TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نفقات اور لونڈی غلام کے حقوق کا بیان
قسم کی قسمیں اور ان کے احکام
--
قسم کی تین قسمیں ہیں ۔ ١ غموس ۔ ٢ لغو ۔ ٣ منعقدہ ۔ " غموس " اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر جھوٹی قسم کھائی جائے ، مثلاً یوں کہا جائے " خدا کی قسم " میں نے یہ کام کیا تھا " حالانکہ واقعتًا " وہ کام نہیں کیا تھا یا یوں کہا جائے " خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا تھا " حالانکہ واقعتًا وہ کام کیا گیا تھا ! اسی طرح مثلاً زید نے یہ کہا کہ خدا کی قسم ! خالد کے ذمہ میرے ہزار روپے ہیں ۔ یا خدا کی قسم ! میرے ذمہ خالد کے ہزار روپے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں خالد کے ذمہ اس کے ہزار روپے نہیں ہیں یا اس کے ذمہ خالد کے ہزار روپے ہیں ۔ غموس کا حکم یہ ہے کہ اس طرح جھوٹی قسم کھانے والا شخص گنہگار ہوتا ہے ۔ لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہوتا البتہ توبہ واستغفار ضروری ہوتا ہے " لغو " اس قسم کو کہتے ہیں کہ جو کسی گزشتہ یا حالیہ بات پر کھائی جائے اور قسم کھانے والے کو یہ گمان ہو کہ وہ اسی طرح ہے جس طرح میں کہہ رہا ہوں لیکن واقعہ کے اعتبار سے وہ بات اس طرح نہ ہو جس طرح وہ کہہ رہا ہے ۔ مثلاًکوئی شخص یوں کہے کہ " و اللہ ! یہ کام میں نے نہیں کیا تھا " حالا نکہ اس شخص نے یہ کام کیا تھا مگر اس کو یہی گمان ہے کہ میں نے کام نہیں کیا ہے ! یا اس شخص نے دور سے کسی شخص کو دیکھا اور کہا کہ خدا کی قسم ! یہ زید ہے حالانکہ وہ زید نہیں تھا ۔ بلکہ خالد تھا لیکن ! یہ قسم اس شخص نے یہی گمان کر کے کھائی تھی کہ وہ زید ہے ۔ قسم کی اس نوعیت کا حکم یہ ہے کہ اس طرح کھانے والے کے بارے میں امید یہی ہے کہ اس سے مواخذہ نہیں ہوگا ۔ " منعقدہ " اس قسم کو کہتے ہیں کہ کسی آئندہ کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم کھائی جائے ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم کے خلاف کیا جائے گا تو کفارہ واجب ہوگا ۔ مثلاً زید نے یوں کہا کہ ! خدا کی قسم ، میں آنے والی کل میں خالد کو سو روپے دوں گا ۔ اب اگر اس نے آنے والی کل میں خالد کو سو روپے نہیں دیئے تو اس پر قسم کو توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا ۔ منعقدہ قسم کی بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے ، جیسے فرائض کے کرنے یا گناہ کو ترک کرنے کی قسم کھائی جائے ، مثلاً یوں کہا جائے کہ خدا کی قسم ! میں ظہر کی نماز پڑھوں گا ۔ یا ۔ خدا کی قسم ! میں زنا کرنا چھوڑ دوں گا ان صورتوں میں قسم کو پورا کرنا واجب ہے ۔ بعض صورتیں ایسی ہوتیں ہیں جن میں قسم کو پورا نہ کرنا واجب ہوتا ہے ، جیسے کوئی نادان کسی گناہ کو کر لے یا کسی واجب پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائے تو اس قسم کو توڑنا ہی واجب ہے ۔ اسی طرح منعقدہ قسم کی بعض صورتوں میں قسم کو توڑنا واجب تو نہیں ہوتا مگر بہتر ہوتا ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ " خدا کی قسم ! میں کسی مسلمان سے ملاقات نہیں کروں گا " تو اس قسم کو پورا نہ کرنا بہتر ہے ان کے علاوہ اور صورتوں میں محافظت قسم کے پیش نظر قسم کو پورا کرنا افضل ہے ۔ وجوب کفارہ کے سلسلے میں یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ " منعقدہ " قسم توڑنے پر بہر صورت کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ قسم خواہ قصداً کھائی گئی ہو اور خواہ قسم کھانے والے کو قسم کھانے پر یا قسم توڑنے پر زبردستی مجبور کیا گیا ہو ۔ قسم کا کفارہ قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ بردہ کو آزاد کیا جائے ، یا دس مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ۔ ان دونوں ہی صورتوں میں ان شرائط واحکام کو سامنے رکھا جائے جو کفارہ ظہار میں بردہ کو آزاد کرنے یا مسکینوں کو کھانا کھلانے کے سلسلے میں منقول ہیں اور یا دس مسکینوں کو پہننے کا کپڑا دیا جائے اور ان میں سے ہر ایک کو ایسا کپڑا دیا جائے جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے ، لہٰذا اگر صرف پاجامہ دیا جائے گا تو یہ کافی نہیں ہوگا ۔ اور اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر بھی قادر نہ ہو یعنی نہ تو بردہ آزاد کر سکتا ہو ، نہ دس مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہو ، اور نہ دس مسکینوں کو لباس دے سکتا ہو تو پھر وہ تین روزے پے درپے رکھے ۔ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دے دینا جائز ہے ، کافر کی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوتا اگرچہ وہ حالت اسلام میں اس قسم کو توڑے ۔ اسی طرح چونکہ بچے ، سوئے ہوئے شخص اور دیوانے کی قسم ، سرے سے صحیح ہی نہیں ہوتی اس لئے ان پر قسم توڑنے کا کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا ۔ قسم کے دیگر احکام و مسائل عربی میں قسم کے لئے تین حروف ہیں ۔ ١ و ۔ ٢ب ٣ت مثلاً یوں کہا جائے و اللہ یا باللہ یا تاللہ ان تینوں کا مفہوم یہ ہے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ، عربی زبان و اسلوب کے مطابق بسا اوقات یہ حروف مقدر ہو تے ہیں یعنی لفظوں میں تو ان کا ذکر نہیں ہوتا لیکن حقیقت میں ان کے معنی مراد ہوتے ہیں ۔ جیسے یوں کہا جائے اللہ افعلہ ۔ یہ معنی مفہوم کے اعتبار سے و اللہ افعلہ ہے ۔ قسم باری تعالیٰ کی اسم ذات اللہ کے ساتھ یا اس کے دوسرے ناموں میں سے کسی اور نام مثلاً ۔ رحمٰن ، رحیم اور حق وغیرہ کے ساتھ کھائی جاتی ہے اور ان ناموں میں سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اگر ایسے ناموں کے ساتھ قسم کھائی جائے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی ذات کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم و حکیم وغیرہ تو ان میں نیت کی احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان صفات کے ساتھ قسم کھانا بھی صحیح ہے جن کے ساتھ عام طور پر قسم کھانے کا رواج ہو جیسے اللہ کی عزت و جلال کی قسم ! اللہ کی بڑائی وبزرگی کی قسم اور اللہ کی عظمت و قدرت کی قسم ! ہاں ان صفات کے ساتھ قسم کھانا صحیح نہیں ہوتا ۔ جن کے ساتھ قسم کھانے کا عام طور پر رواج نہ ہو ، جیسے رحمت ، علم ، رضا، غضب اور عذاب ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے جیسے باپ اور دادا کی قسم ، قرآن کی قسم ، انبیاء کی قسم ، ملائکہ کی قسم کعبہ کی قسم ، نماز روزہ کی قسم ، مسجد حرام اور زم زم کی قسم اور دیگر تمام شعائر کی قسم یا اسی طرح بعض لوگ اس طرح قسم کھاتے ہیں اپنی جوانی کی قسم ، اپنے سر کی قسم ، تمہاری جان کی قسم ، تمہاری قسم اپنے اولاد کی قسم ، یہ سب ناجائز ہے ، لیکن اگر اس طرح کی کوئی قسم کھائی جائے اور پھر اس کے خلاف کیا جائے تو قسم توڑنے کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ عربی میں لعمر اللہ قسم ہے ، اسی طرح " سوگند خدا " یا " خدا کی سوگند کھاتا ہوں " بھی قسم ہے ، نیز عبداللہ میثاق اللہ قسم کھاتا ہوں ، حلف کرتا ہوں اور اشہد ( اگرچہ اس کے ساتھ لفظ اللہ ذکر نہ کیا جائے ) یہ سب بھی قسمیں ہیں ۔ اسی طرح کہنا " مجھ پر نذر ہے " یا " مجھ پر یمین ہے " یا مجھ پر عہد ہے ( اگرچہ اس کی اضافت اللہ کی طرف نہ کرے ) بھی قسم ہے ایسے ہی اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہو جاؤں یا یہودی ہو جاؤں یا عیسائی ہو جاؤں یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو میں اللہ تعالیٰ سے بری ہوں تو اس طرح کہنے سے بھی قسم ہو جاتی ہے ، اس کے خلاف کرنے سے قسم توڑنے کا حکم ثابت ہو جاتا ہے لیکن اپنے کہنے کے مطابق وہ کافر یا یہودی یا عیسائی نہیں ہو جاتا ۔ خواہ اس فلاں کام کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہو یا آئندہ زمانہ سے ، بشرطیکہ اسے یہ علم ہو کہ اس طرح کہنا قسم ہے ، ہاں اگر اس طرح کہتے وقت اس کے ذہن میں قسم کا تصور نہ ہو بلکہ واقعتًا کفر ہی کا تصور رکھتا ہو پھر اس صورت میں اس وجہ سے کہ اس نے خود کفر کو اختیار کیا ہے وہ کافر ہو جائے گا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ " اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو اس پر اللہ کا غضب ٹوٹے یا اس پر اللہ کی لعنت ہو " یا یوں کہے کہ اگر فلاں شخص یہ کام کرے تو وہ زانی ہے ، یا چور ہے ، یا شرابی ہے ، یا سود خور ہے ، تو اس کو قسم نہیں کہیں گے ، اسی طرح یہ کہنا " حقاً " یا " وحق اللہ " بھی قسم نہیں ہے ، لیکن اس میں حضرت امام ابویوسف کا اختلافی قول ہے ۔ اسی طرح کہنا کہ " میں خدا کی سوگند کھاؤں یا ۔ بیوی پر طلاق کی سوگند کھاؤں " بھی قسم نہیں ہے ، اگر کوئی شخص اپنی کسی مملوکہ چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے تو وہ چیز اس پر حرام نہیں ہو جاتی ۔ لیکن اس کو استعمال کرنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ میں نے اپنے اوپر روٹی کو حرام کر لیا ہے ، اس طرح کہنے سے روٹی اس پر حرام نہیں ہو جاتی ، لیکن اگر وہ اس کے بعد روٹی کھائے گا تو قسم کا کفارہ دینا لازم ہے ۔ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو اس کا اطلاق کھانے پینے کی تمام چیزوں پر ہوگا یعنی اگر وہ کوئی حلال چیز کھائے گا تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہو جائے گا ، نیز اس پر فتویٰ ہے کہ اس طرح کہنے سے بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ اس نے اس کی نیت نہ کی ہو ، اسی طرح یوں کہنا کہ " حلال چیز مجھ پر حرام ہے " یا یہ کہنا کہ اپنے دائیں ہاتھ میں جو چیز بھی لوں وہ مجھ پر حرام ہے ۔ کا بھی یہی حکم ہے ۔ اگر کوئی شخص قسم کے ساتھ لفظ " انشاء اللہ " بھی ادا کرے تو وہ حانث نہیں ہوگا یعنی چونکہ وہ سرے سے قسم ہی نہیں ہوگی اس لئے اس کے خلاف کرنے سے کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا ۔ یہ تو قسموں کے بارے میں کچھ تفصیل تھی ، اب باب کے دوسرے جزو " نذر " کے متعلق بھی چند باتیں ذہن نشین کر لیجئے ۔ نذر اور اس کے احکام " نذر " منت کو کہتے ہیں یعنی کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینا جو واجب نہیں تھی مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ اے اللہ ! " اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں پانچ روزے رکھوں گا " ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ نذر ماننا صحیح ہے اور اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے بشرطیکہ وہ نذر کوئی گناہ کی چیز نہ ہو اور اس نذر کا تعلق کسی گناہ کی چیز سے ہو تو حضرت امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک وہ نذر صحیح نہیں ہوگی ، اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ نذر صحیح نہیں ہوگی بلکہ ایسی نذر ماننے والے پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا ۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے : حدیث (لا نذر فی معصیۃ و کفارتہ کفارۃ یمین ) " معصیت کی نذر کا کوئی اعتبار نہیں لیکن اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا ۔ " ملتقی میں لکھا ہے کہ جس شخص نے نذر مانی یعنی اس نذر کو کسی شرط کے ساتھ معلق نہیں کیا مثلاً یوں کہا کہ " میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھوں گا " ۔ یا ایسی نذر مانی جو کسی شرط کے ساتھ متعلق ہو اور وہ شرط بھی ایسی ہو جس کے پورے ہونے کی وہ خواہش وارادہ رکھتا ہو مثلاً یوں کہے کہ اگر میں صحت یاب ہو جاؤں تو روزے رکھوں گا ۔ اور پھر وہ شرط پوری ہو جائے ۔ یعنی وہ صحت یاب ہو جائے تو ان دونوں ہی صورتوں میں اس نذر کو پورا کرنا ضروری ہوگا ، اور اگر اس نے اپنی نذر کو کسی ایسی شرط کے ساتھ متعلق کیا جس کے پورا ہونے کی وہ خواہش نہ رکھتا ہو " مثلاً یوں کہے کہ " " اگر میں زنا کروں تو مجھ پر غلام آزاد کرنا واجب ہوگا " ۔ تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قسم کا کفارہ دے اور چاہے اس نذر کو پورا کرے یعنی غلام آزاد کرے ۔ نذر کے سلسلے میں دیگر مسائل واحکام تفصیل کے ساتھ فقہ کی کتابوں اور فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ان میں دیکھے جا سکتے ہیں البتہ اس موقع پر نذر کے سلسلہ میں بڑی اور اہم فائدے کی بات ذکر کر دینا یقینا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی نذر ماننا جائز نہیں ہے ، نہ نبی کی ، نہ فرشتے کی ، نہ اولیاء اللہ کی نہ کسی اور کی ۔ مثلاً یوں کہنا کہ " اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو مولود پڑھاؤں گا ۔ یا ۔ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھاؤں گا ۔ یا اگر فلاں کام ہو گیا تو مولی مشکل کشا کا روزہ رکھوں گا ۔ اسی طرح غیر اللہ کی نذر ماننا بڑے گناہ کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق نے اپنی کتاب " ماتہ مسائل ، معتبر و مستند کتابوں کے حوالہ سے جو مفید اور کار آمد باتیں لکھی ہیں ان سب کو یہاں نقل کیا جاتا ہے ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ " اس طرح نذر ماننی کہ " اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا درست نہیں ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نذر ماننے میں چند ایسی شرائط ہیں جو پائی جائیں تو نذر صحیح ہوتی ہے اور اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو پھر نذر صحیح نہیں ہوتی ۔ ایک شرط تو یہ ہے کہ جو چیز اپنی طرف سے نذر مانی جائے وہ ایسی ہونی چاہئے جس کی جنس شرعی طور پر واجب ہو ( جیسے نماز روزہ وغیرہ ) چنانچہ اسی لئے اگر کوئی شخص مریض کی عیادت کرنے کی نذر مانے ( یعنی یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں فلاں مریض کی عیادت کروں گا ) تو اس کی نذر صحیح نہیں ہوگی کیونکہ مریض کی عیادت ایسی جنس سے ہے جو شرعاً واجب نہیں ہے ۔ تیسری شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ فی الحال یا ثانی الحال اس پر واجب نہ ہو جیسے نماز پنجگانہ ۔ اور چوتھی شرط یہ کہ جو چیز نذر مانی جائے وہ خود کوئی گناہ کی چیز نہ ہو ۔ ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح نذر ماننا کہ فلاں بزرگ کے مزار پر اتنے روپے یا اتنے کھانے چڑھاؤں گا ، صحیح نہیں ہے کیونکہ کسی مزار پر روپے یا کھانا پہنچانا کوئی عبادت نہیں ہے ، ہاں اگر اس طرح نذر مانی گئی کہ " اگر اللہ تعالیٰ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں فلاں بزرگ کے مزار کے خدام و فقراء کو کھانا کھلاؤں گا " تو یہ نذر صحیح ہوگی اور اس کو پورا کرنا لازم ہوگا ، لیکن نذر کو پورا کرنے کے لئے اس مزار کے خدام و فقراء کے درمیان تخصیص کرنا ضروری نہیں ہوگا بلکہ جس خادم و فقیر کو بھی کھانا کھلا دے گا تو نذر پوری ہو جائے گی اور اگر یوں کہے کہ " اگر میری فلاں حاجت بر آئے گی تو میں فلاں بزرگ کے نام پر یا فلاں بزرگ کے واسطے اتنے روپے یا اتنا کھانا دوں گا ناجائز ہے ، اس طرح کی نذر نہ صرف یہ کہ باطل ولغو ہے ، بلکہ اس نذر کا روپیہ یا کھانا استعمال کرنا حرام بھی ہے اس مسئلہ کو بحر الرائق میں تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے ۔ " اور جہاں تک نذر کا سوال ہے تو جیسا کہ مشاہدہ ہے ، عام طور پر ( جاہل ) لوگ اس طرح نذر مانتے ہیں کہ اگر کسی شخص کا ( کوئی عزیز ) غائب ہو جاتا ہے ، یا بیمار ہو جاتا ہے اور یا اس کی ضروری مراد ہوتی ہے تو وہ کسی بزرگ کے مزار پر آتا ہے اور اس کا پردہ اپنے سر پر ڈال کر ( یا قبر کی ) چادر پکڑ کر یوں کہتا ہے کہ " اے میرے فلاں سردار ! اگر میرا وہ عزیز جو غائب ہو گیا ہے واپس ہو گیا ، یا اس کو مرض سے صحت یابی ہو گئی اور یا میری فلاں مراد پوری ہو گئی تو میں آپ کے مزار پر اس قدر سونا چڑھاؤں گا یا اس قدر چاندی چڑھاؤں گا ، یا اس قدر کھانا چڑھاؤں گا ، یا اس قدر پانی چڑھاؤں گا ، یا اس قدر شمع یا زیت ( یعنی تیل ( چڑھاؤں گا تو اس طرح نذر ماننا تمام علماء کے نزدیک باطل ہے اور اس کے باطل ہونے کے کئی سبب ہیں ، اول تو یہ مخلوق ( یعنی غیر اللہ ) کی نذر ہے اور غیر اللہ کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر ( دراصل عبادت ہے ) اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے ، دوم یہ کہ جس کے نام کی ( یعنی صاحب مزار ) کی نذر مانی گئی ہے وہ ایک بے جان ہے اور بے جان مالک نہیں ہوتا ۔ سوم یہ کہ اگر ( اسطرح نذر ماننے کے وقت ) یہ گمان کیا تھا کہ اللہ کے علاوہ یہ میت ( یعنی صاحب مزار ) بھی بندوں کے معاملات میں تصرف کرتا ہے تو ایسا اعتقاد کرنا کفر ہے ۔ لہٰذا اے اللہ ( اس بات کی ہدایت دے کہ ) اس طرح نذر ماننے کی بجائے یوں نذر مانی جائے کہ " اے خدا میں تیری نذر مانتا ہوں کہ اگر تو میرے بیمار کو شفاء بخشے گا ۔ یا میرے غائب عزیز کو واپس کرا دے گا ، یا میری مراد کو پوری کرے گا تو میں ( مثلاً) ان فقراء وخدام کو کھانا کھلاؤں گا ، جو بی بی نفیسہ کے دروازے ( یعنی مزار ) پر ہیں ، یا ان فقراء وخدام کو کھانا کھلاؤں گا جو حضرت امام شافعی یا حضرت امام ابواللیث کے دروازے ( یعنی مزار) پر ہیں یا میں ان کی مسجدوں کے لئے بوریے یا ان کی مسجدوں کی روشنی کے لئے تیل خریدوں گا ، یا میں ان لوگوں کو روپے دوں گا ، جو ان بزرگوں کی مسجدوں کے شعائر قائم رکھتے ہیں ( یعنی موذن اور ائمہ ( یا ان کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز کا ذکر کرے جس میں فقراء ومساکین کا نفع ہو ۔ لہٰذا اس طرح نذر ماننے میں نذر تو دراصل اللہ عزوجل کے لئے ہوگی اور بزرگ کا ذکر کرنا محض نذر کے مصرف کو بیان کرنے کے پیش نظر ہوگا اور وہ مصرف نذر کے وہ مستحقین ہیں جو ان بزرگ کی خانقاہ یا ان کی مسجد اور یا ان کی جامع مسجد میں رہتے ہیں پس اس طرح نذر ماننی درست ہے ، کیونکہ نذر کے مصرف فقراء ہی ہیں اور وہ مصرف یہاں پایا گیا ، نیز نذر کی ہوئی چیز کو مستطیع ( غیر محتاج ) پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ کسی شریف النسب پر خرچ کرنا جائز ہے کیونکہ جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو اس کے لئے نذر کی ہوئی چیز کا لینا درست نہیں ہے ، اور نہ کسی منصب والے پر خرچ کرنا جائز ہے اس کے منصب کی وجہ سے جب تک کہ وہ محتاج نہ ہو ، اور نہ کسی اہل علم پر خرچ کرنا جائز ہے ، اس کے علم کی وجہ سے جب تک کہ وہ مستحق نہ ہو ۔ اور شریعت میں نذر کی ہوئی چیز کا مستطیع لوگوں پر خرچ کر نے کا جواز ثابت نہیں ہے ، نیز اس بات پر علماء امت کا اجماع و اتفاق ہے کہ مخلوق کی نذر ماننا حرام ہے ، اور اگر کوئی شخص کسی مخلوق ( یعنی بزرگ ) کی نذر مانے تو وہ نذر صحیح نہیں ہوتی اور نہ اس نذر کو پورا کرنا اس پر واجب ہوتا ہے اور وہ نذر نہ صرف حرام بلکہ رشوت کے حکم میں ہے لہٰذا اس بزرگ کے خادم اور مجاور کے لئے اس نذر کا لینا اس کا کھانا اور اس میں کسی طرح کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ہاں اگر کوئی خادم یا مجاور محتاج ہو اور اپنے ان نادار بچوں کا کفیل ہو جو کمانے سے معذور ہوں اور وہ حالت اضطرار میں ہوں تو ان کو اس نذر کا مال ابتدائی صدقہ کے طور پر لینا جائز ہے لیکن اس صورت میں بھی اس مال کو اس وقت تک لینا مکروہ ہوگا جب کہ نذر کرنے والے کی نیت اس بزرگ کی نذر سے قطع نظر تقرب الی اللہ اور فقراء پر خرچ کرنے کی نہ ہو ! پس جب کہ تمہیں یہ تفصیل معلوم ہو گئی تو ( جان لو ) کہ اولیاء اللہ کے تقرب کی نیت سے جو روپے پیسے اور موم بتی وتیل وغیرہ ان کی قبروں پر چڑھایا جاتا ہے وہ تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر حرام ہے جب تک کہ نذر کرنے والا اس کو فقیروں پر خرچ کرنے کی نیت نہ کرے ۔ ( النہر الفائق)۔ اور الدر مختار میں بھی اسی طرح منقول ہے ۔ " حضرت مولانا محمد اسحاق کے مذکورہ منقولات کے علاوہ اس سلسلہ میں مولانا رشید الدین خان مرحوم نے ایک سوال کا جو جواب لکھا ہے ۔ وہ بھی اس قابل ہے کہ اس کو مع سوال کہ یہاں نقل کر دیا جائے ۔
