TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان۔
نماز کے اوقات کا بیان
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقْتُ الظُّہْرِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُوْلِہٖ مَالَمْ ےَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَالَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ مَالَمْ ےَغِبِ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الْعِشَآءِ اِلٰی نِصْفِ الَّےْلِ الْاَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوْعِ الْفَجْرِ مَالَمْ تَطْلُعِ الشَّمْسُ فَاِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَاَمْسِکْ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَاِنَّھَا تَطْلُعُ بَےْنَ قَرْنَیِ الشَّےْطَانِ۔(صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ظہر کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے اور اس کا آخری وقت جب تک ہے کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر ہو جائے عصر کے آنے کے وقت تک۔ اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہو جائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہو جائے اور نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اور جب سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح اس سے پہلے کہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے نماز کے اوقات کے بارے میں عرض کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اصطلاحی الفاظ کے معنی بیان کر دے جائیں جن کو سمجھنے کے بعد مقصد تک پہنچے میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔ زوال۔۔۔ آفتاب کے ڈھلنے کو کہتے جسے ہماری عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے۔ سایہ اصلی۔۔۔ اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال کے وقت باقی رہتا ہے۔ یہ سایہ ہر شہر کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی جگہ بڑا ہوتا ہے ، کسی جگہ چھوٹا ہوتا ہے اور کہیں بالکل نہیں ہوتا ، جیسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں۔ زوال اور سایہ اصلی کے پہچاننے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ ایک سیدھی لکڑی ہموار زمین پر گاڑی جائے اور جہاں تک اس کا سایہ پہنچے اس مقام پر ایک نشان بنا دیا جائے پھر دیکھا جائے کہ وہ سایہ اس نشان کے آگے بڑھتا ہے یا پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر آگے بڑھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی زوال نہیں ہو اور اگر پیچھے ہٹے تو زوال ہو گیا۔ اگر یکساں رہے نہ پیچھے ہٹے نہ آگے بڑھے تو ٹھیک دوپہر کا وقت ہے اس کو استواء کہتے ہیں۔ ایک مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے۔ دو مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہو جائے۔ ان اصطلاحی تعریفات کو سمجھنے کے بعد اب حدیث کی طرف آئیے : سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے پہلے ظہر کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وقت نماز کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی نماز پڑھائی تھی، یہی وجہ ہے کہ نماز ظہر کی نماز کو پیشین کہا جاتا ہے۔ نماز ظہر کا اول وقت اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب کہ آسمان کہ درمیان آفتاب مغرب کی طرف تھوڑا سامائل ہوتا ہے جس کو زوال کہتے ہیں اور اس کا آخری وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر علاوہ سایہ اصلی کے ہو جاتا ہے۔ سایہ اصلی کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ وہ سایہ ہوتا ہے جو زوال کے وقت ہوتا ہے یعنی اکثر مقامات پر جب کہ آفتاب سمت راس پر نہیں آتا وہاں ٹھیک دوپہر کے وقت ہر چیز کا تھوڑا سا سایہ ہوتا ہے اس سائے کو چھوڑ کر جب تک کسی چیز کے طول کے برابر سایہ رہے گا ظہر کا وقت باقی رہے گا۔ مالم یحضر العصر (عصر کا وقت آنے تک) یہ جملہ دراصل پہلے جملہ کی تاکید ہے کیونکہ جب ایک مثل تک سایہ پہنچ گیا تو وقت ظہر ختم ہو گیا۔ اور عصر کا وقت شروع ہو گیا چونکہ اس جملے کا مطلب پہلے ہی جملے سے ادا ہو گیا تھا اس لیے یہی کہا جائے گا کہ یہ جملہ پہلے جملے کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے ہاں اتنی بات اور کہی جا سکتی ہے کہ یہ جملہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان وقت مشترک نہیں ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔ عصر کے وقت کی ابتداء تو معلوم ہوگئی کہ جب ظہر کا وقت ختم ہو جائے گا عصر کا وقت شروع ہو جائے گا۔ آخری وقت کی بات یہ ہے کہ جب تک آفتاب زرد نہیں ہو جاتا عصر کا وقت بلا کراہیت باقی رہتا ہے چنانچہ حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے۔ البتہ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک وقت جو از باقی رہتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفتاب کی زردی سے کیا مراد ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ آفتاب کے زرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اتنا بدل جائے کہ اس کی طرف نظر اٹھانے سے آنکھوں میں خیرگی نہ ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کی جو شعاعیں دیوار وغیرہ پڑتی ہیں اس میں تغیر ہو جائے۔ لگے ہاتھوں اتنی بات اور جانتے چلئے کہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نیز حضرت امام زفر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک باقی رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل تک رہتا ہے۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا تعلق ہے تو ایک روایت کے مطابق ان کا بھی وہی مسلک ہے جو جمہور علماء کا ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ امام اعظم کا فتویٰ بھی اسی مسلک پر ہے۔ چنانچہ درمختار میں بہت سی کتابوں کے حوالوں سے اسی مسلک کو ترجیح دی گئی ہے ۔ مگر ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ان کے دلائل ہدایہ وغیر میں مذکور ہیں۔ بہر حال علماء نے اس سلسلہ میں ایک صاف اور سیدھی راہ نکالی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ ظہر کی نماز تو ایک مثل کے اندر اندر پڑھ لی جاے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہو جائیں۔ مغرب کا وقت آفتاب چھپنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شفق غائب ہو جانے کے وقت ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو آفتاب چھپنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے چنانچہ اہل لغت کا کہنا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم اور علماء کی ایک دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ شفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی ختم ہونے کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ اہل لغت و دیگر ائمہ کے قول کے مطابق حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہ ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے چنانچہ شرح وقایہ میں فتوی اسی قول پر مذکور ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مغرب کی نماز تو سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی جائے اور عشاء کی نماز سفیدی غائب ہونے کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوں۔ عشاء کے بارے میں مختار مسلک اور فیصلہ یہ ہے کہ اس کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک آدھی رات تک بلا کراہت باقی رہتا ہے البتہ وقت جو طلوع فجر سے پہلے تک رہتا ہے۔ فجر کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے۔ بظاہر تو حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلوع صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک تمام وقت نماز فجر کے لیے مختار ہے مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت مختار اسفار تک ہے اس کے بعد وقت جواز رہتا ہے۔ نماز کے اوقات کی تفصیل جان لینے کے بعد اب حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ " جب کہ سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج نکلنے کی جگہ شیطان کے دونوں سینگ ہیں کہ سورج اس کے اندر سے طلوع ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب خود ایک روایت نے بتا دیا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت شیطان آفتاب کے سامنے آکر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سر آفتاب کے نزدیک کر لیتا ہے اسی طرح غروب آفتاب کے وقت کرتا ہے اس کے اس طرزِ عمل کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ان کفار کے اس طرز عمل کے ذریعہ وہ اپنا گمان یہ رکھتا ہے کہ لوگ میری عبادت کر رہے ہیں اسی طرح وہ اپنے تابعداروں کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ یہ لوگ آفتاب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت میری عبادت کر رہے ہیں اور میرے سامنے ماتھے ٹیکتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز نہ پڑھا کریں تاکہ مسلمانوں کی عبادت شیطان کو پوجنے والوں کی عبادت کے اوقات میں نہ ہو۔
-
