نیک اعمال میں زیادتی کے لیے درازی عمر باعث سعادت ہے

وعن أنس قال : دخل النبي على شاب وهو في الموت فقال : " كيف تجدك ؟ " قال : أرجوالله يا رسول الله وإني أخاف ذنوبي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يجتمعان في قلب عبد في مثل هذا الموطن إلا أعطاه الله ما يرجو وآمنه مما يخاف " . رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث غريب-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ جان کنی کا خوف سخت ہے، بیشک یہ نیک بختی ہے کہ بندہ کی عمر دراز ہو اور اللہ تعالیٰ اسے طاعات کی طرف پھیر دے" (احمد) تشریح مطلع اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر چرھ کر کسی چیز کو دیکھتے ہیں یہاں حدیث کے الفاظ میں " مطلع" سے مراد سکرات الموت اور اس کی سختی ہے کہ پہلے انسان اس میں گرفتار ہوتا ہے پھر مرتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کی آرزو میں کوئی فائدہ اور نیک بختی نہیں ہے، جو شخص موت کی آرزو کرتا ہے وہ غم و آلام کی سختی دل شکستگی اور صبر و عزم کی کمی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے لہٰذا مرتے وقت اس کا غم اور اس کی دل شکستگی و مایوسی اور زیادہ ہو گی اور ایسے میں غضب خداوندی کا مستحق بھی ہو گا اس لیے موت کی آرزو سے کیا فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بے صبری اور دل شکستگی و مایوسی کی وجہ سے موت کی آرزو ممنوع ہے ہاں دیدار الٰہی کے اشتیاق و شوق اور عالم آخرت کی محبت کی وجہ سے موت کی آرزو جائز ہے۔ حدیث کے الفاظ ان من السعادۃ سے آرزوئے موت کی ممانعت کی دوسری علت یہ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت تو خود ایک نہ ایک دن آنے ہی والی ہے، دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانو اور اس زندگی میں آخرت کے لیے جو کچھ توشہ تیار کر سکتے ہو کر لو، یعنی نیک اعمال کئے جاؤ تاکہ جب موت آ ہی جائے اور تم اس دنیا سے دارالبقاء کو سدھارو تو تمہارا دامن نیک و صالح اعمال کی سعادت سے بھرپور ہو۔ الدنیا مزرع الآخرۃ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یہاں نیک اعمال کرو گے تو وہاں کام آئیں گے۔
-
عن جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تمنوا الموت فإن هول المطلع شديد وإن من السعادة أن يطول عمر العبد ويرزقه الله عز و جل الإنابة " . رواه أحمد-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پند و نصیحت فرمائی اور (آخرت کا خوف دلا کر) ہمارے دلوں کو نرم کر دیا، چنانچہ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بہت روئے اور پھر کہنے لگے کہ کاش میں بچپن ہی میں مر جاتا (تو گنہگار نہ ہوتا اور عذاب آخرت سے نجات پاتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ " سعد ! کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار کہے اور پھر ارشاد فرمایا " سعد! اگر تم جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہو تو تمہاری عمر جس قدر دراز ہو گی اور جتنے اچھے اعمال ہوں گے اسی قدر تمہارے لیے بہتر ہو گا " (احمد) تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد تو موت کی آرزو کے لیے کوئی وجہ ہو سکتی ہے مگر میرے ہوتے ہوئے موت کی آرزو کیسی؟ کیوں کہ میرے جمال باکمال کا دیدار اور میری صحبت کا شرف عظیم تمہارے لیے ہر نعمت سے بہتر اور اعلیٰ ہے اگرچہ میرے سامنے مرنے کے بعد تمہیں وہاں کے اعلیٰ مراتب اور نعمتیں ہی کیوں نہ حاصل ہوں، اور اس میں کیا شک کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے مقدس اور چہرہ مبارک کے دیدار کے مرتبہ عظیم کو اور کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی۔ ایک مرد عارف سے کسی شخص نے پوچھا کہ مؤمن کے لیے جینا بہتر ہے یا مرنا؟ اس نے عارفانہ جواب دیا " زمانہ نبوت میں جب کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال جہاں کے دیدار کی نعمت عظمیٰ حاصل تھی مومن کے لیے جینا بہتر تھا اور اب ان کے بعد تو مرنا ہی بہتر ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کے بعد دوسری شق ذکر نہیں فرمائی گئی ہے جو گویا یہاں محذوف ہے اور وہ یہ ہے کہ (وان کنت خلقت للنار فلا خیر فی موتک ولا یحسن السراع الیہ) ۔ یعنی اور اگر تم (نعوذ باللہ) آگ کے لیے پیدا کیے گئے ہو تو جب بھی نہ مرنے میں بھلائی ہے اور نہ موت کے لیے جلدی کرنی اچھی بات ہے۔
-