مسواک کرنے بیان

؂-
یوں تو مسواک کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کرام کے نزدیک سنت ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خاص طور پر وضو کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وضوء و نماز کے وقت مسواک کرنا مسنون ہے، نیز نماز فجر اور نماز ظہر سے پہلے بھی مسواک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، مسواک کرنے میں بڑی خیر و برکت اور بہت فضیلت ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ مسواک کرنے کی فضیلت میں چالیس احادیث وارد ہوئی ہیں، پھر نہ صرف یہ کہ مسواک کرنا ثواب کا باعث ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ مسواک کرنے سے منہ پاک و صاف رہتا ہے ، منہ کے اندر بدبو پیدا نہیں ہوتی، دانت سفید و چمک دار ہوتے ہیں، مسوڑھوں میں قوت پیدا ہوتی ہے اور دانت مضبوط ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو ہر حال میں مسواک کرنا مستحب اور بہتر ہے مگر بعض حالتوں میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے مثلاً وضو کرنے کے وقت، قرآن شریف پڑھنے کے لیے، دانتوں پر زردی اور میل چڑھ جانے کے وقت اور سونے، چپ رہنے، بھوک لگنے یا بدبو دار چیز کھانے کے سبب منہ کا مزہ بگڑ جانے کی حالت میں مسواک زیادہ مستحب اور اولیٰ ہے۔ مسواک کرنے کے کچھ آداب و طریقے ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ کسی مجلس و مجمع میں اس طرح مسواک کرنا کہ منہ سے رال ٹپکتی ہو مکروہ ہے خصوصاً علماء اور بزرگوں کے قریب اس طرح مسواک کرنا مناسب نہیں ہے۔ مسواک کڑوے درخت مثلاً نیم وغیرہ کی ہونی چاہئے، پیلو کے درخت کی مسواک زیادہ بہتر ہے چنانچہ احادیث میں بھی پیلو کی مسواک کا ذکر آیا ہے نیز حضرت امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ پیلو کی مسواک کی جائے مسواک کا سرا چھنگلیا کی طرف ہونا چاہئے اور مسواک کی لمبائی ایک بالشت کے برابر ہونی چاہئے، مسواک دانتوں کی چوڑائی پر کرنی چاہئے لمبائی پر مسواک نہ کی جائے کیونکہ اس طرح مسواک کرنے سے مسوڑھے چھل جاتے ہیں۔ مسواک کرنے کے وقت کے بارے میں اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ جب وضو شروع کیا جائے تو کلی کے وقت مسواک کرنی چاہئے مگر بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ وضو کرنے سے پہلے ہی مسواک کر لینی چاہئے، نیز مسواک کرنے میں مستحب ہے کہ مسواک دائیں طرف سے شروع کی جائے۔ اگر کسی آدمی کے پاس مسواک نہ ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہوں تو ایسی حالت میں انگلی سے دانت یا مسوڑھوں کو صاف کرنا چاہئے یا اسی طرح مسواک کو نرم کرنے کے لیے اگر کوئی پتھر نہ ملے اور ایسی شکل میں مسواک کرنا ممکن نہ ہو تو دانت کو ایسی چیزوں سے صاف کر لیا جائے جو منہ کی بد مزگی کو دور کردیں جیسے موٹا کپڑا اور منجن وغیرہ یا صرف انگلی ہی سے صاف کر لے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَمَرْتُھُمْ بِتَاخِےْرِ الْعِشَآءِ وَباِلسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " اگر میں اپنی امت پر اس بات کو مشکل نہ جانتا تو مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز دیر سے پڑھیں اور ہر نماز کے لیے مسواک کریں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنا مستحب اور بڑی فضیلت کی بات ہے اسی طرف یہ حدیث اشارہ کر رہی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میری امت دشواری میں مبتلا ہو جائے گی تو میں یہ فرض قرار دیتا کہ تمام مسلمان عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھا کریں" اب تاخیر کی حد کیا ہے؟ اس بارے میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ تہائی یا آدھی رات تک عشاء کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔ دوسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ اگر اس معاملہ میں بھی تنگی و مشکلات کا خوف نہ ہوتا تو اس بات کا علان کر دیتا کہ ہر نماز کے وقت یعنی ہر نماز کے وضو کے وقت مسواک کرنا فرض ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ امت کے حق میں سراپا رحمت و شفقت ہیں اس لیے آپ نے ان چیزوں کو فرض کا درجہ نہیں دیا کہ فرض ہونے کی شکل میں مسلمان تنگی اور تساہلی کی بناء پر ان فرائض پر عمل نہیں کر سکیں گے نتیجے کے طور پر گناہ گارہوں گے، لہٰذا ان کو صرف مستحب ہی قرار دیا کہ اگر کوئی آدمی ان پر عمل نہ کرے اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا اور کوئی اللہ کا بندہ اس پر عمل پیرا ہو جائے تو یہ اس کے حق میں سرا سر سعادت و نیک بختی کی بات ہوگی۔
-
وَعَنْ شُرَےْحٍ بْنِ ھَانِئٍصقَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا بِاَیِّ شَےْئٍ کَانَ ےَبْدَأُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَادَخَلَ بَےْتَہُ قَالَتْ بِالسِّوَاکِ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت شریح ابن ہانی راوی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں تشریف لاتے تو پہلے کیا کرتے؟ انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے۔" (صحیح مسلم) تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے اور یہ آپ و کے مزاج اقدس کی انتہائی نظافت کی دلیل تھی کہ اگر مجلس مبارک میں خاموش بیٹھنے یا لوگوں سے گفتگو کرنے کی وجہ سے منہ کے اندر کچھ تغیر آگیا ہو تو وہ دور ہو جائے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل مبارک کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی تعلیم امت کا مقصد سامنے آئے گا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ انتہائی پاکیزگی و صفائی کے ساتھ رہا کریں یہاں تک کے آپ میں گفتگو و کلام کرنے اور ملنے جلنے کے لیے مسواک کر لیا کریں تاکہ کوئی آدمی منہ کی بدمزگی یا بو کے تغیر کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کرے۔ مسواک کی فضیلت کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے منقول ہے کہ مسواک کرنے کے ستر فائدے ہیں جن میں سب سے ادنیٰ اور کم درجہ فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت کو یاد رکھے گا جس کی بناء پر اس کا خاتمہ یقینا خیر پر ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ افیون کھانے کے ستر نقصان ہیں جن میں سب سے ادنی اور کم تر نقصان یہ ہے کہ افیون کھانے والا آدمی موت کے وقت کلمہ شہادت بھول جائے گا ، العیاذ با اللہ حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر آدمی کے لیے یہ تاکید ہے کہ وہ جب گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سب سے پہلے مسواک کرے کیونکہ اس سے منہ میں بہت زیادہ خوشبو پیدا ہو جاتی ہے جس سے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں اضافہ ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ حُذَےْفَۃَص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَامَ لِلتَّھَجُّدِ مِنَ اللَّےْلِ ےَشُوْصُ فَاہُ بِالسِّوَاکِ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات تہجد کی نماز کے لیے اٹھتے تو اپنا منہ مسواک سے ملتے اور دھوتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمعَشْرٌمِّنَ الْفِطْرَۃِ:قَصُّ الشَّارِبِ، وَاِعْفَاءُ اللِّحْیَۃِ،وَالسِّوَاکُ، وَاسْتِنْشَا قُ الْمَائِ،وَقَصُّ الْاَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ،وَنَتْفُ الْاِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَۃِ،وَانْتِقَاصُ الْمَائِ-یَعْنِیْ الْاِسْتِنْجَائَ۔ قَالَ الرَّاوِیُّ وَنَسِیْتُ الْعَاشِرَۃَ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ الْمَضْمَضَۃُ۔ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔)وفی رواتۃ الختان بدل اعفاء اللحیۃ لم اجد ھذہ الروایۃ فی الصحیحین ولا فی کتاب الحمیدی ولکن زکر ھا صاحب الجامع وکذا الخطابی فی معالم السنن عن ابی داود۔ (روایۃ عمار بن یاسر)-
