TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
فئی تقسیم کر نے سے متعلق
قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال
4061 - [ 7 ] ( لم تتم دراسته ) وعنه قال : قرأ عمر بن الخطاب رضي الله عنه : ( إنما الصدقات للفقراء والمساكين ) حتى بلغ ( عليم حكيم ) فقال : هذه لهؤلاء . ثم قرأ ( واعلموا أن ما غنمتم من شيء فأن لله خمسه وللرسول ) حتى بلغ ( وابن السبيل ) ثم قال : هذه لهؤلاء . ثم قرأ ( ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى ) حتى بلغ ( للفقراء ) ثم قرأ ( والذين جاؤوا من بعدهم ) ثم قال : هذه استوعبت المسلمين عامة فلئن عشت فليأتين الراعي وهو بسرو حمير نصيبه منها لم يعرق فيها جبينه . رواه في شرح السنة (2/424) 4062 - [ 8 ] ( لم تتم دراسته )-
" اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ ( ایک موقع پر ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی ( جس میں زکوٰ ۃ کے مصارف کا بیان ہے ) آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا ءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ) 9۔ التوبہ : 60) اور اس آیت کو انہوں نے علیم حکیم تک پڑھا اور فرمایا کہ اس ( زکوٰ ۃ کے مال ) کو پانے کے مستحق یہی لوگ ہیں ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی فقراء مساکین وغیرہ ) پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی آیت (وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ) 8۔ الانفال : 41) اور اس آیت کو وابن السبیل تک پڑھا اور فرمایا کہ ( خمس کا مال ) انہی لوگوں کا حق ہے ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی ذوی القربیٰ وغیرہ ) اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی ( جس میں مال فئی کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس کس کو دیا جائے ) آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر : 7) اس آیت کو للفقراء والذین جاءوا من بعدہم تک پڑھا ( ایک نسخہ میں یہ عبارت ہے کہ حتی بلغ للفقراء ثم قراء والذین جاءوا اس کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ انہوں نے اس آیت ماافاء اللہ کو پڑھنا شروع کیا اور للفقراء تک دو آیتوں کو پڑھا اور پھر یہ آیت والذین جاء وا من بعد ہم پڑھی ) اور پھر فرمایا کہ اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے ۔ لہٰذا اگر میری زندگی رہی تو ( میری حدود خلافت میں کوئی ایسا مسلمان نہیں بچے گا جس کو اس کے حصہ کا مال نہ پہنچے یہاں تک کہ ) اس چروا ہے کو بھی مال فئی میں سے اس کا حصہ پہنچے گا جو مقام بسر اور حمیر میں ہوگا درآنحالیکہ اس ( مال کے حاصل کرنے ) میں اس کی پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوئی ہوگی ۔ " ( شرح السنّہ ) تشریح : " اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جن لوگوں کو دینے کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سارے ہی مسلمان آجاتے ہیں بخلاف پہلی دونوں آیتوں کے کہ ایک میں تو صرف مستحقین زکوۃ کا ذکر ہے اور دوسری میں مستحقین خمس کا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مال فئی میں سے خمس نکالنے کے قائل نہیں تھے جیسا کہ مال غنیمت میں سے نکالا جاتا ہے، ان کے نزدیک پورا مال فئی مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح اور ان کی فلاح و اعانت میں خرچ کیا جانا چاہیے جو قرآن و حدیث میں مذکور فرق مراتب کے ساتھ ان کا حق ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے سوا اکثر ائمہ فقہ کا مسلک بھی یہی ہے، نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بھی قائل تھے کہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درجات و مراتب کے تفاوت کا لحاظ ضروری ہے جب کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر مسلمان کا برابر، برابر حصہ لگاتے تھے وہ قدامت اسلام اور نسب کی برتری وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرمایا کر تے تھے کہ اس چیز کا تعلّق آخرت سے ہے اگر کوئی شخص پہلے مسلمان ہوا ہے اور کسی شخص نے دین کی راہ میں زیادہ شجاعت و بہادری اور زیادہ سعی و مشقّت اختیار کی ہے تو ان کا یہ عمل اللہ کے لئے ہے اور ان کا اجر بھی اللہ ہی پر موقوف ہے ان چیزوں کو زیادہ مال کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ فرق مراتب اور تفاوت درجات کو ملحوظ رکھتے تھے اس لئے وہ جب مال تقسیم کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو زیادہ دیتے اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کم ، اور ان ( حضرت حفصہ ) سے فرماتے کہ " ( بیٹی ! تمہاری بنسنت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس خصوصیت کی بناء پر زیادہ دیتا ہوں کہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ ( عائشہ ) تم سے زیادہ چہیتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ ( یعنی میری ) بہ نسبت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ ( یعنی حضرت ابوبکر ) سے زیادہ تعلّق خاطر تھا ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اپنے بیٹے ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہ نسبت حضرت اسامہ ابن زید کا حصہ زیادہ لگایا کر تے تھے اور ان ( ابن عمر ) سے بھی یہی فرماتے تھے کہ اسامہ کو تمہارے اوپر یہ فضیلت حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری بہ نسبت اسامہ سے زیادہ تعلّق خاطر تھا اور تمہارے باپ سے زیادہ ان کا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں پسندیدہ تھا ۔ " حمیر " یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے جہاں یمن کا مشہور قبیلہ حمیر کے لوگ آباد تھے ۔ اس طرح " سرو " ایک جگہ کا نام تھا ، جو " حمیر " کے علاقہ میں تھا ۔ روایت کے آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا اور میری خلافت کے زمانے میں اسلام کو زیادہ سے زیادہ شہروں اور ملکوں پر تسلّط و غلبہ حاصل ہوا اور اس کے نتیجہ میں مال فئی بھی بہت ہاتھ لگا تو ان میں سے تمام مسلمانوں کو ان کا حصہ پہنچے گا خواہ وہ کتنے ہی دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں کیوں نہ رہتے ہوں اور اس کے باوجود کہ اس مال کو حاصل کر نے میں انہیں ذراسی بھی مشقّت برداشت نہیں کرنا پڑی ہوگی۔
