قریش کو دعوت اسلام

وعن ابن عباس قال لما نزلت ( وأنذر عشيرتك الأقربين ) صعد النبي صلى الله عليه وسلم الصفا فجعل ينادي يا بني فهر يا بني عدي لبطون قريش حتى اجتمعوا فقال أرأيتكم لو أخبرتكم أن خيلا بالوادي تريد أن تغير عليكم أكنتم مصدقي ؟ قالوا نعم ما جربنا عليك إلا صدقا . قال فإني نذير لكم بين يدي عذاب شديد . فقال أبو لهب تبا لك سائر اليوم ألهذا جمعتنا ؟ فنزلت ( تبت يدا أبي لهب وتب ) متفق عليه . وفي رواية نادى يا بني عبد مناف إنما مثلي ومثلكم كمثل رجل رأى العدو فانطلق يربأ أهله فخشي أن يسبقوه فجعل يهتف يا صباحاه .-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ) 26۔ الشعراء : 214) (یعنی اپنے قریب کے کعبہ والوں کو ڈرائیے تو آپ کو صفا پر جو خانہ کعبہ کے قریب ہے تشریف لے گئے اور وہاں سے پکارنا شروع کیا۔ اے بنی عدی یعنی قریش کی تمام شاخوں کو نام بنام بلانا شروع کیا۔ چنانچہ جب قریش کی تمام شاخوں کے لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم لوگ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ جنگل میں ایک لشکر آ کر اترا ہے اور تمہیں تباہ وغارت کر دینا چاہتا ہے تو کیا تم مجھ کو سچا جانو گے ان سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ بیشک کیونکہ ہمارا ہمیشہ کا تجربہ یہ ہے کہ تم نے جب بھی کوئی بات کہی ہے سچ کہی ہے تمہاری زبان سے ہم نے کبھی سوائے سچ کے کوئی بات نہیں سنی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم مجھے سچا سمجھتے ہو تو سنو کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں اس کے سخت ترین عذاب کے اترنے سے پہلے ڈرانے والا مامور ہوا ہوں یعنی میں خدا کے رسول کی حیثیت سے تمہارے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں اس کو قبول کرو اگر تم اس دعوت کو قبول نہیں کرو گے اور مجھ پر ایمان نہیں لاؤ گے تو پھر میں تمہیں یہ خبر دیتا ہوں کہ تم پر خدا کا نہایت سخت عذاب نازل ہوگا۔ ابولہب جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چچا تھا اور جس کا نام عبدالعزی تھا یہ بات سن کر بولا۔ سارے دن تیری تباہی ہو، کیا اسی لئے تونے ہمیں اکٹھا کیا تھا کہ ہم تیری خراب باتیں سنیں ؟ اس پر سورت لہب نازل ہوئی جسکا ترجمہ یہ ہے یعنی ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو جائے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گستاخی کرنے کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو گیا۔ (بخاری ومسلم) اور ایک روایت میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آواز دیکر قریش کو جمع کیا اور فرمایا کہ اے عبد مناف کے بیٹو میری اور تمہاری حالت کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے دشمن کا لشکر اپنی قوم پر حملہ آور ہونے کے لئے آتے ہوئے دیکھا تو وہ اپنی قوم کو اس دشمن کے قتل وغارت گری سے بچانے کے لئے چلا تاکہ کسی پہاڑی پر چڑھ کر بلند آواز کے ذریعہ قوم کے لوگوں کو دشمن کے خطرہ سے آگاہ کر دے لیکن اس خوف سے کہ کہیں دشمن کا لشکر اس سے پہلے ہی اس کی قوم تک نہ پہنچ جائے اس نے وہیں سے چلا چلا کر یہ کہنا شروع کر دیا۔ تشریح " بطن" کے اصل معنی تو پیٹ کے ہیں لیکن یہ گروہ یا شاخ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جو قبیلہ سے نیچے کا درجہ ہے بطن سے نیچے کا جو درجہ ہوتا ہے اس کو فخذ کہتے ہیں گویا عرب میں نسب کے بالائی درجہ کو تو قبیلہ کہتے ہیں اس کے بعد کے درجہ کو بطن اور اس کے بعد کے درجہ کو فخذ کہا جاتا تھا چنانچہ قریش قبیلہ کا نام ہے جس کے مورث اعلیٰ کا نام نضر بن کنانہ تھا نضر بن کنانہ کے بعد جو شاخیں چلیں ان کو بطون سے تعبیر کیا جاتا ہے اور پھر بطون کے بعد کی شاخوں کو افخاذ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی الفاظ میں اس کا حاصل یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ قبیلہ بمنزلہ جنس ہے، بطن بمنزلہ نوع کے ہیں اور فخذ بمنزلہ فصل کے ہے۔ " وادی" (جنگل) سے مراد حجاز کا وہ خاص علاقہ ہے جو مکہ سے شمالی جانب تقریبا سولہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جس کو وادی فاطمہ کہا جاتا ہے یہ ایک نخلستانی علاقہ ہے اور یہاں کی زمین شاداب اور قابل کاشت ہے اس وادی کا ایک قدیم نام مر الظہران بھی ہے، مکہ اور مدینہ کے درمیان کا یہ پرانا راستہ اس طرف سے بھی گزرتا تھا۔ " ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں" میں ہاتھوں کے ٹوٹنے اور ہلاک ہونے سے مراد اس کی ذات کا ہلاک ہونا ہے، جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ ا یت (ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ) سے ثابت ہوتا ہے کہ عربی میں ذات کی ہلاکت کو ہاتھوں کی ہلاکت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کے دونوں ہاتھوں سے مراد اس کے دونون جہاں یعنی دنیا اور آخرت ہیں چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اس کے دونوں جہاں تباہ وبرباد ہو گئے، وہ نہ یہاں کا رہا نہ وہاں کا ۔ اور بعض حضرات نے یہ تحقیق بھی بیان کی ہے کہ خاص طور اس کے ہاتھوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضرین کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ہوئے عذاب خداوندی سے ڈرایا تو ابولہب نے اس وقت صرف مذکورہ بات کہنے ہی پر اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارنا بھی چاہا تھا۔ " عبد مناف" قریش کی ان دو شاخوں کے جد اعلیٰ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت سب سے مشہور اور مقتدر وغالب شاخیں تھیں۔ عبد مناف کے دو بیٹوں یعنی ہاشم اور عبد شمس سے جو شاخیں چلیں ان میں سے ایک یعنی ہاشم کی اولاد کو بنو ہاشم کہا جاتا ہے ، اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان ہے ، اس خاندان کے ممتاز افراد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جو سلسلہ نسب چلا وہ علوی اور عباسی کہلاتا ہے عبد مناف کے دوسرے بیٹے عبد شمس تھے، ان کی شاخ ان کے بیٹے امیہ سے چلی اور ان کا خاندان بنو امیہ کے اہم اشخاص میں حضرت ابوسفیان ، مروان اور سیدنا عثمان غنی ہیں۔ " صباحاہ" اصل میں ایک ایسا لفظ ہے جو اہل عرب میں کسی خطرناک اور دہشت آمیز چیز سے ڈرانے کے لئے بولا جاتا ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ لفظ صباح " صبح کے وقت) سے مشتق ہے اور عام طور پر دشمن چونکہ صبح کے وقت حملہ آور ہو کر غارت گری کرتا ہے اس لئے کسی حملہ کے خطرہ کے وقت چوکیدار اور محافظ لوگ اس لفظ کے ذریعہ چیختے چلاتے ہیں تاکہ لوگ حملہ کے خطرہ سے آگاہ ہو کر اپنی حفاظت ومقابلہ کے لئے تیار رہیں ۔ لہٰذا اس لفظ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ لوگو ہوشیار ہو جاؤ قبل اس کے کہ دشمن تمہیں تباہ وغارت کرنے کے لئے حملہ آور ہو اپنے بچاؤ کے لئے یہاں سے نکل جاؤ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل قریش کے سامنے مذکورہ مثال بیان کر کے گویا یہ فرمایا کہ میں بھی تمہیں ایک ایسے ہی عذاب کے خطرہ سے آگاہ کر رہا ہوں جو تمہیں تباہ وبرباد کر دے گا لہٰذا قبل اس کے کہ وہ عذاب تم پر نازل ہو تم ایمان قبول کر کے اس عذاب سے اپنے آپ کو بچاؤ۔
-
وعن أبي هريرة قال لما نزلت ( وأنذر عشيرتك الأقربين ) دعا النبي صلى الله عليه وسلم قريشا فاجتمعوا فعم وخص فقال يا بني كعب بن لؤي أنقذوا أنفسكم من النار يا بني مرة بن كعب أنقذوا أنفسكم من النار . يا بني عبد شمس أنقذوا أنفسكم من النار يا بني عبد مناف أنقذوا أنفسكم من النار . با بني هاشم أنقذوا أنفسكم من النار . يا بني عبد المطلب أنقذوا أنفسكم من النار . يا فاطمة أنقذي نفسك من النار فإني لا أملك لكم من الله شيئا غير أن لكم رحما سأبلها ببلالها . رواه مسلم . وفي المتفق عليه قال يا معشر قريش اشتروا أنفسكم لا أغني عنكم من الله شيئا ويا صفية عمة رسول الله لا أغني عنك من الله شيئا . ويا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا .-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ (وانذر عشیرتک الاقربین) (یعنی اپنے قریب کے کنبہ والوں کو ڈرائیے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو آواز دے کر بلایا جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے خطاب میں تعمیم بھی کی اور تخصیص بھی یعنی ان کو ان کے دور کے جد اعلیٰ کے ناموں کے ذریعہ بھی مخاطب کیا خاص خاص لوگوں سے مخصوص خطاب بھی ہو جائے چنانچہ آپ نے ان سب کو اس طرح خطاب فرمایا اے کعب بن لوی کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ (یعنی ایمان قبول کرو اور نیک عمل کرو تاکہ دوزخ کی آگ سے نجات پا سکو) اے مرہ بن کعب کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے عبد مناف کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ اور اے میری لخت جگر فاطمہ اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچا اس لئے کہ میں تمہارے حق میں خدا کی طرف از قسم عذاب کسی چیز کا مالک نہیں ہوں یعنی میں تم سے کسی کو بھی خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتا البتہ مجھ پا تمہاری قرابت کا حق ہے جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں یعنی میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت ہے اور اس کا جو حق مجھ پر ہے۔ وہ بس اتنا ہی کہ میں اس دنیا کے معاملات میں تمہاری دیکھ بھال رکھوں، تمہارے ساتھ اچھا سلوک کروں اور اگر تم احتیاج وضرورت کی تپش محسوس کرو تو میں صلہ رحمی اور حسن سلوک واحسان کے چھینٹوں سے اس تپش کو ختم کرنے کی کوشش کروں۔ اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے اور جس روایت کو بخاری ومسلم دونوں نے نقل کیا ہے ان میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے قریش کے گروہ اپنے آپ کو خرید لو یعنی مجھ پر ایمان لانے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ کفران نعمت ترک کر کے اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ میں تم سے خدا کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا ۔ اے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب میں آپ سے بھی خدا کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کر سکتا اور اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ میں آپ سے بھی خدا کے عذاب میں سے کچھ دور نہیں کر سکتا۔ اور اے جان پدر فاطمہ بنت محمد، میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے میں دوں گا لیکن خدا کے کسی عذاب سے میں تجھ کو بھی نہیں بچا سکتا ۔ تشریح " لوی" اصل میں تو لام کے پیش اور ہمزہ کے زیر کے ساتھ ہے لیکن کبھی ہمزہ واؤ سے بدل جاتا ہے اور آخر میں تشدید کے ساتھ یا آتی ہے اس طرح سے یہ نام لوی پڑھا جاتا ہے۔ لوی قریش کے ایک جد اعلیٰ کا نام ہے جو غالب بن فہر کے بیٹے تھے اور یہ وہی فہر ہیں جن کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قریش نضر بن کنانہ کے بجائے انہیں کا لقب تھا اور اس اعتبار سے قریش کے سلسلہ نسب کی ابتدا گویا فہر ہی کے نام سے ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ قریش اصل میں لفظ القرش سے نکلا ہے جس کے معنی تجارت کے ہیں لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ قریش اصل میں قرش سے نکلا ہے جس کے معنی ایک بڑی خطرناک مچھلی کے ہیں اور جس کو کلب البحر بھی کہتے ہیں مچھلی پانی کے اندر جانوروں کے اپنے دانت سے تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہے۔ مرۃ بن کعب بھی قریش کی ایک شاخ کے جد اعلیٰ کا نام ہے اپنی شاخ کے سلسلہ نسب میں عبد مناف کا نام عبد شمنس سے پہلے آتا ہے کیونکہ وہ عبد شمس کے باپ تھے لیکن یہاں روایت میں ان کا ذکر عبد شمس کے بعد کیا گیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ ہاشم کے باپ بھی عبد مناف ہی تھے۔ " اے ہاشم کے بیٹو!" ان الفاظ کے ذریعہ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچاؤں اور چچاؤں کے بیٹوں، ان سب کو مخاطب فرمایا حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی تمام شاخوں کو جمع فرما کر دعوت اسلام پیش کی اور ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا، اور یہ ڈرانا اس حد تک تھا کہ اپنی اولاد کو بھی اس میں شامل فرما لیا۔ چنانچہ جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جو تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان پر دوزخ کی آگ حرام ہے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا۔ " کسی چیز کا مالک نہیں ہوں" کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عذاب دینے کا ارادہ فرما لیا تو میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تم سے اس عذاب کا کوئی حصہ بھی دفع کر دوں، گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی بنا پر تھا کہ ا یت (قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا او اراد بکم نفعا) بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمایا ہے ا یت (قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الاماشاء اللہ۔ ) " جس کو میں اس کی تری کے ساتھ تر کرتا ہوں" میں " تری" سے مراد قرابت داری کے تعلق کو قائم رکھنا اور ان قرابت داروں کے ساتھ احسان وحسن سلوک کرنا ہے ۔ پس اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ میں اپنے قرابتداروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں، ان کے ساتھ امداد و تعاون کا معاملہ کرتا ہوں اور ان کو ظلم ونقصان سے بچاتا ہوں۔ نہایہ میں لکھا ہے کہ بلال اصل میں بل کی جمع ہے جس کے معنی تری کے ہیں اور اہل عرب اس قسم کے موقعوں پر تری کا اطلاق احسان اور حسن سلوک کرنے پر کرتے ہیں جیسا کہ " یبس" یعنی خشکی کا اطلاق قطع تعلق اور بدسلوکی کرنے پر کرتے ہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے اجزاء تری کے ذریعہ ایک دوسرے سے منسلک اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں جب کہ خشکی کا پیدا ہو جانا ان اجزاء کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کر دیتا ہے تو انہوں نے بطور استعارہ تری کو وصل یعنی جوڑنے اور ملانے کے معنی میں اور خشکی کو منقطع کرنے اور توڑنے کے معنی میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورے قریش کو اور ان کے ساتھ اپنے خاندان والوں اور قریبی متعلقین کو جس انداز میں خدا کے عذاب سے ڈرایا وہ خدا کے حکم کی تعمیل میں اور مقصد کی عظمت کے لحاظ سے نہایت ہی سخت اور بہت ہی پر زور تھا اور اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے پیش نظر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ڈرانے کا حکم دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو جمع فرما کر ڈرا دیا ورنہ ان مخاطبین میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جن کی فضیلت اور جن کا جنت میں داخل ہونا بہت سی روایات سے ثابت ہے علاوہ ازیں جب اپنی امت کے دوسرے لوگوں کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شفاعت کرنا اور اس شفاعت کا قبول ہونا ایک یقینی امر ہے تو پھر خاص اقربا جیسے حضرت عباس، حضرت صفیہ ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا معاملہ کہیں زیادہ خصوصی رحمت وشفاعت کا مستحق ہے لیکن جیسا کہ بتایا گیا ہے ، یہ موقوع بہرحال اس بات کا متقاضی تھا کہ ڈرانے کے فریضۃ کو زیادہ اہم انداز میں ادا کیا جائے اور چونکہ خدا کی بے نیازی کا خوف ہر صورت میں باقی رہتا ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے مخاطبین کے ساتھ ان اقرباء خاص سے بھی یہ فرمایا کہ تم لوگوں کو بھی خدا کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہوں اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ڈرانے کا یہ واقعہ پہلے کا ہے جب کہ ان خاص اقرباء کی فضیلت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کی بشارت بعد میں وارد ہوئی ہے۔ " میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے" اس جملہ کے بارے میں بعض حضرات کو سخت اشکال واقع ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتصادی زندگی جس تنگی وسختی اور فقر و افلاس سے بھری ہوئی اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کے پاس مال کہاں تھا خصوصا مکہ کے قیام کے دوران تو آپ بہت سخت مصائب وآلام میں تھے ایسی صورت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ کے اس فرمانے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ از قسم مال جو بھی چیز تم چاہو مجھ سے مانگ سکتی ہو اور میں تمہیں وہ چیز دوں گا۔ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس اشکال کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی، ول تو اس وجہ سے کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ا یت (ووجدک عائلا فاغنی) یعنی اور ہم نے آپ کو محتاج ومفلس پایا تو غنی ومالدار کر دیا۔ چنانچہ مفسرین کہتے ہیں کہ غنی کر دیا سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال ودولت کی طرف اشارہ ہے جو ان کے ساتھ نکاح کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبضہ تصرف میں آیا اور آپ جس طرح چاہتے تھے اس مال ودولت کو خرچ کرتے تھے لہٰذا معلوم ہوا کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالکل تہی دست نہیں تھے۔ دوسرے یہ کہ مال کا اطلاق تھوڑے مال اور زیادہ مال دونوں پر ہوتا ہے پس یہ بات کہ اسے معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس از قسم مال ، مطلق کچھ بھی نہیں تھا اور تیسرے یہ کہ مذکورہ جملہ کا ہونا اسی صورت میں کب ضروری ہے جب کہ آپ کے پاس اس وقت مال موجود رہا ہو، اس جملہ کے ذریعہ آپ کی مراد یہ بھی تو ہو سکتی تھی کہ جب بھی میرے پاس کچھ مال واسباب آیا اور خدا نے مجھے کچھ دیا تو تم اس میں سے جو چاہو مانگ لینا وہ میں تمہیں دے دوں گا لیکن جہاں تک آخرت کی نجات کا تعلق ہے اس کا میری ملکیت وقدرت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں یہ چیز تمہیں دینے پر قادر نہیں ہوں۔
-