کر وقت کی تنگی کے سبب جلدی جلدی وضو کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ جلدی کی وجہ سے ان کی پیر پوری طرح دھلے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایڑیاں خشک رہ گئی، اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایڑیوں کے لیے ویل (خرابی ہے) آگ سے۔ بعض علماء نے " ویل" کے معنی " شدت عذاب" لکھے ہیں۔ کچھ علماء کی تحقیق ہے کہ " ویل" دوزخ میں پیپ اور لہو کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ بعض محققین لکھتے ہیں کہ " ویل" ایک ایسا کلمہ ہے جسے رنج رسیدہ آدمی بولتا ہے اور اصل میں اس کے معنی " ہلاکت اور عذاب" کے ہیں۔ بہر حال ان تمام معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب اور صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کا محل اصل ہی کو قرار دیا جائے۔ یعنی ایڑیوں کے لیے عظیم ہلاکت اور درد ناک عذاب ہے" خاص طور پر ایڑیوں ہی کے لیے یہ وعید اس لیے ہے کہ وضو میں دھوئی نہیں گئی تھیں جس کی بناء پر وہ خشک رہ گئی تھیں۔ گو! بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ " یہاں ایڑیوں سے مراد ایڑیوں والے ہیں" یعنی یہ وعید ان لوگوں کے لیے جن کی ایڑیاں وضو میں خشک رہ گئی تھیں۔ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ " وضو کو پورا کرو" یعنی وضو کے جو فرائض و سنن اور مستحبات و آداب ہیں ان سب کو پورا کرو اور سب کی ادائیگی کا خیال رکھو چنانچہ دوسری حدیث میں وارد ہے کہ" (اعضاء وضو کا کوئی حصہ) اگر ایک ناخن کے برابر بھی خشک رہ جائے گا تو وہ وضوء درست نہیں ہوگا۔" یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا فرض ہے کیونکہ اگر پاؤں دھونا فرض نہ ہوتا تو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہ فرمائی جاتی، چنانچہ ہر دور کے تمام علماء اور فقہاء کا یہی عقیدہ اور مسلک رہا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہیں ہے، اس مسئلہ میں کسی بھی ایسے عالم کا اختلاف جو لائق اعتبار اور قابل استناد ہو ثابت نہیں ہے، نیز صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی کیفیت و تفصیل بیان کرتے ہیں جیسے حضرت علی، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہم جنہیں حاکی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کو بیان کرنے والا کہا جاتا ہے یہاں اسی طرح حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبدا اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بے شمار احادیث جو مرتبہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بے شمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پیروں کو دھو کر ) وضو کو پورا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے ترک پر و عید فرمائی چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسح چھوڑ دیا اور وہ منسوخ ہوگیا۔ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت عبدالملک بن سلیمان کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے جو جلیل القدر تابعی ہیں، پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایک روایت بھی ایسی ملی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی صحابی، اپنے پیروں پر مسح کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ! نہیں۔" بہر حال اس سلسلہ میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ وضو میں پیر کے بارے میں جو حکم قرآن مجید میں مذکور ہے وہ محمل اور مشتبہ ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی جو حد شہرت و تواتر کو پہنچتی ہے اس کی تشریح اور وضاحت کر دی ہے کہ قرآن پاک میں اس حکم سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کو دھونا چاہئے لہٰذا پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے۔ جہاں تک شیعہ فرقہ کے مسلک و معمول کا تعلق ہے کہ وہ لوگ وضو میں پیر پر مسح کرتے ہیں، اس بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی زیادہ تفصیل و تشریح اور اتنے کھلے ہوئے حکم کے باوجود ان کا پیروں کا نہ دھونا انتہائی غلط اور غیر شری فعل ہے۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنِ الْمُغَیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَص قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّاءَ فَمَسَحَ بِنَاصِیَتِہٖ وَعَلَی الْعَمَامَۃِ وَعَلَی الْخُفَّیْنِ۔(رواہ صحیح مسلم)-
" اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت مغیرہ شعبہ کے لڑکے ہیں آپ کی کنیت ابوعبدا اللہ اور ابوعیسیٰ ہے آپ نے بعمر ستر سال ۵۰ھ ہجری میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی کے بالوں اور پگڑی پر اور موزوں پر مسح کیا۔" (صحیح مسلم) تشریح سر کے مسح کی مقدار میں علماء کرام کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سر کے کچھ حصہ کا مسح کافی ہے خواہ وہ تین بال ہی کیوں نہ ہوں، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چوتھائی سرکار مسح فرض ہے، حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی حدیث ناصیہ (ناصیہ سر کے آگے کی جانب حصہ کو فرماتے ہیں ) اسی بنا پر حنفیہ فرماتے ہیں کہ اس کے علاوہ دو ہی شکلیں ہو سکتی ہیں، اوّل تو یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق مسح پورے سر کا فرض ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ پورے سر کا مسح اگر فرض ہوتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسح ناصیہ پر ہی اکتفا نہ فرماتے، بلکہ ادائے فرض کے لیے پورے ہی سر کا مسح فرماتے ہیں، لہٰذا معلوم ہوا کہ پورے سر کا مسح تو فرض نہیں، دوسری شکل یہ ہے کہ چوتھائی سر سے بھی کم پر مسح فرض ہو جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مذہب ہے، اس سلسلہ میں بھی یہی بات ہے کہ اگر چوتھائی سر سے کم بھی مسح فرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان جواز کے لیے اسے بھی اختیار فرماتے مگر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھائی سر سے کم پر کبھی مسح نہیں کیا ہے، لہٰذ اس سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسح چوتھائی سر کا ہی فرض ہے۔ پگڑی پر مسح کرنے کے معنی شارحین نے یہ لکھے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھائی سرکا مسح جو فرض ہے کر لیا تو تکمیل وضو اور ادائے سنت کے لیے (کہ تمام سر کا مسح کرنا سنت ہے) بجائے اس کے سر کے بقیہ حصہ پر مسح فرماتے ، سر کے اوپر بندھی ہوئی پگڑی پر مسح کر لیا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی طہارت کے بعد پہنی ہو اور پگڑی نے پورے سر کو ڈھانک لیا ہو جیسا کہ موزہ پر مسح کرنے کا مسئلہ ہے۔
