TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ قَالَ اِنَّ حِبْرًا مِّنَ الْیَھُوْدِ سَئَالً النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ البُقَاعِ خَیْرٌ فَسَکَتَ عَنْہُ وَقَالَ اَسْکُتُ حَتّٰی یَجِئَ جِبْرِیْلُ فَسَکَتْ وَجَآءَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَسَئَالَ فَقَالَ مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَ عْلَمَ مِنَ السَّائِلِ وَلٰکِنْ اَسْئَلُ رَبِّی تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی ثُمَّ قَالَ جِبْرِیْلُ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی دَنَوْتُ مِنَ اﷲِ دُنُوًّمَا دَنَّوْتُ مِنْہُ قَطُّ قَالَ وَ کَیْفَ کَانَ یَا جِبْرِیْلُ قَالَ کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ سَبْعُوْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِنْ نُّوْرٍ فَقَالَ شَرُّا لْبِقَاعِ اَسْوَاْقُھَا وَ خَیْرُ البِقَاعِ مَسَاجِدُھَا رَوَاہُ حَبَّانُ فِی صَحِیْحِہٖ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ۔-
" اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ایک یہودی عالم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جواب میں خاموش رہے اور فرمایا کہ جب تک جبرائیل علیہ السلام نہیں آجائیں گے میں خاموش رہوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ جب حضرت جبرائیل آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (یہودی عالم کے سوال کا جواب ) پوچھا حضرت جبرائیل نے کہا کہ ، اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا، البتہ میں اپنے پروردگار بزرگ و برتر سے اس کے بارے میں پوچھوں گا (چنانچہ) پھر حضرت جبرائیل (نے آکر) فرمایا، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! آج میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قریب ہو گیا تھا کہ کبھی بھی اتنا قریب نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرائیل کس قدر (فاصلہ دونوں کے درمیان رہ گیا تھا) حضرت جبرائیل نے فرمایا میرے اور اللہ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے باقی رہ گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا، کہ بد ترین مقامات بازار ہیں اور بہترین مقامات مساجد ہیں۔ (یہ روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔" تشریح یہ " پردے" مخلوق کی نسبت سے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ کی نسبت سے نہیں ہیں کیونکہ خدا وند قدوس پردے میں نہیں ہے بلکہ اللہ کی مخلوق پردے میں ہے اور جسمانی و نفسانی پردے ہیں اس کی مثال کسی اندھے کے لیے پردہ آفتاب کی سی ہے کہ جس طرح آفتاب پردے میں نہیں ہوتا بلکہ خود اندھے پر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے کہ وہ آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا اور آفتاب اس کو دیکھتا ہے یعنی اس پر اپنی روشنی ڈالتا ہے۔ سائل نے تو صرف " بہتر جگہ" کے بارہ میں سوال کیا تھا لیکن جواب میں مقابلے کے طور بہترین اور بدترین دونوں مقامات کو بتلا دیا گیا تاکہ رحمان اور شیطان دونوں کے گھر معلوم ہو جائیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا گیا جو اسے پوری طرح معلوم نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ جواب دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ اس سوال کا جواب اچھی طرح جانتا ہے اس سے پوچھ لے اور اپنے سے زیادہ علم والے سے پوچھنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرے کوینکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے کیونکہ مصنف مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بعد میں بعض علماء نے کتاب کا مذکورہ نام لکھا دیا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ جَآءَ مَسْجِدِی ھٰذَا لَمْ یَاْتِ اِلَّالِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُہُ اَوْ یُعَلِمُہ، فَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ الْمُجَاھِدِ فِی سَبِیْلِ اﷲِ وَ مَنْ جَآءَ لِغَیْرِ ذٰلِکَ فَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ الرَّجُلِ یَنْظُرُ اِلَی مَتَاعِ غَیْرِہٖ۔ (رواہ ابن ماجۃ والبیھقی شعب الایمان)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی میری اس مسجد میں محض اس غرض سے آئے کہ نیک کام سیکھے اور سکھلائے تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہم رتبہ ہے اور جو آدمی اس غرض سے نہ آئے (یعنی کسی برے کام مثلاً لہو و لعب کی نیت سے آئے) تو وہ اس آدمی کی مانند ہے جو دوسرے کے اسباب (کو حسرت کی نگاہوں) سے دیکھتا ہے۔" (ابن ماجہ، بیہقی) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کی تخصیص کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ میری مسجد اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ و ارفع ہے اور دوسری مسجدیں چونکہ اس کے تابع ہیں اس لیے مذکورہ حکم تمام مساجد کے لیے یکساں ہے۔ نیک کام کو سیکھنے اور سکھلانے کی تخصیص صرف ان کی فضیلت و اہمیت کے اظہار کے طور پر ہے ورنہ تو نماز، اعتکاف اور تلاوت و ذکر سب کا یہی حکم ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں نیک مقصد کے تحت نہیں آئے گا اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے پاس کوئی چیز نہ تو وہ اس چیز کو کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر حسرت و افسوس کا اظہار کرتا ہے چنانچہ یہ آدمی بھی جب آخرت میں اس آدمی کے ثواب کو جو نیک مقصد اور نیک نیت کے ساتھ مسجد آیا تھا دیکھے گا اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ مسجد تو سعادت و بھلائی کے حصول کی جگہ تھی تو وہ انتہائی رنج و حسرت میں مبتلا ہو جائے گا کہ میں کیوں اس دولت سے محروم رہا۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح کسی غیر آدمی کے پاس کوئی چیز دیکھ کر اسے بری نگاہ سے (یعنی اچک لینے کی نیت سے ) دیکھنا منع ہے اس طرح مسجد میں بغیر نیک کام کی نیت آنا بھی منع ہے۔
-
وَعَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَاْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَکُوْنُ حَدِیْثُھُمْ فِی مَسَاجِدِ ھِمْ فِی اَمْرِ دُنْیَا ھُمْ فَلاَ تُجَا لِسُوْھُمْ فَلَیْسَ لِلّٰہِ فِیْھِمْ حَاجَۃٌ رَوَاہُ البَیْھَقِیُّ فِی شُعْبِ الِایْمَانِ۔-
" اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے مرسلا روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگوں پر عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ اپنی دنیا داری کی باتیں مسجدوں میں کیا کریں گے لہٰذا تم ان کے پاس بھی نہ بیٹھنا (تم ان کی گفتگو میں شریک نہ ہونا کہ ان کے شریک کہلاؤ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔" (بیہقی) تشریح یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے اور وہ اللہ کی پناہ اور اس کی رحمت سے خارج ہیں۔ نیز اس بات سے بھی کنایہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کی اطاعت و عبادت قبولیت کا درجہ نہیں پائے گا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کی باتیں کرنا مکروہ ہے چنانچہ اور بہت سی احادیث میں بھی مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دنیاوی باتوں سے مراد ایسی باتیں ہیں جو عبث، بے فائدہ اور حد سے زیادہ ہوں اور اگر دنیاوی باتیں صرف ایک دو کلمہ تک رہیں یا اس درجے کی نہ ہوں تو وہ اس حکم میں داخل نہیں۔
-
وَعَنِ السَّآئِبِ بْنِ ےَزِےْدَ ص قَالَ کُنْتُ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِیْ رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَاِذَا ھُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ص فَقَالَ اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِہٰذَےْنِ فَجِئْتُہُ بِھِمَا فَقَالَ مِمَّنْ اَنْتُمَا اَوْ مِنْ اَےْنَ اَنْتُمَا قَالَا مِنْ اَھْلِ الطَّآئِفِ قَالَ لَوْ کُنْتُمَا مِنْ اَھْلِ الْمَدِےْنَۃِ لَاَوْجَعْتُکُمَا تَرْفَعَانِ اَصْوَاتَکُمَا فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح البخاری)-
" اور حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) مسجد میں پڑا سو رہا تھا کہ کسی آدمی نے میرے کنکر ماری میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ، تم جا کر ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جو مسجد میں بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے) میں ان کو بلا لایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تم کون ہو ؟ یا فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ، اگر تم لوگ مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (یعنی مارتا۔ لیکن چونکہ تم لوگ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو اور آداب مسجد سے واقف نہیں ہو یا یہ کہ مسافر ہو اس لیے عفو و شفقت کے مستحق ہو اور فرمایا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں زور زور سے باتیں کر رہے ہو۔" (صحیح البخاری ) تشریح جملہ اَوْمِنْ اَیْنَ اَنْتُمَا میں لفظ اَوْ شک کے لیے ہے یعنی راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ " تم کون ہو؟" یا یہ فرمایا کہ " تم کہاں کے رہنے والے ہو۔" بہر حال مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا مکروہ ہے اگرچہ موضوع سخن علم ہی کیوں نہ ہو۔
-
