نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قُلْتُ لِبَلَالٍ کَیْفَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَرُدُّ عَلَیْھِمْ حِیْنَ کَانُوْا یُسَلِّمُوْنَ عَلَیْہِ وَھُوَ فِی الصَّلٰوۃِ قَالَ کَانَ یُشِیْرُ بِیَدِہٖ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَفِیْ رَوَایَۃِ النَّسَائِیُّ نَحْوُہُ وَ عِوَضُ بِلَالٍ صُہَیْبٌ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ جب سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں ہوتے تھے اور اس وقت کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دیا کرتے تھے۔" (جامع ترمذی ) اور نسائی میں ایک روایت بجائے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اچھی طرح منقول ہے (یعنی ترمذی کی روایت میں تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ سوال کیا اور نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سوال کیا تھا)۔ تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر حالت نماز میں ہوتے اور اس وقت کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سلام کا جواب اپنے ہاتھ کے اشارے سے دیا کرتے تھے اور اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ہاتھ کا پنجہ کھول کر ہتھیلی کو زمین کی طرف لے جاتے تھے جیسا کہ ابوداؤد وغیرہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انگلی سے اشارہ کر لینے پر اکتفا کر لیا کرتے تھے۔ نماز میں سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارے سے دینا مکروہ ہے : فتاویٰ ظہیر میں مذکورہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت نماز میں کسی کے سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر کا اشارہ کرے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ خلاصہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی سر یا ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دے گا۔ تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی ۔ صحیح اور مفتی بہ قول جو شرح منیہ اور شامی وغیرہ میں مذکور ہے وہ یہ ہے کہ نمازی کو کسی کے سلام کا جواب ہاتھ یا سر کے اشارہ سے دینا مکروہ تنزیہی ہے لہٰذا اب اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے اس وقت دیا کرتے تھے جب نماز میں بات چیت ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا جب نماز میں کسی قسم کی کوئی بھی گفتگو ممنوع قرار دے دی گئی تو سلام کا جواب بھی زبان یا اشارہ سے دینا منسوخ ہو گیا کیونکہ اشارہ کرنا بھی ایک طرح کلام ہی کے معنی ہیں ۔
-
وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ اَنَّ عَبْدَاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ مَرَّعَلٰی رَجُلٍ وَھُوَ یُصَلِّی فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَرَد الرَّجُلُ کَلَامًا فَرَجَعَ اِلَیْہِ عَبْدُاﷲِ بْنِ عُمَرَ فَقَالَ لَہُ اِذَا سُلِّمَ عَلٰی اَحَدِکُمْ وَھُوَ یُصَلِّی فَلَا یَتَکَلَّمْ وَ لْیُشِرْ بِیَدِہٖ۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ (ایک روز) حضرت عبدا اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گذر ایک آدمی پر ایسی حالت میں ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کو سلام کیا اور اس نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلام کا جواب زبان سے دیا، حضرت عبداللہ ابن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف لوٹے اور فرمایا کہ " جب تم میں سے کسی کو نماز پڑھنے کی حالت میں سلام کیا جائے تو اس کو بولنا نہیں چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ سلام کا جواب دینے کے لیے ) اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے۔" (مالک) تشریح اسی باب میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت (نمبر ١٢) گذر چکی ہے۔ اس کے فائدہ کے ضمن میں نماز کی حالت میں ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینے کا مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا پھر بعد میں اشارے سے بھی سلام کا جواب دینا منسوخ ہوگیا۔
-