TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نفل روزہ کا بیان
نفل روزہ توڑنے کے سلسلہ میں ضیافت عذر ہے یا نہیں ؟
وعن أنس قال : دخل النبي صلى الله عليه و سلم على أم سليم فأتته بتمر وسمن فقال : " أعيدوا سمنكم في سقائه وتمركم في وعائه فإني صائم " . ثم قام إلى ناحية من البيت فصلى غير المكتوبة فدعا لأم سليم وأهل بيتها . رواه البخاري-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے گھی اور کھجور لائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تناول فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھی کو اس کی مشک میں اور کھجور کو اس کے برتن میں رکھ دو کیونکہ میں روزہ سے ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے ایک کونہ میں کھڑے ہو کر فرض کے علاوہ نماز پڑھنے لگے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا فرمائی۔ (بخاری) تشریح بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کی ضیافت کے باوجود اس لئے روزہ نہیں توڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ اس سے ام سلیم رضی اللہ عنہا رنجیدہ نہیں ہوں گی۔ اس بارہ میں کہ آیا ضیافت نفل روزہ رکھنے والے کے لئے عذر ہے یا نہیں ؟ اگرچہ مشائخ کے ہاں اختلاف ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مہمان اور میزبان دونوں کے لئے ضیافت عذر ہے بشرطیکہ میزبان محض مہمان کے آنے اور اپنے ساتھ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خوش نہ ہو بلکہ ملول بھی ہو اسی طرح کھانے میں میزبان کی عدم شرکت سے مہمان کی دل شکنی اور اس کو ناگواری اور تنگی ہو حاصل یہ کہ اگر کھانے میں شرکت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہو تو ضیافت عذر ہے لہٰذا نفل روزہ توڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر بعد میں اس روزہ کی قضا ضروری ہو گی اور اگر یہ معلوم ہو کہ دل شکنی نہیں ہو گی تو روزہ نہ توڑنا چاہئے ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ دار مہمان کے لیے مستحب ہے کہ وہ میزبان اور اس کے اہل و عیال کے حق میں دعائے خیر کرے۔
-
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا دعي أحدكم إلى طعام وهو صائم فليقل : إني صائم " . وفي رواية قال : " إذا دعي أحدكم فليجب فإن كان صائما فليصل وإن كان مفطرا فيطعم " . رواه مسلم-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے پر بلایا جائے اور وہ روزہ دار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا اگر تم میں سے کسی کی دعوت کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ دعوت قبول کر لے اور اگر وہ روزہ دار ہو تو دو رکعت نماز نفل پڑھ لے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو اسے چاہئے کہ کھانے میں شریک ہو۔ (مسلم) تشریح اگر روزہ دار مہمان کے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے میزبان کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا ہو جائے یا کھانا نہ کھانے کی وجہ سے دشمنی یا نفرت پیدا ہو جانے کا خوف ہو تو اس صورت میں نفل روزہ توڑ دینا ہی واجب ہے۔ اور اگر مہمان یہ جانے کہ میزبان کھانا کھانے کی وجہ سے خوش تو ہو گا اور کھانا کھانے کی صورت میں وہ کسی تشویش و پریشانی میں مبتلا بھی نہیں ہو گا۔ تو اس صورت میں نفل روزہ توڑنا مستحب ہے اور اگر اس کے نزدیک دونوں امر برابر ہوں تو اس کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ کہہ دے کہ انی صائم میں روزہ دار ہوں خواہ داعی کے یہاں جائے یا نہ جائے۔
-
عن أم هانئ رضي الله عنها قالت : لما كان يوم الفتح فتح مكة جاءت فاطمة فجلست على يسار رسول الله صلى الله عليه و سلم وأم هانئ عن يمينه فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته فشرب منه ثم ناوله أم هانئ فشربت منه فقالت : يا رسول الله لقد أفطرت وكنت صائمة فقال لها : " أكنت تقضين شيئا ؟ " قالت : لا . قال : " فلا يضرك إن كان تطوعا " . رواه أبو داود والترمذي والدارمي وفي رواية لأحمد والترمذي نحوه وفيه فقالت : يا رسول الله أما إني كنت صائمة فقال : " الصائم أمير نفسه إن شاء صام وإن شاء أفطر "-
