نوحہ کی برائی

وعن أبي مالك الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أربع في أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن : الفخر في الأحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة " . وقال : " النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب " . رواه مسلم-
حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ (١) حسب پر فخر کرنا، (٢) نسب پر طعن کرنا (٣) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (٤) نوحہ کرنا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر قطران اور خارش کا کرتا ہو گا۔ (مسلم) تشریح " حسب" ان خصلتوں کو کہتے ہیں جو اگر کسی مسلمان کے اندر موجود ہوں تو وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے اپنے کو بہتر و اچھا سمجھتا ہے جیسے شجاعت و بہادری اور فصاحت وغیرہ۔ " نسب پر طعن کرنے" کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے نسب میں اس طرح عیب جوئی کی جائے کہ فلاں شخص کا باپ برا تھا اور فلاں شخص کا دادا کمتر تھا۔ چونکہ حسب پر فخر کرنے اور نسب پر طعن کرنے کی وجہ سے اپنی تعظیم و بڑائی اور دوسرے لوگوں کی حقارت لازم آتی ہے اس لیے یہ دونوں چیزیں ہی مذموم ہیں ہاں اسلام و کفر کے امتیاز کی بناء پر ان دونوں میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یعنی اگر کوئی مسلمان اپنے ایمان و اسلام کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ اور بڑا جانے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی وجہ سے حقیر و کمتر سمجھے تو یہ جائز ہے۔ " ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنے" سے مراد یہ ہے کہ ستاروں کی تاثیر پر بارش کی امید رکھنا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اگر فلاں ستارہ منزل میں داخل ہو جائے تو بارش ہو گی۔ اس بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ اعتقاد رکھنا کہ فلاں ستارے کے فلاں منزل میں داخل ہونے کی وجہ سے بارش ہو گی، حرام ہے بلکہ جب بارش ہو تو یہ کہنا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بارش سے سیراب کیا ہے۔ " نوحہ کرنے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس پر واویلا کیا جائے اور میت کی اچھی خصلتیں رو رو کر اس طرح بیان کی جائے کہ ہائے وہ کتنا بہادر تھا، ہائے وہ ایسا تھا ہائے وہ ویسا تھا۔ " قطران" کولتار کی مانند ایک دوا کا نام ہے جو سیاہ اور بدبو دار ہوتی ہے اور " ابہل" درخت سے کہ جو ہوبر بھی کہا جاتا ہے نکلتی ہے اس اونٹ کے جسم پر ملتے ہیں جسے خارش ہو جاتی ہے چونکہ اس کے اندر حرارت اور گرمی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اونٹ کی خارش کو جلا دیتی ہے اس کا ایک خاص اثر یہ بھی ہے کہ آگ کا اثر بہت جلد قبول کرتی ہے اور جلدی ہی بھڑک اٹھتی ہے۔ ارشاد گرامی کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ نوحہ کرنے والی عورت اپنے برے فعل سے توبہ کیے بغیر مر گئی تو قیامت کے روز اس کے جسم پر خارش مسلمط کی جائے گی پھر اس پر قطران ملی جائے گی تاکہ اس کی خارش میں اور زیادہ سوزش وجلن پیدا ہو اور وہ زیادہ ایذاء پائے۔
-
وعن أنس قال : مر النبي صلى الله عليه و سلم بامرأة تبكي عند قبر فقال : " اتقي الله واصبري " قالت : إليك عني فأنك لم تصب بمصيبتي ولم تعرفه فقيل لها : إنه النبي صلى الله عليه و سلم . فأتت باب النبي صلى الله عليه و سلم فلم تجد عنده بوابين فقالت : لم أعرفك . فقال : " إنما الصبر عند الصدمة الأولى "-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب چلا چلا کر رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کے عذاب سے ڈرو! یعنی نوحہ نہ کرو ورنہ عذاب میں مبتلا کی جاؤ گی۔ اور صبر کرو! اس عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا نہیں آپ کا ارشاد سن کر کہنے لگی کہ میرے پاس سے دور ہٹو، تم میرا غم کیا جانو کیونکہ تم میری مصیبت میں گرفتار نہیں ہوئے ہو۔ (جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے آئے) تو اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے (پھر کیا تھا) وہ (بھاگی ہوئی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دردولت پر حاضر ہوئی اسے دروازہ پر کوئی دربان و پہرہ دار نہیں ملا (جیسا کہ بادشاہوں اور امیروں کے دروازوں پر دربان و پہرہ دار ہوتے ہیں (پھر اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میری گستاخی معاف فرمائیے) میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ صبر تو وہی کہلائے گا جو ابتداء مصیبت میں ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح کتنا سچ اور مبنی برحقیقت ہے کہ جو بات کہی جا رہی ہے اسے دیکھو نہ دیکھو کہ بات کہنے والا کون ہے؟ اس قول پر عمل نہ صرف یہ کہ سچائی اور نیکی کی راہیں روشن کرتا چلا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات خجالت و شرمندی سے بچاتا بھی ہے۔ اسی واقعہ پر نظر ڈالیے ایک عورت ایک غلط کام کر رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے نیکی و بھلائی کے راستہ پر لگانے کے لیے کچ ارشاد فرما رہے ہیں وہ عورت اتفاق سے آپ کو پہچانتی نہیں نہ صرف یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے اعراض کرتی ہے بلکہ ایک غلط جواب بھی دیتی ہے جب بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے وہ قیمتی بات کہنے والا کوئی ایرا خیرا نہیں تھا بلکہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی تو اب اسے احساس ہوتا ہے کہ واقعی میں غلطی میں مبتلا تھی پشیمان ہو کر بھاگی ہو در رسالت پر حاضر ہوتی ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہے۔ اب دیکھیے اگر وہ اس عارفانہ قول کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانے بغیر آپ کے ارشاد گرامی کے سامنے سر اطاعت خم کر دیتی تو نہ صرف یہ کہ نیکی و بھلائی کے راستہ کو اسی وقت پا لیتی بلکہ بعد کی خجالت و شرمندگی سے بھی بچ جاتی۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ کامل اور پسندیدہ صبر کہ جس پر ثواب ملتا ہے وہی ہوتا ہے جو ایذاء و مصیبت میں کیا جائے ورنہ آخر میں تو خود بخود صبر آ جاتا ہے بعد میں کسی نے صبر کیا تو کیا صبر کیا؟۔
-