TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان بات چیت کرنا
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ فَاِنْ کُنْتُ مُسْتَےْقِظَۃً حَدَّثَنِیْ وَاِلَّا اضْطَجَعَ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے بات چیت میں مشغول ہو جاتے اور اگر میں سوتی ہوئی ہوتی تو ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی لیٹ جاتے۔ " (صحیح مسلم) تشریح حضرت ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان فرق کرنا جائز ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اس وقت (یعنی فجر کی فرض نماز اور سنتوں کے درمیان) اپنے اہل خانہ سے بات چیت میں مشغول ہونا مستحب ہے، گویا حضرت ابن مالک کے ارشاد کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ " فرض اور سنت نمازوں کے درمیان گفتگو کرنا نماز کو یا اس کے ثواب کو ختم کر دیتا ہے" یہ قول غلط ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محور دنیا نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو دینی اور اخروی موضوع سے متعلق ہوتی تھی، اس لیے اتنا تو ماننا ہی پڑھے گا کہ فرض و سنت نمازوں کے درمیان دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا خلاف اولی ہے۔ کیونکہ سنت نمازوں کی مشروعیت کی حکمت ہی یہ ہے کہ فرض نماز پڑھنے والا آدمی پہلے سے کچھ نمازیں پڑھ کر " حالت کمال" کے لیے تیار ہو اور اس سے غفلت و سستی دور ہو جائے تاکہ فرض نماز میں پورے خشوع و خضوع کمال حضور اور عبادت خداوندی کے حقیقی و پر لطف جذبے کے ساتھ شامل ہو سکے اور اس کا دل و دماغ دنیا سے پوری طرح یکسو ہو کر توجہ الی اللہ میں پوری طرح مستغرق ہو جائے، برخلاف اس کے کہ سنت نماز پڑھ کر فرض شروع کرنے سے پہلے دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونا اس حکمت کے خلاف ہے کیونکہ اس طرح دل و دماغ شوق و حضوری سے الگ ہو کر دنیا کی باتوں کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام وغیرہ سے بعض علماء نے طلوع فجر کے بعد نماز فجر ادا کرنے سے پہلے کسی دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونے کو مکروہ کہا ہے ہاں ذکر اللہ یا ایسا دنیاوی کلام جس کی حقیقت میں اس وقت ضرورت ہو اس سے مستثنی ہے۔چنانچہ احمد، اسحاق کا یہی قول ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنت نماز پڑھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو کلام کرتے تھے یا تو وہ دینی اور اخروی ہوتا تھا یا پھر کسی حاجت اور ضرورت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے گفتگو میں مشغول ہوتے تھے ، چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت کے الفاظ " ان کانت لہ الی حاجۃ کلمنی " (اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ضرورت مجھ سے متعلق ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے گفتگو کرتے ) بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
-