وَعَنْ بُرَےْدَۃَص قَالَ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ وَقْتِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ لَہُ صَلِّ مَعَنَا ھٰذَےْنِ ےَعْنِی الْےَوْمَےْنِ فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ اَمَرَ بِلَالًا فَاَذَّنَ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الظُّہْرَ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَےْضَآءُ نَقِےَّۃٌ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْمَغْرِبَ حِےْنَ غَابَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْعِشَآءَ حِےْنَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ اَمَرَہُ فَاَقَامَ الْفَجْرَ حِےْنَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَلَمَّا اَنْ کَانَ الْےَوْمُ الثَّانِیْ اَمَرَہُ فَاَبْرِدْ بِالظُّہْرِ فَاَبْرَدَبِھَا فَاَنْعَمَ اَنْ ےُبْرِدَ بِھَا وَصَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌاَخَّرَھَا فَوْقَ الَّذِیْ کَانَ وَصَلَّی الْمَغْرِبَ قَبْلَ اَنْ ےَّغِےْبَ الشَّفَقُ وَصَلَّی الْعِشَآءَ بَعْدَ مَا ذَھَبَ ثُلُثُ الَّلےْلِ وَصَلَّی الْفَجْرَ فَاَسْفَرَبھِاَ ثُمَّ قَالَ اَےْنَ السَّآئِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ الرَّجُلُ اَنَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَقْتُ صَلٰوتِکُمْ بَےْنَ مَا رَأَےْتُمْ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کا وقت دریافت کیا (کہ نماز کا اوّل و آخر وقت کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ دنوں میں تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تاکہ میں تمہیں نماز کے اوقات دکھا دوں) چنانچہ جب سورج ڈھل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اذان کا) حکم دیا ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (تکبیر کہنے کا، حکم دیا، انہوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج بلند اور سفید و صاف تھا (اور عصر کی نماز پڑھائی ، پھر مغرب کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج غروب ہی ہوا تھا ، (اور مغرب کی نماز پڑھائی) پھر عشاء کی اقامت کا حکم دیا جب کہ شفق غائب ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی) پھر فجر نمودار ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازیں اوّل وقت پڑھا کر دکھا دیں کہ نمازں کا اول وقت یہ ہے) پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظہر کو ٹھنڈا کر کے اذان دینے کا حکم دیا اور خوب ٹھنڈا کر کہ ظہر کی نماز کو پڑھایا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا لیکن کل کے وقت سے دیر کر کے نماز پڑھائی اور مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے (یعنی شفق غائب ہونے کے قریب) پڑھائی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی اور فجر کی نماز خوب روشنی ہو جانے پر پڑھائی اور اس کے بعد فرمایا نماز کے اوقات دریافت کرنے والا آدمی کہاں ہے؟ اس آدمی نے سامنے (آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہاری نماز کے اوقات ان اوقات کے درمیان ہیں جو تم ان دنوں میں) دیکھ چکے ہو۔" (صحیح مسلم) تشریح سائل کا مطلب یہ تھا کہ نمازوں کے اوقات کے سلسلہ میں یہ بتا دیا جائے کہ نماز کا اوّل وقت کیا ہوتا ہے اور آخر وقت کون سا ہوتا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نمازوں کے اوقات کو زبانی سمجھانے سے زیادہ بہتر یہ سمجھا کہ اسے عملی طور پر دیکھا جائے تاکہ اوقات اس کے ذہن نشین ہو سکیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کا اوّل و آخر دونوں وقت بتانے کے لیے پہلے دن تو نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھیں۔ حدیث میں پہلے ظہر کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اذان دی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی۔ اس کے بعد عصر کا ذکر کیا گیا ہے لیکن نہ تو عصر کی نماز کا وقت ذکر کیا گیا ہے اور نہ عصر ہی اور نہ اس کے بعد کی اذانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معروف ہے۔ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا یعنی پہلے روز کے مقابلے میں دوسرے دن ظہر کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھی کہ گرمی کی شدت اور تپش کی سختی جاتی رہی تھی۔ عصر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روز کی تاخیر کے مقابلے میں زیادہ تاخیر سے یعنی دو مثلین کے بعد پڑھائی لیکن پہلے روز کی تاخیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عصر کی نماز میں پہلے روز تاخیر کی گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ظہر سے تاخیر کی گئی تھی۔ دوسرے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نمازوں کو تاخیر سے یعنی ان کے آخری اوقات میں ادا کیا جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو آخر وقت تک موخر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو اس کے آخر وقت مختار یعنی آدھی رات تک موخر کرتے تو اس سے لوگوں کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سو رہتے تو مناسب نہ ہوتا کیونکہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ان دو دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھ کر یہ دیکھ لیا ہے کہ نمازوں کا اوّل وقت کیا ہے اور آخری وقت کیا ہے لہٰذا شروع سے لے کر آخر تک اوّل وقت بھی ہے اور اوسط بھی اور آخر وقت بھی ہے لہٰذا اس کے درمیان تم جب چاہو نماز پڑھ سکتے ہو۔ آخر وقت سے مراد وقت مختار ہے نہ کہ وقت جواز ۔ اس لیے کہ نمازوں کے جو آخری وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔ ان کے بعد بھی نماز کا وقت باقی رہتا ہے تاہم وہ وقت جواز ہوتا ہے وقت مختار نہیں ہوتا۔
-
عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَّنِیْ جِبْرِیْلُ عِنْدَالْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ فَصَلّٰی بِیَ الظُّھْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَ کَانَتْ قَدْرَ الشِّرَاکِ وَصَلّٰی بِیَ الْعَصْرَحِیْنَ صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلُہُ وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ اَفْطَرَ الصَّائِمُ وَصَلّٰی بِیَ الْعِشَآءَ حِیْنَ غَابَ الشَّفَقُ وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ حِیْنَ حَرُمَ الطَّعَامُ وَالشَّرَابُ عَلَی الصَّائِمِ فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ صَلَّی بِیَ الظُّھْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُہ، مِثْلُہ، وَصَلَّی بِیَ الْعَصْرَ حِیْنَ کَانَ ظِلُّہ، مِثْلَیْہِ وَصَلَّی بِیَ الْمَغْرِبَ حِیْنَ اَفْطَرَ الصَّائِمُ وَصَلَّی بِیَ الْعِشَاءِ اِلٰی ثُلُثِ الَّیْلِ وَصَلَّی بِیَ الْفَجْرَ فَاَسْفَرَ ثُمَّ الْتَفَتَ اِلَیَّ فَقَالَ یَا مُحَمَّد ھٰذَا وَقْتُ الْاَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِکَ وَالْوَقْتُ مَا بَیْنَ ھٰذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے (نماز کی کیفیت اور اوقات بتانے کے لیے) امام بن کر خانہ کعبہ کے نزدیک مجھے دو مرتبہ (دو روز) نماز پڑھائی چنانچہ (پہلے روز جس وقت سورج ڈھل گیا اور سایہ تسمے کے مانند تھا تو مجھے ظہر کی نماز پڑھائی اور جب ہر چیز کا سایہ (علاوہ سایہ اصلی کے) اس کے برابر ہو گیا تو مجھے عصر کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار روز افطار کرتا ہے (یعنی سورج چھپنے کے بعد) تو مجھے مغرب کی نماز پڑھائی اور شفق غائب ہونے کے وقت مجھے عشاء کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار کے لیے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے (یعنی صبح صادق کے بعد) تو مجھے فجر کی نماز پڑھائی۔ اور جب اگلا روز ہوا تو انہوں نے مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سایہ ایک مثل( کے قریب ہوگیا اور مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جاتا ہے اور مجھے مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ تہائی رات ہوگئی تھی اور مجھے فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ خوب روشنی ہوگئی اور پھر (جبریل علیہ السلام نے) میری طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! یہ وقت آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے کے نبیوں (کی نماز) کا ہے اور نماز انہیں دو وقتوں کے درمیان ہے۔" (ابوداؤد ، جامع ترمذی ) تشریح جگہ اور وقت کے اعتبار سے سایہ اصلی مختلف ہوتا ہے چنانچہ بعض جگہ تو سایہ زیادہ ہوتا ہے اور بعض جگہ کم ہوتا ہے اور بعض وقت سایہ اصلی ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مکہ معظمہ میں انیسویں سرطان کو سایہ اصلی نہیں ہوتا ۔ اس لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روز کی نماز طہر کی وقت کے بارے میں فرمایا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے دن مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ان دنوں میں مکہ معظمہ میں سایۂ اصلی جوتوں کے تسموں کی چوڑائی کے برابر تھا گویا وہ ظہر کا اوّل وقت تھا۔
-
