نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ مَا صَلَّےْتُ وَرَآءَ اِمَامٍ قَطُّ اَخَفَّ صَلٰوۃً وَّلَا اَتَمَّ صَلٰوۃً مِّنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاِنْ کَانَ لَےَسْمَعُ بُکَآءَ الصَّبِیِّ فَےُخَفِّفُ مَخَافَۃَ اَنْ تُفْتَنَ اُمُّہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (عادت تھی کہ ) جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس اندیشے سے کہ اس کی ماں کہیں فکر مند نہ ہو جائے نماز کو ہلکا کر دیتے تھے۔" (بخاری ومسلم) تشریح حدیث کے اول جز کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز باوجود پورے کمال و اتمام کے بہت ہلکی ہوتی تھی اور ہلکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرات اور تسبیحات حد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور قرات میں بے محل مدوشد نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کی قرأت بے تکلف اور ترتیل کے ساتھ ہوتی تھی اور یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کی خاصیت تھی کہ اگرچہ وہ طویل ہوتی تھی مگر لوگوں کو ہلکی معلوم ہوتی تھی۔ حاصل یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع وسجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔ حنفی مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ امام کے لیے مناسب نہیں ہے کہ تسبیحات وغیرہ کو اتنا طویل کرے کہ لوگ ملول ہوں کیونکہ نماز کو زیادہ طویل کرنا نماز کی طرف سے لوگوں کو بے توجہ بنانا ہے اور یہ مکروہ ہے ہاں اگر مقتدیوں ہی کی یہ خواہش ہو کہ قرات و تسبیحات وغیرہ طویل ہوں تو پھر ان میں امام زیادتی کر سکتا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس امام کو یہ بھی نہیں چاہیے کہ مقتدیوں کو خوش کرنے کی غرض سے قرات اور تسبیحات میں اس درجے سے بھی کمی کر دے جو سب سے کم مسنون درجہ ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز ہلکی کر دیا کرتے تھے ۔ تاکہ اس بچے کی ماں جو جماعت میں شامل ہوتی، بچے کی طرف سے فکر میں نہ پڑ جائے اور جس کی وجہ سے اس کی نماز کا حضور اور خشوع و خضوع ختم ہو جائے۔ خطابی نے اس جملہ کے فائدے میں کہا ہے کہ " اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ امام رکوع میں ہونے کی حالت میں اگر آہٹ پائے کہ کوئی آدمی نماز میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ رکوع میں اس آدمی کا انتظار کرے تاکہ وہ آدمی رکعت حاصل کرے مگر بعض حضرات نے اسے مکروہ قرار دیا ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے کے بارے میں یہ خوف ہے کہ وہ کہیں شرک کی حد تک پہنچ جائے گا ۔ چنانچہ یہی مسلک حضرت امام مالک کا بھی ہے ۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ امام اگر رکوع کو تقرب الی اللہ کی نیت سے نہیں بلکہ اس مقصد سے طویل کرے گا کہ کوئی آنے والا آدمی رکوع میں شامل ہو کر رکعت پا لے تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے تاہم کفر و شرک کی حد تک نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے اس کی نیت غیر اللہ کی عبادت بہر حال نہیں ہوگی۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر امام آنے والے کو پہچانتا نہیں ہے تو اس شکل میں رکوع کو طویل کرنے کا کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا ترک اولیٰ ہے ہاں اگر کوئی امام تقرب الی اللہ کی نیت سے رکوع کو طویل کرے اور اس پاک جذبے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی حالت کا ہونا چونکہ نادر ہے اور پھر یہ کہ اس مسئلے کا نام ہی " مسئلہ الریا " ہے اس لیے اس سلسلے میں کمال احتیاط ہی اولیٰ ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنِّیْ لَاَدْخُلُ فِی الصَّلٰوۃِ وَاَنَا اُرِےْدُ اِطَالَتَھَا فَاَسْمَعُ بُکَآءَ الصَّبِیِّ فَاَتَجَوَّزُ فِیْ صَلٰوتِیْ مِمَّا اَعْلَمُ مِنْ شِدَّۃِ وَجْدِ اُمِّہٖ مِنْ بُکَآئِہٖ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز میں داخل ہوتا ہوں تو نماز کو طویل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر جب بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو یہ جان کر کہ بچے کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں سخت فکر مند ہوگی نماز میں تخفیف کر دیتا ہوں۔ " (صحیح البخاری)
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْےُخَفِّفْ فَاِنَّ فِےْھِمُ السَّقِےْمَ وَالضَّعِےْفَ وَالْکَبِےْرَ وَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِنَفْسِہٖ فَلْےُطَوِّلْ مَا شَآئَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو ہلکا کرے کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں (ور ان کی رعایت ضروری ہے) اور جب تم میں سے کوئی آدمی تنہا اپنی نماز پڑھے تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چاہے نماز کو طویل کرے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس حدیث میں امام کے لیے یہ ہدایت دے دی گئی ہے کہ وہ نماز پڑھاتے وقت مقتدیوں کی رعایت ضرور کرے اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں بیمار بوڑھے اور کمزور لاغر لوگ بھی ہوں گے جو نماز کی طوالت سے تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوجائیں گے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پریشانی اور تکلیف سے بچنے کی خاطر جماعت میں شریک ہونا ہی چھوڑ دیں اس لیے ان کی رعایت کے پیش نظر نماز ہلکی ہی پڑھانی چاہیے ہاں اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اختیار ہے کہ جس قدر چاہیے طویل نماز پڑھے۔ اسی طرح اگر تمام مقتدی حضور قلب کے حامل ہوں اور نماز کی طوالت سے گھبراتے نہ ہوں نیز مذکورہ بالا لوگوں میں سے یعنی بیمار و ضعیف وغیرہ نہ ہوں تو اس شکل میں بھی امام جس قدر چاہے طویل نماز پڑھائے۔
-
عَنْ قَےْسِ بْنِ اَبِیْ حَازِمٍ صقَالَ اَخْبَرَنِیْ اَبُوْ مَسْعُوْدٍ صاَنَّ رَجُلًا قَالَ وَاللّٰہِ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَأ تَاَخَّرُ عَنْ صَلٰوۃِ الْغَدَاۃِ مِنْ اَجْلِ فُلَانٍٍ مِمَّا ےَطِےْلُ بِنَا فَمَا رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ مَوْعِظَۃٍ اَشَدَّ غَضَبًا مِنْہُ ےَوْمَئِذٍ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِےْنَ فَاَےُّکُمْ مَا صَلّٰی ِبالنَّاسِ فَلْےَتَجَوَّزْ فَاِنَّ فِےْھِمُ الضَّعِےْفَ وَالْکَبِےْرَ وَذَاالْحَاجَۃِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت قیس ابن ابی حازم فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ (ایک دن) ایک آدمی نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر ) کہا کہ یا رسول اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! میں صبح کی نماز سے اس لیے پیچھے رہ جاتا ہوں کہ فلاں آدمی ہمیں بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کرنے کے بارے میں اس دن جیسے غصے میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کرنے کے بارہ میں اس دن جیسا غصہ میں بھرے ہوئے کبھی نہیں دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تم میں سے بعض لوگ (طویل نماز پڑھا کر جماعت سے ) لوگوں کو نفرت دلانے والے ہیں (خبردار) تم میں سے جو آدمی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور، بوڑھے اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
-