مومن اور کافر کی روح قبض ہونے کا بیان

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا : اخرجي أيتها النفس الطيبة كانت في الجسد الطيب اخرجي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال : من هذا ؟ فيقولون : فلان فيقال : مرحبا بالنفس الطيبة كانت في الجسد الطيب ادخلي حميدة وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان فلا تزال يقال لها ذلك حتى تنتهي إلى السماء التي فيها الله فإذا كان الرجل السوء قال : اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث اخرجي ذميمة وأبشري بحميم وغساق وآخر من شكله أزواج فما تزال يقال لها ذلك حتى تخرج ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها فيقال : من هذا ؟ فيقال : فلان فيقال : لا مرحبا بالنفس الخبيثة كانت في الجسد الخبيث ارجعي ذميمة فإنها لا تفتح له أبواب السماء فترسل من السماء ثم تصير إلى القبر " . رواه ابن ماجه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص قریب المرگ ہوتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک و صالح ہوتا ہے تو (اس کی روح سے رحمت کے ) فرشتے کہتے ہیں کہ اے پاک جان جو پاک بدن میں تھی! اس حال میں (جسم سے) نکل کہ (خدا اور مخلوق کے نزدیک) تیری تعریف کی گئی ہے اور تجھے خوشخبری ہو دائمی راحت و سکون کی، جنت کے پاک رزق کی اور خدا سے ملاقات کی جو (تجھ پر) غضبناک نہیں ہے۔ قریب المرگ کے سامنے فرشتے برابر یہی بات کہتے ہیں یہاں تک کہ روح (خوشی خوشی) باہر نکل آتی ہے اور پھر فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں، آسمان کا دروازہ اس کے لیے (فرشتوں کے کہنے سے یا پہلے ہی سے) کھول دیا جاتا ہے (آسمان کے دربان) پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے؟ اسے لے جانے والے فرشتے (اس کا نام و نسب بتا کر) کہتے ہیں کہ یہ فلاں شخص (کی روح) ہے۔ پس کہا جاتا ہے کہ آفرین ہو اس جان پاک کو جو پاک بدن میں تھی اور ( اے پاک جان آسمان میں) داخل ہو اس حال میں کہ تیری تعریف کی گئی اور خوشخبری ہو تجھے راحت کی، پاک رزق کی اور پروردگار سے ملاقات کی جو غضبناک نہیں ہے۔ اس روح سے برابر یہی بات کہی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس آسمان پر (یعنی عرش پر) پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اللہ رب العزت کی رحمت خاص جلوہ فرما ہے! ۔ اور اگر وہ برا (یعنی کافر) ہوتا ہے تو ملک الموت کہتے ہیں کہ اے خبیث جان جو پلید بدن میں اس حال میں (جسم سے) باہر نکل کہ تیری برائی کی گئی ہے اور یہ بری خبر سن لے کہ گرم پانی، پیپ اور ان کے علاوہ دوسری طرح کے عذاب تیرے منتظر ہیں۔ اس بدبخت قریب المرگ کے سامنے بار بار یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح (بادل نخواستہ) باہر نکل آتی ہے پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے (تاکہ اس کی ذلت و خواری اس پر ظاہر کر دی جائے) جب اس کے لیے آسمان کے دروازے کھلوائے جاتے ہیں تو دربانوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون شخص ہے؟ جواب دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص! پس کہا جاتا ہے کہ نفریں ہو اس خبیث جان پر جو پلید جسم میں تھی اور (اے خبیث جان) واپس چلی جا اس حال میں کہ تیری برائی کی گئی ہے اور تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ چنانچہ اسے آسمان سے پھینک دیا جاتا ہے اور وہ قبر کی طرف آ جاتی ہے" ۔ (ابن ماجہ) تشریح اس کے پاس فرشتے آتے ہیں، سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قریب المرگ کے پاس اس کی روح قبض کرنے کے لیے رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آتے ہیں، اگر قریب المرگ نیک و صالح ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں اور قریب المرگ بدکار ہوتا ہے تو پھر عذاب کے فرشتے اپنا کام کرتے ہیں۔ " نیک و صالح" سے یا عمومی طور پر مومن مراد ہے یا پھر وہ نیک بخت مراد ہے جو حقوق اللہ حقوق العباد دونوں ادا کرتا ہے اور اس کی زندگی اطاعت و فرمانبردار کی راہ پر گزری ہو۔ حدیث میں نیک و صالح اور کافر کی روح قبض کرنے کے بارہ میں تو تفصیل بتائی گئی ہے لیکن " فاسق" کے بارہ میں بالکل سکوت اختیار کیا گیا کیونکہ فاسق کے بارہ میں کتاب و سنت کا یہی طریقہ ہے کہ اس کے بارہ میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے تاکہ وہ خوف و رجاء کے درمیان رہے۔ مومن اور کافر کی روح کے درمیان اس امتیاز اور فرق کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کافر کی روح تو آسمان سے دھتکار دی جاتی ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے اسفل السافلین میں قید کر دیا جاتا ہے بخلاف مومن صالح کی روح کے کہ اسے آزادی حاصل ہوتی ہے اور آسمان و زمین میں جہاں چاہتی ہے سیر کرتی ہے، جنت میں میوے کھاتی ہے، عرش کے نیچے قندیلوں کی طرف اپنی جگہ اختیار کرتی ہے۔ پھر یہ کہ اسے قبر اپنے جسم کے ساتھ بھی تعلق رہتا ہے بایں طور کہ مردہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے، نماز پڑھتا ہے سکوت و راحت سے لطف اندوز ہوتا ہے، دولھا کی نیند سوتا ہے اور اپنے اپنے حسب مراتب و درجات جنت میں اپنا مسکن دیکھتا رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ روح کا معاملہ اور برزخ کے احوال اگرچہ خوارق عادات میں سے ہیں کہ ہماری دنیاوی زندگی ان سے مانوس و متعارف نہیں لیکن اس امور کے وقوع کے بارہ میں کسی قسم کا شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
-
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا حضر المؤمن أتت ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء فيقولون : اخرجي راضية مرضيا عنك إلى روح الله وريحان ورب غير غضبان فتخرج كأطيب ريح المسك حتى إنه ليناوله بعضهم بعضا حتى يأتوا به أبواب السماء فيقولون : ما أطيب هذه الريح التي جاءتكم من الأرض فيأتون به أرواح المؤمنين فلهم أشد فرحا به من أحدكم بغائبه يقدم عليه فيسألونه : ماذا فعل فلان ماذا فعل فلان ؟ فيقولون : دعوه فإنه كان في غم الدنيا . فيقول : قد مات أما أتاكم ؟ فيقولون : قد ذهب به إلى أمه الهاوية . وإن الكافر إذا احتضر أتته ملائكة العذاب بمسح فيقولون : اخرجي ساخطة مسخوطا عليك إلى عذاب الله عز و جل . فتخرج كأنتن ريح جيفة حتى يأتون به باب الأرض فيقولون : ما أنتن هذه الريح حتى يأتون به أرواح الكفار " . رواه أحمد والنسائي-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور روح سے کہتے ہیں کہ تو (جسد سے ) نکل اس حال میں کہ تو اللہ تعالیٰ سے راضی ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی، بہترین رزق اور پروردگار کی طرف کہ جو تجھ پر غضبناک نہیں ہے چل، چنانچہ روح مشک کی بہترین خوشبو کی طرح (جسم سے) نکلتی ہے اور فرشتے اس کو (از راہ تعظیم و تکریم) ہاتھوں ہاتھ لے چلتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان کے دروازں تک آتے ہیں، وہاں فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کیا خوب ہے یہ خوشبو جو تمہارے پاس زمین سے آ رہی ہے۔ پھر اسے ارواح مومنین کے پاس علیین میں یا جنت میں یا جنت کے دروازہ پر اور یا عرش کے نیچے کہ جہاں مومنین کی روحیں اپنے اپنے حسب مراتب و درجات رہتی ہیں۔ چانچہ وہ روحیں اس روح کے آنے سے اسی طرح خوش ہوتی ہیں جس طرح تم میں سے کوئی شخص اس وقت خوش ہوتا ہے جب کہ اس کے پاس اس کا غائب آتا ہے یعنی تم میں سے کوئی شخص جب سفر سے واپس آتا ہے تو جس طرح اس کے اہل و عیال اس کی واپسی پر خوش ہوتے ہیں اس طرح آسمان میں مومنین کی روحیں اس وقت بہت زیادہ خوش ہوتی ہیں جب کہ کسی مومن کی روح زمین سے ان کے پاس آتی ہے، پھر تمام روحین اس روح سے پوچھتیں ہیں کہ فلاں کیا کرتا ہے اور فلاں کیا کرتا ہے؟ یعنی روحیں ان متعارفین کے بارہ میں جنہیں وہ دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں نام بنام پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کا کیا حال ہے مگر پھر روحیں (خود) آپ میں کہتی ہیں کہ اس روح کو چھوڑ دو (ابھی کچھ نہ پوچھو کیونکہ) یہ دنیا کے غم و آلام میں تھی (جب اسے ذرہ سکون مل جائے تو پوچھنا) چنانچہ روح (جب سکون پالیتی ہے تو خود کہتی ہے) کہ فلاں شخص (جو بدکار تھا ور جس کے بارہ میں تم پوچھ رہے ہو) مر گیا، کیا وہ تمہارے پاس نہیں آیا؟ چنانچہ وہ روحیں اسے بتاتی ہیں کہ وہ تو دوزخ کی آگ کی طرف لیے گئے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے پاس ٹاٹ کا فرش لے کر آتے ہیں اور اس کی روح سے کہتے ہیں کہ اے روح (کافر کے جسم سے) مردار کی بدبو کی طرح نکلتی ہے پھر فرشتے اسے آسمان کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں وہاں فرشتے کہتے ہیں کہ" کتنی بری ہے یہ بدبو! پھر اس کے بعد اسے کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ (احمد نسائی) تشریح مومن کی موت کے وقت رحمت کے فرشتے ریشم کا ٹکڑا غالباً اس لیے لاتے ہیں تاکہ اس کی روح کو اس میں لپیٹ کر لے جائیں۔ ماذا فعل فلان (فلاں کیا کرتا ہے) یعنی مومنین کی ارواح آنے والی روح مومن سے ان لوگوں کے بارہ میں کہ جنہیں وہ دنیا میں جانتی تھیں اور دنیا میں چھوڑ کر آئی تھیں پوچھتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص کس حال میں ہیں؟ اور اس دریافت حال سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ معلوم ہو کہ ان کی زندگی خدا اور خدا کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزر رہی ہے تو خوش ہوں اور راہ حق پر ان کی استقامت کے لیے دعا کریں اور اگر کسی کے بارہ میں انہیں یہ معلوم ہو کہ اس کی زندگی گناہ و معصیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے تو رنج و غم کریں اور خدا سے ان کی ہدایت اور ان کی مغفرت و تحسین کی دعا مانگیں۔ حتی یأتون بہ الی باب الارض (پھر فرشتے اسے زمین کے دروازوں کی طرف لاتے ہیں) کے بارہ میں علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " زمین کے دروازوں سے مراد آسمان زمین (یعنی پہلے آسمان) کے دروازے ہیں جیسا کہ گزشتہ حدیث نمبر١٢ کے الفاظ ثم یعرج بہا الی السماء دلالت کرتے ہیں۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ " زمین کے دروازوں" سے مراد زمین ہو۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہے ہو گا کہ کافر کی روح اسفل السافلین کی طرف پھینک دی جاتی ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک بھی دوسری صورت بہتر اور صحیح معلوم ہوتی ہے۔ " کافروں کی ارواح کے پاس لے جایا جاتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ اسے کافروں کی ارواح کے پاس کہ جن کا مسکن سجین ہے پہنچا دیا جاتا ہے۔ سجین جہنم کی گہرائیوں میں ایک جگہ کا نام ہے۔
-
وعن البراء بن عازب قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في جنازة رجل من الأنصار فانتهينا إلى القبر ولما يلحد فجلس رسول الله صلى الله عليه و سلم وجلسنا حوله كأن على رؤوسنا الطير وفي يده عود ينكت به في الأرض فرفع رأسه فقال : " استعيذوا بالله من عذاب القبر " مرتين أو ثلاثا ثم قال : " إن العبد المؤمن إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة بيض الوجوه كأن وجوههم الشمس معهم كفن من أكفان الجنة وحنوط من حنوط الجنة حتى يجلسوا منه مد البصر ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول : أيتها النفس الطيبة اخرجي إلى مغفرة من الله ورضوان " قال : " فتخرج تسيل كما تسيل القطرة من في السقاء فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يأخذوها فيجعلوها في ذلك الكفن وفي ذلك الحنوط ويخرج منها كأطيب نفحة مسك وجدت على وجه الأرض " قال : " فيصعدون بها فلا يمرون - يعني بها - على ملأ من الملائكة إلا قالوا : ما هذه الروح الطيب فيقولون : فلان بن فلان بأحسن أسمائه التي كانوا يسمونه بها في الدنيا حتى ينتهوا بها إلى سماء الدنيا فيستفتحون له فيفتح له فيشيعه من كل سماء مقربوها إلى السماء التي تليها حتى ينتهى بها إلى السماء السابعة - فيقول الله عز و جل : اكتبوا كتاب عبدي في عليين وأعيدوه إلى الأرض فإني منها خلقتهم وفيها أعيدهم ومنها أخرجهم تارة أخرى قال : " فتعاد روحه فيأتيه ملكان فيجلسانه فيقولون له : من ربك ؟ فيقول : ربي الله فيقولون له : ما دينك ؟ فيقول : ديني الإسلام فيقولان له : ما هذا الرجل الذي بعث فيكم ؟ فيقول : هو رسول الله صلى الله عليه و سلم فيقولان له : وما علمك ؟ فيقول : قرأت كتاب الله فآمنت به وصدقت فينادي مناد من السماء أن قد صدق فأفرشوه من الجنة وألبسوه من الجنة وافتحوا له بابا إلى الجنة " قال : " فيأتيه من روحها وطيبها ويفسح له في قبره مد بصره " قال : " ويأتيه رجل حسن الوجه حسن الثياب طيب الريح فيقول : أبشر بالذي يسرك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول له : من أنت ؟ فوجهك الوجه يجيء بالخير فيقول : أنا عملك الصالح فيقول : رب أقم الساعة رب أقم الساعة حتى أرجع إلى أهلي ومالي " . قال : " وإن العبد الكافر إذا كان في انقطاع من الدنيا وإقبال من الآخرة نزل إليه من السماء ملائكة سود الوجوه معهم المسوح فيجلسون منه مد البصر ثم يجيء ملك الموت حتى يجلس عند رأسه فيقول : أيتها النفس الخبيثة اخرجي إلى سخط من الله " قال : " فتفرق في جسده فينتزعها كما ينتزع السفود من الصوف المبلول فيأخذها فإذا أخذها لم يدعوها في يده طرفة عين حتى يجعلوها في تلك المسوح ويخرج منها كأنتن ريح جيفة وجدت على وجه الأرض فيصعدون بها فلا يمرون بها على ملأ من الملائكة إلا قالوا : ما هذا الروح الخبيث ؟ فيقولون : فلان بن فلان - بأقبح أسمائه التي كان يسمى بها في الدنيا - حتى ينتهي بها إلى السماء الدنيا فيستفتح له فلا يفتح له " ثم قرأ رسول الله صلى الله عليه و سلم ( لا تفتح لهم أبواب السماء ولا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط ) فيقول الله عز و جل : اكتبوا كتابه في سجين في الأرض السفلى فتطرح روحه طرحا ثم قرأ : ( ومن يشرك بالله فكأنما خر من السماء فتخطفه الطير أو تهوي به الريح في مكان سحيق ) فتعاد روحه في جسده ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له : من ربك : فيقول : هاه هاه لا أدرى فيقولان له : ما دينك ؟ فيقول : هاه هاه لا أدري فيقولان له : ما هذا الرجل الذي بعث فيكم ؟ فيقول : هاه هاه لا أدري فينادي مناد من السماء أن كذب عبدي فأفرشوا له من النار وافتحوا له بابا إلى النار فيأتيه حرها وسمومها ويضيق عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه ويأتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب منتن الريح فيقول أبشر بالذي يسوؤك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول : من أنت ؟ فوجهك الوجه يجيء بالشر فيقول : أنا عملك الخبيث فيقول : رب لا تقم الساعة وفي رواية نحوه وزاد فيه : إذا خرج روحه صلى عليه كل ملك بين السماء والأرض وكل ملك في السماء وفتحت له أبواب السماء ليس من أهل باب إلا وهم يدعون الله أن يعرج بروحه من قبلهم . وتنزع نفسه يعني الكافر مع العروق فيلعنه كل ملك بين السماء والأرض وكل ملك في السماء وتغلق أبواب السماء ليس من أهل باب إلا وهم يدعون الله أن لا يعرج روحه من قبلهم " . رواه أحمد-
حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ہم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک انصاری شخص کے جنازہ کے ساتھ چلے ہم قبر پر پہنچے (قبر تیار نہ ہونے کی وجہ سے) ابھی جنازہ سپرد خاک نہیں ہوا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ تشریف فرما ہو گئے ہم بھی آپ کے گردا گرد (اس طرح ) بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں (یعنی ہم بالکل خاموش سر جھکائے بیٹھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی۔ جس سے آپ زمین کرید رہے تھے (جس طرح کہ کوئی شخص انتہائی تفکر و استغراق کے عالم میں ہوتا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور (ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین بار فرمایا۔ اور پھر فرمایا " جب بندہ مومن دنیا سے اپنا تعلق ختم کرنے کو ہوتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے (یعنی مرنے کے قریب ہوتا ہے) تو اس کے پاس آسمان سے نہایت روشن چہرے والے فرشتے اترتے ہیں (جن کے چہرہ کی چمک دمک ایسی ہوتی ہے) گویا کہ ان کے چہرے آفتاب ہیں، ان کے ہمراہ جنت کا (یعی ریشمی کپڑے کا) کفن اور جنت کی خوشبو (یعنی مشک و عنبر وغیرہ کی خوشبو) ہوتی ہے اور وہ (بسبب کمال ادب اور روح نکلنے کے انتظار میں ) اس کے سامنے اتنی دور کہ جہاں تک کہ اس کی نگاہ پہنچ سکے، بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت علیہ السلام آتے ہیں اور اس کے سر کے قریب بیٹھ کر کہتے ہیں کہ " اے پاک جان! اللہ بزرگ و برتر کی طرف سے مغفرت و بخشش اور اس کی خوشنودی کی طرف پہنچنے کے لیے جسم سے نکل! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) بندہ مومن کی جان (اس کے جسم سے) اس طرح ( یعنی آسانی اور سہولت سے) نکل آتی ہے جس طرح کہ مشک سے پانی کا قطرہ بہ نکلتا ہے۔ چنانچہ ملک الموت اس کو لے لیتے ہیں، جب ملک الموت اسے لے لیتے ہیں تو دوسرے فرشتے اس جان کو ملک الموت کے ہاتھ میں پلک جھپکنے کے بقدر بھی نہیں چھوڑتے یعنی غایت اشتیاق کی بنا پر فورا اس جان کو ملک الموت کے ہاتھوں سے (اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اس کو اس کفن میں اور اس خوشبو میں کہ جسے وہ اپنے ہاتھ میں لائے تھے رکھ لیتے ہیں، اور اس جان سے بہترین وہ خوشبو نکلتی ہے جو روئے زمین پر (زمین کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی فنا تک) پائی جانے والی مشک کی بہترین خوشبوؤں کے مانند ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ" پھر وہ فرشتے اس جان کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں، چنانچہ جب وہ فرشتے اس جان کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں تو (زمین و آسمان کے درمیان موجود) فرشتوں کی کسی بھی جماعت کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ جماعت پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کون ہے؟ وہ فرشتے جو اس روح کو لے جا رہے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا (یعنی اس کی روح) ہے اور وہ فرشتے اس کو بہترین نام و لقب (اور اس کے اوصاف) بتاتے ہیں جن کے ذریعہ اہل دنیا اس کا ذکر کرتے ہیں اسی طرح سوال و جواب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ فرشتے اس کو لے کر آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان تک) پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں جو ان کے لیے کھول دیا جاتا ہے (اسی طرح ہر آسمان کا دروازہ اس کے لیے کھولا جاتا ہے) اور ہر آسمان کے مقرب فرشتے دوسرے آسمان تک اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ساتوں آسمانوں تک (اسی اعزاز و اکرام کے ساتھ) پہنچا دیا جاتا ہے۔ پس اللہ عز وجل (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ اس بندہ کا نامہ اعمال علیین میں رکھو اور اس جان کو زمین کی طرف یعنی اس کے بدن میں جو زمین میں مدفون ہے واپس لے جاؤ (تاکہ یہ اپنے بدن میں پہنچ کر قبر کے سوال و جواب کے لیے تیار رہے) کیونکہ بے شک میں زمین ہی سے جسموں کو پیدا کیا ہے اور زمین ہی میں ان کو (یعنی اجسام و ارواح کو) واپس بھیجتا ہوں اور پھر زمین ہی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد وہ جان اپنے جسم میں پہنچا دی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے (یعنی منکر نکیر) آتے ہیں جو اسے بٹھلاتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ بندہ مومن جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے پھر وہ پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے پھر وہ پوچھتے ہیں کہ یہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے وہ جواب دیتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ یہ تم نے کیسے جانا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے خدا کی کتاب کو پڑھا، اس پر ایمان لایا۔ اور دل سے اسے سچ جانا (جس کی وجہ سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رسول ہونا معلوم ہوا پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے (یعنی خدا کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ) میرا بندہ سچا ہے اس کے لیے جنت کا بستر بچھاؤ اسے جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چنانچہ اس کی طرف جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس سے اسے جنت کی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے۔ پھر اس کی قبر کو حد نظر تک کشادہ کر دیا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد اس کے پاس ایک خوبصورت شخص اچھے کپڑے پہنے اور خوشبو لگائے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ خوشخبری ہو تجھے اس چیز کی جو تجھے خوش کرنے والی ہے۔ یعنی تیرے لیے وہ نعمتیں تیار ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا آج وہ دن ہے جس کا (دنیا میں) تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ بندہ مومن اس سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ تمہارا چہرہ حسن و جمال میں کامل ہے اور تم بھلائی کو لائے ہو اور اس کی خوشخبری سناتے ہو وہ شخص جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں (جو اس شکل و صورت میں آیا ہوں) آج وہ دن ہے جس کا (دنیا میں) تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا بندہ مومن (یہ سن کر) کہتا ہے اے میرے پروردگار قیامت قائم کر دے! قیامت قائم کر دے قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل و عیال کی طرف جاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور جب بندہ کافر دنیا سے اپنا تعلق ختم کرنے اور آخرت کی طرف جانے کو ہوتا ہے (یعنی اس کی موت کا وقت قریب آتا ہے) تو اس کے پاس سے آسمان سے (عذاب کے) کالے چہرے والے فرشتے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اور وہ اتنی دور کہ جہاں تک نگاہ پہنچ سکے بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آتا ہے اور اس کے سر کے قریب بیٹھ کر کہتا ہے کہ اے خبیث جان! خدا کی طرف سے عذاب (مبتلا کیے جانے کے لیے جسم سے باہر) نکل! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (کافر کی روح یہ سن کر) اس کے جسم میں پھیل جاتی ہے (یعنی روح کافر جب عذاب خداوندی کے آثار دیکھتی ہے تو اس کے خوف سے اپنے جسم سے نکلنے کے لیے تیار نہیں بلکہ پورے جسم میں چھپی چھپی پھرتی ہے بخلاف مومن کی روح کے کہ وہ انوار الٰہی اور پروردگار کے کرم کے آثار دیکھ کر جسم سے خوشی خوشی نکل آتی ہے) چنانچہ ملک الموت اس روح کو سختی اور زور سے باہر نکالتا ہے جیسا کہ تر صوف سے آنکڑا کھینچا جاتا ہے (یعنی جس طرح تر صوف سے آنکڑا بڑی سختی اور مشکل سے کھینچا جاتا ہے اور اس سختی سے کھینچنے کی وجہ سے صوف کے کچھ اجزاء اس آنکڑا سے لگے ہوئے باہر آ جاتے ہیں تو یہ حال ہوتا ہے کہ جیسے کہ روح کے ساتھ رگوں کے کچھ اجزاء لگے ہوئے باہر آ گئے ہیں) جب ملک الموت اس روح کو پکڑ لیتا ہے دوسرے فرشتے اس روح کو ملک الموت کے ہاتھ پلک جھپکنے کے بقدر بھی نہیں چھوڑتے بلکہ اسے لے کر ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں، اس روح میں سے ایسے (سڑے ہوئے) مردار کی بدبو نکلتی ہے جو روئے زمین پر پایا جائے۔ وہ فرشتے اس روح کو لے کر آسمان کی طرف چلتے ہیں چنانچہ جب وہ فرشتوں کی کسی جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ جماعت پوچھتی ہے کہ یہ کون ناپاک روح ہے؟ وہ فرشتے جو اسے لے جا رہے ہوتے ہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا ہے (یعنی فلاں شخص کی روح ہے) اور اس کے برے نام برے اوصاف کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں کہ جن نام و اوصاف سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اسے آسمان سے دنیا تک پہچنا دیا جاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کے واسطے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استدلال کے طور پر یہ آیت پڑھی : ( لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَا ءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ) 7۔ الاعراف : 40)۔ ان کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس روح کا اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو سب سے نیچے کی زمین ہے۔ چنانچہ کافر کی روح (نیچے) پھینک دی جاتی ہے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (استدلال کے طور پر) یہ آیت تلاوت فرمائی ( وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَا ءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ ) 22۔ الحج : 31) ۔ جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ ایسا ہے جیسے آسمان سے (یعنی ایمان و توحید کی بلندی سے کفر و شرک کی بستی میں) گر پڑا۔ چنانچہ اسے پرندے اچک لیتے ہیں (یعنی وہ ہلاک ہو جاتا ہے) یا ہوا اسے (اڑا کر) دور پھینک دیتی ہے (یعنی رحمت خداوندی سے دور ہو جاتا ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اسے شیطان نے گمراہی میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ مقام قرب سے دور جا پڑا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) اس کی روح اس کے جسم میں آ جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا۔ پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا پھر وہ فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں کہ یہ " شخص (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے کون ہیں؟ وہ کہتا ہے کہ ہاہ ہاہ! میں نہیں جانتا! (اس سوال و جواب کے بعد) پکارنے والا آسمان کی طرف سے پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے لہٰذا اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور اس کے لیے دوزخ کی طرف دروازہ کھول دو!۔ چنانچہ (اس کے لیے دوزخ کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے) جس سے اس کے پاس دوزخ کی گرمی اور اس کی گرم ہوا آتی رہتی ہے اور اس کے لیے اس کی قبر اس پر اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ (دونوں کنارے مل جانے سے ) اس کی پسلیاں ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر نکل جاتی ہیں۔ پھر اس کے پاس ایک بدصورت شخص آتا ہے جو برے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا ہے اور اس سے بدبو آتی رہتی ہے اور وہ اس سے کہتا ہے کہ تو وہ بری خبر سن، جو تجھے رنج و غم میں مبتلا کر دے، آج وہ دن ہے جس کا تجھ سے (دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے؟ تیرا چہرہ انتہائی برا ہے جو برائی لیے ہوئے آیا ہے۔ وہ شخص کہتا ہے کہ تیرا برا عمل ہوں (یہ سن کر) مردہ کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار قیامت قائم نہ کیجیے۔ ایک اور روایت میں اسی طرح منقول ہے مگر اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب مومن کی روح (اس کے جسم سے ) نکلتی ہے تو ہر وہ فرشتہ جو آسمان و زمین کے درمیان ہے اور ہر وہ فرشتہ جو آسمان میں ہے اس پر رحمت بھیجتا ہے۔ اس لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور (ہر آسمان کا) ہر دروازے والا (فرشتہ) اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتا ہے کہ اس مومن کی روح اس کی طرف سے آسمان پر لے جائی جائے (تاکہ وہ اس مومن کی روح کے ساتھ چلنے کا شرف حاصل ہو سکے) اور کافر کی روح رگوں کے ساتھ نکالی جاتی ہے چنانچہ زمین و آسمان کے درمیان تمام فرشتے اور وہ فرشتے جو (پہلے آسمان کے) ہیں اس پر لعنت بھیجتے ہیں اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور پہلے آسمان کے تمام دروازے والے اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ (اس کافر) بکی روح ان کی طرف سے نہ چڑھائی جائے" (احمد) تشریح حدیث کے الفاظ فتخرج تسیل کما تسیل القطرۃ من السقاء سے تو یہ معلوم ہوا کہ بندہ کی جان بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ نکلتی ہے جب کہ ایک اور روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جان نکلنے کے معاملہ میں مومون بھی بڑی سختی اور کرب میں مبتلا ہوتا ہے لہٰذا ان دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا کی جاتی ہے کہ مومن کی روح تو جسم سے نکلنے سے پہلے سختی میں مبتلا ہوتی ہے اور جسم سے نکلنے کے وقت آسانی و سہولت سے باہر آ جاتی ہے مگر بخلاف کافر کی روح کے کہ اس کی روح جسم سے نکلتے وقت بھی بڑی سختی اور کرب میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس حدیث میں بتایا ہے کہ مومن کی روح ساتویں آسمان تک پہنچائی جاتی ہے جب کہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ روح مومن عرش تک پہنچائی جاتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بعض روحین ساتویں آسمان تک پہنچائی جاتی ہوں اور بعض روحوں کو عرش تک لے جایا جاتا ہو۔ " علیین" ایک جگہ کا نام ہے جو ساتویں آسمان پر واقع ہے اور جس میں نیک لوگوں کے اعمال نامے رہتے ہیں۔ حدیث میں منکر نکیر کا تیسرا سوال اس طرح نقل کیا گیا ہے" یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے کون ہیں؟ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں سے تو اسی طرح سوال کیا جاتا ہو اور بعض لوگوں سے اس طرح پوچھا جاتا ہو کہ تمہارا نبی کون ہے؟ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں منقول ہے۔ حتی ارجع الی اھلی ومالی (تاکہ میں اپنے اہل و عیال کی طرف جاؤں) میں اہل سے مراد حوریں اور خدام ہیں اور مال سے محل جنت کے باغ اور وہاں کی از قسم مال دوسری چیزیں مراد ہیں یا پھر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اہل سے مراد مومن کے اہل قرابت اور مال سے مراد حور و قصور وغیرہ ہیں۔ و اللہ اعلم۔ " سجین" ساتویں زمین کے نیچے دوزخ کی گہرائیوں کا ایک جگہ کا نام ہے جہاں دوزخیوں کے نامہ اعمال رکھے جاتے ہیں چنانچہ حدیث کے الفاظ اکتبوا کتابہ فی سجین فی الارض السفلی میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوزخ ساتویں زمین کے نیچے ہے۔ خدا کے باغی اور سرکش لوگوں کو اپنی آغوش میں قبر کس دردناک طریقہ سے بھینچتی ہے؟ یہ تو آپ کو اس حدیث سے معلوم ہوا لیکن بعض مومنین بلکہ اکابر موحدین یعنی اولیاء اللہ کے لیے بھی ضغط یعنی قبر کا بھینچنا ثابت ہے مگر اس کی کیفیت یہ نہیں ہوتی بلکہ مومن کے لیے قبر اپنے دونوں کنارے اس طرح ملاتی ہے جیسے کوئی ماں انتہائی اشتیاق و محبت کے عالم میں اپنے بچے کو گلے سے لگاتی ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ " کافر کی روح رگوں کے ساتھ نکالی جاتی ہے" میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کافر کی روح اپنا جسم بہت مشکل اور بڑی سختی سے چھوڑتی ہے۔ چونکہ اسے اپنے جسم سے کمال تعلق ہوتا ہے اور وہ جسم سے نکلنا نہیں چاہتی اس لیے موت کا فرشتہ اسے کھینچ کر باہر نکالتا ہے۔
-