TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
--
اس باب میں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو وضو کو توڑتی ہیں چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (١) پاخانہ اور پیشاب کے راستہ سے نکلنے والی ہر چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے پاخانہ، پیشاب اور ریاح وغیر مگر جو ہوا مرد یا عورت کے آگے کے سرے سے نکلتی ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (٢) اس چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جو نجس ہو (جیسے خون اور پیپ وغیرہ) اور بدن میں خود بخود نکل کر اس حصہ تک پہنچ جائے جس کو غسل یا وضو میں دھونا لازم ہو، یعنی اگر ناک کے بانسے اور آنکھ کے اندر رہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ ان کا دھونا لازم نہیں ہے۔ (٣) قے کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے منہ بھر قے کرنے میں خواہ اناج نکلے، پانی نکلے، جما ہوا خون یعنی سودا نکلے ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگر بلغم نکلے تو وضو نہیں ٹوٹتا، اگر پتلے خون یا پیپ کی قے ہو تو اس میں منہ بھرنے کی شرط نہیں بلکہ تھوک کے برابر ہو یا تھوک پر غالب ہو جائے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کم ہوگا تو نہیں ٹوٹے گا اگر ایک ہی متلی میں تھوڑی قے اتنی مقدار میں ہوئی کہ اگر اسے جمع کیا جائے تو منہ بھر جائے تو اس سے وضو جاتا ہے جس چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے وہ نجس نہیں ہوتی مثلاً تھوڑی سے قے کی یا بدن سے خون اس طرح نکلا کہ وہ جسم پر بہا نہیں تو یہ ناپاک نہیں ہے۔ (٤) وضوٹوٹ جاتا ہے دیوانہ ہونے سے۔ (٥) نشے سے۔ (٦) بے ہوش ہو جانے سے۔ (٧) اور بالغ کے قہقہے سے اس نماز میں جو رکوع و سجود والی ہو۔ (٨) مباشرت فاحشہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، مباشرت فاحشہ اسے فرماتے ہیں کہ انتشار اور جنسی ہیجان کے ساتھ مرد کا ستر عورت کے ستر سے اور عورت کا ستر مرد کے ستر سے مل جائے یا دو عورتوں یا مردوں کے ستر مل جائیں۔ (٩) لیٹ کر اپنے بدن پر یا دیوار وغیرہ پر تکیہ لگا کر سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن یہ سونا اس طرح ہو کہ اگر تکیہ کی وہ چیز جس پر ٹیک لگا کر سویا ہوا ہے ہٹالی جائے تو گر پڑے۔ (١٠) اگر اس طرح سو جائے کہ مقعد زمین سے اٹھ جائے یعنی پہلو پر یا کولھوں پر یا چت یا منہ کے بل، یا کولھے کو دیوار سے لگا کر یا پیٹ پاؤں پر لگا کر جھکا ہوا سو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر کھڑا کھڑا سو جائے یا رکوع اور سجدہ کی حالت میں سو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا مگر شرط یہ ہے کہ رکوع و سجود ہیت مسنونہ پر ہوں، اگر زخم میں کیڑے نکلیں یا گوشت کٹ کر گر جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ (١١) اگر جونک لگائی جائے اور وہ خون پی کی کر بھر گئی یا بڑی چیچری نے پیٹ بھر خون پیا تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ (١٢) اگر کسی کی آنکھ دکھنے آتی ہے اور آنسو نکلتے ہیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس سلسلہ میں اکثر لوگ غافل ہیں اس کا خیال نہیں کرتے اس لیے اس کا خیال رکھنا چاہئے ہاں اگر کوئی آدمی ایسا ہے جس کی آنکھیں ہمیشہ جاری رہتی ہیں تو وہ صاحب عذر ہو جاتا ہے۔ (١٣) اگر کان دکھتا ہے اور اس سے پیپ یا کچھ لہو نکلے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے دو چیزیں یعنی پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے نکلنے والی چیزوں اور نیند پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چیزیں ناقض وضو ہیں باقی چیزیں مختلف فیہ ہیں۔
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُقْبَلُ صَلٰوۃُ مَنْ اَحْدَثَ حَتّٰی ےَتَوَضَّأَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " بے وضو کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وضو نہ کرے۔" (بخاری و مسلم) تشریح : اس کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پانی رکھتا ہو اور اس کے استعمال کی قدرت بھی اس کے اندر ہو یعنی جس آدمی کے پاس پانی اور اس پانی کے استعمال کرنے میں اس کو کوئی عذر شرعی نہ ہو تو اس کو نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے اگر اس نے وضو نہیں کیا تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ اگر کوئی آدمی پانی نہ پائے یا اس کے استعمال کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ بجائے وضو کے پاک و صاف مٹی سے تیمم کرے ایسا آدمی جو نہ تو پانی پائے اور نہ پاک و صاف مٹی ہی اسے ملے اور نہ وہ ان کے استعمال کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے آدمی کو اصطلاح شریعت میں فاقد الطھورین فرماتے ہیں اس آدمی کے بارہ میں یہ حکم ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے، ہاں جب پانی وغیرہ پائے تو وضو کر کے نماز پڑھے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسلک دوسرا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی یعنی " فاقدا الطہورین" کو چاہئے کہ اس شکل میں بھی وقت نماز کے احترام میں بغیر وضو اور تیمم ہی کے نماز پڑھ لے جب اسے پانی یا مٹی دستیاب ہو جائے تو وضو یا تییم کر کے قضا کر لے۔ ہمارے علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصدا بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ کہ اس سے اس کا مقصد احترام وقت بھی نہ ہو تو یہ آدمی کافر ہو جاتا ہے، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لیے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہو جاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لیے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُقْبَلُ صَلٰوۃٌ بِغَےْرِ طُھُوْرٍ وَّلَاصَدَقَۃٌ مِّنْ غُلُوْلٍ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " بغیر طہارت نماز قبول نہیں کی جاتی اور مال حرام کی خیرات قبول نہیں کی جاتی۔" (صحیح مسلم) تشریح : حرام مال میں صدقہ خیرات کرنا چونکہ صدقہ و خیرات کی توہین و تحقیر ہے اس لیے اس کو بہت زیادہ قابل نفرت شمار کیا گیا ہے چنانچہ ہمارے علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو آدمی مال حرام میں سے صدقہ و خیرات کرتا ہے اور پھر اس کی امید بھی رکھتا کہ اس سے ثواب ملے گا تو کافر ہو جاتا ہے۔ (٣) وَعَنْ عَلِیٍّ صقَالَ کُنْتُ رَجُلًا مَذَّآئً فَکُنْتُ اَسْتَحْیِیْ اَنْ اَسْأَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم لِمَکَانِ ابْنَتِہ فَاَمَرْتُ الْمِقْدَادَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ےَغْسِلُ ذَکَرَہُ وَےَتَوَضَّاُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) " اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ" مجھے مذی بہت زیادہ آتی تھی چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے نکاح میں تھی اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم دریافت کرتے ہوئے شرماتا تھا (کہ آیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے یا وضو) اس لیے میں نے (اس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے کے لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو مامور کیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (اس طرح سے کہ ایک آدمی ایسا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے) تو آپ نے فرمایا کہ (مذی نکلنے پر) پیشاب گاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔" (بخاری و مسلم) تشریح : یہ حدیث ایک اخلاقی معاملہ میں بڑی لطیف تنبیہ کر رہی ہے کہ داماد کو اپنے سسر سے شہوت کی باتوں کا ذکر کرنا، ایسی چیزوں کا تذکرہ کرنا جن کا تعلق مباشرت عورت سے ہو یا جن کا بیان اخلاق و تہذیب اور شرم و حیا کے منافی ہو مناسب نہیں۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَص قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمےَقُوْلُ تَوَضَّؤُا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ رَوَاہُ مُسْلِمٌ-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " جس چیز کو آگ نے پکایا ہو اس کے کھانے کے بعد وضو کرو۔" (صحیح مسلم) تشریح : " امام محی السنتہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے منسوخ ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) پہلے حکم کی منسوخی تو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے ہو گئی لیکن اس سلسلہ میں اس حدیث کی ایک دوسری تاویل اور کی جاتی ہے وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی کہ " آگ کی پکی ہوئی چیز کو کھانے کے بعد وضو کرو" سے مراد یہ ہے کہ جب تم کوئی پکی ہوئی چیز کھاؤ تو چکنائی وغیرہ دور کرنے کے لیے ہاتھ منہ دھولیا کرو، کیونکہ نہ صرف یہ کہ نظافت و صفائی کا یہی تقاضا ہے بلکہ یہ سنت بھی ہے چنانچہ اسی کو وضو طعام بھی کہا جاتا ہے، اس صورت میں حدیث کو منسوخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
-
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَص اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ قَالَ اِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّاْ وَاِنْ شئْتَ فَلَا تَتَوَضَّاْ قَالَ اَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُّحُوْمِ الْاِبِلِ قَالَ نَعَمْ فَتَوَضَّأْ مِنْ لُّحُوْمِ الْاِبِلِ قَالَ اُصَلِّیْ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ نَعَمْ قَالَ اُصَلِّیْ فِیْ مَبَارِکِ الْاِبِلِ قَالَ لَا۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی جابر بن سمرۃ اور کنیت ابوعبدا اللہ عامری ہے سن وفات میں اختلاف ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ٦٦ھ میں انہوں نے وفات پائی کچھ حضرات کی تحقیق ہے کہ ان کا سن وفات ٧٤ھ ہے۔) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ " کیا ہم بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہارا جی چاہے تو وضو کرو اور نہ چاہے تو نہ کرو" پھر اس آدمی نے پوچھا کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرو" پھر اس آدمی نے سوال کیا " کیا بکریوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھ لوں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! پھر اس آدمی نے دریافت کیا " کیا اونٹوں کے بندھے کی جگہ نماز پڑھوں" آپ نے فرمایا " نہیں" ۔" (صحیح مسلم) تشریح : حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ چونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لیے انہوں نے تو یہ حدیث دیکھ کر حکم لگا دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے کہ یہ حضرات اس حدیث کا محل وضو کے لغوی معنے" ہاتھ منہ دھونے" کو قرار دیتے ہیں یعنی یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندہ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اس کو کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے چونکہ بکری کے گوشت میں بساندھی اور چکنائی کم ہوتی ہے اس لیے اس کے بارے میں فرما دیا کہ اگر طبیعت چاہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھولیا کرو اور اگر طبیعت نہ چاہے تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمانا نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور منع اس لیے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے میں سکون و اطمینان اور خاطرجمعی نہیں رہتی، اونٹوں کے بھاگ جانے یا لات مار دینے اور تکلیف پہنچانے کا خدشہ رہتا ہے بخلاف بکریوں کے چونکہ وہ بیچاری سیدھی سادی اور بے ضرر ہوتی ہیں اس لیے ان کے رہنے کی جگہ نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ جواز او عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ مرابض (بکریوں کے رہنے کی جگہ) اور مبارک (اونٹوں کے بندھنے کی جگہ) نجاست و گندگی سے خالی ہوں اگر وہاں نجاست ہوگی تو پھر مرابض میں بھی نماز پڑھنی مکروہ ہوگی۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا وَجَدَ اَحَدُکُمْ فِیْ بَطْنِہٖ شَےْئًا فَاَشْکَلَ عَلَےْہِ أَخَرَجَ مِنْہُ شَْیْءٌ اَمْ لَا فَلَا ےَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتّٰی ےَسْمَعَ صَوْتًا اَوْ ےَجِدَ رِےْحًا ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ کے اندر کچھ پائے (یعنی قراقر) اور اس پر یہ بات مشتبہ ہو کہ کوئی چیز خارج ہوئی یا نہیں تو اس وقت تک وضو کے لیے مسجد سے باہر نہ نکلے جب تک آواز کو نہ سنے یا بو نہ پائے۔" (صحیح مسلم) تشریح : " جب تک کوئی آواز نہ سنے یا بو نہ پائے" یہ غالب کے اعتبار سے ہے ورنہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ جب ریاح کا خارج ہونا یقینی طور پر معلوم ہو جائے خواہ آواز سنے یا نہ سنے بو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو تو سمجھ لے کہ وضو ٹوٹ گیا ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ص قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم شَرِبَ لَبَنًا فَمَضْمَضَ وَقَالَ اِنَّ لَہُ دَسَمًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا (اس کے بعد ) کلی کی اور فرمایا دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چکنی چیز کھانے کی بعد کلی کرنا مستحب ہے، اس لیے کہ اگر کلی نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ جو چیز کھائی گئی چکناہٹ کی وجہ سے اس کا کچھ حصہ منہ میں لگا رہ جائے، جب نماز پڑھی جائے تو حالت نماز میں پیٹ میں پہنچ جائے اس پر ہر اس چیز کو قیاس کیا جاتا ہے جو منہ میں لگی ہو اور حالت نماز میں اس کے پیٹ میں پہنچ جانے کا خوف ہو تو اس سے بھی کلی کرنا مستحب ہے۔ اس حدیث سے علماء کرام نے مسئلہ بھی مستنبط کیا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے صفائی اور ستھرائی کے لیے ہاتھوں کو دھولینا چاہئے، ہاں اگر ہاتھ پہلے سے صاف ستھرے ہیں اور نجاست و میل نہیں لگی ہے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے، اسی طرح کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھوں کو دھونا چاہئے اگر کھانا خشک ہونے کی وجہ سے یا چمچہ وغیرہ سے کھانے کی وجہ سے ہاتھ میں کچھ نہ لگے تو پھر ہاتھوں کا دھونا ضروری نہیں ہے۔ آخر میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بظاہر تو اس باب سے اس حدیث کی کچھ ماسبت نظر نہیں آتی ہے اس لیے یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اس باب میں کیوں ذکر کیا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کلی کا ذکر کیا گیا ہے وہ متعلقات وضو سے ہے اس لیے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا گیا ہے۔
-
وَعَنْ بُرَےْدَۃَ ص اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الصَّلَوَاتِ ےَوْمَ الْفَتْحِ بِوُضُوْءٍ وَّاحِدٍ وَّمَسَحَ عَلٰی خُفَّےْہِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ ص لَقَدْ صَنَعْتَ الْےَوْمَ شَےْئًا لَّمْ تَکُنْ تَصْنَعُہُ فَقَالَ عَمْدًا صَنَعْتُہُ ےَا عُمَرُ ص۔(مسلم )-
" اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی بریدہ بن حصیب ہے ان کی کنیت جو مشہور ہے وہ ابوعبداللہ ہے، یہ مدینہ کے باشندہ تھے مقام مرد میں یزید بن معاویہ ٦٣ھ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ " فتح مکہ کے دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں (یعنی ایک ہی وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں) اور موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ " آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے آج وہ چیز کی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ! میں نے ایسا قصداً کیا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح : حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پہلے تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا معمول یہ تھا کہ ہر نماز لیے تازہ وضو کرتے تھے، مگر آج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے خلاف معمول ایک وقت وضو کر لیا پھر اسی وضو سے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے پانچوں نمازیں ادا فرمائیں اور پھر ایک نئی چیز کی کہ موزوں پر مسح بھی فرمایا حالانکہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرا عمل کسی دوسری وجہ سے نہیں بلکہ میں نے قصدًا کیا ہے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دونوں صورتیں بھی جائز ہیں اور دوسرے بھی ایسا کرسکتے ہیں۔
-
وَعَنْ سُوَےْدِ بْنِ النُّعْمَانِ ص اَنَّہُ خَرَجَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ خَےْبَرَ حَتّٰی اِذَا کَانُوْا بِالصَّہْبَآءِ وَھِیَ اَدْنٰی خَےْبَرَ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَعَا بِالاَْزْوَادِ فَلَمْ ےُؤْتَ اِلَّا بِالسَّوِےْقِ فَاَمَرَ بِہٖ فَثُرٍّیَ فَاَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَکَلْنَا ثُمَّ قَامَ اِلَی الْمَغْرِبِ فَمَضْمَضَ وَمَضْمَضْنَا ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ ےَتَوَضَّأْ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی حضرت سوید ابن نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے آپ کا شمار اہل مدینہ میں ہے۔) راوی ہیں کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر ( کے فتح) کے سال سفر پر گئے جب صہباء کے مقام پر پہنچے جو خیبر کے نزدیک ہے، عصر کی نماز پڑھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توشہ (زاد راہ) منگوایا، چنانچہ ستو کے علاوہ کچھ نہ تھا جو حاضر کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کو گھولا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہم نے اس کو کھایا اور پھر مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اور ہم نے بھی کلی کی اور وضو نہیں کیا۔" (صحیح البخاری) تشریح : اس حدیث نے اس مسئلہ کی وضاحت کر دی کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستو کھایا جو آگ ہی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد صرف کلی کر کے مغرب کی نماز پڑھ لی اور وضو نہیں کیا۔
-
