نماز کے بعد کی دعا

وَعَنِ الْبَرَآءِ قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّےْنَا خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَحْبَبْنَا اَنْ نَکُوْنَ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ ےُقْبِلُ عَلَےْنَا بِوَجْھِہٖ قَالَ فَسَمِعْتُہُ ےَقُوْلُ رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ ےَوْمَ تَبْعَثُ اَوْ تَجْمَعُ عِبَادَکَ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو اسے پسند کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سلام کے وقت سب سے پہلے) ہماری طرف متوجہ ہوں، برا فرماتے ہیں کہ " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام کے بعد دعا کے طور پر) یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک اے پروردگار ۔ مجھے اپنے عذاب سے بچا اس روز جب کہ تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا یا جمع کرے گا۔" (صحیح مسلم) تشریح یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا ازراہ تواضع اور انکساری فرماتے ہوں گے یا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد امت کو تعلیم دینا تھا کہ لوگ نماز کے بعد اس دعا کو پڑھا کریں۔ " تبعث" اور تجمع" میں راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو 'یوم تبعث" فرمایا ہے یا " یوم تجمع" فرمایا ہے ۔ بہر حال اس دعا کو ان دونوں الفاظ کے ساتھ کسی بھی ایک لفظ کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔
-
وَعَنْ مُعَاذِبْنِ جَبَلٍ قَالَ اَخَذَ بِیَدِی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنِّیْ لَا حِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَاَنَا اَحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ فَلَا تَدْعُ اَنْ تَقُوْلَ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَالنِّسَائِیُّ اِلَّا اَنَّ اَبَادَاؤلَمْ یَذْکُرْ قَالَ مُعَاذٌ وَ اَنَا اُحِبُّکَ۔-
'حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر فرمایا کہ : معاذ! میں تمہیں دوست رکھتا ہوں۔ " میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوست رکھتا ہوں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (جب تم مجھے دوست رکھتے ہو تو) کسی بھی نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا ترک نہ کرو رب اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک " اے پروردگار! تو اپنے ذکر، اپنے شکر اور اپنی اچھی عبادت میں میری مدد کر!۔" اس روایت کو احمد، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی نے نقل کیا ہے مگر سنن ابوداؤد نے معاذ کے یہ الفاظ وانا احبک نقل نہیں کیے ہیں۔" تشریح " اچھی عبادت " کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی عبادت ہو خواہ بدنی ہو یا مالی، پورے کمال اور حضور قلب کی اس کیفیت کے ساتھ کی جائے گویا کہ عبادت کرنے والا اللہ جل شانہ، کو دیکھ رہا ہے اور اس کی عبادت کر رہا ہے۔ کتاب الایمان کی بھی ایک حدیث میں " اچھی عبات" کا یہی مطلب بیان کیا گیا ہے وہاں اس کی وضاحت اچھی طرح کی جا چکی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی کو دوست رکھتا ہے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنی دوستی اور محبت کا اظہار اس سے کر دے۔ یہ حدیث اس فعل و قول (اخذ بیدی و یقول انا احبک ) کے ساتھ مسلسل ہے ۔ اس اصطلاح کی تعریف علماء و محدثین بخوبی سمجھتے ہیں چونکہ عوام سے اس کا تعلق نہیں ہے اس لیے ان کے سامنے اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
-