وَعَنْ مَالِکٍ قَالَ بَنَی عُمَرُ رَحْبَۃٌ فِی نَاحِیَۃِ الْمَسْجِدِ تُسَمَّی البُطَیْحَاءَ وَقَالَ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ اَنْ یَلْفَظَ اَوْ یُنْشِدَ شِعْرًا اَوْیَرْ فَعَ صَوْتَہُ فَلْیَخْرُجْ اِلَی ھٰذِہِ الرَّحْبَۃِ۔ (رواہ فی الموطا)-
" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنوادیا تھا جس کا نام بطیحا تھا اور لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ جو آدمی لغو باتیں کرنا چاہئے یا اشعار پڑھنا چاہے یا (کسی وجہ سے ) بلند آواز (سے باتیں) کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ (مسجد سے نکل کر) اس چبوترہ پر آجائے۔" (موطا)
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ رَاَی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم نُخَامَۃً فِی الْقِبْلَۃِ فَشَقَّ ذَالِکَ عَلَےْہِ حَتّٰی رُأِیَ فِیْ وَجْھِہٖ فَقَامَ فَحَکَّہُ بِےَدِہٖ فَقَالَ اِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ فَاِنَّمَا ےُنَاجِیْ رَبَّہُ وَاِنَّ رَبَّہُ بَےْنَہُ وَبَےْنَ الْقِبْلَۃِ فَلَا ےَبْزُقَنَّ اَحَدُکُمْ قِبَلَ قِبْلَتِہٖ وَلٰکِنْ عَنْ ےَّسَارِہٖ اَوْ تَحْتَ قَدَمِہٖ ثُمَّ اَخَذَ طَرَفَ رَدَآئِہٖ فَبَصَقَ فِےْہِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَہُ عَلٰی بَعْضٍ فَقَالَ اَوْ ےَفْعَلُ ھٰکَذَا۔(صحیح البخاری)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد میں) قبلے کی طرف رینٹھ پڑا ہوا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ناگوار گذرا یہاں تک کہ اس ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اسے خود اپنے دست مبارک سے کھرچ کر پھینکا اور فرمایا کہ ، تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور اس وقت اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ قبلے کی طرف ہرگز نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ لیا اور اس میں کچھ تھوکا اور پھر کپڑے کو آپس میں رگڑ کر فرمایا کہ " اس طرح کر لیا کرو۔" (صحیح البخاری ) تشریح اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ قبلے کی طرف متوجہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے قریب ہونے کا ارادہ کرتا ہے لہٰذا چونکہ اس کا مطلوب اور مقصود اس کے اور قبلے کے درمیان ہے اس لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ قبلے کی سمت کو تھوک سے بچایا جائے۔ بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی آدمی مسجد میں نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی صورت میں بائیں طرف اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا نہیں چاہئے کہ اس سے مسجد کے آداب و احترام میں فرق آتا ہے بلکہ اس صورت میں اگر تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو کسی کپڑے میں تھوک لیا جائے پھر اسے رگڑ کر صاف کر لیا جائے۔
-
وَعَنْ السَائِبِ بْنِ خَلَّادٍ وَھُوَ رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ رَجُلاً اَمَّ قَوْمًا فَبَصَقَ فِی الْقِبْلَۃِ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَنْظُرُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَوْمِہٖ حِیْنَ فَرَغَ لَا یُصَلِّیَّ لَکُمْ فَاَرَادَبَعْدَ ذٰلِکَ اَنْ یُّصَلِّیْ لَھُمْ فَمَنَعُوْہُ فَاخْبَرُوْہُ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ نَعَمْ وَحَسِبْتُ اَنَّہُ قَالَ اِنَّکَ قَدْاٰذَیْتَ اﷲَ وَرَسُوْلَہ،۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت سائب ابن خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں فرمایا۔ ایک آدمی جماعت کی نماز پڑھا رہا تھا اور اس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا (اتفاق سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس کی طرف) دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مقتدیوں سے فرمایا کہ " آئندہ سے یہ آدمی تمہیں نماز نہ پڑھائے" اس کے بعد اس آدمی نے جب ان کو نماز پڑھانی چاہی تو ان لوگوں نے اسے (امامت سے) روک دیا اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کر دیا وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں میں نے ہی لوگوں سے تمہیں امام نہ بنانے کے لیے کہا تھا اور راوی فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے (امامت سے روک دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے یہ بھی ) فرمایا تھا کہ، تم نے (اس ممنوع فعل کا ارتکاب کر کے) اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔" (ابوداؤد)
-