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " دس چیزیں فطرت میں سے ہیں (یعنی دین کی باتیں) (١) لبوں کے بال کٹوانا (٢) داڑھی کا بڑھانا (٣) مسواک کرنا (٤) ناک میں پانی دینا (٥) ناخن کٹوانا (٦) جوڑوں کی جگہ کو دھونا (٧) بغل کے بال صاف کرنا (٨) زیر ناف بالوں کو مونڈنا (٩) پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا " راوی یعنی مصعب یا زکریا کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ (صحیح مسلم) اور ایک روایت میں (دوسری چیز) " داڑھی بڑھانے" کے بجائے " ختنہ کرانا " ہے اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں کہ " مجھے یہ روایت نہ صحیحین یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ملی ہے اور نہ کتاب حمیدی میں (جو صحیحین کی جامع ہے، البتہ اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب میں) ذکر کیا ہے، اسی طرح خطابی نے معالم السنن میں ابوداؤد کے حوالہ سے حضرت عمر ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے۔" تشریح : اس حدیث میں جن دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام چیزیں پچھلے تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں سنت تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی دین اسلام میں بھی سنت ہیں چنانچہ اکثر علماء کرام کے نزدیک فطرت کے یہی معنی ہیں، دوسری شروحات میں اس کے علاوہ علماء کے دوسرے اقوال بھی منقول ہیں لیکن طوالت کی بناء پر یہاں سب کو ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ پہلی چیز لبوں کے بال یعنی مونچھوں کا کٹوانا ہے، اس سلسلہ میں مختار مسلک" یہی ہے مونچھیں کتروائی جائیں اور اس طرح کتروائی جائیں کہ اوپر کے ہونٹ کا کنارہ معلوم ہونے لگے۔ امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک روایت یہ ہے کہ مونچھیں بھوؤں کی برابر رکھنی چاہئیں۔ البتہ غازیوں اور مجاہدوں کو زیادہ مونچھیں بھی رکھنی جائز ہے کیوں کہ زیادہ مونچھیں دشمن کی نظر میں دہشت کا باعث ہوتی ہیں اور اس سے ان پر رعب چھا جاتا ہے، مونچھوں کا زیادہ کٹوانا کہ ان کا نشان بھی باقی نہ رہے یا بالکل منڈوانا مکروہ ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک حرام ہے مگر بعض علماء نے اسے سنت بھی کہا ہے۔ دوسری چیز داڑھی کا بڑھانا ہے، اس کے بارے میں علماء کا فیصلہ ہے کہ داڑھی کی لمبائی ایک مٹھی کے برابر ہونا ضروری ہے اس سے کم نہ ہونا چاہئے اگر مٹھی سے زیادہ بھی ہو جائز ہے بشر طیکہ حد اعتدال سے نہ بڑھ جائے۔ داڑھی کو منڈوانا یا پست کرنا حرام ہے کیونکہ یہ اکثر مشرکین مثلاً انگریز و ہندو کی وضع ہے، اسی طرح منڈی ہوئی یا پست داڑھی ان لوگوں کی وضع ہے جنہیں دین سے کوئی حصہ نصیب نہیں ہے کہ جن کا شمار " گروہ قلندری رمد مشرب" میں ہوتا ہے۔ داڑھی کے بال ایک مٹھی کے برابر چھوڑنا واجب ہے اسے سنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسے نماز عید کو سنت فرماتے ہیں حالانکہ عید واجب ہے۔ اگر لمبائی یا چوڑائی میں کچھ بال آگے بڑھ کر بے ترتیب ہو جائیں تو ان کو کتروا کر برابر کرنا جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ انہیں بھی نہ کتروایا جائے، اگر کسی عورت کی داڑھی نکل آئے تو اسے صاف کر ڈالنا مستحب ہے۔ تیسری چیز مسواک کرنا ہے، اس کے متعلق پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ مسواک کرنا بالاتفاق علماء کرام کے نزدیک سنت ہے، بلکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے تو اسے واجب کہا ہے، حضرت شاہ اسحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ اگر کوئی آدمی مسواک کو قصدا چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل ہوگی، چوتھی چیز ناک میں پانی دینا ہے، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وضو کے لیے ناک میں پانی دنیا مستحب ہے اور غسل کے لیے ناک میں پانی دینا فرض ہے یہی حکم کلی کا بھی ہے کہ وضو میں کلی کرنا سنت ہے اور غسل میں فرض ہے۔ پانچویں چیز ناخن کا کٹوانا ہے، ناخن کسی طرح بھی کٹوائے جائیں اصل سنت ادا ہو جائے گی لیکن اولٰی اور بہتر یہ ہے کہ ناخن کٹوانے کے وقت یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ناخن کٹوائے جائیں اس کے بعد بیچ کی انگلی کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی کے پھر چھنگلیا کے پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں، اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن اس طرح کٹوائے جائیں کہ سب سے پہلے چھنگلیا کے اس کے بعد اس کے پاس کی انگلی اس کے بعد بیچ کی انگلی اس کے بعد شہادت کی انگلی اور پھر بعد میں انگوٹھے کے ناخن کٹوائے جائیں۔ بعض علماء کرام نے یہ طریقہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے ناخن کٹوانا شروع کرے اور چھنگلیا پر پہنچ کر روک دے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے شروع کرے اور اس کے انگوٹھے تک پہنچ کر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کر دے۔ اسی طرح پیر کے ناخن اس طرح کٹوانا چاہئے کہ پہلے دائیں پیر کی چھنگلیا سے کٹوانا شروع کرے اور آخر میں بائیں بیر کی چھنگلیا پر لے جا کر ختم کرے بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ جمعہ کے روز ناخن کتروانا مستحب ہے، کچھ حضرات نے ناخن کٹوا کر ان کو زمین میں دفن کر دینے کو بھی مستحب لکھا ہے، اگر ناخن پھینک دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن ان کو پاخانہ میں یا غسل کی جگہ میں پھینکنا مکروہ ہے۔ چھٹی چیز براجم یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا ہے، براجم فرماتے ہیں انگلیوں کی گانٹھوں (جوڑوں) کو اور اس کی اوپر کی کھال کو جو چنٹ دار ہوتی ہے اس میں اکثر میل جمع ہوتا ہے ۔ خصوصاً جو لوگ ہاتھ سے کام کاج زیادہ کرتے ہیں ان کی انگلیاں سخت ہو جاتی ہیں اور ان میں میل جم جاتا ہے، لہٰذا ان کو دھونے کی تاکید فرمائی جا رہی ہے، اسی طرح بدن کے وہ اعضاء جن میں میل جم جانے کا گمان ہو جیسے کان، بغل، ناف ان کو بھی دھونے کا یہی حکم ہے۔ ساتویں چیز بغل کے بالوں کو صاف کرنا ہے، اس سلسلہ میں نتف استعمال فرمایا گیا ہے، نتف بال اکھاڑنے کو فرماتے ہیں، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ بغل کے بالوں کو منڈوانا سنت نہیں ہے بلکہ ان کو ہاتھ سے اکھاڑنا سنت ہے مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ بغل کے بالوں کو ہاتھ سے اکھاڑنا اس آدمی کے لیے افضل ہے جو اس کی تکلیف کو برداشت کر سکتا ہو، ویسے بغل کے بالوں کا منڈوانا یا نورے سے صاف کرنا بھی جائز ہے۔ آٹھویں چیز زیر ناف بالوں کو مونڈنا ہے، یہ بھی سنت ہے، زیر ناف بال، اگر منڈانے کی بجائے اکھاڑے جائیں، یا نور سے صاف کئے جائیں تو بھی ان کے حکم میں شامل ہوں گے مگر قینچی سے کاٹنے میں سنت ادا نہیں ہوتی۔ مقعد (پاخانہ کے مقام) کے گرد جو بال ہوتے ہیں ان کو بھی صاف کرنا مستحب ہوتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر ناف بالوں نورے ( نورہ ایک خاص مرکب چیز کو فرماتے ہیں جو ہڑتال اور چونے سے ملا کر بنائی جاتی تھی جس سے بال اڑجاتے ہیں۔) سے صاف کیا کرتے تھے وا اللہ اعلم۔ عورتوں کو زیر ناف بال اکھاڑنا اولیٰ ہے کیونکہ اس سے خاوند کو رغبت زیادہ ہوتی ہے، نیز عورت کے اندر چونکہ خواہشات نفسانی اور شہوت ننانوے حصہ ہوتی ہے اور مرد میں صرف ایک حصہ ہوتی ہے اور یہ طے ہے کہ زیر ناف بال اکھاڑنے سے شہوت کم ہوتی ہے اور مونڈنے سے قوی ہوتی ہے، لہٰذا عورت کے مناسب حال یہی ہے کہ وہ بال اکھاڑے اور مرد کے مناسب حال یہ ہے کہ وہ مونڈے۔ زیر ناف بال مونڈنے، بغل کے بال اکھاڑنے، مونچھیں کتروانے اور ناخن کٹوانے کی مدت زیادہ سے زیادہ چالیس دن ہونی چاہئے، چالیس دن کے اندر اندر ان کو صاف کر لینا چاہئے اس سے زیادہ مدت تک انہیں چھوڑے رکھنا مکروہ ہے۔ نویں چیز پانی کا کم کرنا یعنی پاکی کے ساتھ استنجاء کرنا ہے۔ انتقاص الماء کے دو مطلب ہیں ایک تو یہی جو راوی نے بیان کئے ہیں یعنی پانی کے ساتھ استنجاء کرنا چونکہ استنجاء کرنے میں پانی خرچ ہوتا ہے اور کم ہو جاتا ہے اس لیے اس انتقاص الماء (پانی کا کم کرنا) سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرے معنی یہ کہ پانی کے استعمال یعنی استنجاء کرنے کی بناء پر پیشاب کو کم کرنا، مطلب یہ ہے کہ پانی سے استنجاء کرنے کی وجہ سے پیشاب کے قطرے رک جاتے ہیں اس طرح پیشاب میں کمی ہو جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں انتقاص کی جگہ لفظ انتقاض آیا ہے اس کے معنی ہیں ستر کے اوپر پانی چھڑکنا جیسا کہ پہلی حدیثوں میں گزر چکا ہے، بہر حال یہ دونوں چیزیں بھی سنت ہیں ۔ ختنہ چونکہ شعائر اسلام میں سے ہے اس لیے اگر کسی شہر کے تمام لوگ ختنہ ترک کر دیں تو امام وقت کو ان کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے تا آنکہ وہ لوگ اس اسلامی شعائر کو اختیار کر لیں جیسے آذان کے بارے میں حکم ہے۔ ختنہ کرنے کی عمر اور وقت کے تعین میں علماء کے یہاں اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک پیدائش کے ساتویں دن ختنہ کر دینا چاہئے جیسے عقیقہ ساتویں دن ہوتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک سال اور بعض کے نزدیک نو سال کی مدت ہے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی قید نہیں ہے، جب چاہے ختنہ کر دیا جائے، گویا بالغ ہونے سے پہلے پہلے جب بھی وقت اور موقع ہو ختنہ کرایا جا سکتا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس صورت میں بلوغ سے پہلے کی شرط بطور خاص ہے کیونکہ ختنہ کرنا سنت ہے اور بالغ ہونے کے بعد ستر چھپانا واجب ہے اس لیے اگر کوئی آدمی بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے ایک سنت کو ادا کرنے کے لیے واجب کو ترک کر دیا حالانکہ سنت کی ادائیگی کے لیے واجب کو ترک کر دینا جائز نہیں۔
-
عَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ السِّوَاکُ مُطْھَرَۃٌ لِّلْفَمِ مَرْضَاۃُ لِّلْرَّبِّ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَ اَحْمَدُ وَالدَّارِمِیُّ وَالنِّسَائِیُّ وَرَوَی الْبُخَارِیُّ فِی صَحِیْحِہٖ بِلَا اِسْنَادٍ۔-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " مسواک کرنا، منہ کی پاکی کا سبب ہے اور پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہے" شافعی، مسند احمد بن حنبل، دارمی، سنن نسائی) اور امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح (جامع صحیح البخاری) میں بغیر سند کے نقل کیا ہے۔"
-
وَعَنْ اَبِی اَیُّوْبَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَرْبَعُ مِّنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ الْحَیَاءُ وَیُرْوَی الْخِتَانُ وَالتَّعَطُّرُوَالسِّوَاکُ وَالنِّکَاحُ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" حضرت ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں (١) حیا کرنا ( ایک روایت میں) ختنہ کرنا مروی ہے (یعنی اس روایت میں تو الحیاء کا لفظ ہے اور بعض روایت میں اس کے بجائے الختان کا لفظ آیا ہے۔ (٢) خوشبو لگانا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔" (جامع ترمذی ) تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ چار چیزیں رسولوں کے طریقہ میں سے ہیں کہ اکثر کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام ایسے بھی تھے جن کے یہاں ان میں سے کچھ چیزیں نہیں پائی جاتی تھیں مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام نے نکاح نہیں کیا تھا۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت شیث، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت سلیمان، حضر زکریا، حضرت عیسیٰ علیم السلام اور حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام جو " اصحاب الرس" کے نبی تھے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مختون ہی اس دنیا میں تشریف لائے تھے، یعنی انبیاء و رسول ختنہ کئے ہوئے پیدا ہوئے تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض علماء کرام کا قول ہے کہ پیدا ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نظافت ولطافت کے انتہائی بلند مقام پر تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو زیادہ مرغوب تھی، چنانچہ منقول ہے کہ آپ خوشبو کے لیے مشک استعمال فرماتے تھے۔ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کی بہت زیادہ اہمیت ہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان فرما دیا ہے کہ جو آدمی میری اس سنت سے اعراض کرے گا یعنی نکاح نہیں کرے گا تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔ حضرت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے نکاح کے فضائل و مناقب میں منقول جو احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم لَا یَرْقُدُ مِنْ لَیْلِ وَلَانَھَارِ فَیَسْتَیْقِظُ اِلَّا یَتَسَوَّکُ قَبْلَ اَنْ یَتَوَضَّأَ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل وابوداؤد)-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات اور دن میں سو کر اٹھتے تو وضو کر نے سے پہلے مسواک کرتے۔" (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد) تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن میں بھی قیلولہ کے وقت آرام فرماتے تھے، چنانچہ دن میں تھوڑا بہت سو لینا اور قیلولہ کے وقت آرام کرنا سنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے رات میں اللہ کی عبادت کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوتی ہے جیسے کہ سحری کھا لینے سے روزہ آسان ہو جاتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سو کر اٹھنے کے بعد مسواک کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ سونے کی وجہ سے منہ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور بو میں فرق آجاتا ہے اس لیے مسواک کرنے سے منہ صاف ہو جاتا ہے۔ اب اس میں احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر وضوء کے لیے دوبارہ مسواک کرتے تھے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ اسی مسواک پر اکتفا فرماتے ہوں اور وضوء کے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وضو کے ارادہ کے وقت یا وضو میں کلی کرتے وقت دوبارہ مسواک کرتے ہوں۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَاکُ فَیُعْطِیْنِیْ السِّوَاکَ لِاَغْسِلَہ، فَاَبْدَاُ بِہٖ فَاَسْتَاکُ ثُمَّ اَغْسِلُہ، وَاَدْفَعُہ،۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور پھر مجھے دے دیتے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں چنانچہ میں (آپ سے مسواک لے کر ) پہلے اس سے خود مسواک کرتی پھر دھوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی۔ " (سنن ابوداؤد) تشریح یہ حدیث اس بات کے لیے دلیل ہے کہ مسواک کرنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے، حضرت ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ تین مرتبہ مسواک کی جائے اور ہر مرتبہ اسے پانی سے دھو لیا جائے تاکہ اس کا میل کچل دور ہوتا رہے اور یہ کہ مسواک نرم ہونی چاہئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر دھونے سے پہلے اپنے منہ میں اس لیے پھیرتی تھیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعاب مبارک کی برکت حاصل ہو، پھر اسے دھو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتی تھیں تاکہ مسواک پوری طرح نہ کی ہو تو اسے مکمل کر لیں۔ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کسی دوسرے کی مسواک اس کی رضا مندی سے استعمال کر لینا مکروہ نہیں ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صالحین اور بزرگوں کے لعاب وغیرہ سے برکت حاصل کرنا اچھی بات ہے۔
