TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
نا بینا آدمی کو بھی جماعت میں شریک ہونے کی تاکید
وَعَنْہُ قَالَ اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلٌ اَعْمٰی فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ لَےْسَ لِیْ قَائِدٌ ےَقُوْدُ نِیْ اِلَی الْمَسْجِدِ فَسَاَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ ےُّرَخِّصَ لَہُ فَےُصَلِّیْ فِیْ بَےْتِہٖ فَرَخَّصَ لَہُ فَلَمَّا وَلّٰی دَعَاہُ فَقَالَ ھَلْ تَسْمَعُ النِّدَآءَ بِالصَّلٰوۃِقَالَ نَعَمْ قَالَ فَاَجِبْ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نا بینا آدمی (حضرت عبداللہ ابن مکتوم) سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے ایسا کوئی رہبر نہیں ہے جو مجھے مسجد میں لے جائے۔ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں گھر میں نماز پڑھ لینے کی رخصت یعنی اجازت دے دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی (اس کے بعد) جب وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واپس لوٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھر بلایا اور ان سے فرمایا کہ کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لیے مسجد میں حاضر ہونا ضروری ہے۔" (صحیح مسلم) نشریح صحیحین کی حدیث میں منقول ہے کہ " جب حضرت عتبان ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بینائی کا شکوہ کیا (کہ اس کی وجہ سے میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنے گھر ہی میں نماز پڑھ لیا کریں۔" لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی کو جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے مگر جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فضلائے مہاجرین میں سے تھے ان کی شان کے لائق یہی بات تھی کہ وہ اولیٰ پر عمل کریں یعنی جماعت میں حاضر ہوا کریں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے تو اجازت دے دی مگر پھر وحی آجانے یا اجتہاد کے بدل جانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت واپس لے لی، اس حدیث میں اذان سننے کے بعد مسجد میں حاضری کی ضرورت و اہمیت کو کمال مبالغے کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔
-