وَعَنْ مَعَاذَ بْنِ جَبَلِ قَالَ اَحْتَبْسَ عَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلَاۃِ الّصُبْحِ حَتَّی کِدْنَا نَتَرَآی عَیْنَ الشَّمْسَ فَخْرَجْ سَرَیْعًا فَثْوِبَ بِالصَّلَاۃِ فَصَلَّی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَجَوَّزَ فِیْ صَلاَتِہٖ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصُوْتِہٖ فَقَالَ لَنَا عَلٰی مُصْافَکُمْ کَمَا اَنْتُمْ ثُمَّ اَنْفَتَلَ اَلَیْنَا ثُمَّ قَالَ اَمَا اَنِّیْ سَاُحَدِّ ثُکُمْ مَا حَبَسَنِیْ عَنْکَمُ الْغَدَاۃَ اِنِّیْ قُمْتُ مِنَ الِّلیْلِ فَتَوَضَّأُتُ وَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَلِیْ فَنَعَسْتُ فِیْ صَلاَتِیْ حَتَّی اَسْتَثْقَلْتُ فَاِذَا اَنَا بِرَبِّی تَبَاَرَکَ وَ تَعَالیٰ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدً قَلْتُ لَبَّیْکَ رَبَّ قَالَ فَیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْاَ عَلٰی قُلْتُ لَا اَدْرِیْ قَالَھَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَاَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتَّ بَرْدَ اَنَا مِلِہٖ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلَّی لِیْ کُلَّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ قُلْتَ لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ فَیْمَ یَخْتَصِمُ الْعَلَأُ الْاَ عَلٰی قُلْتُ فِی الْکُفَّارَاتِ قَالَ مَاھُنَّ قُلّتُ مَشّئُی الْاَقْدَامِ اِلَی الْجَمَاعَاتِ وَالْجَلُوْسُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَ اِسْبَاغُ الْوُضْوْءِ حَیْنَ الْکَرَیْھَاتِ قَالَ ثُمَّ فَیْم قُلْتُ فِی الدَّرَجَاتَ قَالَ وَمَا ھِنَّ قُلْتُ اِطْعَامُ الطَّعَامَ وَلَیْنُ اْلکَلٰمُ وَ الصَّلٰوۃُ بِاللِّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ قَالَ سَلْ قُلْتُ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکَیْنِ وَاَنْ تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ وَاِذَا اَرَدْتُّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمً فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ وَاَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبُّ عَمَلَ یُقَرِّبْنِیْ اِلٰی حُبُّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّھَا حَقٌّ فَادْرْ سُوْھَا ثُمَّ تَعْلَمْوْھَا رَوَاہُ اَحْمَدْ بِنْ حَنْبَلْ وَاَلْتَرْمَذِیْ وَقَالَ ھٰذَا حَدَیْثٌ حَسَنٌ صَحَیْحٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ اِبْنِ اِسَمٰعَیْلَ عَنْ ھٰذَا الْحَدَیْثِ فَقَالَ ھٰذَا حَدَیْثٌ صَحِیْحٌ۔-
" اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں تشریف لانے میں (خلاف عادت اتنی) تاخیر فرمائی کہ قریب تھا کہ سورج نکل آئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھپٹتے ہوئے تشریف لائے چنانچہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کے ہمراہ) نماز پڑھی (اس طرح کہ) نماز میں تخفیف کی (یعنی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد ہم سے بآواز بلند فرمایا کہ " جس طرح تم لوگ بیٹھے ہو اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہوشیار! میں آج صبح کی نماز میں دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے) کہ میں نے آج رات (تہجد کی نماز کے لیے اٹھ کر وضو کیا اور جو کچھ میرے مقدر میں نماز تھی پڑھی اور نماز ہی میں مجھے اونگھ آگئی یہاں تک کہ نیند مجھ پر غالب آگئی (اس وقت) اچانک میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو اچھی صورت میں (یعنی اچھی صفت کے ساتھ ) دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا،" اے محمد!" میں نے عرض کیا " پروردگار میں حاضر ہوں!" اللہ تعالیٰ نے فرمایا (تمہیں معلوم ہے) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ " پروردگار نہیں جانتا۔" اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اسی طرح پوچھا (اور میں یہی جواب دیتا رہا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ، میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی (جس کا اثر یہ ہو اکہ) میرے سامنے ہر شے ظاہر ہوگئی اور تمام باتیں جان گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا " اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)! " میں نے عرض کیا کہ " پروردگار میں حاضر ہوں" فرمایا (اب بتاؤ) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا " وہ کون سی چیزیں ہیں؟" میں نے عرض کیا کہ جماعت کے واسطے (مسجدوں میں) آجانا اور نماز پڑھ کر (اور دعا وغیرہ کے لیے ) مسجد میں بیٹھے رہنا، اور سختی کے ساتھ (جس وقت کہ سردی یا بیماری کی وجہ سے پانی کو استعمال کرنا تکلیف دہ معلوم ہو) اچھی طرح