فرض کے بعد سنتیں پڑھنے کے لیے جگہ بدل لینی چاہئے

عَنْ عَطَاءِ الْخُرَسَانِیِّ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یُصَلِّی الْاِمَامُ فِی الْمَوضِعِ الَّذِیْ صَلٰی فِیْہِ حَتّٰی یَتَحَوَّلَ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَقَالَ عَطَاءُ الْخُرَسَانِیُّ لَمْ یُدْرِکِ الْمُیِغْرَۃَ۔-
" حضرت عطاء خراسانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام اس جگہ نماز نہ پڑھے جہاں نماز پڑھ چکا ہے بلکہ وہاں سے سرک جائے اس روایت کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ عطاء خراسانی کی ملاقات حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ حدیث منقطع ہے۔" تشریح یہاں یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ سنتیں نہ پرھی جائیں بلکہ اس جگہ سے ذرا ہٹ کر اور جگہ بدل کر دوسری جگہ سنتیں پڑھی جائیں اس سلسلہ میں یہ بات جان لیجئے کہ اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم خاص طور پر امام ہی کے لیے ہے مقتدی اس میں شامل نہیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ حکم مجموعی طور پر امام اور مقتدی سب کے لیے ہے۔ فرض اور سنتیں دونوں ایک ہی جگہ پڑھنے سے منع یا تو اس لیے کیا گیا ہے کہ کوئی آنے والا یہ گمان نہ کرے کہ نمازی ابھی فرض نماز ہی پڑھ رہا ہے یا اس لیے کہ دونوں جگہیں قیامت کے روز پروردگار کے سامنے نمازی کی اطاعت گزاری کی گواہی دیں جس سے اس کے مرتبے میں اضافہ ہو۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم ان فرض نمازوں کے بارے میں ہے جن کے بعد سنت موکدہ ہیں اور جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں نہیں پڑھی جاتیں جیسے فجر و عصر تو ان کے بارے میں یہ حکم نہیں ہے مگر بعض علماء کی یہی رائے ہے کہ حکم تمام نمازوں کے بارے میں یکساں طور پر ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم حَضَّھُمْ عَلٰی الصَّلَاۃِ وَنَھَا ھُمْ اَنْ یَنْصَرِفُوْا قَبْلَ انْصَرِافِہٖ مِنَ الصَّلَاۃِ۔(رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو نماز پڑھنے کی رغبت دلاتے تھے اور ان کو اس بات سے منع فرماتے تھے کہ وہ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھنے سے پہلے اٹھیں۔" (ابوداؤد) تشریح حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو مطلقاً نماز پڑھنے کی تاکید فرماتے تھے یا انہیں اس بات کی رغبت دلاتے تھے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز ختم ہو جائے اور دعاء وغیرہ سے فارغ ہو جائے تو جب تک میں نہ اٹھ جاؤں مقتدی نہ اٹھیں تاکہ راستے میں مرد عورتوں سے مل نہ جائیں جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا ہے کہ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے لوگ بیٹھے رہتے تھے یہاں تک کہ جب عورتیں اٹھ کر چلی جاتی تھیں تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تھے اس کے بعد دوسرے لوگ اٹھ کر اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔ اس صورت میں یہ نہی تنزیہی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں " پہلے اٹھنے" سے مراد مسبوق کا اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ اس صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ جب تک امام سلام نہ پھیرے اس وقت تک مسبوق اپنی بقیہ رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑا نہ ہو بلکہ جب امام سلام پھیرے تب مسبوق( مسبوق اس آدمی کو کہتے ہیں جو جماعت میں ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہو جانے کے بعد آکر شریک ہوا ہو۔ ) کھڑا ہو۔ اس سلسلے میں اتنی بات جان لیجئے کہ یہ شکل یعنی مسبوق کا امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ کھڑا ہونا حنفیہ کے نزدیک حرام ہے۔
-