نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

وَعَنْ اَبِی سَعِیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَقْطَعُ الصَّلَاۃَ شَیْءٌ وَاَدْرَأُوْامَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّمَا ھُوَ شَیْطَانٌ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی چیز نماز کو نہیں توڑتی (تاہم اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزرے تو نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے کی خاطر، تم حتی الامکان اسے روکو کیونکہ وہ گزرنے والا شیطان ہے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح اس حدیث نے بھی بصراحت اس کو واضح کر دیا کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی چاہے عورت، کتا اور گدھا ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٧)۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ اَنَامُ بَیْنَ یَدَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَرِجْلَایَ فِی قِبْلَتِہٖ فَاِذَا سَجَدَ غَمَزَنِی فَقَبَضْتُ رِجْلَیَّ وَاِذَا قَامَ بَسَطْتُّھُمَا قَالَتْ وَالْبُیُوْتُ یَوْمَئِذٍ لَیْسَ فِیْھَا مَصَابِیْحُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (اس طرح سوئی رہتی تھی کہ) میرے دونوں پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی طرف (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ) ہوتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو میرے (پاؤں کو) دبا دیتے تھے میں پاؤں کو سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے تھے تو میں پھر پاؤں پھیلا دیتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ان دنوں میں گھر کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔" (صحیح البخاری ، صحیح مسلم) تشریح حدیث کے آخری جملہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنا یہ عذر بیان کرنا چاہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ پاؤں اس لیے پھیلائے رکھتی تھی کہ چراغ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ معلوم نہ ہوتا تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس عمل کا تعلق ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پاؤں دبا دیتے تھے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتی تھیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے تھے تو وہ اپنے پاؤں پھیلا دیتی تھیں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر یعنی ان کے اس عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نکیر نہ ہونے کی بناء پر تھا۔ نمازی کے آگے سے گزرنا جرم عظیم ہے
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ یَعْلَمُ اَحَدُکُمْ مَالَہ، فِی اَنْ یَمُرَّبَیْنَ یَدَیْ اَخِیْہِ مُعْتَرَضًا فِی الصَّلاَۃِ کَانَ لَاَنْ یُّقِیْمَ مِائَۃَ عَامٍ خَیْرٌلَہُ مِنَ الْخَطْوَۃِ الَّتِی خَطَا۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جب کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضا گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لیے سو برس تک کھرے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو۔" (سنن ابن ماجہ)
-
وَعَنْ کَعْبِ الْاَحْبَارِ قَالَ لَوْ یَعْلَمُ المَارُّ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّی مَاذَا عَلَیْہِ لَکَانَ اَنْ یُخْسَفَ بِہٖ خَیْرًالَہُ مِنْ اَنْ یُّمَرَّبَیْنَ یَدَیْہٖ وَفِی رِوَایَۃٍ اَھْوَنَ عَلَیْہِ۔ (رواہ امام مالک)-
" اور حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ (اس کے جرم کی) سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسنا یا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو۔ اور ایک روایت میں بجائے" بہتر" کے زیادہ آسان کا لفظ ہے۔" (مالک)
-