فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے

وَعَنْ حُذَیْفَۃَ نَحْوَہُ وَزَادَ فَکَانَ یَقُوْلُ عَجِّلُو الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فَاِنَّھُمَا تُرْفَعَانِ مَعَ الْمَکْتُوْبَۃِ رَوَاھُمَا رَزِیْنُ وَرَوَی البَیْھِقِیُّ الزِّیَادَۃَ عَنْہ، نَحْوَھَا فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔-
" اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (بھی) اسی طرح (یعنی اوپر والی حدیث) مروی ہے لیکن ان کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم لوگ مغرب کے بعد دو رکعت (سنتیں جلدی پڑھ لیا کرو کیونکہ وہ (دونوں رکعتیں) فرضوں کے ساتھ اوپر (علیین میں) پہنچائی جاتی ہیں ، یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں اور بیہقی نے حذیفہ کے زائد الفاظ کو اسی طرح شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔" تشریح مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں چونکہ فرض نماز کے ساتھ مقام علیین میں پہچائی جاتی ہیں اس لیے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ ان اوارد واذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہو چکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد وذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد و ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پیچھے باب الذکر بعد الصلوۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں۔ تو اب اگر ان اور اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیش نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو اس احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فورا بعد پڑھنے کا حکم ) کے خلاف نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کے علاوہ یہاں ایک اور اشکال وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھنے کی فضیلت بھی احادیث ہی سے ثابت ہے لہٰذا اگر کوئی آدمی ان دونوں رکعتوں کو گھر میں پڑھے اور اس کا گھر بھی مسجد سے دور ہو تو ظاہر ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی نہیں ہو سکتی۔ تو اس صورت میں کیا جائے۔ آیا ان احادیث کے پیش نظر ان دونوں رکعتوں کو گھر ہی میں جا کر پڑھا جائے تاکہ گھر میں پڑھنے کی فضیلت حاصل ہو یا اس حدیث کے پیش نظر مسجد ہی میں پڑھا جائے تاکہ ان کو جلدی پڑھ لینے کی فضیلت حاصل ہو جائے ؟۔ اس سلسلہ میں علماء لکھتے ہیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت چونکہ بہت زیادہ ہے اور پھر یہ کہ اس کی تاکید بھی بہت زیادہ کی گئی ہے اس لیے مناسب یہی ہے کہ سنتوں کو گھر ہی میں پڑھا جائے۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ عَطَآءٍ رحمۃ اللّٰہ علیہ قَالَ اِنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَےْرٍ اَرْسَلَہُ اِلَی السَّآئِبِ ےَسْئَلُہُ عَنْ شَیءٍ رَاٰہُ مِنْہُ مُعَاوِےَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ فَقَالَ نَعَمْ صَلَّےْتُ مَعَہُ الْجُمُعَۃَ فِیْ الْمَقْصُوْرَۃِ فَلَمَّا سَلَّمَ الْاِمَامُ قُمْتُ فِیْ مَقَامِیْ فَصَلَّّےْتُ فَلَمَّا دَخَلَ اَرْسَلَ اِلَیَّ فَقَالَ لَا تَعُدْ لِمَا فَعَلْتَ اِذَا صَلَّےْتَ الْجُمُعَۃَ فَلَا تَصِلْھَا بِصَلٰوۃٍ حَتّٰی تَکَلِّمَ اَوْ تَخْرُجَ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَنَا بِذَالِکَ اَنَّ لَّا نُوْصِلَ بِصَلٰوۃٍ حَتّٰی نَتَکَلَّمَ اَوْ نَخْرُجَ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عمرو ابن عطا رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں (یعنی عمرو کو) حضرت نافع ابن جبیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) نے حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے وہ چیزیں پوچھیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں نماز میں کرتے ہوئے دیکھا تھا ( اور اس سے انہیں منع کیا تھا چنانچہ حضرت عمرو حضرت سائب کے پاس گئے اور ان سے اس چیز کی تفصیل معلوم کی تو ) انہوں نے فرمایا کہ ہاں (ایک مرتبہ) میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ مقصودہ میں جمعہ کی نماز پڑھی جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ (جہاں جمعہ کی نماز پڑھی تھی) کھڑا ہو گیا اور فرض و سنت میں کوئی امتیاز کئے بغیر جمعہ کی سنتیں پڑھنے لگا ، جب حضرت امیر معاویہ (نماز سے فراغت کے بعد) اپنے مکان پر چلے گئے تو میرے پاس ایک آدمی کو یہ کہلا بھیجا کہ اس وقت تم نے جو کچھ کیا ہے آئندہ ایسا نہ کرنا ، (یعنی جس جگہ نماز پڑھو اسی جگہ امتیاز پیدا کئے بغیر نفل نماز نہ پڑھنا چنانچہ) جب تم جمعہ کی نماز پڑھو تو اس (جمعہ کی فرض نماز ) کو کسی ( دوسری یعنی نفل یا قضا ) نماز سے نہ ملاؤ تاوقتیکہ تم کوئی گفتگو نہ کر لو یا (مسجد سے ) باہر نہ نکل جاؤ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملائیں تاوقتکیہ (درمیان میں) بات چیت نہ کر لیں یا (مسجد سے) باہر نہ چلے جائیں۔" (صحیح مسلم) تشریح پچھلے زمانے میں جب کہ سلاطین و امراء نمازیں پڑھنے کے لیے مسجد میں آتے تھے تو ان کی امتیازی حیثیت وشان کی پیش نظر ان کے لیے مسجد کے اندر ایک مخصوص جگہ بنادی جاتی تھی جسے مقصورہ کہا جاتا تھا ، بادشاہ یا خلیفہ مسجد میں آکر اسی جگہ نماز پڑھتا تھا۔ حدیث کے الفاظ اذاصلیت الجمعۃ میں جمعہ کی قید اتفاقی اور مثال کے طور پر ہے کیونکہ جمعہ کے علاوہ بھی تمام نمازوں کا یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نماز ملا کر نہ پڑھی جائے چنانچہ اس کی تائید حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث کر رہی ہے جس میں کسی خاص نماز کے بارے میں نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر نماز کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو نوافل پڑھنے کے لیے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے فرض اور نوافل میں فرق و امتیاز پیدا ہو جائے مثلاً جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ کوئی اور نماز(خواہ سنت مؤ کدہ ہو یا غیر مؤ کدہ ) نہ پڑھی جائے بلکہ اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ کھڑے ہو کر پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان امتیاز پیدا ہو سکے اور اس فرض و نفل کے درمیان التباس پیدا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ او نخرج سے اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اب اونخرج سے مسجد سے حقیقۃً نکلنا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی فرض پڑھ کر مسجد سے نکل کر گھر وغیرہ آجائے اور وہاں نوافل پڑھے جائیں اور حکماً نکلنا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی جس جگہ فرض نماز پڑھی ہے اس جگہ سے ہٹ کر نوافل دوسری جگہ پڑھے جائیں۔ فرض و نوافل کے درمیان نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کی ایک اور صورت ہے اور وہ یہ کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو اس کے بعد کسی دوسرے آدمی سے کوئی گفتگو کرلی جائے تاکہ اس سے ان دونوں نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا ہو جائے چنانچہ حتی نتکلم سے یہی بتایا جا رہا ہے۔ اتنی بات ملحوظ رہے کہ فرض و نوافل کے درمیان جس فرق و امتیاز کے لیے کہا جا رہا ہے وہ دنیاوی بات چیت اور گفتگو ہی سے حاصل ہوتا ہے ذکر اللہ وغیرہ سے وہ فرق حاصل نہیں ہوتا۔
-
وَعَنْ عَطَاءٍ قَالَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ اِذَا صَلَّی الجُمْعَۃَ بِمَکَّۃَ تَقَدَّمَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ یَتَقَدَّمُ فَیُصَلِّی اَرْبَعًا وَاِذْا کَانَ بِالمَدِیْنَۃِ صَلَّی الجُمْعَۃَ ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی بَیْتِہٖ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ وَلَمْ یُصَلِّ فِی الْمَسْجِدِ فَقِیْلَ لَہ، فَقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَفْعَلُہ، رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ فِی رِوَایَۃِ التِّرْمِذِیِّ قَالَ رَأَیْتُ ابْنُ عُمَرَ صَلَّی بَعْدَ الْجُمْعَۃَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ صَلَّی بَعْدَ ذٰلِکَ اَرْبَعًا۔-
