TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان
مستغنی سائل کے لیے وعید
وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سأل الناس وله ما يغنيه جاء يوم القيامة ومسألته في وجهه خموش أو خدوش أو كدوح " . قيل يا رسول الله وما يغنيه ؟ قال : " خمسون درهما أو قيمتها من الذهب " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں سے ایسی چیز کی موجود گی میں سوال کرے جو اسے مستغنی بنا دینے والی ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں پیش ہو گا کہ اس کے منہ پر اس کا سوال بصورت خموش یا کدوش یا کدوح ہو گا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! مستغنی بنانے والی کیا چیز ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پچاس درہم یا اس قیمت کا سونا۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) تشریح خموش جمع ہے خمش کی ، خدوش جمع ہے خدش کی اور کدوح جمع ہے کدح کی۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ قریب المعنی ہیں بایں طور کہ ان سب کے معنی کا حاصل زخم ہے گویا حدیث میں لفظ او راوی کا شک ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تینوں میں سے کوئی ایک لفظ ارشاد فرمایا ہے۔ لیکن دوسرے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تینوں الفاظ متبائن ہیں یعنی ان تینوں کے الگ الگ معنی ہیں خموش کے معنی ہیں لکڑی کے ذریعے کھال چھیلنا، خمش کے معنی ہیں ناخن کے ذریعے کھال چھیلنا اور کدح کے معنی ہیں دانتوں کے ذریعے کھال اتارنا، گویا اس طرح قیامت کے روز سائلین کے تفاوت احوال کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کم سوال کرے گا اس کے منہ پر ہلکا زخم ہو گا، جو شخص بہت زیادہ سوال کرے گا اس کے منہ پر بہت گہرا زخم ہو گا جو شخص سوال کرنے میں درمیانہ درجہ اختیار کرے گا اس کے منہ پر زخم بھی درمیانی درجے کا ہو گا۔
-
وعن سهل بن الحنظلية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سأل وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من النار " . قال النفيلي . وهو أحد رواته في موضع آخر : وما الغنى الذي لا ينبغي معه المسألة ؟ قال : " قدر ما يغديه ويعشيه " . وقال في موضع آخر : " أن يكون له شبع يوم أو ليلة ويوم " . رواه أبو داود-
حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اس کو مستغنی کر دے مگر وہ اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ زیادہ آگ مانگتا ہے یعنی جو شخص بغیر ضرورت و حاجت کے لوگوں سے مانگ مانگ کر مال و زر جمع کرتا ہے تو وہ گویا دوزخ کی آگ جمع کرتا ہے۔ نفیلی رحمہ اللہ جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ایک اور جگہ یعنی ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مستغنی ہونے کی کیا حد ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صبح اور شام کے بقدر۔ نفیلی نے ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب اس طرح نقل کیا ہے کہ اس کے پاس ایک دن یا ایک رات و ایک دن کے بقدر خوراک ہو راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک دن فرمایا یا ایک رات و ایک دن فرمایا ہے۔ (ابو داؤد) تشریح صبح اور شام کے کھانے کے بقدر، مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں غذائی ضروریات موجود ہوں کہ وہ دن و رات اپنا پیٹ بھر سکے تو وہ غنی کہلائے گا یعنی اس کے لیے اب جائز نہیں ہو گا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ ابھی اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مال کی تعداد کہ جس کی وجہ سے آدمی مستغنی ہو جائے اور کسی سے سوال نہ کرے، پچاس درہم ہے یعنی جو شخص پچاس درہم کا مالک ہو گا اس کے لیے کسی سوال کرنا حرام ہو گا یہاں جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مقدار صبح و شام کے کھانے بقدر بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد حضرت عطاء بن یسار کی جو روایت آ رہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا مالک ہو وہ مستغنی کہلائے گا اس کے لیے کسی سے سوال کرنا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔ گویا یہ تین روایتیں ہیں جن میں باہم اختلاف ہے لہٰذا حضرت امام احمد، ابن مبارک اور اسحاق رحمہم اللہ کا عمل تو پہلی روایت پر ہے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، بعض علماء نے تیسری روایت کو معمول بہا قرار دیا ہے۔ جو عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور حضرت اماما عظم ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو اپنے مسلک کی بنیاد و قرار دیا ہے جو سہیل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے لہٰذا حضرت امام اعظم کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص ایک دن کی غذائی ضروریات کا مالک ہو گا وہ مستغنی کہلائے گا اور اس کے لیے کسی سے سوال کرنا حرام ہو گا، گویا حضرت امام صاحب کے نزدیک یہ حدیث دوسری احادیث کے لیے ناسخ ہے۔ و اللہ اعلم۔
-
وعن عطاء بن يسار عن رجل من بني أسد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا " . رواه مالك وأبو داود والنسائي-
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا یا اس کی قیمت کے بقدر سونا وغیرہ کا مالک ہو اور اس کے باوجود وہ لوگوں سے تو مانگے تو اس نے گویا بطریق الحاح سوال کیا۔ (مالک ، ابوداؤد، نسائی) تشریح بطریق الحاح کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اضطراری کیفیت کے علاوہ اور بلا ضرورت انتہائی مبالغہ کے ساتھ لوگوں سے مانگا جو ممنوع اور برا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں فقراء کی بایں طور تعریف کی گئی ہے کہ ا یت (ولا یسألون الناس الحافا)۔ وہ لوگوں سے بطریق الحاح نہیں مانگتے۔
-