-
عن ابن عمر رضي الله عنهما أكثر ما كان النبي صلى الله عليه و سلم يحلف : " لا ومقلب القلوب " . رواه البخاري-
سوال : جو کھانا بزرگوں کی نذر ونیاز کے طور پر مانا جاتا ہے اس کو کھانا اور اس طرح ( یعنی بزرگوں کی نذر ماننا اور ان کی نیاز کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح ؟ نیز بعض نذر بشرط حاجت براری مانی جاتی ہے اور بعض نذر بلاشرط مانی جاتی ہے ان دونوں میں کچھ فرق ہے یا نہیں ؟ جواب : شریعت میں نذر کا مفہوم ہے اپنے اوپر کسی غیر واجب کو واجب کر لینا ، چنانچہ جامع الرموز میں لکھا ہے کہ : (النذر ایجاب علی النفس ما لیس علیھا بالقبول ۔ ) " کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کو " نذر " کہتے ہیں جس پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں تھا ۔ " اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت کریمہ (او نذرتم من نذر) کی تفسیر کے تحت فرمایا ہے کہ : (النذر ما الزمہ الانسان علی نفسہ) ۔ " نذر وہ ہے جس کو انسان اپنے اوپر لازم کرے ۔ " " نذر " کی مختصر توضیح تو یہ ہے اور اس کی تفصیل فقہ اور اصول فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے ۔ " نیاز " فارسی کا لفظ ہے جس کے کتنے ہی معنی ہیں ان میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں " تحفہ درویشاں وکذافی البرہان القاطع ان دونوں لفظوں یعنی نذر ونیاز کے ان لغوی اور اصطلاحی معنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا شرعی حکم ماننا چاہئے کے نذر خدا کے علاوہ اور کسی کے لئے جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص غیر اللہ کی نذر مانے تو وہ صحیح نہیں ہوگی ، نیز ایسی نذر کی چیز کو لینا یا کھانا صحیح ومستند فقہی روایات کے بموجب قطعاً ناروا ہے یہ تو نذر کا حکم ہے اب رہا نیاز کا معاملہ تو جیسا کہ معلوم ہوا لفظ" نیاز کے معنی ہیں ، تحفہ درویشاں " اور وہ بر و صلہ ہے ( یعنی بخشش و ہدیہ ہے ) لہٰذا اگر کوئی شخص کسی زندہ بزرگ کی خدمت میں کوئی چیز بطریق نیاز یعنی عطاء و ھدیہ اور تحفہ کے طور پر پیش کرے تو وہ نیاز جائز ہے اور اس بزرگ کو وہ چیز کھانا یا استعمال کرنا جائز ہے ۔ اسی طرح اگر کسی مرحوم بزرگ کی نیاز یعنی فاتحہ وایصال ثواب کی جائے تو یہ نیاز بھی جائز ہے لیکن اس نیاز کی چیز کو کھانے کے سلسلے میں کچھ تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگر نیاز دینے والے نے وفات پائے ہوئے بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کو کھانا صرف فقراء کے لئے جائز ہے مستطیع لوگوں کے لئے جائز نہیں ہے ، اگر نیاز دینے والے نے مسلمانوں کے حق میں " اباحت ماکولی " کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس صورت میں اس چیز کو کھانا ہر بھوکے کے لئے جائز ہے خواہ وہ فقیر ہو یا مستطیع ہو ۔ حاصل یہ ہے کہ کسی بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے یا حاجت براری کی شرط کے ساتھ اس بزرگ کی جو نذر مانی جاتی ہے وہ منقولات بالا کی روشنی میں ناجائز ہے اور اس نذر کی چیز کو کھانا یا استعمال کرنا ناروا ہے ۔ ہاں جس نذر کا تعلق نہ تو بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے اور نہ وہ کسی حاجت براری کے ساتھ مشروط ہوتی ہے بلکہ پہلے وہ چیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے صدقہ کی جاتی ہے اور پھر اس بزرگ کو پہنچایا جاتا ہے تو اس چیز کو کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے تو جائز نہیں ہے بشرطیکہ نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو صدقہ ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو اور اگر نذر ماننے والے نے اس بزرگ کو اباحت ماکولی کا ثواب پہنچانے کی نیت کی ہو تو اس چیز کا کھانا اور استعمال کرنا مستطیع لوگوں کے لئے بھی جائز ہے اور فقراء کے لئے بھی جائز ہے ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسی طرح نیاز کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ بزرگوں کی نیاز اگر محض ایصال ثواب کے طور پر ہو تو جائز ہے اور ان کا تقرب یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کسی چیز کو ان کے نام پر اپنے اوپر واجب کرنا جائز نہیں ہے ۔ خواہ اس چیز کو اپنے اوپر واجب کرنا کسی حاجت براری کے ساتھ معلق ہو اور خواہ اسکے بغیر ہو ، کیونکہ یہ نذر ہے اور نذر خدا کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے ۔ لہٰذا واضح ہو کہ خواہ حاجت براری کے ساتھ معلق کر کے اور خواہ اس کے بغیر کسی چیز کو اپنے اوپر خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر واجب کرنا دونوں ہی صورتوں میں ناجائز ہے ۔ ہاں بزرگوں کی نیاز اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے کسی بزرگ کا تقرب یا حاجت براری کی نیت نہ ہو بلکہ اس کا مقصد محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور اس کا ثواب اس بزرگ کو پہنچانا ہو اور نیاز کی ہوئی چیز کو مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں کھانا اور استعمال کرنا جائز ہے ۔ دلیل الضالین میں لکھا ہے کہ " نذر " صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اور کسی کے لئے نہیں ہوتی ، لہٰذا اگر کسی شخص نے انبیاء میں سے کسی نبی یا اولیاء میں سے کسی ولی کی نذر مانی تو اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا یعنی اس نذر کو پورا کرنا اس شخص پر لازم نہیں ہوتا ، نیز اگر وہ شخص اس نذر کی چیز کو اپنی اسی نیت کے ساتھ کسی آدمی کو دے دے تو اس آدمی کو وہ چیز لینا جائز ہے اگر وہ کھانے کی کوئی چیز ہو تو اس کو کھانا حلال نہیں ہے اور اگر وہ چیز کوئی ذبح کیا ہوا جانور ہو تو وہ مردار کے حکم میں ہے بلکہ اگر لوگ اس کو بسم اللہ کر کے کھائیں تو سب کافر ہو جائیں گے ، ہاں اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانے اور پھر نذر کی ہوئی چیز کو لوگ کھائیں اور اس کا ثواب کسی میت کا بخشیں تو یہ جائز ہے ۔ اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس طرح قسم کھایا کرتے تھے " قسم ہے دلوں کو پھیرنے والے کی ۔ " ( بخاری ) تشریح : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی قسم کھانا جائز ہے ۔
-