" اور حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مکہ میں جمعہ کی نماز پڑھ چکتے تو (جس جگہ فرض نماز پڑھتے اس سے) آگے بڑھ جاتے اور دو رکعت پڑھتے اس کے بعد پھر آگے بڑھتے اور جب آپ مدینہ میں ہوا کرتے تو (یہ معمول تھا کہ ) جمعہ کی (فرض) نماز پڑھ کر اپنے مکان میں تشریف لاتے اور گھر میں دو رکعت نماز پڑھتے مسجد میں (فرض کے علاوہ کوئی نماز) نہیں پڑھتے تھے، جب ان سے اس (گھر میں پڑھنے اور مسجد میں نہ پڑھنے) کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ (اس لیے کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔" (ابوداؤد) اور جامع ترمذی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت عطاء نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھ کر پھر چار رکعت پڑھتے تھے۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرض پڑھ کر سنت پڑھنے کے لیے آگے بڑھ جانا بمنزلہ مسجد سے نکلنے کے تھا جیسا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد میں مذکور ہوا۔ علماء نے لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان فرق غالباً اس لیے تھا کہ مدینہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد کے قریب تھا اور مکہ میں چونکہ مسافر ہوتے تھے اور قیام گاہ حرم سے فاصلے پر ہوتی تھی اس لیے مدینہ میں تو آپ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ فرض پڑھ کر اپنے مکان پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سنتیں پڑھتے تھے مگر مکہ میں مکان کے دور ہونے کی وجہ سے سنتیں بھی مسجد ہی میں پڑھ لیتے تھے مگر جگہ بدل کر دونوں نمازوں کے درمیان فرق کرتے رہتے تھے۔ اور اس طرح آگے بڑھنے کو گھر کے قائم مقام کر لیتے تھے۔ مکہ اور مدینہ کے معمول کے درمیان دوسرا فرق یہ تھا کہ مکہ میں تو آپ جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھا کرتے تھے اور مدینہ میں دوہی رکعت پڑھتے تھے چنانچہ مکہ میں اس زیادتی کی وجہ یہ تھی کہ حرم میں چونکہ نماز پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہاں زیادہ نماز پڑھتے تھے۔ چونکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چار رکعت ہیں اس لیے ملا علی قاری نے حدیث کے الفاظ کہ حضرت عبداللہ ابن عمر جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے پھر اس کے بعد (آگے بڑھ کر) چار رکعت پڑھتے تھے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے چار رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں یعنی ان دو رکعتوں میں جو ان کے نزدیک احادیث سے ثابت تھیں اور جنہیں آپ پہلے پڑھا کرتے تھے دو رکعتوں کا اور اضافہ کر دیا اس طرح بعد میں چار رکعت پڑھنے لگے۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتیں چھ رکعتیں ہی ہیں یعنی وہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کی فرض نماز پڑھ کر پہلے چار رکعت سنت پڑھی جائیں پھر اس کے بعد دو رکعت سنت اور پڑھی جائیں۔ فقہ حنفیہ میں سنتوں کی تفصیلی تعداد چونکہ یہ بات ختم ہو رہی ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس موقع پر تمام نمازوں کی سنتوں کی تفصیلی تعداد ذکر کر دی جائے تاکہ وہ ذہن میں محفوظ رہیں۔ فجر کے وقت فرض سے دو رکعت سنت موکدہ ہیں ان کی تاکید تمام مؤ کدہ سنتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ بعض روایات میں امام ابوحنیفہ سے ان کا وجوب منقول ہے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان کے انکار سے کفر کا خوف رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ فجر کی سنتیں نہ چھوڑو چاہے تمہیں گھر کچل ڈالیں یعنی جان جانے کا خوف ہو تب بھی نہ چھوڑو، اس سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے ورنہ جان کے خوف سے تو فرائض کو چھوڑنا بھی جائز ہے۔ ظہر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام سے اور فرض کے بعد دو رکعت سنت موکدہ ہیں۔ جمعہ کے وقت فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض کے بعد بھی ایک ہی سلام سے چار رکعتیں سنت ہیں۔ عصر کے وقت کوئی سنت موکدہ نہیں، ہاں فرض سے پہلے چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ مغرب کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں۔ عشاء کے وقت فرض کے بعد دو رکعت سنت مؤ کدہ ہیں اور فرض سے پہلے کی چار رکعتیں ایک سلام سے مستحب ہیں۔ وتر کے بعد بھی دو رکعتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں لہٰذا وتر کے بعد کی دو رکعت مستحب ہیں۔
-