-
وعنه قال : كان فيما احتج فيه عمر أن قال : كانت لرسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاث صفايا بنو النضير و خيبر وفدك فأما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه وأما فدك فكانت حبسا لأبناء السبيل وأما خيبر فجزأها رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثة أجزاء : جزأين بين المسلمين وجزء نفقة لأهله فما فضل عن نفقة أهله جعله بين فقراء المهاجرين . رواه أبو داود-
" اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات سے استدلال کیا وہ یہ تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین صفایا تھیں ۔ ١ بنو نضیر ۔ ٢خیبر ۔ ٣ فدک ۔ چنانچہ بنو نضیر ( کے جلا وطن ہو جانے کے بعد ان کی جو زمین جائداد قبضے میں آئی تھی اس سے حاصل ہونے والا مال ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخراجات ( جیسے مہمانوں کی ضیافت و تواضع اور مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور گھوڑوں کی خریداری وغیرہ ) کے لئے مخصوص تھا ۔ فدک کے محاصل (ان) مسافروں ( کی امداد و اعانت کر نے کے لئے ) مخصوص تھے ( جو اگرچہ اپنے وطن میں تو مال رکھتے ہوں مگر سفر کے دوران ان کے پاس مال و اسباب ختم ہوگیا ہو ) ۔ اور خیبر ( کے محاصل ) کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کر رکھے تھے، ان میں سے دو حصے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے رکھتے تھے اور اس میں سے بھی اہل و عیال کے خرچ سے جو کچھ بچ جاتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نادار مہاجرین پر خرچ کر دیتے تھے ۔ " ( ابوداؤد ) تشریح : " جس بات سے استدلال کیا الخ یعنی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما فدک کے مال کے بارہ میں اپنا مطالبہ لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے مطالبہ کو تسلیم کر نے سے انکار کر دیا، اور جن جائداد و زمینوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی حق تھا ( جیسے بنو نضیر، خیبر اور فدک کی زمین، جائدادیں ) ان کے بارہ میں مذکورہ بالا تفصیل بیان کی اور چونکہ اس تفصیل کے بیان کے وقت دوسرے صحابہ بھی موجود تھے جن میں سے کسی نے بھی حضرت عمر کی بیان کردہ تفصیل کی تردید نہیں کی اس لئے گویا یہ بات ان کے فیصلے کی دلیل قرار پائی ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا ضرور کیا کہ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو فدک کے محاصل کا متولّی بنادیا کہ وہ دونوں اس محا صل کو اسی طرح صرف کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف کیا کرتے تھے ۔ " صفایا " صفیہ کی جمع ہے " صفیہ " اس کو کہتے ہیں کہ امام وقت ( اسلامی مملکت کا سربراہ ) مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں سے کوئی چیز چھانٹ کر اپنے لئے مخصوص کرے ۔ یہ بات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ اور بھی جو چیز جیسے لونڈی، غلام، تلوار اور گھوڑا وغیرہ چاہتے اس کو لے لینے کا حق رکھتے تھے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی دوسرے امام وقت کے لئے یہ بات جائز نہیں ۔ " فدک " ایک بستی کا نام تھا جو خیبر کے مواضعات میں سے تھی اور مدینہ سے دو روز کے فاصلہ پر واقع تھی یہ ایک شاداب اور سرسبز جگہ تھی جہاں زیادہ تر کھجور کے اور تھوڑے بہت دوسرے پھلوں کے باغات تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فدک پر صلح کے ذریعہ تسلّط حاصل ہوا تھا اور صلح کی بنیاد یہ معاہدہ تھا کہ وہاں کی آدھی زمین تو فدک والوں کی رہے گی آدھی زمین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہوگا، چنانچہ فدک کی وہ آدھی زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ملکیت میں رہی جس کی آمدنی اور پیداوار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث کے مطابق محتاج مسافروں کی امداد و اعانت فرماتے تھے ۔ خیبر کے محاصل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین حصوں میں اس لئے تقسیم کرتے تھے کہ خیبر کا علاقہ اصل میں بہت سارے مواضعات اور بستیوں پر مشتمل تھا ان میں سے بعض گاؤں تو بزور طاقت فتح کئے گئے تھے اور بعض گاؤں بغیر جنگ و جدال کے صلح کے ذریعہ قبضہ واختیار میں آئے تھے، چنانچہ جو گاؤں بزور طاقت فتح کئے گئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ " مال غنیمت " تھا اس لئے اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خمس لیتے تھے اور جو گاؤں بذریعہ صلح قبضہ واختیار میں آئے تھے ان سے حاصل ہونے والا مال چونکہ " مال فئی " تھا اس لئے وہ تمام تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ضروریات، اپنے اہل و عیال کے اخراجات اور عام مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح میں جہاں مناسب سمجھتے خرچ کرتے تھے ۔ لہٰذا اس بنا پر تقسیم و مساوات کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے سارے مال کو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر نے کے لئے تین حصوں میں کر کے دو حصے مسلمانوں کو دیں اور ایک حصہ اپنے پاس رکھیں ۔
-