TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان
لاحول ولاقوۃ کی فضیلت
وعن مكحول عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أكثر من قول : لا حول ولا قوة إلا بالله فإنها من كنز الجنة " . قال مكحول : فمن قال : لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجى من الله إلا إليه كشف الله عنه سبعين بابا من الضر أدناها الفقر . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث ليس إسناده بمتصل ومكحول لم يسمع عن أبي هريرة-
حضرت مکحول رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے! حضرت مکحول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ ولا منجأ من اللہ الا الیہ یعنی ضرر ونقصان کو (دفع کرنے کی) قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی قدرت کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی ورضا ورحمت کی توجہ ) پر منحصر ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کر دیتا جس میں ادنی قسم (فقر ومحتاجگی ہے) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت مکحول رضی اللہ عنہ کی سماعت ثابت نہیں ہے۔ تشریح ارشاد گرامی " جنت کا خزانہ" کا مطلب یہ ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ جنت کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کہ اس کو پڑھنے والا اس دن (یعنی قیامت کے دن) نفع وفائدہ حاصل کرے گا جس دن نہ دنیا کا کوئی خزانہ مال کا کام آئے گا اور نہ اولاد اور دوسرے عزیز واقا رب نفع پہنچائیں گے۔ فقر (محتاجگی) سے مراد دل کا فقر اور قلب کی تنگی ہے جس کے متعلق ایک حدیث یوں ہے فرمایا کہ کاد الفقر ان یکون کفرا ۔ فقر کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے ۔ لہٰذا جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے تو اس کی برکت سے دل کی محتاجگی دور ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرتا ہے اور پھر ان کلمات کے معنی ومفہوم کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین واعتماد پیدا ہوا جاتا ہے کہ ہر امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت کے زیر اثر ہے کسی کو نفع وفائدہ آرام و راحت دنیا میں بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو تکلیف ومصیب اور ضرر ونقصان میں مبتلا کر دینا بھی اسی کی طرف سے ہے پس وہ شخص بلاء ومصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت و راحت پر شکر کرتا ہے اپنے تمام امور اللہ ہی کی طرف سونپ دیتا ہے اور اس طرح قضا وقدر الٰہی پر راضی ہو کر حق تعالیٰ کا محبوب بندہ اور دوست بن جاتا ہے۔ حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی ایک سیاحت کے دوران جن صاحب کی رفاقت و صحبت مجھے حاصل رہی انہوں نے مجھے نیکی وبھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب اچھی طرح جان لو! اعمال نیک کے لئے اقوال وکلمات میں تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے برابر کوئی قول وکلمہ اور افعال میں خدا کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ کو اختیار کرنے کے برابر کوئی فعل ممد و معاون نہیں۔ ا یت (ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم) جس شخص نے خدا کی راہ دکھائی ہوئی کو اختیار کیا تو بلاشبہ اسے مضبوط راہ کی ہدایت بخشی ہوگی۔ امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ اس حدیث کی سند متصل نہیں اور اس طرح یہ حدیث منقطع ہے لیکن اس حدیث کو حضرت موسیٰ کی یہ روایت صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں بطریق مرفوع منقول ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانہا کنز من کنوز الجنۃ ۔ اسی طرح حدیث کی توثیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت مرفوع سے بھی ہوتی ہے جسے نسائی اور بزاز نے نقل کیا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور اس میں لا منجا من اللہ الا الیہ کنز من کنوز الجنۃ بھی ہے لہٰذا حضرت مکحول رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے مگر مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے ۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا حول ولا قوة إلا بالله دواء من تسعة وتسعين داء أيسرها الهم "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ ننانوے (دنیاوی اور اخروی) بیماریوں کی دوا ہے جس میں سے ادنیٰ بیماری (دنیاوی واخروی ) غم ہے۔
-
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا أدلك على كلمة من تحت العرش من كنز الجنة لا حول ولا قوة إلا بالله يقول الله تعالى : أسلم عبدي واستسلم " . رواهما البيهقي في الدعوات الكبير-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو عرش کے نیچے سے بہشت کے خزانے سے اترا ہے اور وہ یہ ہے لا حول ولاقوۃ الا باللہ جب کوئی بندہ یہ کلمہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ تابعدار اور بہت فرمانبردار ہوا ۔ یہ دونوں حدیثیں بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کی ہیں۔
-
وعن ابن عمر أنه قال : سبحان الله هي صلاة الخلائق والحمد لله كلمة الشكر ولا إله إلا الله كلمة الإخلاص والله أكبر تملأ ما بين السماء والأرض وإذا قال العبد : لا حول ولا قوة إلا بالله قال الله تعالى : أسلم عبدي واستسلم . رواه رزين-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا سبحان اللہ مخلوقات کی عبادت ہے الحمد للہ شکر کا کلمہ ہے لا الہ الا اللہ اخلاص کا کلمہ ہے (یعنی کلمہ تو حید ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کے لئے آگ سے نجات کا سبب ہے) اور اللہ اکبر کا ثواب آسمان و زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے۔ اور جب کوئی بندہ حضور قلب کے ساتھ لاحول و لاقوۃ الا باللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بندہ فرمانبردار ہوا اور بہت فرمانبردار ہوا۔ تشریح سبحان اللہ مخلوقات کی عبادت ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ا یت (وان من شیء الا یسبح بحمدہ) اور مخلوقات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو کے مطابق چونکہ تمام ہی مخلوقات اللہ رب العزت کی پاکی بیان کرتی ہے اس لئے یہ ان کی عبادت ہے۔
-