TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
افعال حج کا بیان
قرن المنازل
--
قرن المنازل یہ ایک پہاری ہے جو مکہ سے تقریباً تیس میل (٤٨ کلو میٹر) جنوب میں تہامہ کی ایک پہاڑی ہے یہ پہاری یمن سے مکہ آنے والے راستے پر واقع ہے اس پہاڑی سے متصل سعدیہ نامی ایک بستی ہے یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کی میقات ہے۔ ہندوستان سے جانے والے اس پہاڑی کے سامنے سے گزرتے ہیں اس لئے ہندوستان والوں کے لئے بھی یہی میقات ہے۔ امن مواقیت کے علاوہ ایک میقات " ذات عرق)) یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ساٹھ میل (٩٧ کلو میٹر) کے فاصلے پر شمال مشرقی جانب عراق جانے والے راستے پر واقع ہے ۔ اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے واسطے میقات ہے۔ حدیث کے الفاظ لمن کان یرید الحج والعمرۃ (اور یہ احرام کی جگہیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو حج وعمرہ کا ارادہ کریں) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص (یعنی غیر مکی) حج و عمرہ کے ارادے کے بغیر میقات سے گزرے تو اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے احرام باندھے۔ جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ خواہ حج و عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی غیر مکی شخص مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج کے لئے جاتا ہو یا کسی اور غرض سے تو اس پر واجب ہے کہ وہ میقات سے احرام باندھ کر جائے احرام کے بغیر وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ حنفی مسلک کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ۔ لا یجاوز حد المیقات الا محرما۔ کوئی شخص (مکہ میں داخل ہونے کے لئے) میقات کے آگے بغیر احرام کے نہ بڑھے۔ یہ حدیث اس بارے میں مطلق ہے کہ اس میں حج و عمرہ کے ارادے کی قید نہیں ہے، پھر یہ کہ احرام اس مقدس و محترم مکان یعنی کعبہ مکرمہ کی تعظیم و احترام کی غرض سے باندھا جاتا ہے۔ حج و عمرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے لہٰذا اس حکم کا تعلق جس طرح حج و عمرہ کرنے والے سے ہے اسی طرح یہ حکم تاجر و سیاح و غیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہاں جو لوگ میقات کے اندر ہیں ان کو اپنی حاجت کے لئے بغیر احرام مکہ میں داخل ہونا جائز ہے کیونکہ ان کو بارہا مکہ مکرمہ میں آنا جانا پڑتا ہے۔ اس واسطے ان کے لئے ہر بار احرام کا واجب ہونا دقت و تکلیف سے خالی نہیں ہو گا، لہٰذا اس معاملے میں وہ اہل مکہ کے حکم میں داخل ہیں کہ جس طرح ان کے لئے جائز ہے کہ اگر وہ کسی کام سے مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں اور پھر مکہ میں داخل ہوں تو بغیر احرام چلے آئیں اسی طرح میقات کے اندر والوں کو بھی احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔ فمن کان دونہن (اور جو شخص ان مقامات کے اندر رہتا ہے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ لوگ میقات کے اندر مگر حدود حرم سے باہر رہتے ہوں تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ان کے گھر سے تاحد حرم ہے ان کو احرام باندھنے کے لئے میقات پر جانا ضروری نہیں ہے اگرچہ وہ میقات کے قریب ہی کیوں نہ ہوں۔ جو لوگ خاص میقات میں ہی رہتے ہوں ان کے بارے میں اس حدیث میں کوئی حکم نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ ان کا حکم بھی وہی ہے جو میقات کے اندر رہنے والوں کا ہے۔ وکذاک وکذاک (اور اسی طرح اور اسی طرح) اس کا تعلق پہلے ہی جملے سے ہے کہ حل (حدود حرم سے باہر سے موقیت تک جو زمین ہے) اس میں جو جہاں رہتا ہے وہیں سے احرام باندھے یعنی میقات اور حد حرم کے درمیان جو لوگ رہنے والے ہیں وہ اپنے اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے چاہے وہ میقات کے بالکل قریب ہوں اور چاہے میقات سے کتنے ہی دور اور حد حرم کے کتنے ہی قریب ہوں۔ حتی اہل مکۃ یہلون منہا کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ یعنی اہل حرم مکہ سے احرام باندھیں جو لوگ خاص مکہ شہر میں رہتے ہیں وہ تو خاص مکہ ہی سے احرام باندھیں گے اور جو لوگ خاص مکہ شہر میں نہیں بلکہ شہر سے باہر مگر حدود حرم میں رہتے ہیں وہ حرم مکہ سے احرام باندھیں گے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ کے لئے احرام باندھنے کی جگہ مکہ ہے خواہ احرام حج کے لئے خواہ عمرہ کے لئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمرہ کرنے والا حل کی طرف جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر پھر حرم میں داخل ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم جائیں جو حل میں ہے لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ اس حدیث کا تعلق صرف حج کے ساتھ ہے یعنی یہ حکم اہل مکہ کے لئے ہے کہ وہ جب حج کرنے کا ارادہ کریں تو احرام مکہ ہی سے باندھیں اور اگر عمرہ کرنے کا ارادہ ہو تو پھر حل میں آ کر احرام باندھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
-
وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " مهل أهل المدينة من ذي الحليفة والطريق الآخر الجحفة ومهل أهل العراق من ذات عرق ومهل أهل نجد قرن ومهل أهل اليمن يلملم " . رواه مسلم-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ مدینہ والوں کے احرام کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے ، عراق والوں کے لئے احرام کی جگہ ذات عرق ہے، نجد والوں کے لئے احرام کی جگہ قرن ہے اور یمن والوں کے لئے احرام کی جگہ یلملم ہے ۔ (مسلم) تشریح " اور دوسرا راستہ جحفہ ہے " کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی دوسری جگہ جحفہ ہے اگر وہ مکہ کے لئے مدینہ سے وہ راہ اختیار کریں جس میں جحفہ ملتا ہے تو وہ پھر جحفہ ہی سے احرام باندھیں، ذوالحلیفہ جانے کی ضرورت نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ پہلے مدینہ سے مکہ آنے کے لئے دو راستے تھے ایک راستے میں تو ذوالحلیفہ ملتا تھا اور دوسرے راستے میں جحفہ ۔ اسی لئے یہ حکم دیا گیا کہ اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں ذوالحلیفہ ملتا ہے تو احرام ذوالحلیفہ سے باندھا جائے اور اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں جحفہ ملتا ہے تو پھر جحفہ سے احرام باندھا جائے، لیکن اب ایک ہی راستہ ہو گیا ہے جس میں پہلے تو ذوالحلیفہ آتا ہے اور پھر جحفہ، اسی طرح اہل مدینہ کے لئے دو میقات ہو گئی ہیں۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اب اہل مدینہ احرام کہاں سے باندھیں؟ تو علماء لکھتے ہیں کہ اس جگہ سے باندھنا اولیٰ ہے جو مکہ سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے یعنی ذوالحلیفہ اور اگر کوئی شخص جحفہ سے احرام باندھے تو یہ بھی جائز ہے۔
-