-
وعَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےُحِبُّ التَّےَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِیْ شَأْنِہٖ کُلِّہٖ فِیْ طُھُوْرِہٖ وَتَرَجُّلِہٖ وَتَنَعُّلِہٖ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الامکان اپنے تمام کاموں کو سیدھے ہاتھ سے شروع کرنا محبوب رکھتے تھے اور (مثلاً) اپنی طہارت میں، اپنا جوتا پہننے میں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیئے جائیں چنانچہ لفظ ما استطاع (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے۔ " طہارت" دائیں طرف سے شروع کرنے کی یہ شکل تھی کہ وضو میں دایاں ہاتھ اور دایاں پیر پہلے دھوتے تھے اور بایاں ہاتھ و بایاں پیر بعد میں دھوتے تھے، اسی طرح نہانے کے وقت دائیں جانب پہلے دھوتے اور بائیں جانب بعد میں دھوتے تھے۔ بہر حال اس حدیث میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں، جو مثال کے طور ہیں ورنہ تو ہر وہ چیز جو از قبیل بزرگی ہوتی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے، جیسے کپڑے پہننا، ازار زیب تن کرنا، موزہ پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، بیت الخلاء سے باہر آنا ( یعنی بیت الخلاء سے پہلے دایاں پیر باہر نکالتے تھے، سرمہ لگانا ، ناخن کتروانا، بغل کے بال صاف کرنا، لب کے بال کتروانا، سرمنڈوانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مصافحہ کرنا، کھانا پینا اور کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جو چیز از قبیل بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً بیت الخلاء (یعنی بیت الخلاء میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا ، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتداء بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے مثلا ًجب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ کہ انسان کے ہمراہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بناء پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہمسایہ بائیں طرف کے ہمسایہ پر مقدم ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا لَبِسْتُمْ وَاِذَا تَوَ ضَأْتُمْ فَابْدَاوُابِاَیَا مِنِکُمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم لباس وغیرہ) پہنو یا وضو کرو تو اپنے دائیں طرف سے شروع کرو۔" (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد)
-
وَعَنْ سَعَیْدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا وُضُوْءَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِسْمَ اﷲِ عَلَیْہِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَؤدَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَادَّارِمِیُّ عَنْ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ عَنْ اَبِیْہِ وَزَادَ فِیْ اَوَّلِہٖ لَا صَلَاۃَ لِمَ لَّاوُضُوْءَ لَہُ)-
" اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی سعید بن زید اور کنیت ابوالاعور ہے آپ قریشی عدوی ہیں اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کا انتقال ٥٠ ھ یا ٥١ ھ میں بعمر ۷۰ سال بمقام عتیق ہوا۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جس آدمی نے (وضو کے وقت ) اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا اس کا وضو نہیں ہوا۔ " (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) اور مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور دارمی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے، نیز ان لوگوں نے اپنی روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد ذکر کئے کہ " اس آدمی کی نماز نہیں ہوتی جس نے وضو نہیں کیا " ) تشریح اس حدیث سے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت و اہمیت کا اظہار ہو رہا ہے، حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے ابتداء وضو میں اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا یعنی بسم اللہ نہیں کہی تو اس کا وضو درجہ تکمیل کو نہ پہنچا جس کی بنا پر اسے ثواب نہیں ملا۔ ویسے اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعلایٰ علیہ کے نزدیک ابتداء وضو میں بسم اللہ کہنا واجب ہے، مگر جمہور علماء کے کرام کے نزدیک سنت یا مستحب ہے۔ ابتداء وضو میں علماء سلف سے یہ الفاظ منقول ہیں سُبْحَانَ ا الْعَظِیْم وَبِحَمْدِہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اَعُوْذُ بِا پڑھنے کے بعد بِسْمِ ا الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا افضل ہے اور مشہور یہ الفاظ ہیں۔ بِسْمِ ا وَالحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی دِیْنِ الْاِسْلَامِ۔ روایت کے آخر میں ایک لفظی غلطی ہے، جو ہو سکتا ہے کہ کاتب وغیرہ سے سہو ہو یعنی آخر میں یہ الفاظ ذکر کئے گئے ہیں والدارمی عن ابی سعید الخدری عن ابیہ غلط ہے بلکہ صحیح ابی سعید الخدری عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی درامی نے اس حدیث کو حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ابی سعید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
-
وَعَنْ لَقِیْطِ بْنِ صَبِرَۃَ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَخْبِرْنِی عَنِ الْوُضُوءِ قَالَ اَسْبِغِ الْوُضُوءَ وَخَلِّلْ بَیْنَ الْاَصَابِعِ وَ بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمَذِیُّ وَالنِّسَائِیُ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ وَالدَّارِمِیُّ اِلَی قَوْلِہٖ بَیْنَ الْاَصَابِعِ)۔-
