مال ودولت کی فراوانی قرب قیامت کی دلیل ہے

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى يكثر المال ويفيض حتى يخرج الرجل زكاة ماله فلا يجد أحدا يقبلها منه وحتى تعود أرض العرب مروجا وأنهارا رواه مسلم . وفي رواية قال تبلغ المساكن إهاب أو يهاب . وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون في آخر الزمان خليفة يقسم المال ولا يعده . وفي رواية قال يكون في آخر أمتي خليفة يحثي المال حثيا ولا يعده عدا . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مال ودولت کی فراوانی نہیں ہو جائے گی، اور فراوانی بھی اس طرح کی ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنے مال سے زکوۃ نکالے گا لیکن وہ کوئی ایسا شخص نہیں پائے گا جو اس کا زکوۃ کا مال لے لے ( کیونکہ مال ودولت کی فراوانی کسی شخص کو محتاج اور ضرورتمند نہیں چھوڑے گی اور کوئی آدمی اس طرح کے مال لینے پر تیار نہیں ہوگا اور قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی ) جب تک کہ عرب کی سر زمین باغ وبہار اور نہر والی (یعنی بے حساب مال ودولت فراہم کرنے والی بن جائے ۔ (مسلم ) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ ( قیامت تک نہیں آئے گی جب تک کہ ) عمارتوں اور آبادی کا سلسلہ اہاب یا یہاب تک نہ پہنچ جائے گا ۔" تشریح " ویفیض " اصل میں عطف تفسیری ہے ، یعنی مال ودولت کی وہ فراوانی اس طرح ہوگی کہ چاروں طرف پانی کی مانند بہتی پھرے گی اور لوگ اپنی ضرورت وحاجت سے کہیں زیادہ دولت کے مالک ہوں گے ۔ اہاب اور یہاب (اور ایک نسخہ میں ی کے زبر کے ساتھ یعنی یہاب ) یہ دونوں جگہ کے نام ہیں جو مدینہ کے نواح میں واقع ہیں ! اہاب اور یہاب میں حرف او تنویع کے لئے ہے دوسری روایت کے ان الفاظ کی مراد یہ واضح کرنا ہے کہ آخر زمانہ میں مدینہ میں اس قدر عمارتیں بنیں گی کہ ان کا سلسلہ شہر کے اردگرد نواحی علاقوں تک پہنچ جائے گا ؟۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ لفظ اہاب الف کے زبر کے ساتھ سحاب کے وزن پرہے، اور یہ مدینہ سے چند کوس کے فاصلہ پر ایک موضع کا نام ہے نیز یہ لفظ الف کے زیر کے ساتھ بھی منقول ہے ۔ حضرت امام مہدی کے بارے میں پیشگوئی
-
وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يكون في آخر الزمان خليفة يقسم المال ولا يعده . وفي رواية قال يكون في آخر أمتي خليفة يحثي المال حثيا ولا يعده عدا . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " آخر زمانہ میں ایک خلیفہ ( یعنی سلطان برحق ) پیدا ہوگا جو ضرورت مندوں، مستحقین کو خوب مال تقسیم کرے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا ۔ یعنی لوگوں میں بے حساب مال ودولت تقسیم کرے گا۔ " اور ایک روایت میں یوں ہے کہ میری امت کے آخری زمانہ میں ایک خلیفہ پیدا ہوگا جو لوگوں کو مٹھی یا چلو بھر کر ( یعنی بہت زیادہ ) مال دولت دے گا اور اس کو شمار نہیں کرے گا جیسا کہ شمار کیا جاتا ہے ۔ " (مسلم ) تشریح " خلیفہ " سے مراد حضرت امام مہدی ہیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوں گے ۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نظام حکومت کی مالی حالت بہت زیادہ اچھی ہوگی، فتوحات اور مال غنیمت وغیرہ کے ذریعہ ان کی آمدنی کا کوئی حساب نہیں ہوگا، لیکن وہ اس مال و دولت کو اپنی شان و شوکت بڑھانے اور اپنی زندگی کو پرعیش بنانے پر خرچ نہیں کریں گے یا جمع کر کے اپنے خزانوں میں بند کر کے نہیں رکھیں گے جیسا کہ ہمارے زمانہ کے حکمران اور بادشاہوں کا دستور ہے، بلکہ وہ اس دولت کو مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی ضروریات میں خرچ کریں گے اور اپنی طبعی سخاوت کی وجہ سے دونوں ہاتھ بھر بھر کر یہ دولت لوگوں میں تقسیم کریں گے ۔
-