نیکوکار مومن کی تعریف۔

وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال المؤمن غر كريم والفاجر خب لئيم . رواه أحمد والترمذي وأبو داود-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد۔) تشریح غر " کے معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص اسی طرح صراحی وغیرہ میں غر کے معنی ناآزمودہ یا ناتجربہ کار نوجوان کے لکھے ہیں خب کے معنی ہیں وہ شخص جو دھوکہ دینے والا اور چالاک ہو۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکو کار شخص چونکہ طبعا مطیع و فرمانبردار ہونے کی وجہ سے نرم مزاج ، شریف النفس اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لیے وہ ہر فریب کار شخص سے دھوکہ کھا جاتا ہے وہ نہ تو لوگوں کے مکر و فریب سے آگاہ ہوتا ہے اور نہ مکر و فریب کی باتوں اور چالوں کی چھان بین اور دھوکہ بازوں کے احوال کی تحقیق و جستجو کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ وہ جاہل و نادان ہوتا ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس کے مزاج کی نرمی و مروت حلم و کرم، عفو، درگزر کرنے کی عادت اور خوش خلقی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے حدیث کا مطلب اس اسلوب میں بیان کیا ہے کہ نیکوکار شخص چونکہ سلیم القلب اور سادہ لوح ہوتا ہے اس لیے وہ لوگوں کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھتا ہے کسی کے اندر کیا ہے اس کو وہ نہیں دیکھتا جس کے سینے میں کینہ ہوتا ہے اس کو وہ پہچانتا نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص اس کے سامنے جو کچھ کہہ دیتا ہے اس کو مان لیتا ہے اور دھوکہ کھا جاتا ہے ایک بات یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے سامنے آخرت کے معاملات اور نفس کی اصلاح کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور دنیا کے معاملات اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہذا وہ اپنے نفس کی اصلاح اور آخرت کے کاموں میں مشغول رہتا ہے اور دنیا کے کاموں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا اس لیے اگرچہ وہ دنیاوی معاملات میں دھوکہ کھا جاتا ہے مگر آخرت کے معاملات میں ہوشیار اور عقل میں کام ہوتا ہے نیکو کار مومن کی اس حالت کو اگرچہ تعریف کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے مگر اس کے باوجود حضور نے اپنے اس ارشاد لایلدغ المومن من جحر واحد مرتین کے ذریعہ آگاہ بھی فرمایا ہے کہ مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ غفلت اختیار کرے مسلسل دھوکہ کھاتا رہے اور ہوشیاری کے طریقہ کو بالکل ترک کر دے اور بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ لایلدغ المومن ۔ ۔ کے ذریعہ مومن کو جس ہوشیاری و بیداری مغزی کی تلقین کی گئی ہے اس کا تعلق دنیا و آخرت دونوں معاملات سے ہے اگرچہ بعض حضرات نے اس کو صرف اخروی معاملات کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ نیکوکار کے برخلاف فاجر یعنی منافق وغیرہ کی خصلت یہ بیان فرمائی گئی ہے چونکہ دھوکہ دہی اور مکاری اس کی فطرت ہی میں داخل ہوتی ہے ، فتنہ و فساد پھلانا ہی اس کا شیوہ ہوتا ہے اور اس کے نزدیک چشم پوشی ایک بے معنی چیز ہوتی ہے اس لیے وہ جلد دھوکا نہیں کھاتا الا یہ کہ کوئی شخص اس سے بھی بڑا مکار و عیار ہو اور وہ اس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائے تاہم اگر وہ دانستہ دھوکا کھا بھی جاتا ہے تو اس کو برداشت نہیں کرتا بلکہ انتقام لینے کی سعی کرتا ہے۔
-
وعن مكحول قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المؤمنون هينون لينون كالجمل الآنف إن قيد انقاد وإن أنيخ على صخرة استناخ . رواه الترمذي مرسلا-
" اور حضرت مکحول کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ایمان رکھنے والے لوگ بردبار ، نرم خو اور فرمانبردار ہوتے ہیں اس اونٹ کی طرح جس کی ناک میں نکیل میں پڑی ہو کہ اگر اس کو کھینچا جائے تو چلا آئے اور اگر پتھر پر بیٹھایا جائے تو پتھر پر بیٹھ جائے اس حدیث کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مومن طبعا فرمان بردار ہوتا ہے وہ شریعت کا اتباع بلا چوں و چرا کرتا ہے ، خدا اور خدا کے رسول کے احکامات جس طرح ہوتے ہیں ان کو اسی طرح بجا لاتا ہے ان میں اپنی طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں کرتا اور ان احکام کی بجا آوری اور شریعت کی اتباع میں جو مشقت پیش آتی ہے اس کو برضا و رغبت برداشت کرتا ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ اس حدیث میں مسلمانوں کی اس خصوصیت کو بیان کرنا مقصود ہو جو وہ آپس میں ایک دوسرے کی اتباع و فرمانبرداری اور ایک دوسرے کے ساتھ تواضع و انکساری اختیار کرنے اور غرور تکبر کرنے کی صورت میں رکھتے ہیں اور حقیقت میں یہ خصوصیت بھی احکام خداوندی کی اطاعت میں شامل ہے۔
-