TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
مقتدی مرد و عورت کس طرح کھڑے ہوں
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ صَلَّےْتُ اَنَا وَےَتِےْمٌ فِیْ بَےْتِنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاُمُّ سُلَےْمٍ خَلْفَنَا (صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اور یتیم نے اپنے مکان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز (جماعت سے ) پڑھی اور ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔ " (صحیح مسلم) تشریح ام سلیم حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام تھا اور یتیم ان کے بھائی کا نام تھا۔ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یتیم ہی ان کا نام تھا لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ان کا نام ضمیرہ تھا۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام کے پیچھے مرد و عورت دونوں مقتدی کی حیثیت سے نماز میں شامل ہوں تو مردوں کو اپنی صف آگے قائم کرنی چاہیے اور عورتوں کی صف پیچھے رکھنی چاہیے۔
-
وَعَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلّٰی بِہٖ وَبِاُمِّہٖ اَوْ خَالَتِہٖ قَالَ فَاَقَامَنِیْ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ وَاَقَامَ الْمَرْاَۃَ خَلْفَنَا۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے (یعنی حضرت انس کے) اور ان کی والدہ (ام سلیم) یا ان کی خالہ کے ہمراہ نماز پڑھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اپنی دائیں طرف اور عورت (یعنی ان کی والدہ یا خالہ) کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔" (صحیح مسلم)
-
عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَص اَنَّہُ انْتَھٰی اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ رَاکِعٌ فَرَکَعَ قَبْلَ اَنْ ےَّصِلَ اِلَی الصَّفِّ ثُمَّ مَشٰی اِلَی الصَّفِّ فَذُکِرَ ذَالِکَ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَّلَا تَعُدْ۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ (ایک مرتبہ نماز میں شامل ہونے کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے وہ (اس بات کے پیش نظر کہ رکوع ہاتھ سے چلا نہ جائے نیت اور تکبیر تحریہ کے بعد) صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے پھر آہستہ آہستہ چل کر صف میں شامل ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ (اطاعت اور نیک کام کے بارے میں) تمہاری حرص اور زیادہ کرے ۔ لیکن آئندہ ایسا نہ کرنا۔" (صحیح البخاری) تشریح جس وقت حضرت ابوبکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جا چکے تھے یہ بجائے اس کے کہ صف میں شامل ہو کر نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں جاتے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی نیت اور تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلے گئے اور پھر وہاں سے دو قدموں کے برابر یا دو قدموں سے بھی زیادہ مگر غیر متوالیہ یعنی قدم پے در پے رکھتے ہوئے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتے ہوئے چلے اور صف میں شامل ہوگئے چنانچہ دو ایک قدم چلنے سے نماز کا اعادہ لازم نہیں آتا لیکن اولیٰ یہی ہے کہ اس سے بھی احتراز کیا جائے۔ حدیث کے آخری لفظ " لا تعد" کئی طرح منقول ہے۔ (١) ایک تو اسی طرح جیسا کہ یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ یعنی تا کے زبر اور عین کے پیش کے ساتھ جو عود سے ماخوذ ہے اس کے معنی ہیں آئندہ ایسا نہ کرنا۔ (٢) دوسرے عین کے سکون اور دال کے پیش کے ساتھ لا تعد جو عدوم دوڑنا سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اس لفظ کا مطلب یہ ہوگا کہ آئندہ نماز کے لیے چلنے میں اس طرح جلد نہ کرنا بلکہ صبر و سکون اور اطمینان و وقار کے ساتھ چلو۔ یہاں تک کہ صف میں شامل ہو جاؤ پھر اس کے بعد نماز شروع کرو (٣) تیسرے تاکہ پیش اور عین کے زیر کے ساتھ یعنی لاتعد جو اعادۃ (لوٹنا) ماخوذ ہے۔ اس شکل میں حدیث کے معنی یہ ہوں گے" جو نماز تم پڑھ چکے ہو اسے لوٹاؤ نہیں۔" بہر حال : ان سب میں پہلا قول یعنی لا تعد (آئندہ نہ کرنا) ہی عقل و نقل کی روشنی میں سب سے زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ صف کے پیچھے تنہا کھڑا ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز لوٹانے کے لیے نہیں فرمایا۔ ہاں کراہت بلا شبہ ہے۔
-