ماہر قرآن کی فضیلت

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة والذي يقرأ القرآن ويتتعتع فيه وهو عليه شاق له أجران "-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راویہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ماہر قرآن ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو لکھنے والے اور بزرگ و نیکوکار ہیں اور وہ شخص کہ جو قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے تو اس کے لیے دو ثواب ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ماہر قرآن وہ شخص ہے جس کو قرآن خوب یاد ہو، اٹکے بغیر پوری روانی سے پڑھتا ہو اور اس کے لیے قرآن پڑھنا کوئی مشکل اور دشوار امر نہ ہو۔ اسی طرح فرشتوں سے وہ فرشتے مراد ہیں جو لوح محفوظ سے اللہ تعالیٰ کی کتابیں نقل کرتے ہیں یا وہ فرشتے بھی مراد ہو سکتے ہیں جو بندوں کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں۔ اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ ماہر قرآن ان عظیم فرشتوں کے ساتھ ہے بایں طور کہ وہ دنیا میں ان ہی جیسا عمل کرتا ہے اور آخرت میں اسے جو منازل اور درجات عالیہ حاصل ہوں گے ان میں وہ فرشتوں کا رفیق ہو گا۔ جس شخص کو قرآن اچھی طرح یاد نہ ہو اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہو تو اسے دو ثواب کی بشارت دی گئی ہے ایک ثواب تو پڑھنے کا اور دوسرا ثواب اس مشقت کا جو اسے قرآن پڑھنے میں ہوتی ہے اس طرح گویا قرآن شریف پڑھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص قرآن اٹک اٹک کر پڑھتا ہے وہ ماہر قرآن سے زیادہ ثواب پاتا ہے! کیونکہ ماہر قرآن کو تو بہت زیادہ ثواب ملتا ہے بایں طور کہ ملائکہ مذکورین کی رفاقت جیسی عظیم سعادت کی بشارت دی گئی ہے بہرحال حاصل یہ کہ افضل تو ماہر قرآن ہے لیکن اٹک اٹک کر پڑھنے والے کے لئے بھی باعتبار مشقت ایک طرح کی فضیلت اور ثواب ثابت ہے۔
-
وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا حسد إلا على اثنين : رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار ورجل آتاه الله مالا فهو ينفق منه آناء الليل وآناء النهار "-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صرف دو اشخاص کے بارہ میں حسد جائز ہے ایک تو وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطا فرمائی اور وہ شخص بعض اوقات کے علاوہ دن رات کے اکثر حصہ میں اس قرآن میں مشغول رہتا ہے دوسرا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ اس کو دن و رات کے اکثر حصہ میں خرچ کرتا ہو۔ (بخاری ومسلم) تشریح حسد کے معنیٰ ہیں دوسرے سے نعمت کے زوال اور اپنے لئے اس نعمت کے حصول کی تمنا کرنا چنانچہ حضرت میرک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسد کی دو قسمیں ہیں (١) حقیق۔ (٢) مجازی۔ حقیقی کا مطلب تو یہی ہے کہ کسی شخص سے نعمت کے زائل ہو جانے کی خواہش و تمنا کرنا حسد کی یہ قسم احکام قرآنی اور تعلیمات حدیث کے پیش نظر تمام علماء امت کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے مجازی کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اپنے لئے اس کے حصول کی خواہش و تمنا کرنا بغیر اس آرزو کے کہ وہ دوسرے شخص سے زائل ہو مجازی حسد کی قسم غبطہ کہلاتی ہے جسے رشک بھی کہا جاتا ہے۔ حسد مجازی یعنی غبطہ (رشک) اگر دنیاوی امور کے سلسلہ میں ہو تو مباح ہے اور اگر دینی امور کے سلسلہ میں ہو تو پھر وہ مستحب ہو گا۔ مثلا کسی شخص کو مسجد بناتا ہوا دیکھ کر یہ آرزوں و خواہش کرے کہ کاش اگر میرے پاس بھی روپیہ ہو تو میں بھی ایسی مسجد بناؤں۔ یہ رشک پسندیدہ ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے۔ بہرکیف یہاں حدیث میں حسد سے مراد غبطہ ہے مگر اس حدیث میں غبطہ کی اجازت صرف انہیں دو چیزوں میں منحصر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی نعمت ان دو نعمتوں سے بڑھ کر نہیں ہے کہ جس کے حاصل ہونے کی خواہش کی جائے چنانچہ اسی لئے مظہر فرماتے ہیں کہ کسی کے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر ویسی ہی نعمت حاصل ہو جانے کی آرزو و خواہش کرے۔ ہاں اگر وہ نعمت ایسی ہو کہ قرب الٰہی کا ذریعہ بنتی ہو جیسے تلاوت قرآن ، صدقہ و خیرات اور ان کے علاوہ دوسری نیکیاں و بھلائیاں تو ایسی نعمت کے حصول کی خواہش و آرزو پسندیدہ ہو گی۔ قرآن کی نعمت عطا فرمائی، سے مراد یہ ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ اس کو قرآن اس طرح یاد ہو جیسا کہ ہوناچا ہئے اس طرح قرآن میں مشغول رہنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتا ہو، اس کے مفہوم و معنی کو یاد کرتا ہو اس کے علم و احکام میں غور و فکر کرتا ہو، یا پھر یہ کہ اس کے امر و نواہی پر عمل کرتا ہو یا اس کو نماز میں پڑھتا ہو۔
-