TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
مستحاضہ کا بیان
مستحاضہ کا بیان
عَنْ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ جَآءَ تْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ اَبِیْ حُبَےْشٍ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنِّیْ امْرَاَۃٌ اُسْتَحَاضُ فَلَا اَطْھُرُ اَفَاَدَعُ الصَّلٰوۃَ فَقَالَ لَآ اِنَّمَا ذَالِکِ عِرْقٌ وَّلَےْسَ بِحَےْضٍ فَاِذَا اَقْبَلَتْ حَےْضَتُکِ فَدَعِی الصَّلٰوۃَ وَاِذَا اَدْبَرَتْ فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّیْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ " فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ" یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)! میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر (استخاضہ کا) خون آتا رہتا ہے ۔ چنانچہ میں کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں ! یہ تو ایک رگ کا خون ہے، حیض کا خون نہیں ہے لہٰذا جب تمہیں حیض آنے لگے تو تم نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو " جسم سے خون کو دھو ڈالو (اور نہا کر) نماز پڑھ لو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس مسئلے میں کہ اگر کوئی عورت مستحاضہ ہو جائے اور وہ ہر وقت استخاضہ کے خون سے ناپاک رہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " اگر وہ ایسی عورت ہو جو معتادہ ہو یعنی اس کے حیض کے ایام مقرر ہوں مثلاً اسے ہر ماہ پانچ روز یا چھ روز خون آتا تھا تو جب وہ مستحاضہ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ ان دنوں کو جن میں حیض کا خون آتا تھا ایام حیض قرار دے اور ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور جب وہ دن پورے ہو جائیں تو خون کو دھو کر نہائے اور نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اور اگر وہ مبتد یہ ہو یعنی ایسی عورت ہو کہ پہلا ہی حیض آنے کے بعد وہ مستحاضہ ہوگئی جس کے نتیجہ میں استخاضہ کا خون برابر جاری ہو گیا تو اسے چاہئے کہ وہ حیض کی انتہائی مدت یعنی دس دن کو ایام حیض قرار دے کر ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور بعد میں نہا دھو کر نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اس صورت میں دوسرے ائمہ کے نزدیک عمل تمیز پر ہوگا یعنی اگر خون سیاہ رنگ کا ہو تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا اور اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو وہ استحاضہ کا خون کہلائے گا جیسے کہ آگے والی حدیث سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے بارے میں جو آگے آرہی ہے اور جو حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دو طرق سے روایت کی گئی ہے ایک تو ان میں سے مرسل ہے اور دوسری مضطرب اور یہ عجیب بات ہے کہ خون کے رنگ میں امتیاز کی بات صرف عروہ کی روایت ہی میں مذکور ہے جس کا حال معلوم ہو چکا کہ ایک طریق سے تو وہ مرسل ہے اور دوسرے طریقے سے مضطرب لہٰذا اس حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد رکھنا گویا اس مسلک کو کمزور کرنا ہے۔ اور یہ حدیث جو اوپر گزری جس میں دنوں کا اعتبار ہے اور جو ہماری دلیل ہے" صحیح" ہے لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں حکم دریافت کیا تھا معتادہ تھیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کو چاہئے کہ وہ ہر فرض نماز کے لیے اپنی شرم گاہ دھو لیا کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آئے جب ہی اپنی شرم گاہ دھو لے پھر نہ دھوئے اور لنگوٹا باندھ کر جلدی جلدی وضو کر لے اس کے بعد جو خون جاری رہے گا اس میں وہ معذور ہوگی لہٰذا آخر وقت تک وہ جو چاہے پڑھے۔
-
عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُبَیْرِ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ اَبِی حُبَیْشٍ اَنَّھَا کَانَتْ تُسْتَحَاضُ فَقَالَ لَھَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانَ دَمُ الحَیْضِ فَاِنَّہُ دَمٌ اَسْوَدُ یُعْرَفُ فَاِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَاَمْسِکِی عَنِ الصَّلٰوۃِ فَاِذَا کَانَ الْاَخَرُ فَتَوَضَّیِ وَصَلِّی فَاِنَّمَا ھُوَ عِرْقٌ۔ (رواہ ابوداؤ و النسائی )-
" حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی ) ( حضرت عروہ زبیر بن العوام کے صاحبزادے اور عظیم المرتبت تابعی ہیں ٢٢ھ میں پیدا ہوئے۔ ) حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ " انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ جب حیض کا خون آئے جس کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے تو اس وقت تم نماز پڑھنے سے رک جایا کرو اور جب استخاضہ کا خون آنے لگے (یعنی خون سیاہ رنگ کے علاوہ اور کسی رنگ کا ہو) تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو کیوں کہ (یہ حیض کا نہیں بلکہ ایک رگ کا خون ہوتا ہے۔" ) ابوداؤ د، سنن نسائی) تشریح اس حدیث کے بارے میں اس سے پہلے حدیث کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث ان ائمہ کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں کہ مستحاضہ ایام حیض کے سلسلہ میں تمیز پر عمل کرے کہ اگر خون کا رنگ گاڑھا سیاہ ہو تو اسے حیض کا خون قرار دے کر ان ایام میں نماز وغیرہ ترک کر دے اور اگر رنگ گاڑھا سیاہ نہ ہو تو پھر اسے استحاضہ کا خون سمجھے اور نماز روزہ کرتی رہے چنانچہ اسی جگہ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث صحیح درجے کو نہیں پہنچی اس لیے اس کو کسی مسلک کی بنیاد قرار دینا اس مسلک کی کمزروری کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ بہر حال۔ یہاں خون کے جو رنگ بتائے گئے ہیں وہ دائمی اور کلی طور پر نہیں ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کے رنگ اکثر کے اعتبار سے بیان فرمائے ہیں کیونکہ کبھی حیض کا خون سرخ وغیرہ رنگ کا بھی ہوتا ہے حضرات حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی وضاحت یہ کرتے ہیں کہ اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول یہ ہوگا کہ " یہ تمیز عادت کے موافق ہو۔" یعنی جس عورت کو استخاضہ لاحق ہو اور حیض میں جب خون کا رنگ سیاہ ہوگا تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا جب اس کی عادت کے دن گزر جائیں اور ان ہی دنوں میں خون کا رنگ سیاہ بمائل سرخی وغیرہ ہو تو اس کے بعد حیض کا خون شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی عادت کے موافق خون کا رنگ اب سیاہ نہیں رہا۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ اِنَّ امْرَاَۃً کَانَتْ تُّھْرْاقُ الدَّمَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَفْتَتْ لَھَا اُمُ سَلَمَۃَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِتَنْظُرْ عَدَدَ اللَّیَالِی وَ الْاَیَّامِ الَّتِی کَانَتْ تَحِیْضُھُنَّ مِنَ الشَّھْرِ قَبْلَ اَنْ یُصِیْبَھَا الَّذِی اَصَابَھَا فَلْتَتْرُکِ الصَّلاَۃَ قَدْرَ ذٰلِکَ مِنَ الشَّھْرِ فَاِذَا خَلَّفَتْ ذٰلِکَ فَلْتَغْتَسِلْ ثُمَّ لْتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ ثُمَّ لِتُصَلِّ۔ (رَوَاہُ مَالِکٌ وَاَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّارِمِیُّ ا النَّسَائِیُّ مَعْنَاہُ)-
" اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا (اور وہ معتادہ تھی ) چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی پوچھا (کہ اس کا کیا حکم ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اسے چاہئے کہ وہ دیکھے کہ اس بیماری کے آنے سے پہلے اسے مہینے میں حیض کا خون کتنے دن رات آتا تھا (جب یہ معلوم ہو جائے تو) ہر مہنے اتنے ہی دنوں کے لئے نماز پڑھنی چھوڑ دے اور جب وہ دن گزر جائیں تو نہالے اور (پاجامہ کے اندر) کپڑے کی لنگوٹی باندھ کر نماز پڑھ لیا کرے۔" (مالک ابوداؤد، دارمی) اور نسائی نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے۔) تشریح مستحاضہ کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ لنگوٹ اس طرح باندھے کہ خون حتی المقدور رک سکے اگر لنگوٹ باندھنے اور احتیاط کے باوجود بھی خون آئے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نماز صحیح ہو جائے گی قضاء ضروری نہیں ہوگی یہ حکم سلسل البول کے مرض کا بھی ہے۔
-
