مداومت عمل کی فضیلت

وَعَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ اَدْوَمُہَاوَاِنْ قَلَّ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (بندوں کے نیک اعمال میں ) اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ " اہل تصوف و طریقت اسی حدیث کے پیش نظر اورادو و ظائف کو ترک کرنا ایسا ہی برا جانتے ہیں جیسا کہ فرائض کے ترک کو، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ترک اولیٰ ہے یعنی فرائض کے ترک اور اورادوظائف کے ترک میں فرق ہے ، فرائض کا ترک گناہ کبیرہ ہے جبکہ اورادوظائف کا ترک اولیٰ کا ترک کرنا ہے اور ظاہر کہ اولیٰ کا ترک کرنا فرائض کے ترک کرنے کے درجے میں نہیں آسکتا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جب بندے نے طاعت بغیر ضرورت کے ترک کی تو گویا اس نے مولی کی عبادت سے اعراض کیا لہٰذا وہ عتاب کا مستحق ہوا ، بخلاف مداومت کرنے والے کے کہ وہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ پروردگار کا محبوب ہو۔ وَاِنْ قَلَّ (اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تھوڑا عمل اگر اس پر مداومت و مواظبت اختیار کی جائے تو وہ زیادہ عمل سے جب کہ اس کے آداب و شرائط کی رعایت نہ ہوتی ہو اور ہمیشہ نہ کیا جاتا ہو ، بہتر ہے۔
-