وضو کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجات کے بارے میں فرمایا وہ کیا ہیں میں نے عرض کیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نرم لہجے میں بات کرنا اور رات کو اس وقت (تہجد کی) نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا " اچھا اب اپنے لیے جو چاہو دعا کرو۔" چنانچہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے، برائیوں کے چھوڑنے، مسکینوں کی دوستی، اپنی بخشش اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں گمراہی ڈالنا چاہئے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھالے اور میں تجھ سے تیری محبت (یعنی یہ کہ میں تجھے دوست رکھوں یا تو مجھے دوست رکھے) اور اس آدمی کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے ( یہ کہ میں اسے دوست رکھوں یا وہ مجھے دوست رکھے) اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت سے نزدیک کر دے گا سوال کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم سے) فرمایا کہ " یہ خواب بالکل سچ ہے لہٰذا تم اسے یاد کرو اور پھر لوگوں کو سکھلاؤ" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمعیل سے اس حدیث کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)۔" تشریح اس حدیث کی وضاحت اسی باب کی حدیث نمبر ٣٤ کی تشریح میں کی جا چکی ہے اس لیے یہاں اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے تاہم اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا اور یہ سوال و جواب حالت خواب ہی میں ہوئے تھے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا دَخَلَ المَسْجِدَ اَعُوْذُ بِاﷲِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْھِہِ الْکَرِیْمِ وَسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ قَالَ فَاِذَا قَالَ ذٰلِکَ قَالَ الشَّیْطَانُ حَفِظَ مِنِّی سَائِرَ الیَوْمِ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے ۔ اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطن الرحیم یعنی میں اللہ عطمت والے بزرگ ذات والے اور ہمیشہ کی سلطنت والے کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہونے کے وقت یہ دعا پرھتا ہے تو شیطان (اس آدمی کے بارے ) میں کہتا ہے کہ یہ بندہ تمام دن میرے شر سے محفوظ رہا۔ " (ابوداؤد)
-
وَعَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضَبُ اﷲِ عَلَی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْاقُبُوْرَ اَنْبِیَا ئِھِمْ مَسَاجِدَ۔ (رواہ مالک مرسلا)-
" اور حضرت عطاء ابن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًا یُعْبَدُ یعنی : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب (نازل) ہوا۔" (مالک رحمہ اللہ مرسلاً) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! تو میری قبر کو اس معاملے میں بتوں کی مانند نہ کر کہ میری امت کے لوگ میری قبر کی خلاف شرع تعطیم کرنے لگیں یا باربار زیارت کے لیے میلے کے طور آنے لگیں، یا میری قبر کو سجدہ گاہ قرار دے کر اپنی پیشانیوں کو جو صرف تیری ہی چوکھٹ پر جھکنے کی سزا وار ہے اس پر جھکانے لگیں اور سجدے کرنے لگیں۔ اس حدیث کو اور اس دعا کو بار بار پڑھیے اور ذرا آج کے حالات پر اس کو منطبق کیجئے پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا تعلق آنے والے زمانے سے تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عرفانی نگاہوں نے اس وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے۔ کہ جب کہ میری قبر تو الگ رہی اولیاء اللہ کے مزارات پر سجدہ ریزی ہوگی مقبروں پر میلے لگیں گے وہاں عرس قوالیاں ہوں گی، قبروں پر چادریں اور پھولوں کا چڑھاوا چڑھے گا۔ غرض کہ جس طرح ایک بت پرست قوم اللہ کی عبادت و فرمانبرداری سے سرکشی اور تمرد اختیار کر کے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے میری امت کے بد قسمت اور بد نصیب لوگ جو میرے نام کے شیدائی کہلائیں گے، میرے محبت سے سر شاری کا دعوی کریں گے۔ میری لائی ہوئی پاک و صاف شریعت کی آڑ میں میرے دین کے نام پر وہی معاملہ قبروں کے ساتھ کریں گے لہٰذا آپ نے دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو میری امت کو ایسی گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے کہ وہ میری قبر کو پوجنے لگیں۔ جملہ اشتد غضب الخ کا تعلق دعا سے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک الگ جملہ ہے گویا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشتد الخ یعنی میں اپنی امت پر انتہائی شفقت و مہربانی کے لیے یہ دعا کر رہا ہوں کہ مبادا یہ بھی اس لعنت میں مبتلا نہ ہو جائیں جس طرح کہ یہود وغیرہ اس لعنت میں مبتلا ہو کر اللہ ذوالجلال کے غضب میں گرفتار ہوئے۔