" اور حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ ! مجھے وضو کے بارے میں آگاہ فرمائیے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم وضو کو پورا کرو، انگلیوں میں خلال کرو، اور اگر تمہارا روزہ نہ ہو تو ناک میں اچھی طرح پانی پہنچاؤ۔ " (سنن ابوداؤد، دارمی، سنن نسائی سنن ابن ماجہ اور دارمی نے اس حدیث کو بین الا صابع تک روایت کیا ہے) تشریح سوال کا مقصد یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کمال وضو کا طریقہ بتا دیجئے تاکہ اسے اختیار کر کے ثواب کا مستحق ہو سکوں اس کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ وضو کو پورا کرو، یعنی وضو کے جو فرائض اور سنن و مستجات ہیں انہیں پورا کرو۔ وضو میں انگلیوں کے درمیان خلال کرنا حضرت امام اعظم اور امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے مگر یہ حکم اس شکل میں ہے جبکہ انگلیاں خلقی اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا اور کشادہ ہوں لیکن آپس میں اگر اس طرح ملی ہوں کہ آسانی اور بے تکلفی سے پانی انکے درمیان نہ پہنچا ہو تو پھر انگلیوں کے درمیان خلال کرنا واجب ہوگا۔ حنفیہ کے یہاں انگلیوں کے درمیان خلال کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر دائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کیا جائے۔ یہی طریقہ اولیٰ ہے۔ پاؤں کی انگلیوں کا خلال بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے کرنا چاہئے اس طرح کہ اسے دائیں پاؤں کی چھنگلیا کے نیچے داخل کر کے خلال کرنا شروع کیا جائے، یہاں تک کہ بائیں پاؤں کی چھنگلیا پر ختم کیا جائے۔ ناک میں پانی دینے کی حدیہ ہے کہ پانی ناک کے نرم حصہ تک پہنچایا جائے اور اس میں مبالغہ جو حدیث کا منشا ہے یہ ہے کہ پانی اس سے بھی آگے گزر جائے، مگر جیسا کہ خود حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ یہ مبالغہ یعنی ناک کے نرم حصہ سے بھی آگے پانی پہنچانا اس وقت ہے جب کہ وضو کرنے والا روزہ دار نہ ہو، اگر وضو کرنے والا روزہ دار ہو تو پھر اس کے لیے یہ مبالغہ مکروہ ہے۔ اس موقع پر یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض مگر امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک غسل اور وضو میں یہ دونوں چیزیں سنت ہیں ۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ اَصَابعَ یَدَیْکَ وَرِجْلَیْکَ۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَروَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہُ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا " جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں اور اپنے پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو۔" (جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔) تشریح ہاتھ کی انگلیوں کے درمیاں خلال تو ہاتھوں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال پاؤں کو دھونے کے بعد کرنا چاہئے، یہی طریقہ افضل اور اولیٰ ہے۔
-
وَعَنِ الْمَسْتَوْرِ دِبْنِ شَدَادٍ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَوَضَّأَ یَدْلُکُ اَصَابِعَ رِجْلَیْہِ بِخِنْصَرِہٖ۔ (رواہ الترمذوابوداؤد وابن ماجۃ)-
" اور حضرت مستور بن شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے تو اپنے پاؤں کی انگلیوں کو (بائیں ہاتھ کی) چھنگلیا، سے ملتے (یعنی پاؤں کی انگلیوں کے درمیان بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے خلال فرماتے ۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، ابن ماجۃ) تشریح لفظ یدلک کا مطلب یہ ہے کہ" آپ (بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان) خلال کرتے تھے ۔" چنانچہ اس کی تصدیق اس روایت سے ہوتی ہے جسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے روایت کیا ہے جس میں لفظ (یعنی خلال کرتے تھے) صراحت کے ساتھ آیا ہے اس شکل میں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرنا مستحب ہے یا یدلک کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے دائیں ہاتھ کی چھنگلیا پاؤں کی انگلیوں پر ) پھیرتے تھے، اس صورت میں یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ تمام اعضاء کا ملنا مستحب ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَوَضَّأَ اَخَذَ کَفًا مِنْ مَّآءِ فَاَدْخَلَہ، تَحْتَ حَنَکِہٖ فَخَلَّلَ بِہٖ لِحْیَتَہ، وَقَالَ ھٰکَذَا اَمَرَنِی رَبِّیْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایک چلو پانی لیتے، پھر اسے اپنی ٹھوڈی کے نیچے پہنچاتے اور اس سے اپنی داڑھی میں خلال کرتے اور پھر فرماتے کے میرے پروردگار نے (وحی خفی کے ذریعہ) اسی طرح سے حکم فرمایا۔) (ابوداؤد) تشریح وضو میں داڑھی کا اس طرح خلال کرنا مستحب ہے، یہ خلال منہ دھونے کے بعد کرنا چاہئے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں داڑھی کے نیچے سے داخل کر کے اوپر کی طرف کا باہر نکالی جائیں۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ اَلنَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَخَلِّلُ لِحْیَتَہُ۔ (رواہ الجامع ترمذی ، الدارمی)-
" حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (وضو کرتے وقت) اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔" (جامع ترمذی ، دارمی)
-
وَعَنْ اَبِیْ حَیَّۃَ قَالَ رَأَیْتُ عَلِیًا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ کَفَیْہِ حَتَّی اَنْقَا ھُمَا ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلَاثًا وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا وَغَسَا وَجْھَہُ ثَلَاثًا وَذِرَاعَیْہِ ثَلاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِہٖ مَرَّۃً ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَیْہِ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ فَضْلَ طَھُوْرِہٖ فَشَرِبَہُ وَھُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ اَحْبَبْتُ اَنْ اُرِیَکُمْ کَیْفَ کَانَ طُھُوْرُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم(رواہ الجامع ترمذی والسنن نسائی )-
