TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
قصاص کا بیان
مقتول کے ورثاء کو قصاص اور دیت دونوں میں سے کسی ایک کو لینے کا اختیار ہے
وعن أبي شريح الكعبي عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " ثم أنتم يا خزاعة قد قتلتم هذا القتيل من هذيل وأنا والله عاقله من قتل بعده قتيلا فأهله بين خيرتين : عن أحبوا قتلوا وإن أحبوا أخذا العقل " . رواه الترمذي والشافعي . وفي شرح السنة بإسناده وصرح : بأنه ليس في الصحيحين عن أبي شريح وقال :-
اور حضرت ابوشریح کعبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے دن جو خطبہ ارشاد فرمایا اور جس کا ابتدائی حصہ حرم مکہ کے باب میں گزر چکا ہے ، اسکے آخر الفاظ یہ تھے ) فرمایا " اے خزاعہ ! تم نے اس مقتول کو جو قبیلہ ہذیل کا ایک فرد تھا قتل کیا ہے اور میں خدا کی قسم ، اس کا خون بہا دینے کا ذمہ دار ہوں ، اب اس کے بعد (اس حکم سے مطلع کیا جاتا ہے کہ ) اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ (١) چاہے وہ قاتل کو مار ڈالیں ۔ (٢) چاہے اس سے خون بہا لے لیں ۔ (ترمذی ، شافعی) شرح السنۃ میں یہ روایت شافعی کی اسناد کے ساتھ مذکور ہے اور شرح السنۃ کے مصنف علامہ بغوی نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ حدیث بخاری ومسلم میں ابوشریح سے منقول نہیں ہے ، لیکن بغوی نے کہا ہے کہ بخاری ومسلم میں یہ روایت ابوہریرہ سے منقول ہے حالانکہ اس میں بھی بالمعنی منقول ہے ۔" تشریح : حدیث کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں قبیلہ ہذیل نے قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص کو مار ڈالا تھا ، چنانچہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے اب آ کر اپنے مقتول کے بدلے میں قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کو قتل کر دیا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قبیلوں کے درمیان متوقع فتنہ وفساد کو روکنے کے لئے قبیلہ ہذیل کے اس مقتول کا 'خون بہا'دے دیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اور میں خدا کی قسم اس خون بہا دینے کا ذمہ دار ہوں " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس سلسلہ میں یہ شرعی قانون بیان فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی کو ناحق مار دے تو مقتول کے ورثاء کا حق یہ ہے کہ چاہئے وہ قاتل کو قتل کر دیں اور چاہئے قاتل سے خون بہا لے لیں چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہی ہے اور اس اعتبار سے یہ ارشاد گرامی ان دونوں کے مسلک کی دلیل ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء کو قاتل سے خون بہا لینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہوگا جب کہ قاتل خود بھی اس پر راضی ہو، اگر قاتل خون بہا دینے پر راضی نہ ہو تو مقتول کے ورثاء کو صرف یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ قاتل کو قتل کر دیں، کہا جاتا ہے کہ حضرت امام شافعی کا بھی یہی قول ہے ، ان حضرات کے نزدیک اس ارشاد گرامی کی تاویل یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ چاہے وہ قاتل کو قتل کر دیں چاہے اس سے خون بہا لے لیں اگر خون بہا ان کو دیا جائے ۔ حالانکہ ان سے بھی بالمعنی منقول ہے " اس کے ذریعہ مصنف مشکوۃ نے گویا صاحب مصابیح امام بغوی پر اعتراض کیا ہے بخاری ومسلم میں یہ حدیث بالمعنی تو مذکور ہے لیکن اصل حالت میں یعنی یہاں کے مذکور الفاظ کے ساتھ نہ تو ابوشریح سے اور نہ ابوہریرہ سے منقول ہے جیسا کہ خود بغوی نے کہا ہے کہ یہ روایت بخاری ومسلم میں نہیں ہے اور پھر اس روایت کو یوں فصل اول میں کیوں نقل کیا ہے کیونکہ فصل اول میں تو وہی حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جو بخاری ومسلم میں مذکور ہوں ۔
-