عَنِ ابْنِ شِھَابٍ اَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِےْزِ اَخَّرَ الْعَصْرَ شَےْئًا فَقَالَ لَہُ عُرْوَۃُ اَمَا اِنَّ جِبْرَئِےْلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلّٰی اَمَامَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ عُمَرُ اِعْلَمْ مَا تَقُوْلُ ےَا عُرْوَۃُ فَقَالَ سَمِعْتُ بَشِےْرَ بْنَ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ ےَّقُوْلُ سَمِعْتُ اَبَا مَسْعُوْدٍ ےَّقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقُوْلُ نَزَلَ جِبْرَئِےْلُ فَاَمَّنِیْ فَصَلَّےْتُ مَعَہُ ثُمَّ صَلَّےْتُ مَعَہُ ثُمَّ صَلَّےْتُ مَعَہُ ثُمَّ صَلَّےْتُ مَعَہُ ثُمَّ صَلَّےْتُ مَعَہُ ےَحْسِبُ بِاَصَابِعِہٖ خَمْسَ صَلَوٰتٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابن شہاب ( اسم گرامی محمد بن عبداللہ بن شہاب ہے زہری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آپ کی وفات ماہ رمضان ١٢٤ھ میں ہوئی آپ جلیل القدر تابعی تھے۔ ) راوی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے (ایک روز) عصر کی نماز (وقت مختار سے کچھ) تاخیر کر کے پڑھی حضرت عروہ نے (جب یہ دیکھا تو) کہا کہ سمجھ لیجئے!حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر (اوّل وقت) نماز پڑھائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، عروہ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو؟ عروہ نے کہا، میں نے حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت بشیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آکر میرے امام بنے اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، (راوی فرماتے ہیں کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازیں انگلیوں پر گن کر بتائیں۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت عروہ کا یہ مقصد تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ یاد دلائیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی امامت کے بارے میں جو حدیث وارد ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن اول وقت نمازیں پڑھائی تھیں تو اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کو اوّل وقت پڑھنا افضل ہے اس لیے آپ علیہ الرحمۃ نے اس وقت نماز میں تاخیر کر کے (اگرچہ یہ تاخیر زیادہ نہیں تھی ) فضیلت کی سعادت کو کیوں ترک کیا؟۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں جو یہ کہا کہ، عروہ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو؟ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بیان کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ اہم اور عظیم چیز ہے حدیث کو بیان کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نیز حدیث کو بغیر سند کے بیان نہ کرنا چاہئے اس لیے سوچ سمجھ کر حدیث بیان کرو اور اس کی سند کے ساتھ بیان کرو۔ حضرت عروہ کی جلالت شان اور رفعت علم و فضل کا گو تقاضا تو یہ تھا کہ ان سے اس قسم کی بات نہ کہی جاتی مگر چونکہ روایت حدیث کی عظمت شان پیش نظر تھی اس لیے انہیں اس طرف توجہ دلائی گئی اور پھر عروہ نے بھی روایت حدیث کی اسی عظمت کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توجہ دلانے کو نہ صرف یہ کہ اپنے علم و فضل کے منافی نہ سمجھا بلکہ اسے خیر و برکت کا باعث جان کر اس پر متنبہ ہوئے اور حدیث کی پوری سند یوں بیان کر کے اپنی قوت حفظ و ذہانت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اس کی صداقت کا میں یقینی علم رکھتا ہوں کیونکہ یہ وہ روایت ہے جس کو میں نے بشیر سے سنا ہے اور انہوں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مقدس سے سنا ہے۔ اس حدیث میں راوی نے نماز کے اوقات تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب کو چونکہ اوقات کی پوری تفصیل معلوم تھی اس لیے یہاں تو صرف صورت واقعہ بیان کئے گئے ہیں ہاں دوسری روایات میں اوقات کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔
-
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَنَّہ، کَتَبَ اِلٰی عُمَالِہٖ اَنَّ اَھَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلَاۃُ مَنْ حَفِظَھَا وَ حَافَظَ عَلَیْھَا حَفِظَ دِیْنَہ، وَمَنْ ضَیَّعَھَا فَھُوَ لِمَا سِوَاھَا اَضْیَعُ ثُمَّ کَتَبَ اَنْ صَلُّو ا الظُّھْرَ اِذَا کَانَ الْفَیْئُ ذِرَاعًا اِلٰی اَنْ یَکُوْنَ ظِلُّ اَحَدِ کُمْ مِثْلَہُ وَالْعَصْرُ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَاءُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فَرْسَخَیْنِ اَوْثَلَاثَۃً قَبْلَ مَغِیْبِ الشَّمْسِ وَالْمَغْرِبَ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ وَالعِشَاءَ اِذَا غَابَ الشَّفَقُ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَیْنُہ، وَالصُّبْحَ وَالنُّجُوْمُ بَادِیَۃٌ مُشْتَبِکَۃٌ۔ (رواہ موطا امام مالک)-
" اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے عاملوں (یعنی اسلامی سلطنت کے حکام) کے پاس یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ تمہارے سب کاموں میں مہتم بالشان کام میرے نزدیک نماز کا پڑھنا ہے لہٰذا جس نے اس کی محافظت کی (یعنی ارکان و شرائط کے ساتھ نماز پڑھی، اور اس پر نگہبانی رکھی (یعنی اسے ہمیشہ اداء کرتا رہا اور ریاء و نمائش کے سبب اسے باطل نہ کیا) تو گویا اس نے اپنے دین (کے بقیہ امور کی نگہبانی و محافظت کی اور جس نے اسے ضائع کر دیا تو وہ اس چیز کو جو نماز کے علاوہ ہے بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ پھر یہ لکھا کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے سے لے کر ایک مثل سایہ تک (علاوہ سایہ اصلی کے) پڑھا کرو اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھا کرو کہ سورج اونچا اور سفید رہے اور سورج ڈوبنے میں) اتنا وقت رہے کہ کوئی سوار سورج ڈوبنے سے پہلے دو یا تین میل کا سفر طے کر سکے اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھا کرو اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے کے وقت سے تہائی رات تک پڑھا کرو اور جو آدمی (عشاء سے پہلے ) سو جائے (تو اللہ کرے) ان کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ ہو (تین مرتبہ یہ دعا کی اور لکھا ہے کہ) صبح کی نماز ایسے وقت پڑھو جب کہ ستارے گنجان چمکتے ہوئے ہوں (یعنی تاریکی میں پڑھو۔" (مالک) تشریح چونکہ نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے نیز یہی وہ عبادت ہے جو برائیوں سے روکتی اور بھلائی و سعادت کے راستہ پر لگاتی ہے اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس نے نماز کی محافظت کی گویا اس نے دین کے تمام امور کی محافظت کی۔ اسی طرح فرمایا کہ جس نے نماز کو ضائع کیا یعنی نماز یا تو بالکل پڑھی ہی نہیں اور اگر پڑھی تو شرائط و واجبات کا قطعًا لحاظ نہ کیا تو وہ نماز کے علاوہ دیگر واجبات و مستحبات اور دینی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے کیونکہ نماز ہی عبادات کی اصل ہے جب اس نے اسی کا خیال نہ رکھا تو اس سے دوسرے امور دین کے خیال رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے کے وقت یعنی اس کے فورا بعد (کہ وہ ظہر کا اول وقت ہوگا) پڑھو۔ ان مقامات کے لیے ہے جہاں سایہ اصلی اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سایہ اصلی مقامات اور وقت کے اعتبار سے ہوتا ہے کہ کہیں تو زیادہ ہوتا ہے اور کہیں کم ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء سے پہلے سونے والے کے بارے میں تین مرتبہ بد دعا تاکید و تہدید کے لیے فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عشاء سے پہلے نماز پڑھے بغیر جو آدمی سو جائے اللہ اس کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ کرے وہ بے آرامی و بے قراری میں مبتلا رہے۔ چنانچہ حضرت ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا حرام ہے مگر حنفیہ کے نزدیک یہ حکم تفصیل پر محمول ہے یعنی اگر کوئی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے سوئے اور اسے اس بات کا گمان بھی ہو کہ میں نماز کے آخر وقت تک سوتا ہی رہوں گا تو اس کے لیے یہ سونا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر اسے اپنے اوپر کامل اعتماد ہو کہ میں بغیر جگائے ایسے وقت اٹھ جاؤں گا کہ وقت کے اندر اندر پوری نماز پڑھ لوں گا تو اس کے لیے سونا جائز ہوگا۔ مذکورہ بالا حکم وقت شروع ہو جانے کے بعد سونے کے سلسلہ میں ہے لیکن وقت شروع ہونے سے پہلے سونے کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بھی وہی پہلی تفصیل کی جائے گی۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وقت شروع ہونے سے پہلے سو جانا مطلق حرام نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی آدمی وقت شروع ہونے سے پہلے نماز کے لیے مکلف نہیں ہوتا۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ کَانَ قَدْ رُصَلَاۃِ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الظُّھْرَ فِی الصَّیْفِ ثَلَاثَۃَ اَقْدَامٍ اِلٰی خَمْسَۃِ اَقْدَامٍ وَفِی الشِّتَاءِ خَمْسَۃ اَقْدَامٍ اِلٰی سَبْعَۃٍ اَقْدَامٍ۔ (رواہ ابوداؤدوالنسائی )-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ظہر کا اندازہ گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑوں میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا۔" (ابوداؤد ، سنن نسائی) تشریح دونوں موسم میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سردی کے موسم میں سایہ اصلی زیادہ ہوتا ہے اور گرمی کے موسم میں سایہ اصلی کم ہوتا ہے خصوصاً حرمین میں ورنہ یہ دونوں وقت برابر ہیں یہ حدیث بہر صورت زوال کے بعد ظہر کی نماز کو تاخیر کرنے پر دلالت کرتی ہے قدم سے مراد ہر آدمی کے قد کا سا تو اں حصہ ہے چنانچہ اس اعتبار سے کہ ہر آدمی کے قد کا طول اس کے سات قدم (یعنی سات پاؤں) کے برابر ہوتا ہے ہر چیز کا طول سات قدم مقرر ہے۔
-