قسم کے ساتھ" انشاء اللہ " کہنے کا مسئلہ

مرفوع وعن ابن عمر أن رسول الله صلى الله ليه وسلم قال : " من حلف على يمين فقال : إن شاء الله فلا حنث عليه " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وذكر الترمذي جماعة وقفوه على ابن عمر-
اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو کسی بات پر قسم کھائے اور قسم کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو اس پر حنث ( کا اطلاق ) نہیں ہوگا ۔ ( ترمذی ) ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ) نیز امام ترمذی نے کچھ محدثین کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو حضرت ابن عمر پر موقوف کیا ہے ( یعنی ان محدثین کے نزدیک یہ روایت حضرت ابن عمر کا ارشاد ہے ) ۔ " تشریح : " حنث کے معنی ہیں " گناہ اور قسم توڑنا چنانچہ قسم توڑنے والے کو " حانث " کہا جاتا ہے ، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جس قسم کے الفاظ کے ساتھ لفظ " انشاء اللہ " کہہ دیا جائے وہ قسم منعقد نہیں ہوگی اور جب وہ قسم منعقد ہی نہیں ہوگی تو اس کو توڑنے پر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا ، اسی طرح تمام عقد و معاملات کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر الفاظ عقد کے ساتھ لفظ " انشاء اللہ " متصل ہو تو وہ عقد والا معاملہ منعقد نہیں ہوگا ، چنانچہ اکثر علماء اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے البتہ حضرت ابن عباس کا قول یہ تھا کہ اگر لفظ " انشاء اللہ " متصل ہو تو بھی یہی حکم ہے ۔ اس بارے میں متصل اور منفصل کی حد یہ ہے کہ قسم کے الفاظ کے بعد کسی اور بات میں مشغول ہوئے بغیر فوراً انشاء اللہ کہا گیا تو یہ " متصل " ہے اور اگر اس قسم کے الفاظ کے بعد کسی دوسری بات میں مشغول ہو تو پھر انشاء اللہ کہا تو " منفصل " ہے ! بعض علماء نے " متصل " کی حد کچھ اور بھی بیان کی ہے جس کی تفصیل مرقات میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
-