وَعَنْ عَدِیٍّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہِ قَالَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ جَدُّ عَدِیٍّ اسْمُہُ دِیْنَارٌ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہُ قَالَ فِی الْمُسْتَحَاضَۃِ تَدَعُ الصَّلَاۃَ اَیَّامَ اَقْرَائِھَا الَّتِی کَانَتْ تَحِیْضُ فِیْھَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَوَضَّأُ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ وَ تَصَوْمُ وَتُصَلِّی۔ (رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت عدی ابن ثابت سے مروی ہے کہ ان کے والد اپنے والد سے یعنی یحییٰ ابن معین سے جو عدی کے دادا ہیں اور جن کا نام دینار ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مستحاضہ کے بارے میں فرمایا کہ " جن دنوں اسے (عادت کے موافق) حیض آتا تھا اسے چاہئے کہ ان میں نماز چھوڑ دے پھر (ان دنوں کے بعد ایک مرتبہ) نہائے اور ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز بھی پڑھے۔" (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح یہ حدیث ضعیف ہے نیز ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں فَتَوَضَّا لِوَقْتِ کُلِّ صَلٰوۃٍ یعنی مستحاضہ ہر نماز کے وقت وضو کرے۔"
-
وَعَنْ حَمْنَۃَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ کُنْتُ اُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً کَثِیْرَۃً شَدِیْدَۃً فَاَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْتَفْتِیْہٖ وَاُخْبِرُہُ فَوَجَدَتْہ، فِیْ اُخْتِی زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی اُسْتَحَاضُ حَیْضَۃً کَثِیْرَۃً شَدِیْدَۃً فَمَاتَاْ مُرُنِیْ فِیْھَا قَدْ مَنَعَتْنِی الصَّلَاۃَ وَ الصِّیَامَ قَالَ اَنْعَتُ لَکَ الْکُرُسُفَ فَاِنَّہُ یُذْھِبُ الدَّمَ قَالَتْ ھُوَاکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَتَلَجِّمِی قَالَتْ ھُوَ اَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ قَالَ فَاتَّخِذِی ثَوْبًا قَالَتْ ھُوَاَکْثَرُ مِنْ ذٰلِکَ اِنَّمَا اَثُجُّ ثَجًا فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَاَمُرُکِ بِاَمْرَیْنِ اَیَّھُمَا صَنَعْتِ اَجْزَأَ عَنْکِ مِنَ الْاَخَرِ وَاِنْ قَوَیْتِ عَلَیْھِمَا فَاَنْتِ اَعْلَمُ قَالَ لَھَا اِنَّمَا ھٰذِہٖ رَکْضَۃُ مِنْ رَکْضَاتِ الشَّیْطَانِ فَتَحَیَّضِیْ سِتَّۃَ اَیَّامٍ اَوْسِبْعَۃَ اَیَّامٍ فِی عِلْمِ اﷲِ ثُمَّ اغْتَسِلِی حَتّٰی اِذَا رَأَیْتِ اَنَّکِ قَدْ طَھُرْتِ وَاسْتَنْقَاتِ فَسَلِّی ثَلَاثًا وَعِشْرَیْنِ لَیْلَۃً اَوْ اَرْبَعًا وَ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَاَیَّا مَھَا وَصُوْمِی فَاِنَّ ذٰلِکِ یُجْزِئُکِ وَکَذٰلِکِ فَافْعَلِی کُلَّ شَھْرٍ کَمَا تَحِیْضُ النِّسَاءُ وَکَمَا یَطْھُرْنَ مِیْقَاتَ حَیْضِھِنَّ وَطُھْرِ ھِنَّ وَاِنْ قَوَیْتِ عَلَی اَنْ تُؤَخِرِیْنَ الظُّھْرَ وَ تُعَجِّلِیْنَ الْعَصْرَ فَتَغْتَسِلِیْنَ وَ تَجْمَعِیْنَ بَیْنَ الصَّلاتَیْنِ الظُّھُرِ وَ الْعَصْرِ وَ تُؤَخِّرِیْنَ الْمَغْرِبَ وَ تُعَجِّلِیْنَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تُغْتَسِلِیْنَ وَ تَجْمَعِیْنَ بَیْنَ الصَّلَاتَیْنِ فَافْعَلِی وَ تَغْتَسِلِیْنَ مَعَ الْفَجْرِ فَافْعَلِی وَصُوْمِی اِنْ قَدَرْتِ عَلَی ذٰلِکِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ ھٰذَا اَعْجَبُ الامْرَیْنِ اِلَّی۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤ د و الترمذی)-
" اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں چنانچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے روئی کو بیان کرتا ہوں کیونکہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو تاکہ وہ باہر نہ نکلے ) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا کیونکہ) بہت زیاد ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔" انھوں نے کہا کہ " وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ) زیادہ ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر لنگوٹ کے نیچے) ایک کپڑا رکھ لو۔" انھوں نے کہا کہ " وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ بہت ہی زیادہ ہے یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کر لو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے) کی طاقت ہوگی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمنہ سے کہا کہ " یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیونکہ غیب کا علم اللہ کو ہے) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہوگئی ہوں تو تیس دن رات (ایام حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں) یا چوبیس دن رات (ایام حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں) نماز