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں اور ام ہانی رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں ایک لونڈی ایک برتن لے کر آئی جس میں پینے کی کوئی چیز تھی لونڈی نے وہ برتن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے کچھ پی کر وہ برتن ام ہانی رضی اللہ عنہا کو عنایت فرمایا۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بھی اس میں سے پیا اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے افطار کر لیا کیونکہ میں روزے سے تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم نے رمضان کا کوئی قضا یا نذر کا روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں! بلکہ نفل روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر یہ نفل روزہ تھا تو کوئی حرج نہیں (ابو داؤد، ترمذی ، دارمی) ایک اور روایت میں جو احمد اور ترمذی نے اسی کی مانند نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں روزہ سے تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا مالک ہے چاہے روزہ رکھے چاہے افطار کرے۔ تشریح اپنے نفس کا مالک ہے کا مطلب یہ ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا خود مختار ہے کہ ابتدا چاہے تو روزہ رکھے یعنی روزہ کی نیت کرے، چاہے افطار کرے یعنی روزہ نہ رکھنے کو اختیار کرے، یا پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نفل روزہ رکھنے والا روزہ رکھنے کے بعد بھی مختار ہے کہ چاہے تو اپنا روزہ پورا کرے چاہے تو توڑ ڈالے ، اس صورت میں اس کی تاویل یہ ہو گی کہ نفل روزہ دار کو اس بات کا اختیار ہے کہ اگر اس کے پیش نظر کوئی مصلحت ہو مثلا کوئی شخص اس کی ضیافت کرے یا کسی جماعت کے پاس جائے جس کے بارہ میں یہ معلوم ہو کہ اگر روزہ توڑ کر ان کے ساتھ کھانے پینے میں شریک نہیں ہو گا تو لوگ وحشت و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں گے تو اس صورت میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے تاکہ آپس میں میل ملاپ اور محبت و الفت کی فضا برقرار رہے لہٰذا ان الفاظ و معانی سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ نفل روزہ توڑنے کے بعد اس کی قضا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کے بعد آنے والی حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ قضا کے ضروری ہونے کو ثابت کر رہی ہے۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بارہ میں محدثین کے ہاں کلام ہے چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد محل بحث ہے اور منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے اور اس کی اسناد میں بہت اختلاف ہے۔
-
وعن الزهري عن عروة عن عائشة قالت : كنت أنا وحفصة صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه فقالت حفصة : يا رسول الله إنا كنا صائمتين فعرض لنا طعام اشتهيناه فأكلنا منه . قال : " أقضيا يوما آخر مكانه " . رواه الترمذي وذكر جماعة من الحفاظ رووا عن الزهري عن عائشة مرسلا ولم يذكروا فيه عن عروة وهذا أصح ورواه أبو داود عن زميل مولى عروة عن عروة عن عائشة-
حضرت زہری رحمہ اللہ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ایک دن میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا دونوں روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا لایا گیا ہمیں اس کو کھانے کی خواہش ہوئی چنانچہ ہم نے کھا لیا اب ہمارے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور حفاظ حدیث کی ایک ایسی جماعت کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اس روایت کو زہری سے اور زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے اس میں عروہ کا واسطہ مذکور نہیں ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ نیز اس روایت کو امام ابوداؤد نے زمیل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے جو حضرت عروہ کے آزاد کردہ غلام تھے زمیل نے عروہ سے اور عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے۔ تشریح چونکہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا نفل روزہ توڑ دے تو اس کی قضا ضروری ہے اس لیے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم کہ اس کے بدلہ بطور قضا ایک دن روزہ رکھو بطور وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن شوافع کے ہاں چونکہ نفل روزہ کی قضا واجب نہیں ہے اس لیے ان کے نزدیک یہ حکم بطور استحباب ہے ۔ روایت کے آخری جزء زہری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بطریق ارسال نقل کیا ہے لفظ " ارسال" اسناد سے "سقوط راوی" کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے " انقطاع واسطہ" یعنی پہلی روایت کے سلسلہ اسناد میں زہری رحمہ اللہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان عروہ کا جو واسطہ تھا وہ اس روایت میں نہیں ہے اگرچہ یہ اصطلاح اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے مگر مشہور یہی ہے کہ مرسل اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جسے تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر نقل کرے۔
-