TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
پاکی کا بیان
غسل کا بیان
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا جَلَسَ اَحَدُکُمْ بَےْنَ شُعَبِھَا الْاَرْبَعِ ثُمَّ جَھَدَھَا فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ وَاِنْ لَّمْ ےُنْزِلْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تم میں سے کوئی آدمی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر کوشش کرے (یعنی جماع کرے) تو اس پر غسل واجب ہوگیا، اگرچہ منی نہ نکلے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح " عورت کی چار شاخوں " سے مراد اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ہیں، یا اس سے مراد عورت کے دونوں پیر اور فرج (شرم گاہ) طرفین ہیں۔ یہ جملہ عورت کے پاس جماع کے لیے جانے اور صحبت کرنے کی بلیغ تعبیر ہے، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیا کے انتہائی بلند مقام پر تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت مسئلہ کی وضاحت کے لیے الفاظ کے کنایا کا سہارا لیا ہے کھلے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشریح نہیں فرمائی ہے۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی عورت کے پاس جماع کے لیے گیا اور اس نے جماع کیا تو محض حشفہ داخل کرنے سے اس پر غسل واجب ہوجائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ نیز چاروں اماموں کا یہی مسلک ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّمَا الْمَآءُ مِنَ الْمَآءِ )رَوَاہُ مُسْلِمٌٌ )قال الیشخ الامام محی السنۃ رحمہ اﷲ ھذا منسوخ وقال ابن عباس انما الماء من الماء فی الاحتلام رواہ الجامع ترمذی ولم اجدہ فی الصحیحین۔-
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " پانی پانی سے ہے" (یعنی منی نکلنے غسل واجب ہو جاتا ہے) (صحیح مسلم) اور امام محی السنہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ " پانی پانی سے ہے" کا حکم احتلام کے لیے ہے۔ (جامع ترمذی ) اور مجھے یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ملی ہے۔" تشریح اس ارشاد کے اسلوب پر بھی غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک طرف تو احکام شریعت کی تعلیم کی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیا کے انتہائی بلند و بالا مقام پر فائز ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا اسلوب اختیار فرماتے ہیں کہ مسئلہ کی وضاحت بھی ہو جائے اور شرم و حیا کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کنا یۃ مسئلہ کی وضاحت کر رہے ہیں۔ بہر حال اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انزال نہ ہو یعنی منی نہ نکلے غسل واجب نہیں ہوتا مگر ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل محض دخول حشفہ سے واجب ہو جائے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، اس طرح ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ اسی تعارض کو دفع کرنے کے لیے حضرت امام محی السنۃ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول مصنف مشکوۃ نقل فرما رہے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ یعنی یہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے منسوخ قرار دیا گیا ہے جس میں منقول ہے کہ یہ آسانی ابتداء اسلام میں تھی (کہ جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا تھا) پھر بعد میں اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال منقول ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دے کر یہ حکم نافذ کیا گیا کہ جب مرد کا ذکر عرت کی شرم گاہ میں داخل ہو اور ختنین مل جائیں تو غسل واجب ہو جائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث ایک دوسری توجیہہ بیان فرما رہے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم احتلام کے بارے میں ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کا ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ محض خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اگر کپڑے وغیرہ پر منی کی تری دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جائے گا ۔ گویا حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس توجیہ کے پیش نظر اس حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے یعنی اس حکم کا تعلق احتلام سے بھی تھا اور غیر احتلام سے بھی، مگر یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَتْ اُمُّ سُلَےْمٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اللّٰہَ لاَ ےَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ فَھَلْ عَلَی الْمَرْأَۃِ مِنْ غُسْلٍ اِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ نَعَمْ اِذَا رَأَتِ الْمَآءَ فَغَطَّتْ اُمُّ سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاوَجْھَہَا وَقَالَتْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَ تَحْتَلِمُ الْمَرْاَۃُ قَالَ نَعَمْ تَرِبَتْ ےَمِےْنُکِ فَبِمَ ےُشْبِھُھَا وَلَدُھَا (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَزَادَ مُسْلِمٌ بِرِوَاےَۃِ اُمِّ سُلَےْمٍ اَنَّ مَآءَ الرَّجُلِ غَلِےْظٌ اَبْےَضُ وَمَآءَ الْمَرْاَۃِ رَقِےْقٌ اَصْفَرُ اَےُّھُمَا عَلَا اَوْ سَبَقَ ےَکُوْنُ مِنْہُ الشَّبَہُ۔-
" حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلیم ( آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ علماء نے سلمہ کچھ نے رملہ اور بعض نے ملیکہ لکھا ہے بہر حال حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں۔) نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ حق کے معاملہ میں حیا نہیں کرتا (لہٰذا یہ بتائیے کہ) عورت پر غسل واجب ہے جب کہ اس کو احتلام ہو۔ (یعنی خواب میں مجامعت دیکھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں ! جب کہ وہ پانی (منی) کو دیکھے" یہ سن کر ام سلمہ نے اپنا منہ (شرم کی وجہ سے ) ڈھانک لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ (یعنی کیا مرد کی طرح عورت کے بھی منی ہوتی ہے اور نکلتی ہے؟ آپ نے فرمایا " ہاں! خاک آلودہ ہو تیرا داہنا ہاتھ (اگر ایسا نہ ہوتا تو ) پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیونکر ہوسکتا تھا۔" اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مرد کی منی گاڑھی سفید ہوتی ہے اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے لہٰذا ان میں جو منی غالب ہو یا سبقت کرے تو (بچہ کی) مشابہت اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔" تشریح چونکہ مسئلہ ذرا نازک اور عرفاً خلاف شرم و حیا تھا اس لیے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پہلے تمہید کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے میں حیا نہیں کرتا یعنی اللہ نے اس سے منع کیا ہے کہ حق بات پوچھنے میں شرم و حیا کیا جائے، پھر اس کے بعد انہوں نے اصل مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب ما مطلب یہ ہے کہ محض مجامعت کا خواب دیکھ لینے سے ہی غسل واجب نہیں ہو جاتا جب تک انزال نہ ہو یا صبح اٹھنے کے بعد اس کی کوئی علامت نہ پائے یعنی سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے یا بدن پر منی دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ " خاک آلود ہو تیرا داہنا ہاتھ" یہ شدت فقر سے کنایہ ہے گویا یہ ایک قسم کی بدعا ہے۔ لیکن اس کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں بلکہ ایک ایسا جملہ ہے جو اہل عرب کے یہاں تعجب کے وقت بولتے ہیں، اس طرح اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ " ام سلمہ! بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہہ رہی ہو؟ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ اگر عورت کے منی نہ ہوتی تو پھر اکثر بچے جو اپنی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں وہ کس طرح ہوتے؟ مرد کی منی کی طرح عورت کی بھی منی ہوتی ہے اور پھر دونوں کی منی سے بچہ کی تخلیق ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے جو رنگ بیان کئے ہیں وہ اکثر کے اعتبار سے ہے، یعنی اکثر و تندرست و صحت مند عورت کی منی کے رنگ ایسے ہوتے ہیں، کیونکہ بعض مردوں کی منی کسی مرض کی بنا پر پتلی یا کثرت مباشرت کی وجہ سے سرخ ہوتی ہے، اس طرح بعض عورتوں کی منی قوت و طاقت کی زیادتی کی وجہ سے سفید بھی ہوتی ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مباشرت کے وقت اگر مرد اور عورت دونوں کی منی ساتھ ہی گر کر رحم مادہ پر پہنچے تو دونوں میں سے جس کی منی بھی غالب ہوگی یا ان دونوں سے جس کی منی سبقت کرے گی یعنی ایک دوسرے سے پہلے گر کر رحم مادر میں پہنچے گی بچہ اسی کے مشابہ ہوگا۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ بَدَأَ فَغَسَلَ ےَدَےْہِ ثُمَّ ےَتَوَضَّأُکَمَا یَتَوَضَّأُ لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ ےُدْخِلُ اَصَابِعَہُ فِی الْمَاءۤ فَےُخَلِّلُ بِھَا اُصُوْلَ شَعْرِہٖ ثُمَّ ےَصُبُّ عَلٰی رَاْسِہٖ ثَلٰثَ غُرَفَاتٍ بِےَدَےْہِ ثُمَّ ےُفِےْضُ الْمَآءَ عَلٰی جِلْدِہٖ کُلِّہٖ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمٍ ےَبْدَأُ فَےَغْسِلُ ےَدَےْہِ قَبْلَ اَنْ ےُّدْخِلَھُمَا الْاِنَآءَ ثُمَّ ےُفْرِغُ بِےَمِےْنِہٖ عَلٰی شِمَالِہٖ فَےَغْسِلُ فَرْجَہ، ثُمَّ ےَتَوَضَّأُ۔