پڑھتی رہا کرو، اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے ) روزے بھی رکھتی رہا کرو چنانچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو" کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو ) تمہارے لیے یہ کافی ہوگا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نماز فجر کے لیے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کر لیا کرو ( جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے۔" (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) تشریح یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بناء پر ہوتا ہے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لیے شیطان کو موقع ملتا ہے چنانچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استخاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دئیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ فَتَحَیْضِی سِتَّتِ اَیَّامٍ اَوْسَبْعَۃَ َایَّامٍ یعنی چھ روز یا سات روز حیض کے ایام قرار دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہر مہینے اپنی اوپر یہی عادت کے مطابق چھ دن یا سات دن تک حیض کے احکام جاری رکھ۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ معتادہ تھی اور وہ حیض کے ایام بھول گئی تھی یعنی اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ حیض کا خون ہر مہینے چھ دن آتا تھا یا ساتھ دن آتا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ تم اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اگر تمہارا یقین یہ کہتا ہو کہ عادت چھ دن کی تھی تو اس صورت میں چھ دن حیض کے ایام قرار دو اگر اس بات کا گمان غالب ہو کہ عادت سات دن کی تھی تو پھر سات دن حیض کے ایام قرار دو پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فی علم اللہ فرما کر اس بات کا اشارہ کر دیا کہ تم بہر حال اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اس بات کا علم بہر صورت اللہ تعالیٰ کو ہے، کہ تمہاری عادت کیا تھی کیونکہ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو وہی ہے۔ یا پھر ستۃ ایام اوسبعۃ ایام او اگر شک کے لیے ہو تو " فی علم اللہ " راوی کا قول ہوگا جو وا اللہ اعلم کے معنی میں ہوگا۔ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ستۃ ایام فرمایا ہے یا سبعہ ایام اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ نے سائلہ سے جو یہ فرمایا کہ " جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت میں ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں۔ تم بھی اسی طرح ہر مہینہ کرتی رہا کرو۔" تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جیسے تمہاری طرح وہ عورتیں جو اپنی عادت کے دن بھول جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے ایام ٹھہراتی ہیں تم اسی طرح اپنے ایام قرار دو یعنی اگر ان کے حیض کا وقت اول مہینہ ہے تو ایام حیض اول مہینے کو قرار دو اور اگر ان کے حیض کا وقت مہینے کے درمیان میں ہو تو تم بھی ایام حیض درمیان مہینے کو قرار دو اسی طرح اگر ان کے حیض کا وقت آخر مہینہ میں ہو تو تم آخر مہینے کو ایام حیض قرار دو۔ بہرحال۔ پہلے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے حیض کی مدت خواہ وہ سات دن ہو یا چھ دن پوری کر کے اس کے بعد نہا ڈالو اور پھر ہر نماز کے لیے غسل کیا کرو۔ دوسرا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ " دو نمازوں کے درمیان ایسے وقت غسل کر لیا کرو کہ ایک نماز کا انتہائی وقت ہوا اور دوسری نماز کا ابتدائی وقت پھر اس کے بعد دونوں کو اکٹھی پڑھ لیا کرو اس طرح ظہر اور مغرب کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کے لیے جو کہا گیا ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ اول تو اس " تاخیر" کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھی جائے مثلاً ظہر اور عصر دونوں وقت کی نماز عصر ہی کے وقت میں پڑھی جائے۔ اسی طرح مغرب کی اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی جائی جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کہ مطابق مسافر دو نمازوں کو اس طرح جمع کر کے پڑھ سکتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ظہر کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے ، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے جیسا کہ حنفی مسلک میں مسافر کے لیے جمع بین الصلوتین کی یہی تاویل کی جاتی ہے اور اسے جمع صوری کہتے ہیں۔