TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
حرم مکہ کی حرمت کا بیان
مکہ مکرمہ کی فضیلت
وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لمكة : " ما أطيبك من بلد وأحبك إلي ولولا أن قومي أخرجوني منك ما سكنت غيرك " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح غريب إسنادا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد وہاں سے واپس ہوتے وقت مکہ کی نسبت فرمایا کہ تو کتنا اچھا شہر ہے ! اور تو مجھے بہت ہی پیارا ہے! اگر میری قوم قریش کے لوگ مجھے یہاں سے نہ نکال چکے ہوتے تو میں اس شہر کے علاوہ کہیں نہ رہتا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے حسن، صحیح ، غریب ہے۔ تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ سے افضل ہے چنانچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن امام مالک کے نزدیک مدینہ کی فضیلت مکہ سے زیادہ ہے۔
-
وعن عبد الله بن عدي بن حمراء رضي الله عنه قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم واقفا على الحزورة فقال : " والله إنك لخير أرض الله وأحب الله إلى الله ولولا أني أخرجت منك ما خرجت " . رواه الترمذي وابن ماجه-
حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حزورہ پر کھڑے ہوئے (مکہ کی نسبت) فرما رہے تھے کہ خدا کی قسم! تو خدا کی زمین کا سب سے بہتر قطعہ ہے، اور تو خدا کے نزدیک خدا کی زمین کا سب سے محبوب حصہ ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تشریح " حزورہ " مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی جگہ کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے مذکورہ بالا جملے ارشاد فرمائے۔ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس شہر مقدس میں اپنے قیام کو ایک عظیم سعادت تصور کرتے ہوئے مکہ کی اقامت کو اس وقت تک ترک نہ کرے جب تک وہ اس پر حقیقۃً یا حکما (یعنی دینی و دنیاوی ضرورت کے تحت) مجبور نہ ہو اسی لئے کہا گیا ہے کہ مکہ میں داخل ہونا سعادت اور وہاں سے نکلنا شقاوت ہے۔ درمختار میں لھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کی مجاورت (یعنی ان دونون شہروں میں مستقل طور پر رہنا) اس شخص کے لئے مکروہ نہیں ہے جس کو اپنے نفس پر قابو حاصل ہو۔ گویا جس شخص کو یہ یقین ہو کہ مجھ سے گناہ سرزد نہیں ہوں گے تو وہ ان شہروں میں اقامت حاصل کرے مگر جس شخص کو یہ یقین حاصل نہ ہو وہ اقامت اختیار نہ کرے۔
-
عن أبي شريح العدوي أنه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة : ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه و سلم الغد من يوم الفتح سمعته أذناي ووعاه قلبي وأبصرته عيناي حين تكلم به : حمد الله وأثنى عليه ثم قال : " إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما ولا يعضد بها شجرة فإن أحد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه و سلم فيها فقولوا له : إن الله قد أذن لرسوله ولم يأذن لرسوله ولم يأذن لكم وإنما أذن لي فيها ساعة نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس وليبلغ الشاهد الغائب " . فقيل لأبي شريح : ما قال لك عمرو ؟ قال : قال : أنا أعلم بذلك منك يا أبا شريح إن الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة . متفق عليه . وفي البخاري : الخربة : الجناية-
حضرت ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے اس وقت جب کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مقابلے پر مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، یہ کہا کہ میرے سردار مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سامنے وہ بات بیان کروں جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے دن ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا تھا ، اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ بات فرماتے دیکھا ہے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی ہے، اس کو لوگوں نے بزرگی نہیں دی