مزدلفہ میں جمع بین الصلاتین

وعن ابن عمر قال : جمع النبي صلى الله عليه و سلم المغرب والعشاء بجمع كل واحدة منهما بإقامة ولم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما . رواه البخاري-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کیا (یعنی عشاء کے وقت دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ) اور ان میں سے ہر ایک کے لئے تکبیر کہی گئی (یعنی مغرب کے لئے علیحدہ تکبیر ہوئی اور عشاء کے لئے علیحدہ) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو ان دونوں کے درمیان نفل نماز پڑھی اور نہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے بعد۔ (بخاری ) تشریح ان نمازوں کے بعد نفل پڑھنے کی جو نفی کی گئی ہے تو اس سے ان دونوں کے بعد سنتیں اور وتر پڑھنے کی نفی لازم نہیں آتی۔ باب قصۃ حجۃ الوداع میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث گزری ہے اس کے ان الفاظ لم یسبح بینہما شیأ کی وضاحت میں ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ جب مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھ چکے تو مغرب و عشاء کی سنتیں اور نماز وتر بھی پڑھی۔ چنانچہ ایک روایت میں بھی یہ منقول ہے کہ نیز شیخ عابد سندھی نے در مختار کے حاشیہ میں اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال نقل کرنے کے بعد یہی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز کے بعد سنتیں اور وتر پڑھی۔
-
وعن عبد الله بن مسعود قال : ما رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى صلاة إلا لميقاتها إلا صلاتين : صلاة المغرب والعشاء بجمع وصلى الفجر يومئذ قبل ميقاتها-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نماز اپنے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں پڑھی ہو سوائے دو نمازوں کے کہ وہ مغرب وعشاء کی ہیں جو مزدلفہ میں پڑھی گئی تھیں (یعنی مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی) اور اس دن (یعنی مزدلفہ میں مقربانی کے دن) فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت سے پہلے پڑھی تھی۔ (بخاری ومسلم) تشریح یہاں صرف مغرب و عشاء کی نمازوں کو ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب کی نماز عشاء کے وقت پڑھی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھی تھی کہ عصر کی نماز مقدم کر کے ظہر کے وقت ہی پڑھ لی گئی تھی، لہٰذا یہاں ان دونوں نمازوں کو اس سبب سے ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ دن کا وقت تھا، سب ہی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی نماز کو مقدم کر کے ظہر کے وقت پڑھا ہے اس لئے اس کو بطور خاص ذکر کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ " فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دن فجر کی نماز وقت معمول یعنی اجالا پھیلنے سے پہلے تاریکی ہی میں پڑھ لی تھی، یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کے وقت سے پہلے پڑھی تھی کیونکہ تمام ہی علماء کے نزدیک فجر کی نماز، فجر سے پہلے پڑھنی جائز نہیں ہے۔
-