قابل رشک زندگی

وعن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال أغبط أوليائي عندي لمؤمن خفيف الحاذ ذو حظ من الصلاة أحسن عبادة ربه وأطاعه في السر وكان غامضا في الناس لا يشار إليه بالأصابع وكان رزقه كفافا فصبر على ذلك ثم نقد بيده فقال عجلت منيته قلت بواكيه قل تراثه . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ " میرے نزدیک(یعنی میرے دین ومذہب کے اعتبار سے) میرے دوستوں (تمام مومنین) میں نہایت قابل رشک (یعنی اموال کے اعتبار سے سب سے اچھا اور مال و دولت کے اعتبار سے سب سے افضل) وہ مومن جو سبکسار ہے، نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اپنے رب کی سب ہی عبادتیں خوبی کے ساتھ کرتا ہے (اور جس طرح ظاہر میں عبادت کرتا ہے اسی طرح) مخفی طور پر (خلوت میں بھی) طاعت الٰہی میں مشغول رہتا ہے، لوگوں میں گمنام ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا (یعنی اپنے علم وعمل کے سبب لوگوں میں مشہور ومعروف نہیں ہے بلکہ نہایت بے نفسی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں رہ کر علم وعمل کے ذریعہ دین وملت کی خدمت کرتا ہے) نیز اس کی روزی (یعنی ضروریات زندگی کا خرچ) بقدر کفایت ہے اور اسی پر صابر وقانع ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعہ چٹکی بجائی اور فرمایا، اس کی موت بس یوں (چٹکی بجاتے) اپنا کام جلد پورا کر لیتی ہے اور اس کی موت پر رونے والی عورتیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا ترکہ بھی بہت مختصر (یعنی نہ ہونے کے برابر) ہوتا ہے" ۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ) تشریح : " حاذ" کے معنی سواری کی پشت کے ہیں اور قاموس کے مطابق خفیف الحاذ کا مطلب قلیل المال والعیال خفیف الحاذ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو زیادہ اہل وعیال کو بوجھ اور مال ودولت کی گرانباری نہ رکھتا ہو۔ صراح میں یہ لکھا ہے کہ " خفیف الحاذ" کے معنی ہلکی پیٹھ کے ہیں یعنی وہ شخص جو زیادہ اہل وعیال اور مال ودولت کے جھمیلوں سے فارغ ہو بہرحال دونوں ہی صورتوں میں ایسا شخص چونکہ دنیاوی تفکرات مشغولیات سے عاری ہوتا ہے اور فراغ قلب ووقت رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وطاعت اور دین وملت کی خدمت میں اچھی طرح مشغول رہتا ہے اور از قسم علائق کوئی چیز اس کی راہ عبادت وخدمت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ " نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے" کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضور قلب اور مناجات مع اللہ کے ساتھ نماز بہت زیادہ پڑھتا ہے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت خداوندی میں صرف کرتا ہے کیونکہ اہل وعیال اور دنیاوی جھمیلوں سے بہت کم تعلق رکھنے اور قلت مشغولیت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز وعبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ نماز وعبادت میں اس کو حضور قلب بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے چنانچہ حقیقی درویش اور خدا رسیدہ لوگ دنیاوی علائق وتعلقات سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ نماز وعبادت خداوندی میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل کرسکیں۔ " لوگوں میں گمنام ہے" میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ عبادت وریاضت کے لئے لوگوں کے درمیان بودوباش ترک نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان رہ کر ہی عبادت وریاضت اور دین وعلم کی خدمت میں خاموشی کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو عام شہرت سے بچائے رکھتا ہے گویا اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے کو عام شہرت سے بچانے کے لئے لوگوں کے درمیان سے چلاجاتا ہے اور سب سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے کیونکہ عام لوگوں کے درمیان بودوباش ترک کردینا اور کنارہ کشی اختیار کر لینا بجائے خود موجب شہرت ہے، نیز اس جملہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ " لوگوں" سے مراد عوام الناس ہیں، چنانچہ خواص یعنی اولیاء وصلحاء کے درمیان اس کا متعارف ہونا کہ جن کا وہ ہمنشین رہتا ہے، اس کے مذکورہ مرتبہ کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات بعد کے جملہ ولا یشاء الیہ الخ سے بھی مفہوم ہوتی ہے۔ لقد بیہ ، کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کے پورے کو اپنی بیچ کی انگلی کے پورے پر مارہ جس سے نکلی ہوئی آواز کو سنا گیا ۔ اور حاصل یہ کہ جس طرح عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی بات پر اظہار حیرت وتعجب کے لئے یا کسی کام کی مدت کو کم سے کم بیان کرنے کے لئے چٹکی بجا کر کہتے ہیں کہ فلاں کا بس یوں چٹکی بجاتے ہو گیا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مذکورہ مومن کا حال بیان فرمایا کہ وہ دنیا میں اپنی مذکورہ حالت وکیفیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے کہ موت اس کے تشتہ جسم وجان کو چند دن کے بعد ختم کردیتی ہے اور وہ فتنہ وآشوب سے بھرے ہوئے اس عالم سے بہت جلد انتقال کر جاتا ہے اور یہاں کی آفات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ ایسا مومن چونکہ اس دنیا سے بہت کم تعلق رکھتا ہے اور شوق آخرت اس پر غالب ہوتا ہے اس لئے وقت موعود آنے پر وہ نہایت آسانی اور سکون کے ساتھ بہت جلد اپنی جان، آفرین کے سپرد کردیتا ہے۔
-