ہے، لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس شہر میں خونریزی کرے یعنی کوئی مسلمان اس شہر میں کسی کو قتل نہ کرے اگرچہ وہ لائق قتل ہی کیوں نہ اور جو شخص لائق قتل نہ ہو اس کو قتل کرنا ہر جگہ حرام ہے خواہ حرم مکہ کے اندر ہو خواہ اس کے باہر اور یہ حلال ہے کہ اس کی زمین کا درخت کاٹے، اور اگر کوئی شخص اس شہر میں قتل و قتال کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے (جیسا کہ حدیث نمبر ۳ میں ابن خطل کے قتل کا واقعہ گزرا) جواز پیدا کرے تو اس سے کہو کہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی تھی اور تم کو اجازت نہیں ہے، چنانچہ مجھے بھی ایک دن کی صرف ایک ساعت کے لئے اس شہر میں قتل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب آج کے دن (جب کہ یہ خطبہ دیا جا رہا ہے) اس شہر کی عظمت و حرمت بحالہ ہے جو کل گزشتہ اس مباح ساعت کے علاوہ تھی۔ جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کو چاہئے کہ میری اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ابوشریح رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر آپ سے کیا کہا۔ انہوں نے فرمایا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ ابوشریح! میں اس حدیث کو تم سے زیادہ جانتا ہوں لیکن سر زمین حرم نافرمان کو پناہ نہیں دیتی اور نہ اس شخص کو پناہ دیتی ہے جو خون کر کے بھاگا ہو یا کوئی تقصیر کر کے فرار ہوا ہو۔ (بخاری ومسلم) بخاری کی روایت میں الخربۃ کے معنی " قصور" کے ہیں تشریح عمرو بن سعید، خلیفہ عبدالملک بن مروان کی جانب سے مدینہ کے حاکم تھے، انہوں نے جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو لشکر روانہ کیا تو حضرت ابوشریح صحابی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس فیصلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث بیان کی جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حرم مکہ میں تو لائق قتل شخص کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے چہ جائکہ آپ ایک جلیل القدر صحابی کا خون بہانے کے لئے وہاں لشکر بھیج رہے ہیں۔ اس کے جواب میں عمرو بن سعید نے کہا کہ زمین حرم اس شخص کو پناہ نہیں دیتی جو خلیفہ سے بغاوت کر کے نافرمانی کا مرتکب ہوا ہو، گویا عمرو بن سعید کے گمان میں عبدالملک بن مروان، خلیفہ برحق تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر اس کے باغی، حالانکہ عبدالملک بن مروان خلیفہ برحق نہیں تھا کہ اس کی خلافت کا انکار کرنے والے کو شرعی نقطہ نظر سے باغی قرار دیا جاتا، اسی طرح عمرو بن سعید نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کا خون کر کے حرم میں چلا جائے تو حرم اس کو بھی پناہ نہیں دیتا ایسے ہی اگر کوئی شخص تقصیر کر کے یعنی دین میں فساد کا بیج بو کر یا کوئی دینی جرم کر کے یا کوئی اور قصور کر کے مثلاً کسی کا مال تلف کر کے یا کسی کا حق غصب کر کے بھاگ جائے اور حرم میں پناہ لے لے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے درگذر کر لیا جائے! گویا عمرو بن سعید کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر ایک گنہگار و نافرمان شخص ہیں کیونکہ انہوں نے خلیفہ کی اطاعت سے انحراف کیا ہے ، اگر وہ زمین حرم سے باہر آ جائیں گے تو وہاں ان کو سزا دی جائے گی اور اگر حرم ہی میں رہیں گے تو ان کو حرم ہی میں سزا دوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا یعنی زمین حرم ہی میں ان کو شہید کر دیا گیا۔
-
وعن عياش بن أبي ربيعة المخزومي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تزال هذه الأمة بخير ما عظموا هذه الحرمة حق تعظيمها فإذا ضيعوا ذلك هلكوا " . رواه ابن ماجه-
حضرت عیاش ابن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ یہ امت اس وقت تک بھلائی کے ساتھ رہے گی جب تک کہ اس حرمت یعنی مکہ کی حرمت کی تعظیم کرتی رہے گی جیسا کہ اس کی تعظیم کا حق ہے اور جب لوگ اس تعظیم کو ترک کر دیں گے تو ہلاک کر دئیے جائیں گے۔ (ابن ماجہ)
-