چنانچہ اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اسی مقصد و مراد کی وضاحت کر رہی ہے۔ پس اس دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ " روزانہ ایک غسل تو ظہر و عصر کے لیے کیا جائے اور ایک غسل مغرب و عشاء کے لیے اسی طرح ایک غسل فجر کے لیے کیا جائے۔ یہ بات سمجھ لیجئے کہ پہلے حکم کا خلاصہ کرتے ہوئے جو یہ بتایا گیا ہے کہ " ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے۔" اس کی صراحت حدیث میں تو نہیں ہے لیکن ارشاد گرامی ان قویت علی ان تو خرین الخ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس عبارت سے سائلہ کا ہر نماز کے لیے غسل سے عاجز ہونا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی مسلک حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہ ہے کہ دو نمازیں ایک غسل کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور یہی مسلک اس حدیث سے زیادہ قریب اور مطابق ہے کیونکہ اس میں زیادہ آسانی ہے بہ نسبت اس کے کہ ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ ھذا اعجب الامرین الی یعنی دونوں نمازوں کے لیے غسل کرنا مجھے دوسرے امر یعنی ہر نماز کے لیے غسل سے زیادہ پسند ہے۔" اور اس دوسرے حکم کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے وہی چیز پسند فرماتے تھے جو آسان اور سہل العمل ہو۔ جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے یا یہ کہ دونوں صورتوں میں غسل کا حکم معالجہ پر معمول ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ خون کی کثرت اور اس کی شدت ختم ہوجائے۔
-
عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ اَبِی حُبَیْشٍ اُسْتُحِیْضَتْ مُنْذُکَذَا وَکَذَا فَلَمْ تُصَلِّ فَقَال رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُبْحَانَ اﷲِ اِنَّ ھٰذَا مِنَ الشَّیْطَانِ لِتَجْلِسْ فِی مِرْکَنٍ فَاِذَا رَأَتْ صَفَارَۃً فَوْقَ الْمَآءِ فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّھْرِوَ الْعَصْرِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّتَغْتَسِلْ الِلْمَغْرِبِ وَ العِشَآءِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّ تَغْتَسِلْ لِلْفَجْرِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّتَوَضَّأُ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ قَالَ رَوَی مُجَاھِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا اَشْتَدَّ عَلَیْھَا الْغُسْلُ اَمَرَھَا اَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الصَّلاَتَیْنِ)-
" حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو (پہلی مرتبہ) اتنی مدت سے استحاضہ آرہا ہے اس لیے وہ (یہ خیال کر کے کہ شاید یہ بھی حیض کے حکم میں ہو) نماز نہیں پڑھ رہی ۔" سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سبحان اللہ ! یہ نماز کا چھوڑنا تو شیطانی اثر ہے؟ اسے چاہئے کہ ایک ٹب میں پانی ڈال کر بیٹھ جائے جس وقت پانی پر زردی معلوم ہونے لگے تو ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرے اور مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل کر لے اور فجر کے لئے علیحدہ ایک غسل کرے (اور جب ضرورت ہو تو عصر اور عشاء کے لیے) ان کے درمیان وضو کرے۔" (یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ مجاہد نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ " جب فاطمہ بنت ابی حییش کو (ہر نماز کے لیے) غسل کرنا دشوار معلوم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو (ایک غسل سے ) دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم دیا۔) تشریح جب ظہر کا وقت بالکل آخر ہو جاتا ہے تو آفتاب پر قدرے زردی آجاتی ہے بلکہ زوال کے بعد تغیر ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹب میں دیکھنے کے لیے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ زردی پانی سے آسانی سے معلوم ہو جاتی ہے وہ زردی بڑھتے بڑھتے مغرب کے قریب پوری ہو جاتی ہے اس وقت نماز پڑھنی مکروہ ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زردی کے بارے میں فرمایا ہے یہ اس زردی کے علاوہ ہے جو عصر کے بعد ہوتی ہے اور وہ نماز کے لیے کراہت کا وقت ہوتا ہے۔
-