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا وَضُوْءَ اِلَّا مِنْ صُوْتِ اَوْرِیْحِ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل والجامع ترمذی)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " وضو کرنا آواز با بو سے واجب ہوتا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) تشریح : مطلب یہ ہے کہ وضو شک سے نہیں ٹوٹتا، جب تک یقین نہ ہو جائے وضو باقی رہتا ہے یعنی پیٹ میں اگر محض قراقر ہو تو اس شبہ سے کہ شاید ریاح کا اخراج ہو گیا ہو وضو نہیں ٹوٹے گا ہاں جب آواز کے نکلنے یا بو سے یقین ہو جائے کہ ریاح خارج ہوگئی ہے تو جب وضو ٹوٹ جائے گا۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ سَأَلَتٌ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الْمُذِیِّ فَقَالَ مِنَ الْمُذِیِّ الْوُضُوْءُ وَمِنَ الْمَنِیِّ الْغُسْلُ۔(رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی کے بارہ میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے سے وضو لازم آتا ہے اور منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے۔" (جامع ترمذی)
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الصَّلَاۃِ الطُّھُوْرُ وَ تَحْرِیْمُھَا التَّکْبِیْرُ وَ تَحَلِیْلُھَا التَّسْلِیْمُ۔ رَوَاہُ اَبُوَدَاؤدَ وَالْتِرْمِذِّیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْہُ وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِ۔-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " نماز کی کنجی وضو ہے" نماز کی تحریم تکبیر (یعنی اللہ اکبر کہنا) ہے اور نماز کی تحلیل سلام پھیرنا۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ودارمی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت ابی سعید سے روایت کیا ہے) تشریح؛ تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے نماز شروع ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھانا پینا اور جتنے کام نماز کے منافی ہیں اب سب حرام ہوگئے ہیں اور سلام پھیرنے سے نماز ختم ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز شروع کر دینے سے جتنی چیزیں حرام کرلی گئی تھیں اب وہ سب حلال ہوگئیں ہیں اسی کو فرمایا گیا ہے کہ نماز کی تحریم تکبیر اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ بْنِ طَلْقِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا فَسَا اَحَدُکُمْ فَلْیَتَوَضَّأَ وَلَا تَأْتُوْا النِّسَاءَ فِی اَعْجَازِ ھِنَّ۔(رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت علی بن طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی حدث کرے (یعنی بغیر آواز کے ہوا خارج ہو) تو اسے وضو کرنا چاہئے اور تم عورتوں سے (خلاف فطرت) ان کی مقعد (یعنی پاخانہ کی جگہ) میں جماع نہ کرو۔" (جامع ترمذی، ابوداؤد)
-
وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ ابْنِ اَبِی سُفْیَانَ اَنَّ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّمَا الْعَیْنَانِ وِکَاءُ السَّہِ فَاِذَا نَأمَتِ الْعَیْنُ اسْتَطْلَقَ الْوِکَائُ(رواہ الدارمی)-
" اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کنیت ابوعبدالرحمن اور والد کا نام ابوسفیان ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں ٦٠ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " آنکھیں سرین کا سر بند ہیں چنانچہ آنکھ سو جاتی ہے تو سر بند کھل جاتا ہے۔" (دارمی) تشریح : جب انسان جاگتا رہتا ہے تو گویا اس کے مقعد پر بند لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہوا خارج نہیں ہوتی بلکہ رکی رہتی ہے اور اگر خارج ہوتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے جب سو جاتا ہے تو چونکہ وہ بے اختیار ہو جاتا ہے جوڑ ڈھیلے پڑجاتے ہیں تو ہوا کے خارج ہونے کا گمان رہتا ہے جس کا اسے یقینی احساس نہیں ہوسکتا اسی لیے نیند کو ناقض وضو کہا جاتا ہے۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ وِکَاءُ السَّہِ الْعَیْنَانِ فَمَنْ نَامَ فَلَیْتَوَضَّا۔ (رواہ ابوداؤد)وَقَالَ الشَّیْخُ الْاِقَامُ مُحِیُّ السُّنَّۃِ رَحِمَہُ اﷲُ ھٰذَا فِی غَیْرِ الْقَاعِدِ لِمَا صَحَّ عَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلُ اﷲِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَنْتُظُرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتّٰی تَحْفَقَ رَؤُوْسُھُمْ ثُمَّ یَصَلُّوْنَ وَلَا یَتَوَضَّأًوُنَ رَوَاہُ اَبُوْدَاوُدْوَالْتِرْمِذِّیُّ اِلَّا اَنَّہُ ذَکَرَ فِیْہِ یُنَامُوْنَ بَدَلَ یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتَّی تُخْفِقَ رُوؤُسُھُمْ۔-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سرین کا سر بند آنکھیں ہیں لہٰذا جو آدمی سو جائے اسے چاہئے " کہ وضو کرے۔" (ابوداؤد) " اور حضرت امام محی السنۃ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حکم اسی آدمی کے واسطے ہے جو بیٹھا نہ ہو (بلکہ لیٹ کر سویا ہو) اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب عشاء کی نماز بیٹھے ہوئے) انتظار کیا کرتے تھے یہاں تک کے نیند کے سبب سے ان کے سر جھک جاتے تھے، اسی حالت میں وہ اٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے وضو نہ کرتے تھے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) مگر جامع ترمذی نے اپنی روایت میں یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءَ حَتَّی تَخْفِقَ رُؤُوْسُھُمْ کے بجائے لفظ ینامون ذکر کیا ہے۔ تشریح : حضرت امام محی السنۃ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کا حکم سونے والوں کے بارہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے آدمی کے بارہ میں ہے جو لیٹ کر سو جائے، کیونکہ لیٹ کر سونے سے تمام اعضاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر پوری طرح اختیار نہیں رہتا اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس حالت میں ریاح خارج ہو جائے اور اس کا احساس بھی نہ ہو۔ ہاں جو آدمی لیٹ کر نہیں بلکہ بیٹھا بیٹھا اس طرح سو جائے اس کی مقعد زمین پر رکھی رہے اور پھر جب وہ جاگے تو مقعد اسی طرح زمین پر ٹھیری ہوئی ہو تو وضو نہیں ٹوٹتا چاہے وہ جتنا بھی سوئے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیٹھے ہوئے سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، بیٹھنے کی اقسام فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں، جن کو قیاس یا دیگر احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِنَّ الْوُضُوْءَ عَلَی مَنْ نَّامَ مُضْطَجِعًا فَاِنَّہُ اِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُہ،۔(رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " وضو اس آدمی پر لازم ہوتا ہے جو لیٹ کر سو جائے اس لیے کہ جس وقت آدمی لیٹتا ہے تو اس کے (بدن کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں) اور پھر ہوا خارج ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔" (جامع ترمذی، ابوداؤد) تشریح : حضرت میرک شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حدیث منکر ہے کیونکہ اس کے راویوں میں ایک راوی یزید دالانی بھی ہے جو کہ کثیر الخطاء اور فاحش الوہم اور ثقات کے مخالف ہے۔