-
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ حَبَلٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَھِبُّ الصَّلَاۃَ فِی الْحِیْطَانِ قَالَ بَعْضُ رَوَاتِہِ یَعْنِی الْبَسَاتِیْنَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ لَا نَعْرِفُہُ اِلَّا مِنْ حَدِیْثِ الْحَسَنِ بْنِ اَبِی جَعْفَرٍ قَدْ ضَعَّفَہُ یَحْیَ بْنُ سَعِیْدٍ وَغَیْرُہ،۔-
" اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات " حیطان" میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کے بعض رایوں نے کہا ہے کہ حیطان سے مراد بساتین (یعنی باغات) ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے (کیونکہ) یہ روایت بجز حسن بن ابی جعفر کی سند کے اور کسی سند سے منقول نہیں ہے اور انہیں بھی یحی ابن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔"
-
وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِی بَیْتِہٖ بِصَلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی مَسْجِدِ الْقَبِائِلِ بِخَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ صَلَاۃً وَصَلَاتُہُ فِی الْمَسْجِدِ الَّذِی یُجَمَّعُ فِیْہِ بِخَمْسِمِائَتِ صَلَاۃٍ وَصَلاتُہ، فِی الْمَسْجِدِ الْاَ قْصٰی بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَّلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی مَسْجِدِی بَخَمْسِیْنَ اَلْفَ صَلَاۃٍ وَصَلَاتُہُ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَۃِ اَلْفِ صَلَاۃٍ۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم) میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ص قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ مَسْجِدٍ وُّضِعَ فِیْ الْاَرْضِ اَوَّلُ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی قُلْتُ کَمْ بَےْنَھُمَا قَالَ اَرْبَعُوْنَ عَامًا ثُمَّ الاْرَضُ لَکَ مَسْجِدٌ فَحَےْثُ مَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلٰوۃُ فَصَلِّ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !زمین کے اوپر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مسجد حرام" میں نے عرض کی کہ پھر اس کے بعد ؟ فرمایا، " مسجد اقصی" (یعنی بیت المقدس) پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں (کی بناء) کے درمیان کتنا فرق تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ " چالیس سال" پھر اس کے بعد فرمایا، اب تو ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے (یعنی اس کا ہر حصہ مسجد کا حکم رکھتا ہے کہ ) جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو بنانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بیت المقدس کی بناء رکھنے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار برس سے زیادہ کا فرق ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کس اعتبار سے فرمایا کہ کعبۃ اللہ اور بیعت المقدس کی بناء کے درمیان صرف چالیس سال کا فرق ہے۔ اس کے جواب میں علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ) " اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی بناء اول کی طرف اشارہ ہے اور یہ ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی اولی حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں۔ اسی طرح بیت المقدس کے بھی بانی اولی حضرت سلیمان نہیں ہیں بلکہ کعبہ کی بناء سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے رکھی ہے پھر حضرت آدم کے بعد ان کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فرق رہا ہو۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو بنایا اور حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر کی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ : مجھے اس حدیث کی توثیق علامہ ابن ہشام کے اس مقولہ سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب التسبیحات میں لکھا ہے کہ : " جب حضرت آدم کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب بیت المقدس کی سیر کر کے اسے بناؤ چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں بیت المقدس بنایا اور اس میں عبادت کی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کی بناء پر چالیس سال کے عرصے کا فرق ہو۔" بعض علماء سے اس حدیث کی توجیہ یہ منقول ہے کہ : " جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنایا تو مسجد کی حد مقرر کر دی تھی اسی طرح بیت المقدس کی بھی حد مقرر کر دی ہوگی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ انکی حدود کو مقرر کرنے کا درمیانی وقفہ چالیس سال کا ہو۔"
-