مونچھیں ترشوانے کی سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جاری ہوئی

وعن يحيى بن سعيد أنه سمع سعيد بن المسيب يقول كان إبراهيم خليل الرحمن أول الناس ضيف الضيف وأول الناس اختتن وأول الناس قص شاربه وأول الناس رأى الشيب فقال يا رب ما هذا ؟ قال الرب تبارك وتعالى وقار يا إبراهيم قال رب زدني وقارا . رواه مالك .-
اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو رحمن (اللہ ) کے دوست تھے سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے مہمان کی مہمانداری کی یعنی مہمان کی پذایرائی و مہمانداری کی ابتداء انھوں نے ہی کی وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے ختنہ کیا ، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے اپنی مونچھیں کتریں، اور وہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے بڑھاپا یعنی سفید بال دیکھا، چنانچہ انھوں نے (جب سب سے پہلے اپنے بالوں میں سفیدی کو دیکھا تو ) عرض کیا کہ " میرے پروردگار " ! یہ کیا ہے ؟ پروردگار کا جواب آیا کہ " ابراہیم (علیہ السلام ) " یہ وقار ہے یعنی یہ اس بڑھاپے کی علامت ہے جو علم و دانش میں اضافہ کا باعث اور عز و وقار کا ذریعہ ہے اور اس کی وجہ سے لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ! یہ تو تیری بڑی نعمت ہے لہٰذا " میرے وقار میں اضافہ فرما ۔" (مالک ) تشریح سیوطی نے موطا کے حاشیہ میں ایسی اور چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے، جو یہ ہیں ناخن کاٹنا، مانگ نکالنی، استرا استعمال کرنا ، پائجامہ پہننا ، مہندی اور وسمہ کا خضاب لگانا، منبر پر خطبہ پڑھنا، خدا کی راہ میں جہاد کرنا، میدان جنگ میں لشکر کو میمنہ، میسرہ ، مقدمہ اور قلب کی ترتیب کے ساتھ صف آراء کرنا، لوگوں کے ساتھ معانقہ کرنا اور ثرید تیار کرنا ۔
-