" حضرت ابوحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمرو بن نصر انماری الہمدانی اور کنیت ابوعیسیٰ سے مشہور ہیں تابعی ہیں۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں پاک کیا، پھر تین مرتبہ ناک میں پانی دیا، تین مرتبہ اپنا منہ دھویا، تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے، ایک مرتبہ اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو کے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا اور پھر فرمایا کہ میں نے یہ پسند کیا کہ تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کس طرح تھا۔" (جامع ترمذی ، سنن نسائی) تشریح وضو کے بچے ہوئے پانی میں چونکہ برکت آجاتی ہے اس لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وضو کے بقیہ پانی کو پی لیا، چنانچہ حصول برکت کے لیے وضو کے بقیہ پانی کو پی لینا چاہئے، یہ پانی کھڑے ہو کر پینا بھی جائز ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِ خَیْرٍ قَالَ نَحْنُ جُلُوْسٌ نَنْظُرُ اِلَی عَلِیٍّ حِیْنَ تَوَضَّأَ فَاَدْخَلَ یَدَہ، الْیُمْنٰی فَمَلَا فَمَہ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَنَثَر بِیَدِہٖ الْیُسْرَی فُعَلَ ھٰذَا اثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ سَرَّہُ اَنْ یَنْظُرَ اِلَی طُّھُوْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَھَذَا طُھُوْرُہُ۔ (رواہ دارمی)-
اور حضرت عبدخیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (اسم گرامی عبد خیر یزید اور کنیت ابوعمارہ ہمدانی ہے، آپ تابعی ہیں کوفہ میں سکونت پزیر تھے۔) فرماتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے چنانچہ انہوں نے برتن میں داہنے ہاتھ سے پانی لیا اور منہ بھر کر کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور بائیں ہاتھ سے ناک سینکی اسی طرح تین مرتبہ کیا پھر فرمایا جس کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کو دیکھے تو وہ دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو یہ ہے (یعنی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وضو فرماتے تھے ۔ دارمی) تشریح یہاں راوی کا مقصد یہ تھا کہ کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کی کیفیت بیان کرے اس لیے انہوں نے صرف اسی قدر بیان کیا، باقی وضو چونکہ معلوم تھا اس لیے اسے بیان نہیں کیا۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ کَفٍ وَّاحِدٍ فَعَلَ ذٰلِکَ ثَلَاثَا۔(رواہ ابوداؤد، الجامع ترمذی)-
" اور حضرت عبدا اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔" (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح حدیث کے آخر جملہ میں دو احتمال ہیں یعنی اس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا اور اس طرح تین مرتبہ کیا یا یہ کہ تین چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور پھر تین چلو سے تین مرتبہ ناک میں پانی دیا۔ دوسرے معنی زیادہ مناسب اور اکثر روایات کے مطابق ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا احتمال اور بھی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی بھی دیا، دوسرا چلو نہیں لیا۔ یہی تمام احتمالات اس سے پہلے گزرنے والی حدیث میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم مَسَحَ بِرَأْسِہِ وَاُذُنَیْہٖ بَاطِنَھُمَا بِالسَّبَابَتَیْنِ وَظَاھِرَ ھُمَا بِاِبْھَا مَیْہٖ۔ (رواہ السنن نسائی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا اور کانوں کے اندر کا مسح اپنی شہادت کی انگلیوں سے اور اوپر کا انگوٹھوں سے کیا۔" (سنن نسائی )
-
وَعَنِ الرُّبَیْعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ اَنَّھَارَاتٍ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ قَالَتْ فَمَسَحَ رَأْسَہُ مَا اَقْبَلَ مِنْہُ وَمَا اَدْبَرَ وَصُدْغَیْہِ وَاُذْنَیْہِ مَرَّۃً وَاحِدَۃً وَفِی رِوَایَۃٍ اَنَّہُ تَوَضَّأَ فَاَدْخَلَ اِصْبَعَیْہِ فِی جُحْرَیْ اُذُنَیْہِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَیَ التِّرَمَذِیُّ الرِّوَایَۃُ الْاُوْلَی وَاَحْمَدُ وَ ابْنَ مَاجَۃَ الثَّانِیَۃَ)-
" اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( اسم گرامی ربیع ہے معوذ کی لڑکی ہیں، آپ جلیل القدر صحابیہ ہیں اور انصاریہ ہیں آپ بیعت رضوان میں شامل تھیں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا چنانچہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر، پچھلے حصہ پر، کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ مسح کیا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا چنانچہ (مسح کے لیے) اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کیا۔" (ابوداؤد) جامع ترمذی نے پہلی حدیث کو اور سنن ابن ماجہ نے دوسری حدیث کو روایت کیا ہے۔) تشریح لفظ صدغیہ اور اذنیہ لفظ راسہ پر عطف ہیں اسے عطف خاص علی العام فرماتے ہیں یعنی سر کے پانی کے ساتھ مسح کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پر پانی لے کر سر کا مسح کیا تو اسی پانی سے کنپٹیوں اور کانوں پر بھی مسح کر لیا اور ان دونوں کے مسح کے لیے علیحدہ سے پانی نہیں لیا، چنانچہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔ صدغ کان اور آنکھ کے درمیانی حصہ کو فرماتے ہیں اردو میں کنپٹی کہا جاتا ہے، نیز جو بال اس جگہ پر لٹکے رہتے ہیں اسے بھی صدغ فرماتے ہیں۔ ( قاموس) اور (امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ صدغ ان بالوں کو فرماتے ہیں جو سر کے دونوں طرف کان اور ناصیہ (پیشانی کے بال) کے درمیان ہوتے ہیں، یہی معنی حنفی مسلک کے مطابق اور مناسب ہیں۔ شرح السنتہ میں منقول ہے کہ علماء کے یہاں مسئلہ میں اختلاف ہے کہ تین مرتبہ مسح کرنا سنت ہے یا نہیں ؟ چنانچہ اکثر علماء یہ فرماتے ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے، یہی مسلک حضرت امام اعظم، امام احمد، امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ تین مرتبہ مسح اس طرح کرنا کہ ہر مرتبہ نیا پانی لیا جائے سنت ہے، چنانچہ اکثر علماء کا یہی خیال ہے مگر خود امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تین مرتبہ مسح کرنے کو مستحب فرماتے ہیں، امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حضرت عثمان غنی سے جو احادیث مروی ہیں وہ سب صحیح ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسح ایک ہی مرتبہ کرنا چاہئے۔ شمنی فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ نئے پانی کے ساتھ تین مرتبہ کرنا بدعت ہے مگر ہدایہ میں لکھا ہے کہ ایک ہی پانی سے تین مرتبہ مسح کرنا مشروع ہے اور یہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی منقول ہے ۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ زَیْدٍ اَنَّہ، رَایءَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأَ وَاَنَّہ، مَسَحَ رَأْسَہ، بِمَاءٍ غَیْرَ فَضْلِ یَدَیْہِ۔ (رواہ صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرکا مسح اس پانی سے کیا جو ہاتھوں کا بچا ہوا نہ تھا (یعنی نیا پانی لے کر مسح کیا۔) (جامع ترمذی ، اور مسلم نے اس روایت کو زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ جس میں دیگر اعضاء وضو کے دھونے کا بھی ذکر ہے)۔ تشریح فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مثلاً ایک آدمی نے وضو کے وقت ہاتھ دھویا اور ہاتھ دھونے کے بعد جو تری اس کے ہاتھوں میں باقی رہ گئی تھی تو اس سے سر کا مسح کر لیا تو مسح ہو جائے، اور اگر کسی عضو پر مسح کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں میں تری رہ گئی تو اس سے سر کا مسح کیا تو یہ درست نہیں ہوگا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث بھی نقل کی جاتی ہے، نیز اس مذکورہ حدیث کو بھی ابن لہیعہ کی روایت سے نقل کیا گیا ہے جس میں بماء غبر فضل یدیہ یعنی لفظ غبرنا کے ساتھ غبر ہے جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اس پانی کے ساتھ مسح کیا جو ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھ میں باقی رہ گیا تھا، یعنی مسح کے لیے از سر نو پانی نہیں لیا بلکہ پورے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری ہاتھوں میں رہ گئی تھی اس سے مسح کر لیا۔ اس طرح حدیث کے معنی بالکل برعکس ہوگئے کیونکہ اس حدیث کے الفاظ سے جو یہاں نقل کی گئی ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے نہیں کیا بلکہ نیا پانی لے کر کیا لیکن مذکورہ بالا شکل میں صرف ایک نقطہ کے تغیر سے معنی بالکل برعکس ہوگئے۔ مگر جہاں تک سوال کی تحقیق کا ہے تو بات یہی ہے کہ حدیث یہ صحیح ہے جو یہاں نقل کی گئی ہے، لہٰذا۔ اولیٰ یہ ہوا اگر مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے اور یہ بھی جائز ہو کہ ہاتھ کے باقی بچے ہوئے پانی سے مسح کیا جا سکتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ ذَکَرَ وُضُوْءَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَکَانَ یَمْسَحُ الْمَاقَیْنِ وَقَالَ الْاُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَاَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَذَکَرَا قَالَ حَمَّادٌ لَا اَدْرِیْ اَلْاُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ مِنْ قَوْلِ اَبِیْ اُمَامَۃَ اَمْ مِّنْ قَوْلِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم۔-
" اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا ذکر کر تے ہوئے کہا کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھ کے کونوں کو بھی ملا کرتے تھے اور کہا کہ دونوں کان بھی سر میں داخل ہیں" (ابی داؤد، جامع ترمذی ) اور امام ابوداؤد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ حماد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا " میں یہ نہیں جانتا کہ الاذنان من الراس (یعنی دونوں کان سر میں داخل ہیں) ابوامامہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا اپنا قول ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے" ۔ تشریح " ماق" ناک کی طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں (قاموس) اور جوہری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ " ماق" دونوں طرف کے گوشہ چشم کو فرماتے ہیں، لہٰذا اولیٰ یہی ہے کہ دونوں طرف کے گوشہ چشم (کونوں) کو منہ دھوتے وقت ملنا مستحب ہے تاکہ آنکھ کے اندر کا میل کچیل جو گوشۂ چشم میں جمع ہو جاتا ہے ملنے سے نکل جائے اور آنکھیں صاف ہو جائیں۔ روایت کے اس جز الا ذنان من الراس (دونوں کان سر میں داخل ہیں) سے دو حکم ثابت ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ کانوں کا مسح بھی سر کے مسح کے ساتھ کرنا چاہئے، دوسرے یہ کہ سر کے مسح کے لیے جو پانی لیا ہے اس پانی سے کانوں کا مسح بھی کر لیا جائے کانوں کے مسح کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ پہلے حکم پر تو چاروں ائمہ متفق ہیں، دوسرے حکم میں کچھ اختلاف ہے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے ہی کر لینا چاہئے، اس کے لیے الگ سے پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے، اس مسلک کی تائید بھی کثیر احادیث سے ہوتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ کانوں کا مسح نئے پانی سے کرنا چاہئے یعنی سر کے مسح کے بچے ہوئے پانی سے کانوں کا مسح کرنا کافی نہ ہوگا، چنانچہ ایک حدیث میں بھی اس سلسلہ میں منقول ہے جو امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کرتی ہے۔ بہرحال یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر سر اور کانوں کا مسح ایک ہی پانی سے کرتے ہوں گے، مگر ایسی شکل میں جب کہ ہاتھ میں تری باقی نہ رہتی ہوگی کبھی کبھی کانوں کے مسح کے لیے لیتے ہوں گے۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ عَمْرِوابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَآءَ اَعْرَابِیٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلّٰی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہ، عَنِ الْوُضُوْءِ فَاَرَاہُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ ھَکَذَا الْوُضُوْءُ فَمَنْ زَادَ عَلَی ھَذَا فَقَدْ اَسَاءَ وَ تَعَدَّی وَظَلَمَ۔ (رواہ السنن نسائی وابن ماجۃ وروی ابوداؤد و معناہ)-
" اور حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ " ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کی کیفیت پوچھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔" (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے۔) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتا دیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہوگی بلکہ نقصان دہ ہو گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔ (١) برا کیا۔ اس لیے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔ (٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔ (٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ المُغَفَّلِ اَنَّہ، سَمِعَ ابْنَہُ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ الْقَصْرَ الْاَبْیَضَ عَنْ یَمِیْنِ الْجَنَّۃِ قَالَ اَیْ بُنَیَّ سَلِ اﷲَ الْجَنَّۃَ وَتَعَوَّذْ بِہٖ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّہُ سَیَکُوْنُ فِی ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطُّھُوْرِ وَالدُّعَآئِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل وابوداؤد ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ۔ " اے اللہ میں تجھ سے جنت کی دائیں طرف سفید محل مانگتا ہوں" تو انہوں نے کہا " اے میرے بیٹے! تم اللہ سے جنت مانگو اور (دوزخ کی ) آگ سے پناہ چاہو۔" میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " عنقریب اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو طہارت اور دعا میں غلو کریں گے۔" (مسند احمد بن حنبل ، ابن ماجۃ، سنن ابوداؤد) تشریح صاحبزادہ کو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنبیہ کا مقصد یہ تھے کہ تم جس طرح اور جن قیود کے ساتھ دعا مانگ رہے ہو یہ غلط اور شان عبودیت کے خلاف ہے کیونکہ اس میں ایک طرف اگر تحکم کا پہلو ہے تو دوسری طرف بہشت میں ایک مخصوص صفت کی طلب یا کسی مخصوص جگہ کا تعین ایک لا یعنی اور نامناسب چیز ہے۔ ہاں۔ دعا کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ سے صرف بہشت مانگو اور دوزخ کی آگ سے پناہ چاہو۔ اب آگے اللہ کا کام ہوگا کہ وہ جنت میں اپنے فضل و کرم سے تمہیں مراتب و درجات کی جس بلندی پر چاہے گا پہنچائے گا۔ حد سے تجاوز اور غیر مطلوب زیادتی ہر چیز میں ناپسندیدہ اور غیر مناسب ہو، خواہ وہ چیز شریعت کا مطلوب ہی کیوں نہ ہو، چنانچہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، اور لسان نبوت سے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ سے الگ ہو کر اور حدود شریعت سے تجاوز کر کے طہارت اور دعاء میں زیادتی کریں گے۔ " طہارت میں زیادتی" یہ ہے کہ دعا اس انداز اور اس طریقہ سے مانگی جائے جس سے بے ادبی کا اظہار ہوتا ہو اور وہ شان عبودیت کے خلاف ہو، یا دعا میں غیر ضروری و نا مناسب قیود لگائی جائیں یا ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے جو انسانی اعتبار سے احاطہ امکان سے خارج یا عادۃ محال ہوں۔"
-
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ لِلْوُضُوْءِ شَیْطَانًا یُقَالَ لَہ، اَلْوَلَھَانُ فَاتَّقُوْا وَسْوَاسَ الْمَآءِ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَلَیْسَ اِسْنَادُہ، بِالْقَوِیِّ عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ لِاَنَّا لَا نَعْلَمُ اَحَدًا اَسْنَدَہ، غَیْرَ خَارِجَۃَ وَھُوَلَیْسَ بِالْقَوِیِّ عِنْدَاَصْحَابِنَا۔-
" اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وضو کا ایک شیطان ہے جسے " ولہان" کہا جاتا ہے لہٰذا پانی کے وسوسہ سے بچو" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی سند قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ خارجہ (ایک عالم) کے علاوہ کسی نے اس کی سند بیان کی ہو اور وہ (خارجہ) ہمارے محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔" تشریح " ولھان" کے معنی ہیں عقل کا جاتے رہنا اور متحیر ہونا۔ یہ نام اس شیطان کا اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر کے انہیں متحیّر اور بے عقل کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا اس چکر میں پھنس کر وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ جب وضو کرتا ہے تو یہ وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ نامعلوم فلاں عضو پر ٹھیک سے پانی پہنچا ہے یا نہیں ؟ فلاں عضو کو ایک مرتبہ دھویا ہے یا دو مرتبہ؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " پانی کے وسوسہ سے بچو " یعنی وضو کے وقت پانی استعمال کرنے میں جب اس قسم کے وسوسے اور وہم پیدا ہوں تو انہیں قائم نہ رہنے دو بلکہ انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکو تاکہ حدود سنت سے تجاوز نہ کر سکو، کیونکہ اس شیطان کا مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ وضو کرنے والا ان وسوسوں اور اوہام میں مبتلاء ہو کر اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے بھی زیادہ دھو ڈالے یا ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے جس کی بنا پر وہ مسنون طریقہ سے ہٹ جائے۔
-
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَاَئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا تَوَجَّاَ مَسَحَ وَجْھَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہٖ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔" (جامع ترمذی ) تشریح جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لیے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کر لینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔ حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لیے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے ) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لیے اور نہ غسل کرنے والے کے لیے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔ اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لیے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس فرما دیا ہو۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخِرْقَۃٌ یُنَشِّفُ بِھَا اَعْضَاءَ ہُ بَعْدَ الْوُضُوْءِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَیْسَ بِالْقَائِمِ وَاَبُوْ مُعَاذِالرَّاوِیُّ ضَعِیْفٌ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے " (جامع ترمذی ) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابومعاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں" تشریح نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔ اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔ اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔
-
