نکاح سے پہلے طلاق دینے کا مسئلہ

--
اور حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی مالک ہونے سے پہلے غلام کو آزاد نہیں کیا جاسکتا اور پے درپے کے روزے یعنی رات کو افطارکئے بغیر مسلسل وپہیم روزے رکھے چلے جانا) جائز نہیں ہے (یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے جائز تھا) بالغ ہونے کے بعد کوئی یتیم نہیں رہتا ریعنی جس کے ماں باپ نہ ہوں اور وہ بالغ ہوجائے تو اسے یتیم نہیں کہیں گے ) دودھ پینے کی مدت کے بعد دودھ پینا رضاعت میں شامل نہیں ( یعنی دودھ پینے کی مدت دو سال یا ڈھائی سال ہے اور دودھ پینے کے سبب جو حرمت نکاح ہوتی ہے وہ اس مدت کے بعد دودھ پینے سے ثابت نہیں ہوتی) اور دن بھرچپ رہنا جائز نہیں ہے (یا یہ کہ اس کا کوئی ثواب نہیں ہے) شرح السنۃ۔ تشریح : اس روایت میں چند اصولی باتوں کو ذکر کیا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے ہی طلاق دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق دراصل نکاح کا جزء ہے کہ اگر نکاح کا وجود پایا جائے گا تو اس پر طلاق کا اثر بھی مرتب ہوگا اور جب سرے سے نکاح ہی نہیں ہوگا تو طلا ق کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔ اسی طرح فرمایا گیا کہ غلام جب تک اپنی ملکیت میں نہ آجائے اس کو آزاد کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے، اگر کوئی شخص کسی ایسے غلام کو آزاد کردے جس کا وہ ابھی تک مالک نہیں بنا ہے تو وہ غلام آزاد نہیں ہوگا اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی اور امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے طلاق کی اضافت سبب ملک کی طرف کرے تو درست ہے مثلا زید کسی اجنبی عورت سے یوں کہے کہ اگر میں تم سے نکاح کروں تو تم پر طلاق ہے یا یہ کہے کہ میں جس عورت سے بھ] نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو اس صورت میں اگر زید اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کے وقت اس پر طلاق پڑجائیگی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص آزادی کی اضافت ملک کی طرف کرے مثلا یوں کہے کہ اگر میں اس غلام کا مالک بنوں تو یہ آزاد ہے یا یہ کہے کہ میں جس غلام کا مالک بنوں وہ آزاد ہے تو اس صورت میں وہ غلام اس شخص کی ملکیت میں آتے ہی آزاد ہوجائگا۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک نفی تنجیز پر محمول ہے یعنی اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طلاق کا کبھی بھی کوئی اثرمرتب نہیں ہوتا بلکہ اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ جس لمحہ اس نے طلاق دی ہے اس لمحہ طلاق نہیں پقینا اس طرح اس حدیث سے طلاق کی تعلیق کی نفی نہیں ہوتی۔ ایک بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دن بھر چپ رہنا ناجائز یا لاحاصل ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں چپ رہنا عبادت کے زمرہ میں آتا تھا ۔ اور دن بھرچپ رہنا تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھاجاتا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ہماری امت میں یہ درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کچھ ثواب حاصل نہیں ہوتا ہاں اپنی زبان کو لایعنی کلام اور بری باتوں میں مشغولیت کے بجائے یقینا یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی زبان کو ہروقت خاموش رکھاجائے۔
-
--
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبداللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن آدم کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہوتی جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز یعنی لونڈی وغلام کو آزاد کرنا بھی صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز عورت کو طلاق دینا بھی درست نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے (ترمذی ابوداؤد) اور ابوداؤد نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں ک اس چیز کو فروخت کرنا بھی صحیح نہیں جس کی فروختگی کا معاملہ کرنے کا وہ اصالۃ یا وکالۃ یا دلایۃ مالک نہیں ہے۔ تشریح : نذرصحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی خوشنودی کے لئے اس غلام کو آزاد کرنے کی نذر مانتاہوں اور حالانکہ یہ نذر ماننے کے وقت وہ غلام اس کی ملکیت میں نہیں تھا تو یہ صحیح نذر نہیں ہوگی اور اگر اس کے بعد وہ اس غلام کا مالک ہوگیا تو وہ غلام آزاد نہیں ہوگا۔ طلاق اور آزاد کرنے کے سلسلے میں اوپر کی حدیث کی تشریح میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
-