-
وَعَنْ بُسْرَۃَ بِنْتِ صَفْوَانَ بْنِ نَوْفَلِ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِذَا مَسَّ اَحَدُکُمْ ذَکَرَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رواہ موطا امام مالک و مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد و الجامع ترمذی و السنن نسائی و ابن ماجہ و الدارمی)-
حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " تم میں سے جو آدمی اپنے ذکر (عضو خاص) کو ہاتھ لگائے تو اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے" ۔" (مالک، ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، دارمی) تشریح : پیشاب گاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جانے میں اختلاف ہے، بلکہ اس مسئلہ میں خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف تھا چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے ذکر کو ننگی ہتھیلی سے چھو دیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، ان کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ذکر کو چھو دینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل ما بعد کی حدیث ہے جو قیس بن علی کی روایت کے ساتھ جسے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے، مسند ابی حنیفہ میں مذکور ہے اس کے علاوہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی دلیل میں اور بہت سی حدیثیں وارد ہیں اس سلسلہ میں مزید تشفی کے لیے شرح ملا علی قاری اور مشکوٰۃ کا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دونوں حدیثیں یعنی بسرہ کی یہ حدیث جو شوافع کی دلیل ہے اور طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو آگے آرہی ہے اور حنیفہ کی دلیل ہے، درجہ حسن سے باہر نہیں ہیں لیکن حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کو حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پر ترجیح ہوگی اس لیے کہ حضرت بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عورت اور حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد ہیں اور ظاہر ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد کی حدیث قوی ہوتی ہے کیونکہ وہ عوت کی نسبت علم اور حدیث کو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں اور ان کی قوت حافظہ عورتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔
-
وَعَنْ طَلْقِ بِنْ عَلِیِّ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ مَسِّ الرَّجُلِ ذَکَرَہ، بَعْدَ مَایَتَوَضَّأُ قَالَ وَھَلْ ھَوَ اِلَّا بُضْعَۃٌ مِنْہُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُ وَ رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہُ وَقَالَ الشَّیْخُ الْاِمَامُ مُحِیُّ السُّنَۃِ ھٰذَا مَنْسُوْخٌ لِاَنَّ اَبَاھُرَیْرَۃَ اَسْلَمَ بَعْدَ قُدُوْمِ طَلْقِ وَقَدْرَوَی اَبُوْھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالِ اِذَا اَفْضَی اَحَدُکُمْ بِیَدِہٖ اِلَی ذَکَرِہٖ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیءٌ فَلْیَتَوَضَّأْ۔ (رَوَاہُ الشَّافِعِیُ وَالدَّارَ قُطْنِیُّ وَرَوَاہُ النَّسَائِیُّ عَنْ بُسْرَۃَ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْی ئً )-
" اور حضرت طلق بن علی المرتضیٰ ) اسم گرامی طلق بن علی اور کنیت ابوعلی ہے ان کی حدیثیں ان کے بیٹے قیس سے مروی ہیں۔ (فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وضو کرنے کے بعد اگر کوئی آدمی اپنے ذکر کو چھوئے (تو کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " وہ بھی تو آدمی کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے" امام محی السنۃ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لیے کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے بعد اسلام لائے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث منقول ہے کہ جب تم میں سے کسی کا ہاتھ اپنے ذکر پر پہنچ جائے اور ہاتھ و ذکر کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو اس کو چاہئے وضو کرے۔" (شافع دار قطنی اور سنن نسائی نے بسرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ روایت نقل کی ہے جس میں لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَھَا شَیْیئٌ کے الفاظ مذکور ہیں۔ تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدن کے گوشت کے دیگر ٹکڑے مثلاً ہاتھ پاؤں کان ناک وغیرہ ہیں اسی طرح ذکر بھی بندہ کے گوشت ہی کا ایک ٹکڑا ہے اور جب ان دوسرے ٹکڑوں اور حصوں کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پھر ذکر کے چھو جانے سے کیوں وضو ٹوٹے گا لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ مس ذکر ناقص وضو نہیں ہے۔ امام محی السنہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول در اصل حضرات شوافع کی ترجمانی ہے اس کا مطب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرۃ و طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بہت بعد اسلام لائے ہیں، کیونکہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے فورًا بعد جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن ٧ھ میں غزوہ خبیر کے موقع پر اسلام لائے ہیں اس لیے حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننا پہلے ہوا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سننا بعد میں ہوا ہوگا، لہٰذا حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ناسخ ہوئی۔ حنفیہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت طلق کے اسلام لانے کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث سنی بھی بعد میں ہو شوافعہ کا یہ دعویٰ تو جب صحیح ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ثابت ہو کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے ہی حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما چکے تھے یا یہ کہ اپنے وطن کو چلے گئے تھے کہ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی کبھی حاضر نہیں ہوئے، اس لیے کہ اگر حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے سے پہلے انتقال فرما جاتے ہیں یا اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتے تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کچھ نہیں سن سکتے تھے مگر اب تو یہ ممکن ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد ہی سنی ہو لہٰذا شوافع کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ حضرت مظہر نے ایک اچھی اور فیصلہ کن بات کہہ دی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہو گیا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے تو ثابت ہو رہا ہے کہ مس ذکر ناقض وضو ہے اور حضرت طلق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث مس ذکر کو ناقض وضو نہیں کہتی لہٰذا اس تعارض کی شکل میں ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کریں چنانچہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مثلاً حضرت علی، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت ابودرداء حضرت حذیفہ اور حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال ثابت ہیں کہ ذکر چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حنفیہ ہی کا مسلک صحیح ہے کہ مس ذکر ناقض وضو نہیں ہے، و اللہ اعلم بالصواب۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقَبِّلُ بَعْضَ اَزْوَاجِہٖ ثُمَّ یُسَلِّیْ وَلَا یَتَوَضَّأُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنَّسَائِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَا یَصِحُّ عِنْدَاَصْحَابِنَا بِحَالِ إِسْنَادُ عُرْوَۃَ عَنْ عَآئِشَۃَ وِاِیْضًا اِسْنَادُ اِبْرَاھِیْمَ التَّیْمِیِّ عَنْھَا وَقَالَ اَبُوْدَاؤدَ ہٰذَا مُرْسَلٌ وَاِبْرَاھِیْمُ التَّیْمِیُّ لَمْ یَسْمَع عَنْ عَآئِشَۃَ۔-
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لیے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نہیں سنا ہے۔" تشریح : اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے، حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد پڑھنے کے لیے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی " لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں ہے" بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہوگئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذکیا ہے۔ ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا کہ " یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع ) ہے" درا اصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ اَکَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَتِفًا ثُمَّ مَسَحَ یَدَہ، بِمَسْحِ کَانَ تَحْتَہ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی۔ (رواہ ابوداؤ دو ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا شانہ (یعنی بکری بریاں کے شانہ کا گوشت) کھایا، پھر اپنا ہاتھ ٹاٹ سے پونچھ لیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے بچھا ہوتا تھا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی۔" (ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح : اس حدیث نے بھی حنفیہ کے اس مسلک کی تویثق کر دی ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد اگر منہ پر چکنائی وغیرہ لگے تو اس کا دھونا ضروری نہیں ہے۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ اَنَّھَا قَالَتْ قَرَّبْتُ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم جَنْبًا مَشْوِیًّا فَاکَلَ مِنْہ، ثُمَّ قَامَ اِلَی الصَلٰوۃِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنا ہوا پہلو لے گئی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا پھر نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور وضو نہیں کیا (نہ ہاتھ منہ دھویا۔" (مسند احمد بن حنبل)
-
وَعَنْ اَبِیْ رَافِعٍ ص قَالَ اَشْھَدُ لَقَدْ کُنْتُ اَشْوِیْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَطْنَ الشَّاۃِ ثُمَّ صَلّٰی وَلَمْ ےَتَوَضَّأْ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بکری کا پیٹ (یعنی کے اندر کی چیزیں مثلاً دل کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس میں سے کھاتے) پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے اور وضو نہ کرتے۔" (صحیح مسلم)
-
وَعَنْہُ قَالَ اُحْدِیَتْ لَہ، شَاۃٌ فَجَعَلَھَا فِی الْقِدْرِ فَدَخَلَ رَسُوْلُ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا ھٰذَا یَا اَبَارَافِعِ فَقَالَ شَاۃٌ اُھْدِیَتْ لَنَا یَا رَسُوْلُ اﷲِ فَطَبَخْتُھَا فِی الْقِدْرِ فَقَالَ نَاوِلنِْی الدْرَاعَ یَا اَبَارَافِعِ فَنَا وَلْتُہُ الذَّرَاعَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِی لذْرَاعَ الْآخَرَ فَنَا وَلْتُہُ الذِّرَاعَ الْآخَرَ ثُمَّ قَالَ نَاوِلْنِی الذِّرَاعَ الْاٰخَرَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّمَا لِلشَّاۃِ ذِرَاعَانِ فَقَالَ لَہ، رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَّا اِنَّکَ لَوْ سَکَتَّ لَنَا وَلْتَنِیْ ذِرَاعًا فَذِرَاعًا مَاسَکَتَّ ثُمَّ دَعَا بِمَا ءِ فَتَمَضْمَضَ فَاہُ وَغَسَلَ اَطْرَافَ اَصَابِعِہٖ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی ثُمَّ عَادَاِلَیْھِمْ فَوَجَدَ عِنْدَھُمْ لَحْمًا بَارِدًافَاَکَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَسَلَّی وَلَمْ یَمَسَّ مَآئً رَوَاہُ اَحْمَدُ وَرَوَاہُ الدَّارِمِیُّ عَنْ اَبِیْ عَبَیْدِ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرْ ثُمَّ دَعَا بِمَاءِ اِلٰی آخِرِہٖ۔-
" اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری بھیجی گئی، چنانچہ میں نے اس (کے گوشت) کو (پکانے کے لیے ) ہانڈی میں ڈال دیا (اسی اثناء میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا " ابورافع یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا (یا رسول اللہ ! بکری کا گوشت ہے جو میرے پاس ہدیہ کے طور پر آیا تھا اسی کو میں نے ہانڈی میں پکا لیا ہے" آپ نے فرمایا " ابورافع! ایک دست دو ! میں نے دست خدمت اقدس میں پیش کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوسرا دست دو میں نے دوسرا دست بھی خدمت اقدس میں پیش کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ایک دست اور دو میں عرض کیا یا رسول اللہ ! بکری کے تو دو ہی دست ہوتے ہیں (اور وہ دونوں ہی آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں اب کہاں سے لاؤں) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا " ابورافع! اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دئیے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور منہ دھویا (یعنی کلی کی) پھر انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہوئے اور پھر نماز پڑھ کر ابورافع کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے نزدیک ٹھنڈا گوشت دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا اس کے بعد مسجد تشریف لے گئے اور (شکرانہ) کی نماز پڑھی اور اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے مگر ثم دعا بماء سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔" تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دست کا گوشت بہت زیادہ مرغوب تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دست کا گوشت زیادہ قوت بخش ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند فرماتے تھے تاکہ جسمانی طاقت و قوت زیادہ حاصل ہو جس کی وجہ عبادت خداوندی بخوبی ادا ہو سکے۔ ارشاد " اگر تم خاموش رہتے تو مجھ کو دست پر دست دیئے چلے جاتے جب تک کہ تم چپ رہتے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم چپ رہتے اور میں جس طرح مانگتا جا رہا تھا تم اسی طرح اٹھا (اٹھا کر دیتے رہتے تو تم دیکھ لیتے کی خداوند کریم اپنی قدرت سے معجزہ کے طور پر بے حد و بے حساب دست مہیا فرماتا، لیکن چونکہ تمہاری نظر صرف ظاہر پر تھی اور تم نے یہ سوچ کر کہ بکری کے صرف دو ہی دست ہوتے ہیں اب کہاں سے لا کر دوں گا اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اور جب تم نے خود ہی ہاتھ کھینچ لیا اور یہ جواب دے دیا تو ادھر سے بھی امداد غیبی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واقعی سب دست ختم ہوگئے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہو سکتا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کی تکمیل کی خاطر غیبی طور پر بکری کے دست کا انتظام کیا جا رہا تھا تو محض ابورافع کے جواب دے دینے سے وہ سلسلہ رک کیوں گیا اور پھر دست ظاہر کیوں نہیں فرمائے گئے۔ جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی جانب سے تمام اعزاز و کرامات اور فضل و عنایات محض خالص نیت اور توجہ الی اللہ کی بناء پر ہوتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ الی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضوری قلب میں ابورافع کے جواب سے کچھ فرق آگیا ہو اس لیے آپ ان کے جواب کے رد کی طرف متوجہ ہوگئے تھے، چنانچہ ادھر سے بھی ہاتھ روک لیا گیا اور دست ختم ہوگئے۔
-
وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکِ قَالَ کُنْتُ اَنَا وَاُبَّیٌّ وَاَبُوْ طَلْحَۃَ جُلُوْسًا فَاَ کَلْنَا لَحْمًا وَخُبْزًا ثُمَّ دَعُوْتُ بِوُضُوُءِ فَقَالَا لِمَ تَتَوَّضَّأُ فَقُلْتُ لِھٰذَا الطَّعَامِ الَّذِی اَکَلْنَا فَقَالَا اَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّیِّبَاتِ لَمْ یَتَوَضَّأُ مِنْہُ مَنْ ھُوَ خَیْرُ مِنْکَ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں، ابی بن کعب اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے گوشت روٹی کھائی (کھانے سے فارغ ہو کر) میں نے وضو کے لیے پانی منگوایا ابی بن کعب اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا " تم وضو کیوں کرتے ہو" ' میں نے کہا " اس کھانے کی وجہ سے جو میں نے ابھی کھایا ہے ان دونوں نے کہا " کیا تم پاک چیزوں کے کھانے سے وضو کرتے ہو ان چیزوں کو کھا کر اس آدمی نے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر ہیں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔" (مسند احمد بن حنبل)
-
وَعَنِ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا کَانَ یَقُوْلُ قُبْلَۃُ الرَّجُلِ امْرَاٰتَہ، وَجسُّھَا بِیَدِہٖ مِنَ الْمُلَامَسَۃِ وَمَنْ قَبَّلَ امْرَاَتَہ، اَوْجَسَھَا بِیَدِہٖ فَعَلَیْہِ الْوُضُوْئُ۔(رواہ موطا امام مالک والشافعی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ " مرد کا اپنی عورت سے بوسہ لینا یا اس کو اپنے ہاتھ سے چھونا یہ بھی ملامست ہے اور جس آدمی نے اپنی عورت کا بوسہ لیا یا اس کو ہاتھ سے چھوا تو اس پر وضو واجب ہے۔" (مالک، شافعی) تشریح : قرآن مجید میں جس جگہ ان چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو وضو کو توڑنے والی ہیں انہیں ایک چیز ناقض وضو یہ بھی بتائی گئی ہے کہ : اَوْلَمَسْتُمُ النِّسَآئَ۔ " یعنی تم عورت سے ملامست کرو۔" " ملامست" کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اور اس کا محل کیا ہے؟ اسی میں اختلاف ہو رہا ہے، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تو یہ فرماتے ہیں کہ ملامست کے معنی عورت کو ہاتھ لگانا ہے، تو گویا اس طرح امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کو محض ہاتھ لگانے کے بعد اگر کسی آدمی کا وضو ہے تو وہ ٹوٹ جائے گا لہٰذا اگر وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کو دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذکورہ بالا ارشاد کا مفہوم بھی یہی ہے جو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تصدیق کر رہا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ عورت کو صرف ہاتھ لگانا، یا عورت کا بوسہ لینا ملامست میں داخل ہے جس کو قرآن میں ناقض وضو فرمایا گیا ہے۔ ہمارے امام صاحب " ملامست" کے معنی قرار دیتے ہیں " جماع اور ہمبستری" یعنی قرآن میں ملامست عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اور جسے ناقض و جو کہا گیا ہے اس سے جماع اور ہمبستری مراد ہے۔ امام اعظم نے اپنے اس مسلک کی تصدیق میں دلائل کا ایک ذخیرہ جمع کر دیا ہے جو فقہ کی کتابوں میں بڑی وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودِ کَانَ یَقُوْل مِنْ قُبْلَۃِ الرَّجُلِ امْرَأَتَہ، الْوُضُوْئُ۔(رواہ موطا امام مالک) وعن انب عمر ان عمر بن الخطاب قال ان القبلۃ من المس فتوضئو منہا-
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مرد کو اپنی عورت کا بوسہ لینے سے وضو لازم آتا ہے ۔ (مؤطا امام مالک) " اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کہ بوسہ لینا لمس میں داخل ہے (جو قرآن میں مذکور ہے) لہٰذا بوسہ لینے کے بعد وضو کیا کرو۔" تشریح : حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔ ہمارے امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چونکہ عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لیے ان روایتوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اوّل تو یہ تمام روایتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر موقوف ہیں یعنی یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال ہیں اس لیے ان کا حکم حدیث مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد جیسا نہیں ہو سکتا دوسرے ان کے نزدیک یہ روایتیں درجہ صحت کو بھی نہیں پہنچی ہوئی ہیں۔ پھر اس سے قطع نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے جو پہلے ذکر کی گئی اور جس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روایت کیا ہے کہ اس سے بصراحت یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز اس کے علاوہ" مسندابی حنیفہ" میں ایک دوسری حدیث مذکور ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضوء یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا جسے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لیس فی القبلۃ وضو یعنی بوسہ لینے سے وضو لازم نہیں ہوتا " گویا اس حدیث نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ عورت کو چھونے یا اس کا بوسہ لینے کو ناقض وضو کہا گیا ہے۔ و اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِ عَنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْوُضُوْءُ مِنْ کُلِّ دَمِّ سَائِلِ رَوَاھُمَا الدَّارَ قُطْنِیْ وَقَالَ عُمَرَ بْنُ عَبْدِالْعَزِیْزِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ وَلَارَآہُ وَیَزِیِدُ بْنُ خَالِدِ وَیَزِیْدُ بْنُ مُحَمَّدِ مَجْھُوْلَانِ۔-
" حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (امیر المومنین حضرت عمر ابن عبدالعزیز اموی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور خلیفہ ہیں اور رجب ١٠١ھ میں اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئے۔) تمیم داری ( اسم گرامی تمیم بن اوس الداری ہے ٩ھ میں مشرف با اسلام ہوئے ہیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد شام میں ان کی وفات ہوئی۔) سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے کہ ان دونوں روایتوں کو دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ ہی انہیں دیکھا ہے نیز اس روایت کے دو راوی یزید ابن خالد اور یزید ابن محمد مجہول ہیں۔" تشریح : حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ ہر بہنے والے خون سے وضو لازم آتا ہے یعنی اگر بدن کے کسی بھی حصہ سے خون نکلا اور نکل کر اس حصہ تک بہہ گیا جس کا دھونا وضو اور غسل میں ضروری ہوتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا چنانچہ یہ حدیث امام صاحب کے مسلک کی دلیل ہے، امام صاحب کے علاوہ دیگر ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر خون، پیشاب یا پاخانہ کے راستہ سے نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اس کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نکلا تو نہیں ٹوٹے گا۔ حضرت دار قطنی اس حدیث میں کلام فرما رہے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو تمیم داری سے سنا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے اس لیے حدیث مرسل ہے، نیز اس حدیث کے دو راوی یزید بن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول میں گویا ان کا مقصد اس کلام سے یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ کلام ہو اس کو امام صاحب کا اپنے مسلک کی دلیل بنانا کوئی وزنی بات نہیں ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ حدیث مرسل نہ صرف یہ کہ ہمارے ہی نزدیک بلکہ جمہور علماء کے نزدیک بھی دلیل اور حجت بن سکتی ہے اسی طرح یزید ابن خالد اور یزید بن محمد کے مجہول ہونے میں بھی اختلاف ہے بعض حضرات نے تو انہیں مجھول قرار دیا ہے جیسا کہ دارقطنی فرما رہے ہیں مگر بعض حضرات نے انہیں مجہول نہیں کہا ہے اس سے قطع نظر امام صاحب کی اصل دلیل تو یہ حدیث ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : مَنْ قَاءَ اَوْرَعُفُ اَوْ اَمْذَی فِی صَلٰوتِہ فَلْیَنْصَرِفْ وَلْیَتَوَضَّأ وَلْیَبْنِ عَلَی صَلٰوتِہ مَالَمْ یَتَکَلَّمْ۔ (کذافی الھدایہ) " اگر کسی آدمی نے اپنی نماز میں قے کی یا اس کی نکسیر پھوٹی یا مذی نکلی تو اس کو چاہئے کہ وہ نماز سے نکل کر آئے اور پھر وضو کرے اور جب تک کہ کلام نہ کرے اسی نماز پر بناء کرے۔" نیز ابوداؤد میں بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ پیشاب اور پاخانہ کے مقام کے علاوہ بدن کے کسی دوسرے حصہ سے بھی خون نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
-