وَعَنْ ثَابِتِ ابْنِ اَبِی صَفِیَّۃَ قَالَ قُلْتُ لِاَبِیْ جَعْفَرٍ ھُوَ مُحَمَّدُ الْبَاقِرُ حَدَّثَکَ جَابِرٌ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَ ضَّاَ مَرَّۃً وَمَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ وَثَلَاثًا ثَلَاثًا قَالَ نَعَمْ۔(ارواہ الجامع ترمذی و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ثابت بن ابی صفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( حضرت ثابت بن ابی صفیہ تابعی ہیں ، آپ کی کنیت ابوحمزہ تھی۔ ١٤٨ھ میں انتقال ہوا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد سے جن کا نام محمد باقر حضرت امام محمد باقر حضرت امام زین العابدین رحمہم اللہ تعالٰی علیہ کے صاحبزادے ہیں ٥٦ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی، آپ کا انتقال ١١٧ھ یا ١١٨ھ بمقام مدینہ منورہ ہوا اور جنت البقیع میں دفن ہیں۔ ) ہے کہا کہ آپ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ" سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کبھی) ایک ایک مرتبہ (کبھی) دو دو مرتبہ اور (کبھی) تین تین مرتبہ وضو کیا : انہوں نے فرمایا ہاں۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح محدثین کی عادت ہے کہ جب شاگرد اپنے شیخ (استاد) سے کوئی حدیث سنتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ حدثک فلان عن فلان (اس طرح شاگرد اپنی سند کے سلسلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے اور استاد خاموشی سے اس سلسلہ سند کو سنتا رہتا ہے) یعنی کیا آپ سے یہ حدیث فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے (یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فلاں نے ) سنی ہے اس کے جواب میں شٰخ کہتا ہے کہ نعم! (یعنی ہاں) گویا روایت حدیث کا یہ ایک طریقہ ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ استاد اپنے شاگرد کے سامنے جب کہتا ہے کہ حد ثنی فلاں الخ (یعنی مجھ سے یہ حدیث بیان کی فلاں نے اور فلاں سے فلاں نے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فلاں نے سنی ہے) تو شاگرد بیٹھا سنتا رہتا ہے۔ بہر حال۔ اسی طرح سے حضرت عثمان بن ابی صفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے استاد حضرت امام محمد باقر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ حدثک جابر الخ یعنی کیا یہ حدیث آپ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے۔ اس کے جواب میں محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرار کیا کہ ہاں مجھ سے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ اِنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ وَقَالَ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ۔-
" اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو، دو مرتبہ وضو فرمایا (یعنی اعضاء وضو کو دو ، دوبار دھویا) اور پھر فرمایا کہ " یہ نور کے اوپر نور ہے ۔" تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ اعضاء وضو کو دھویا تو اس سے فرض اداء ہوا اور ایک نور ہوا، پھر اس کے بعد جب دوسری مرتبہ دھویا تو سنت اداء ہوئی اور چونکہ یہ بھی نور ہے اس لیے نور کے اوپر نور ہوا۔
-
وَعَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَقَالَ ھٰذَا وُضُوْئِی وَوُضُوْءُ الْاَنْبِیَاءِ قَبْلِی وَوُضُوْءُ اِبْرَاھِیْمَ رَوَاھُمَا رَزِیْنٌ وَالنَّوَوِیُّ ضَعَّفَ الثَّانِیَ فِی شَرْحِ مُسْلِمٍ۔-
" اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین تین مرتبہ وضو کیا اور پھر فرمایا کہ " یہ میرا اور مجھ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کا وضو ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وضو ہے" (یہ دونوں حدیثیں رزین نے روایت کی ہیں اور امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح مسلم میں دوسری حدیث کو ضعیف کہا۔" تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو ذکر کیا ہے اسے تخصیص بعد تعمیم فرماتے ہیں یعنی انبیاء علیہم السلام کا عمومی طور پر ذکر کرنے کے بعد پھر بطور خاص حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسم گرامی کا ذکر کیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام طہارت اور نظافت کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَوضَّأَ لِکُلِّ صِلَاۃٍ وَکَانَ اَحَدُنَا یَکْفِیْہِ الْوُضُوْءُ مَالَمْ یُحْدِثْ۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہر (فرض) نماز کے لیے وضو فرمایا کرتے تھے اور ہم کو ایک وضو اس وقت تک کافی ہوتا تھا جب تک کہ وضو نہ ٹوٹتا تھا۔" ( دارمی) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا پہلے واجب تھا مگر بعد میں وجوب کا یہ حکم منسوخ ہوگیا، جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، کچھ علماء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ اور عزیمت سمجھ کر ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے تھے۔
-
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی بْنِ حَبَّانَ قَالَ قُلْتُ لِعُبَیْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رَاَیْتُ وُضُوْءَ عَبْدِاﷲِ ابْنِ عُمَرَ لِکُلِّ صَلَاۃٍ طَاھِرًا کَانَ اَوْغَیْرَ طَاھِرٍ عَمَّنْ اَخَذَہُ فَقَالَ حَدَّثْہُ اَسْمَآءُ بِنْتُ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ حَنْظَلَۃَ بْنِ اَبِی عَامِرِ الْغُسَیْلِ حَدَّثَھَا اَنَّ رَسُّولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمکَانَ اُمِرَ بِالْوُضُوْءِ لِکُلِّ صَلَاۃٍ طَاھِرًا کَانَ اَوْغَیْرَ طَاھِرِ فَلَمَّا شَقَّ ذٰلِکَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اُمِرَ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ وَوُضِعَ عَنْہُ الْوُضُوْءُ اِلَّا مِنْ حَدَثٍ قَالَ فَکَانَ عَبْدُاﷲِ یَرَی اَنَّ بِہٖ قُوَّۃً عَلَی ذٰلِکَ فَفَعَلَہ، حَتّٰی مَاتَ۔(راوہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت محمد بن یحییٰ بن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ مجھے یہ بتائیے کہ کیا حضرت عبداللہ ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے خواہ وہ باوضو ہوں یا بے وضو اور انہوں نے یہ عمل کس سے حاصل کیا تھا؟ حضرت عبیداللہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اسماء بنت زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ ابی عامر الغسیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کا وضو کرنے کے لیے حکم دیا گیا تھا خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوضو ہوں یا بے وضو جب آپ کے لیے یہ مشکل ہوا تو ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیا گیا اور وضو کو موقوف کیا گیا (یعنی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا واجب نہ رہا، جب تک وضو ٹوٹ نہ جائے" حضرت عبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ خیال تھا کہ مجھ میں ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کی قوت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی پر موت کے وقت تک عمل کیا۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح لفظ غسیل کے معنی ہیں " نہلایا گیا " یہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صفت ہے، حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسیل اس لیے کہا جاتا ہے کہ انتقال کے بعد انہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ چنانچہ حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا کہ ان کا کیا حال تھا؟ (یعنی جب وہ گھر سے نکلے تو کیا کام کر رہے تھے) انہوں نے جواب دیا کہ وہ حالت ناپاکی میں تھے اور (نہانے کے وقت) اپنے سر کا ایک ہی حصہ دھوپائے تھے کہ اتنے میں انہوں نے صدا سنی (کہ جہاد کے لیے بلایا جا رہا ہے، چنانچہ وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور (غزوہ احد میں) جام شہادت نوش فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میں نے دیکھا کہ فرشتے انہیں نہلا رہے تھے۔" (طیبی) بہر حال طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسواک بہت زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھتی ہے کہ جب ہی تو اسے واجب وضو کا قائم مقام قرار دیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو اس لئے کرتے تھے کہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ اگرچہ اس کا وجوب منسوخ ہوگیا ہے مگر اس آدمی کے لیے جو اس پر عمل کی طاقت وقوت رکھتا ہے اس کی فضیلت باقی ہے اس لیے انہوں نے جب یہ دیکھا کہ میرے اندر اتنی قوت و ہمت ہے کہ میں اس عمل کو بخوبی پورا کر سکتا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس فضیلت و سعادت سے محروم رہوں۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے اور جب تک موت کی آغوش نے انہیں اپنے اندر چھپانہ لیا وہ اس معمول پر قائم و دائم رہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَھُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَاھٰذَا السَّرَفُ یَا سَعْدُ قَالَ اَفِی الْوُضُوْءِ سَرَفٌ قَالَ نَعَمْ وَ اِنْ کُنْتَ عَلَی نَھْرٍ جَارٍ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا " اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ " حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔" (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ) تشریح یہ حدیث اس بات پر تنبیہ کر رہی ہے کہ وضو و غسل میں پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اسراف ہے اور اسراف شریعت کی نگاہ میں کوئی محبوب چیز نہیں ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وضو میں پانی زیادہ خرچ کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ فرمائی اس پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بڑا تعجب ہوا کہ پانی کوئی نایاب اور کم یاب چیز تو ہے نہیں پھر اس میں اسراف کے کیا معنی؟ اسی بنا پر انہوں نے سوال بھی کیا کہ کیا وضوء میں بھی اسراف ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسراف تو اسے بہی کہیں گے کہ تم نہر جاری پر بیٹھ کر وضوء کرو اور پانی زیادہ خرچ کرو جب کہ نہر یا دریا وغیرہ سے کتنا بھی پانی خرچ کر دیا جائے اس میں کوئی کمی واقعی نہیں ہو سکتی۔ اس جملہ کی تشریح علماء کرام یہ کرتے ہیں کہ نہر جاری پر اسراف اس لیے ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی حدود شریعت سے تجاوز کر کے ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرتا ہے تو اس میں عمر اور وقت یوں ہی ضائع ہو تا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسراف ہے۔ علامہ طیبی نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اس سے اس بات میں مبالغہ منظور ہے کہ جس چیز میں اسراف متصور نہیں ہے جب اس میں بھی اسراف ہو سکتا ہے تو پھر ان چیزوں کا کیا حال ہوگا جس میں اسراف واقعۃً ہوتا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ وضو اور غسل وغیرہ میں ضرورت شرعی سے زیادہ پانی خرچ کرنا اسراف میں شامل ہے اور یہ چیز مناسب نہیں ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَابْنِ مَسْعُوْدٍ وَ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ وَذَکَرَ اسْمَ اﷲِ فَاِنَّہُ یُطَھِّرُ جَسَدَہ، کُلَّہُ وَمَنْ تَوَضَأَ وَلَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اﷲِ لَمْ یُطَھِّرْاِلَّا مَوْضِعَ الْوُضُوْئِ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس آدمی نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا (یعنی پوری بسم اللہ پڑھ کر وضو شروع کیا ) تو اس نے اپنا تمام بدن (گناہوں سے) پاک کیا اور جس نے وضو کیا اور اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا تو اس نے صرف اعضاء وضو کو پاک کیا۔" تشریح اس حدیث میں وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ جو آدمی بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کرتا ہے اس کا تمام بدن گناہ صغیرہ کی غلاظتوں سے پاک ہو جاتا ہے اور جس آدمی نے بغیر بسم اللہ کہے ہوئے وضو کیا تو اس کے اسی اعضاء سے گناہ صغیرہ دور ہوتے ہیں جنہیں وضو میں دھویا گیا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ وضو میں بسم اللہ کہنا سنت یا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی رَافِعٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَوَضَّأَ وُضُوْءَ الصَّلَاۃِ حَرَّکَ خَاتَمَہ، فِی اِصْبَعِہٖ رَوَاھُمَا الدَّارَقُطْنِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ الْخِیْرَ۔-
" اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے وضو فرماتے تو اپنی انگلی کی انگوٹھی کو بھی گھما پھیرا لیتے۔ (ان دونوں حدیثوں کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور سنن ابن ماجہ نے صرف دوسری حدیث نقل کی ہے)۔" تشریح اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انگوٹھی ڈھیلی ہو اور اس بات کا گمان ہو کہ وضو کے وقت پانی انگوٹھی کے نیچے انگلی تک پہنچ جاتا ہے تو اس صورت میں انگوٹھی کو ہلا لینا سنت ہوگا، ہاں اگر انگوٹھی تنگ ہو اور یہ یقین ہو کہ انگوٹھی کو ہلائے بغیر اس کے نیچے پانی نہیں پہنچے گا تو پھر انگوٹھی کو ہلا لینا واجب ہوگا تاکہ پانی اس کے نیچے انگلی تک پہنچ جائے۔
-