-
وَ عَنْ ابْنِ عُمَرْص اَنَّ النَّبِِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اُرَانِیْ فِی الْمَنَامِ اَتَسَوَّکُ بِسِوَاکٍ،فَجَاءَ نِیْ رَجُلَانِ اَحَدُھُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْاٰخَرِ فَنَاوَلْتُ السِّوَاکَ الْاَصْغَرَ مِنْھُمَا فَقِیْلَ لِیْ کَبِّرْ فَدَفَعْتُہُ اِلَی الْاَکْبَرِ مِنْھُمَا۔(مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نے اپنے آپ کو خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کر رہا ہوں (اس اثناء میں) دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے کا ارادہ کیا مگر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو مسواک دو، چنانچہ میں نے ان میں سے بڑے کو مسواک دی۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : اس حدیث سے مسواک کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے اس لیے کہ اسے بڑے کو دینے کا حکم کیا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ایک افضل اور بہترین چیز ہے جب ہی تو بڑے کو جو چھوٹے سے افضل و اعلیٰ تھا، دئیے جانے کا حکم کیا گیا۔ اس حدیث نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ کھانا وغیرہ دینے، خوشبو لگانے یا ایسی ہی دوسری چیزوں میں ابتداء بڑے سے ہی کرنی چاہئے۔
-
وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا جَا ءَ نِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ اسَّلَامُ قَطُّ اِلَّا اَمَرَنِیْ بِالسِّوَاکِ لَقَدْ خَشِیْتُ اَنْ اُخْفِیَ مُقَدَّمَ فِیَّ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)-
" حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آتے مجھے مسواک کرنے کا حکم دیتے (یہاں تک کہ) یہ مجھے خوف ہوا کہ (کہیں مسواک کی زیادتی سے ) میں اپنے منہ کے اگلے حصہ کو چھیل نہ ڈالوں۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح : مسواک کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسواک کرنے کا حکم دیتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی بنا پر کثرت سے مسواک کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرما رہے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بار بار حکم اور اس شدت سے تاکید کی بناء پر مسواک اتنی کثرت سے استعمال کرتا ہوں کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ مسواک کی زیادتی سے کہیں میرا منہ نہ چھیل جائے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلملَقَدْ اَکْثَرْتُ عَلَیْکُمْ فِیْ السِّوَاکِ۔(رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ)-
" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " میں نے تم سے مسواک کے متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے۔" (صحیح البخاری ) تشریح : اس ارشاد کا مقصد مسواک کی فضیلت و اہمیت کو بتانا ہے اور اس پر تاکید فرمانی ہے کہ مسواک زیادہ سے زیادہ کرنی چاہئے اس لیے کہ کسی چیز کو بار بار بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ چیز بڑی اہمیت و فضیلت کی حامل ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَنُّ وَعِنْدَہ، رَجُلَانِ اَحَدُھُمَا اَکْبَرُ مِنَ الْاٰخَرِ فَاَوْحِیَ اِلَیْہِ فِی فَضْلِ السِّوَاکِ اَنْ کَبِّرْاَعْطِاالسِّوَاکَ اَکَبْرَھُمَا۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی تھے جن میں ایک دوسرے سے بڑا تھا چنانچہ مسواک کی فضیلت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ وحی نازل فرمائی گئی کہ بڑے کو مقدم رکھو اور ان دونوں میں سے بڑے کو مسواک دو۔" (ابوداؤد)
