میت پر رونے کی ممانعت

وعن عائشة قالت : لما جاء النبي صلى الله عليه و سلم قتل ابن حارثة وجعفر وابن رواحة جلس يعرف فيه الحزن وأنا أنظر من صائر الباب تعني شق الباب فأتاه رجل فقال : إن نساء جعفر وذكر بكاءهن فأمره أن ينهاهن فذهب ثم أتاه الثانية لم يطعنه فقال : انههن فأتاه الثالثة قال : والله غلبننا يا رسول الله فزعمت أنه قال : " فاحث في أفواههن التراب " . فقلت : أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله صلى الله عليه و سلم ولم تترك رسول الله صلى الله عليه و سلم من العناء-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر اور ابن رواحہ کے (غزوہ موتہ میں) شہید کر دئیے جانے کی اطلاع آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ) بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پر رنج و غم کے آثار نمایاں تھے اور میں (آپ کی کیفیت) دروازے کے سوراخ سے دیکھے جا رہی تھی کہ اتنے میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ جعفر کے گھر کی عورتیں اس طرح کر رہی ہیں یعنی اس نے ان کے رونے کا ذکر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ جا کر انہیں منع کر دے۔ وہ چلا گیا (تھوڑی دیر کے بعد) دوسری مرتبہ واپس آ کر بتایا کہ عورتیں نہیں مان رہی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس سے فرمایا کہ جا کر منع کر دو۔ وہ چلا گیا اور جا کر منع کیا اور کچھ دیر کے بعد پھر تیسری مرتبہ آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! خدا کی قسم وہ عورتیں ہم پر غالب آ گئیں یعنی وہ ہمارا کہنا نہیں مان رہی ہیں حضرت عائشہ کا گمان ہے کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس شخص سے کہنے لگی کہ خدا تمہاری ناک خاک آلود کرے تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رنج پہنچانے کا سبب بنے۔ (بخاری ومسلم) تشریح ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو کیونکہ شدید رنج و غم کی وجہ سے جزع و فزع کی حالت میں نصیحت ان پر کار گر نہیں ہو رہی ہے۔ ارغم اللہ سے آخر تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ خدا تمہیں ذلیل کرے کیونکہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء پہنچائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رنچ پہنچانے کا سبب بنے اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سن کر شدید رنج پہنچا کہ وہ عورتیں گناہ کبیرہ میں مبتلا ہیں اور منع کرنے کے باوجود رونے سے باز نہیں آ رہی ہیں اگر تم ڈانٹ ڈپٹ کر اور سختی کے ساتھ ان عورتوں کو اس فعل سے منع کر دیتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ شدید روحانی اذیت وکوفت نہ وہتی۔
-
وعن أم سلمة قالت : لما مات أبو سلمة قلت غريب وفي أرض غربة لأبكينه بكاء يتحدث عنه فكنت قد تهيأت للبكاء عليه إذ أقبلت امرأة تريد أن تسعدني فاستقبلها رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أتريدين أن تدخلي الشيطان بيتا أخرجه الله منه ؟ " مرتين وكففت عن البكاء فلم أبك . رواه مسلم-
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میرے پہلے خاوند حضرت ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کہ ابوسلمہ مسافر تھے اور حالت مسافرت ہی میں مرے میں بھی ان کے لیے اس طرح روؤں گی کہ میرا رونا بیان کیا جائے گا (یعنی لوگوں میں چرچا ہو گا کہ ام سلمہ اس قدر روئی کہ اتنا کوئی بھی نہیں رویا) چنانچہ میں رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ اچانک ایک عورت آئی جو (رونے میں) میرے ساتھ شریک ہونے کا ارادہ رکھتی تھی، اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے آ گئے اور فرمانے لگے کہ کیا تمہارا یہ ارادہ ہے کہ شیطان کو اس گھر میں داخل کرو جس گھر سے اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ نکالا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر میں رونے سے رک گئی اور پھر میں (اس طرح) نہیں روئی (جس کی شریعت نے ممانعت کی ہے) (مسلم) تشریح میں تو رونے کی تیاریوں میں مصروف تھی، کا مطلب یہ ہے کہ میں رونے کا ارادہ کر رہی تھی اور اس موقع پر رونے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جیسے سیاہ کپڑے وغیرہ انہیں مہیا کر رہی تھی۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلمہ کو اس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ چلا چلا کر رونا اور نوحہ کرنا حرام ہے اگر انہیں ایسا معلوم ہوتا تو یقینی بات ہے کہ وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جو شریعت کی رو سے ناجائز وحرام ہے۔ گھر میں سے دو مرتبہ شیطان کے نکلنے سے یا تو یہ مراد ہے کہ ایک مرتبہ تو اس وقت شیطان گھر سے نکال دیا گیا تھا جب کہ ابوسلمہ کفر و شرک کا سیاہ پراہن اتار کر ایمان و اسلام کا نورانی خلعت زیب تن کیا تھا اور دوسری مربتہ گھر سے اس وقت شیطان کو نکال دیا گیا جب کہ ابوسلمہ ظلم و جہل سے بھرپور اس دنیا سے ایمان و اسلام کے ساتھ رخصت ہو گئے تھے۔
-