-
وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ تَفَضَّلُ الصَّلَاۃُ الَّتِیْ یُسْتَأْکُ لَھَا عَلَی الصَّلَاۃِ الَّتِیْ لَایُسْتَاکُ لَھَا سَبْعِیْنَ ضِعْفًا۔ (رواہ البیہقی شعب الایمان)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " وہ نماز جس کے لیے مسواک کی گئی (یعنی وضو کے وقت) اس نماز پر جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی ستر درجے کی فضیلت رکھتی ہے۔" (بیہقی) تشریح : اس حدیث سے بھی مسواک کی فضیلت کا اظہار ہو رہا ہے کہ مسواک کی وجہ سے نماز کے مراتب و درجات کی کمی پیشی ہوتی ہے ، چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کسی آدمی نے ایک نماز تو اس طرح پڑھی کہ اس نے اس نماز کے لیے وضو کے وقت مسواک اور ایک نماز اس طرح پڑھی کہ اس کے لیے وضو کے وقت مسواک نہیں کی تو پہلے نماز جس کے لیے مسواک کی گئی ہے اس نماز کے مقابلہ میں جس کے لیے مسواک نہیں کی گئی فضیلت اور ثواب کی زیادتی ستر درجہ زیادہ ہوگی" گویا دوسری نماز کے مقابلہ میں پہلی نماز کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملے گیا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِ الْجُھَنِی قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَوْ لَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰیۤ اُمَّتِی لَاَ مَرْتُھُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صِلَاۃٍ وَلَاخَّرْتُ صَلَاتَہ الْعِشَاءِ اِلَی ثُلُثِ الَّیْلِ قَالَ فَکَانَ زَیْدُ بْنُ خَالِدِ یَّشْھَدُ الصَّلٰوٰتِ فِی الْمَسْجِدِ وَسِوَاکُہُ عَلَی اُذِنِہٖ مَوْضِعَ الْقَلَمَ مِنْ اُذُنِ الْکَاتِبِ لَا یَقُوْمُ اِلَی الصَّلٰوۃِ اِلَّا اسْتَنَّ ثُمَّ رَدَّہُ اِلَی مَوْضِعِہٖ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ اِلَّا اَنَّہ، لَمْ یَذْکُرْ وَ لَاَخَّرْتُ صَلَاۃَ الْعِشَاءِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ وَ قَالَ الِّتْرمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثُ حَسْنٌ صَحِیْحٌ۔(رواہ ابوداؤد الجامع ترمذی)-
" حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( حضرت ابوسلمہ تابعی ہیں، بعمر ٧٢ سال ٩٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) حضرت زید ابن خالد الجہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( حضرت زید ابن خالد جنہی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی ہیں کنیت ابوعبدالرحمن بعمر ٨٥ سال بعہد عبدالملک ٧٨ھ میں اور بعض کے خیال کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آخری زمانہ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " اگر میں اپنی امت کے لیے اسے مشکل نہ جانتا تو میں ان کو ہر نماز کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا (یعنی یہ اعلان کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کرنا واجب ہے اور عشاء کی نماز میں تہائی رات یا تاخیر کرنا۔ راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد ) زید ابن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز کے لیے مسجد میں آتے تو مسواک ان کے کان پر رکھی ہوتی جس طرح کاتب کے کان میں قلم رکھا رہتا ہے، جب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے فوراً مسواک کر لیتے اور پھر کان پر رکھ لیتے (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) ابوداؤد نے لَاَخَّرْتُ صَلٰوَۃَ الْعِشَآءِ اِلٰی ثُلُثِ اللَّیْلِ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔" (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی )
-