-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت (یعنی ناپاکی کو دور کرنے کے لیے غسل) کا ارادہ فرماتے تو (غسل) اس طرح شروع فرماتے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھ(پہنچوں تک) دھوتے پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے پھر انگلیاں (تر ہونے کے لیے) پانی میں ڈالتے پھر انہیں نکال کر ان (انگلیوں کی تری) سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو (پانی لے کر) سر پر ڈالتے اور پھرا پنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل ) شروع کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور اس کے بعد وضو کرتے۔" تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے غسل کے طریقہ کو بتا رہی ہیں کہ جب آپ ناپاکی دور کرنے کے لیے غسل فرماتے تو اس کا طریقہ کیا ہوتا تھا؟ چنانچہ آپ فرما رہی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل شروع کرتے تو سب سے پہلے پہنچوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح وضو فرماتے جیسے کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ غسل فرماتے کہ جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا مثلاً کسی تخت یا پتھر پر کھڑے ہو کر نہاتے تو وہ پورا وضو فرماتے اور اگر کسی ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی گڑھا وغیرہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے پاؤں کے پاس پانی جمع رہتا تھا تو اس شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے وقت پاؤں نہیں دھوتے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر پیر دھوتے تھے۔ جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے وضاحت ہو رہی ہے ۔ چنانچہ ہدایہ میں بھی لکھا ہے کہ اسی طرح کرنا چاہئے یعنی اگر غسل کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو مکمل کرنا چاہیے اور اگر پاؤں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو تو پھر اس وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل سے فارغ ہو کر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر پیر دھوئے جائیں۔ اس جگہ نکتہ کے طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ طبرانی کی روایت ہے کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی احتلام نہیں ہوا اور نہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو احتلام ہوا تھا۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَمَا قَالَ قَالَتْ مَےْمُوْنَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَاوَضَعْتُ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم غُسْلًا فَسَتَرْتُہ، بِثَوْبٍ وَصَبَّ عَلٰی ےَدَےْہِ فَغَسَلَھُمَا ثُمَّ صَبَّ بِےَمِےْنِہٖ عَلٰی شِمَالِہٖ فَغَسَلَ فَرْجَہ، فَضَرَبَ بِےَدِہِ الْاَرْضَ فَمَسَحَھَا ثُمَّ غَسَلَھَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْھَہ، وَذِرَاعَےْہِ ثُمَّ صَبَّ عَلٰی رَاْسِہٖ وَاَفَاضَ عَلٰی جَسَدِہٖ ثُمَّ تَنَحّٰی فَغَسَلَ قَدَمَےْہِ فَنَاوَلْتُہ، ثَوْبًا فَلَمْ ےَاْخُذْہ، فَانْطَلَقَ وَھُوَ ےَنْفُضُ ےَدَےْہِ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَلَفْظُہُ لِلْبُخَارِیِّ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ " میں نے سرکار دو عالم کے غسل کے واسطے پانی رکھا اور کپڑا ڈال کر پردہ کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں دھویا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنا بایاں ہاتھ جس سے شرم گاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا اور اسے دھویا، پھر کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ و ہاتھوں کو (کہنیوں تک ) دھویا، پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر بہایا پھر (جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا تھا) اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے (بدن پونچھنے کے لیے ) کپڑا دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا نہیں لیا اور پھر ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں) تشریح اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ اگر غسل ایسی جگہ کیا جائے جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع ہوتا ہو تو وضو کے وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پاؤں دھولیے جائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر اس لیے دھوئے تھے کہ غسل کے وقت وضو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاؤں نہیں دھوئے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کسی پتھر، تخت یا بلند جگہ پر نہیں کیا ہوگا جس کی وجہ سے پیروں میں پانی جمع ہوتا ہوگا۔ غسل کے بعد جب حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بدن پونچھنے کے لیے کپڑا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لینے سے انکار فرما دیا اس کے کئی احتمال علماء نے لکھے ہیں چنانچہ ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا لینے سے اس لیے انکار فرما دیا ہو کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن کو نہ پونچھنا ہی افضل تھا یا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جلدی میں جا رہے ہوں گے، اس لیے یہ سوچ کر کہ کپڑے سے بدن پونچھنے میں دیر ہوگئی کپڑا نہیں لیا۔ یا یہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت گرمی کا موسم تھا اس لیے نہانے کے بعد پانی کی تری چونکہ اچھی اور بھلی معلوم ہو رہی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو بدن سے پونچھنا پسند نہ فرمایا ہو، یا پھر یہ وجہ رہی ہوگی کہ اس کپڑے میں گندگی وغیرہ لگنے کا شبہ ہوگا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس فرما دیا۔ بہر حال جو بھی صورت حال رہی ہو مگر کپڑے کو واپس کرنا کسی عذر اور سبب ہی کی بنا پر تھا ۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط نہیں کیا جا سکتا کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن پر لگے ہوئے پانی کو نہ پونچھنا ہی سنت ہے یا یہ کہ پونچھنا مکروہ ہے۔ " ہاتھ جھٹکنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر طاقتور اور صحت مند و توانا لوگ چلتے ہوئے ہاتھ ہلاتے چلتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے تشریف لے گئے۔
-
وعَنْ عَآئِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ اِنَّ امْرَاَۃًمِّنَ الْاَنْصَارِ سَاَلَتِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلمعَنْ غُسْلِھَا مِنَ الْمَحِےْضِ فَاَمَرَھَا کَےْفَ تَغْتَسِلُ ثُمَّ قَالَ خُذِیْ فُرْصَۃً مِّنْ مِّسْکٍ فَتَطَھَّرِیْ بِھَا قَالَتْ کَےْفَ اَتَطَھَّرُ بِھَا فَقَالَ تَطَھِّرِیْ بِھَا قَالَتْ کَیْفَ اَتَطَھَّرُبِھَا قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَطَہِّرِی بِھَافَاجْتَذَبْتُھَا اِلَیَّ فَقُلْتُ تَتَبَّعِیْ بِھَا اَثَرَ الدَّمِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دن) ایک انصاری عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے غسل حیض کے بارے میں پوچھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کا حکم دیا کہ کس طرح غسل کیا جائے۔ " (یعنی پہلی حدیثوں میں غسل کی جو کیفیت گزری ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان فرمائی، اور پھر فرمایا کہ مشک میں (بھگوئے ہوئے کپڑے) کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تم اس سے پاکی حاصل کرو۔" اس نے پھر پوچھا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سبحان اللہ (یعنی اللہ پاک ہے)۔ تم اس سے پاکی حاصل کرو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں الفاظ کو بار بار سن کر) میں نے اس عورت کو اپنی جانب کھینچ لیا اور اس سے کہا کہ " (تم اس کپڑے کو ) خون کی جگہ (یعنی شرم گاہ پر) رکھ لو!۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اس قسم کے مسائل جہاں آرہے ہیں۔ وہاں آپ حدیث کا اسلوب دیکھ رہے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مسائل کو کس انداز سے بیان فرماتے ہیں، بات وہی ہے کہ ایک طرف تو مسائل شرعیہ کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھوں پر ہے جس میں شرم و حیا کی وجہ سے کسی اخفاء کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم و حیا کے وہ فطری تقاضے ہیں جو خلاف ادب و تہذیب جملوں کی ادائیگی میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسائل کے بیان میں ایسی راہ اختیار کرتے ہیں جو شرم و حیا کے دائرے سے سرمو متجاوز نہیں ہوتی اور مسائل کی وضاحت بھی حتی الامکان ہو جاتی ہے۔ اب آپ یہیں دیکھئے کہ ایک سائلہ عورتوں کے مسئلے کی وضاحت چاہتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جواب دیتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں نظامت و لطافت کے ایک ٰخاص طریقہ کی طرف اس کی راہنمائی فرمانا چاہتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشاروں اشاروں میں اسے سمجھا رہے ہیں، سائلہ زیادہ سمجھ کا ثبوت نہیں دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ اپنے جملوں کو دہراتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائے مگر وہ مزید وضاحت چاہتی ہے تو آپ پھر انتہائی تعجب سے فرماتے ہیں کہ " سبحان اللہ ! تم اس سے پاکی حاصل کرو۔" یعنی تعجب کی بات ہے کہ تم اتنے سیدھے سادھے اور ظاہر مسئلہ کو نہیں سمجھ پا رہی ہو۔ یہ کوئی ایسا باریک مسئلہ نہیں ہے، کوئی خاص نکتہ نہیں ہے جسے سمجھنے میں اعلیٰ غور و فکر کی ضرورت ہو" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس وقت ذکاوت و ذہانت کا بہترین ثبوت دیتی ہیں، انہوں نے تاڑ لیا کہ ادھر تو عورت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور مطلب تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم و حیا اس سے آگے بڑھ کر مزید وضاحت کی اجازت نہیں دیئے جا رہی ہے، چنانچہ آپ اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد و ضاحت کے ساتھ سمجھاتی ہیں۔" حدیث کے الفاظ خذی فرصۃ من مسک فتطھری میں لفظ مسک میم کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی " مشک" کے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مشک کا ایک بڑا ٹکڑا یا مشک میں بھیگے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔ ایک روایت میں میم کے زبر کے ساتھ بھی آیا ہے جس کے معنی چمڑے کے ہیں۔ لیکن روایت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے میم کے زیر کے ساتھ یعنی مشک کے معنی زیادہ بہتر اور اولیٰ ہیں۔
-
وَعَنْ اُمِّ سَلَمَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلماِنِّی امْرَاَۃٌ اَشُدُّ ضَفْرَ رَأَسِیْ اَفَاَنْقُضُہ، لِغُسْلِ الْجَنَابَۃِ فَقَالَ لَا اِنَّمَا ےَکْفِےْکِ اَنْ تَحْثِیَ عَلٰی رَاسِکِ ثَلٰثَ حَثَےَاتٍ ثُمَّ تَفِےْضِےْنَ عَلَےْکِ الْمَآءَ فَتَطَھَّرِےْنَ۔(صحیح مسلم)-
" حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم) !میں ایک عورت ہوں اپنے سر کے بال بہت مضبوط گوندھتی ہوں، کیا صحبت کے بعد نہانے کے واسطے انہیں کھولا کروں" ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں !" بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں یہی کافی ہے کہ تین لپٹیں پانی لے کر اپنے سر پر ڈال لیا کرو اور پھر سارے بدن پر پانی بہا لیا کرو، پاک ہو جاؤ گی۔" (صحیح مسلم) تشریح اس حدیث کے سلسلے میں صحیح قول یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا حکم صرف عورتوں کے لیے ہے ، چنانچہ غسل کے وقت اگر بال گندھے ہوئے ہوں اور سر پر پانی اس طرح ڈالا جائے کہ بالوں کی جڑیں بھیگ جائیں تو یہ کافی ہے، بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ جانے کے بالوں کو کھولے بغیر جڑیں نہیں بھیگیں گی تو پھر اس صورت میں بالوں کو کھولنا ضروری ہو گیا۔ مردوں کو ہر صورت میں بال کھول لینے چاہئیں۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَےَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ اِلٰی خَمْسَۃِ اَمْدَادٍ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت انس راوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد (پانی) وضو فرماتے اور ایک صاع سے پانچ مد تک (پانی سے) غسل فرما لیتے تھے" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مد ایک پیمانے کا نام ہے جس میں تقریباً ایک سیر اناج آتا ہے اور صاع پیمانہ کا نام ہے جس میں تقریبا چار مد یعنی چار سیر کے قریب اناج آتا ہے۔ یہاں مد اور صاع سے پیمانہ مراد نہیں ہے بلکہ وزن مراد ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ایک سیر پانی سے وضو فرماتے تھے اور چار سیر اور زیادہ سے زیادہ پانچ سیر غسل پر صرف فرماتے تھے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو اور تقریباً چار سیر پانی سے غسل کیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی کی یہ مقدار اور وزن واجب کے درجہ میں نہیں ہے لیکن یہ سنت ہے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی اس مقدار سے کم نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کی مقدار بعض روایتوں میں دو تہائی مد اور بعض روایتوں میں آدھا مد منقول ہے لہٰذا اس حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم کا محل یہ قرار دیا جائے گا کہ آپ اکثر و بیشتر ایک ہی مد سے وضو فرماتے تھے مگر کبھی کبھی اس سے کم مقدار پانی میں بھی وضو فرما لیتے تھے، جیسا کہ ان بعض روایتوں میں منقول ہے۔۔
-
وَعَنْ مُّعَاذَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَتْ عَآئِشَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کُنْتُ اَغْتَسِلُ اَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ اِنَآءٍ وَّاحِدٍبَےْنِیْ وَبَےْنَہۤ فَےُبَادِرُ نِیْ حَتّٰی اَقُوْلَ دَعْ لِیْ دَعْ لِیْ قَالَتْ وَھُمَا جُنُبَانِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں کہ " میں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن جو دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا، نہاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پانی لینے میں) مجھ سے جلدی کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی " میرے لیے تو پانی چھوڑیئے، میرے لیے بھی تو پانی رہنے دیجئے۔" حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ دونوں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) جنبی (یعنی ناپاکی) کی حالت میں ہوتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح جس برتن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشترکہ طور پر غسل فرماتے تھے وہ ایک طشت کی قسم سے تھا جس میں تین صاع تقریباً بارہ سیر پانی سماتا تھا، غسل کے وقت یہ دونوں اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر پانی نکالتے اور اس سے نہاتے، حدیث کے الفاظ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم (پانی لینے میں) جلدی کرتے تھے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نہانے سے پہلے تھوڑے سے پانی سے نہا لیتے تھے اور بقیہ پانی چھوڑ دیتے تھے، جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہاتی تھیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا برتن دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور دونوں اکٹھے اس سے نہاتے تھے۔ حدیث کے آخری جملے " وہ دونوں حالت ناپاکی میں ہوتے تھے کہ تحت ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس پانی میں جنبی ہاتھ ڈالے وہ پانی طاہر و مطہر ہے جنبی خواہ مرد ہو یا عورت۔ امام ابن ہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا یہ قول ہے کہ اگر محدث (بے وضو) جنبی (جس پر غسل واجب ہو) اور حائض (حیض والی عورت ) کے ہاتھ پاک ہوں اور وہ برتن میں چلو بھرنے کے لیے ہاتھ ڈالیں تو پانی مستعمل (یعنی ناقابل استعمال) نہیں ہوتا۔ کیوں کہ برتن سے پانی نکالنے کے لیے وہ اس طریقے کے محتاج ہیں۔ چنانچہ امام موصوف اپنے اس قول کی دلیل میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ " اس کے برخلاف اگر جنبی پانی کے برتن میں اپنا پاؤں یا سر ڈالے تو پھر پانی نا قابل استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ اسی طریقہ کی ضرورت ہے۔
-
عَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الرَّجُلِ یَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا یَذْکُرُ اِحْتِلَامًا قَالَ یَغْتَسِلُ وَعَنِ الرَّجُلِ یَرَی اَنَّہُ قَدِ احْتَلَمَ وَلَا یَجِدُ بَلَلاً قَالَ لَا غُسْلَ عَلَیْہِ قَالَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ ھَلْ عَلَی الْمَرْاَۃِ تَرَی ذٰلِکَ غُسْلٌ قَالَ نَعَمْ اِنَّ النِّسَآءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ۔ (رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی الدَّارِمِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ قَوْلِہٖ لَا غُسْلَ عَلَیْہِ)-
" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو (سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے پر منی کی) تری محسوس کرے اور خواب (احتلام) اسے یاد نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ " نہانا چاہئے! اور ایسے آدمی کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے (سو کر اٹھنے کے بعد) احتلام تو یاد ہو مگر تری معلوم نہیں ہوتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس پر غسل واجب نہیں" ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اگر عورت بھی یہی (تری) دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں" عورتیں بھی مردوں ہی کی مثل ہیں۔" ( ترمذی ، ابوداؤد اور دارمی و ابن ماجہ نے اس حدیث کو " لا غسل علیہ" (اس پر غسل واجب نہیں تک نقل کیا ہے۔) تشریح سوال یہ تھا کہ مثلاً ایک آدمی ہے وہ سو کر اٹھا اس نے کپڑے پر یا بدن پر منی یا مذی لگی ہوئی ہے مگر اسے کوئی ایسا خواب یاد نہیں ہے کہ اس نے نیند میں کسی سے مباشرت کی ہو جس کی وجہ سے یہ احتلام ہوا ہے تو کیا ایسے آدمی پر غسل واجب ہوگا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اسے نہانا چاہئے! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ غسل کے وجوب کا دارومدار منی یا مذی کی تری پر ہے خواب کے یاد رہنے نہ رہنے پر نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ پیدائش اور طبائع کے اعتبار سے عورتیں چونکہ مردوں ہی کی مانند ہیں اس لیے مرد کی طرح اگر عورت بھی جاگنے کے بعد اپنے کپڑے اور بدن پر تری محسوس کرے تو اس پر بھی غسل واجب ہوگا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض تری دیکھ لینے سے غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ منی کود کر نکلی ہے چنانچہ تابعین کی ایک جماعت اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہی منقول ہے ۔ اکثر علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ غسل اس وقت تک واجب نہیں ہوگا جب تک یہ جانے کہ کہ منی کود کر نکلی ہے، اگر یہ جانے کہ منی کود کر نکلی ہے، تو غسل واجب ہوجائے گا ورنہ بصورت دیگر غسل واجب تو نہ ہوگا مگر احتیاطا غسل کر لینا مستحب ہوگا۔ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مرد و عورت ایک ہی بستر پر اکٹھے سوئے، جب وہ سو کر اٹھے تو انہوں نے بستر پر منی کی تری محسوس کی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کی منی کی تری ہے تو اس صورت میں دونوں میں سے کس پر غسل واجب ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس شکل میں یہ دیکھا جائے گا کہ منی کا رنگ کیسا ہے؟ اگر وہ سفید ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ مرد کی ہے لہٰذا مرد پر غسل واجب ہوگا۔ اور اگر رنگ زرد ہے تو پھر غسل عورت پر واجب ہوگا۔ مگر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی غسل کر لیں۔"
-
وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ فَعَلْتُہُ اَنَاوَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاغْتَسَلْنَا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ تجاوز کر جائے (یعنی حشفہ غائب ہو جائے تو (دونوں پر) غسل واجب ہو جائے گا۔" (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح " ختان" اس جگہ کو کہتے ہیں جسے ختنہ کرتے وقت کاٹتے ہیں جو مرد کے عضو تناسل کے آگے ایک کھال ہوتی ہے اور عورت کی شرم گاہ پر مرغ کی کلغی کی طرح ابھرا ہوا ایک حصہ ہوتا ہے لہٰذا فرمایا جا رہا ہے کہ جب ختنین مل جائیں اور حشفہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہوتا ہے ، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔"
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْتَ کُلِّ شَعْرَۃٍ جَنَابَۃٌ فَاغْسِلُوْا الشَّعْرَ وَ انْقُوْاالبَشَرَۃَ۔(رَوَاہَُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ قَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَ الْحَارِثُ بْنُ وَحِیْہ الرَّاوَی وَھُوَ شَیْخٌ لَیْسَ بِذٰلِکَ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ہر بال کے نیچے (جڑ میں) جنابت ہوتی ہے لہٰذا بالوں کو (خوب) دھویا کرو اور بدن کو پاک کیا کرو۔" (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، ابن ماجۃ) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ اس حدیث کا ایک راوی حارث ابن وجیہ ایک بوڑھا آدمی ہے وہ معتبر نہیں (یعنی کبر سنی اور غلبہ نسیان کی وجہ سے) اس کی روایت قابل اعتماد یعنی قوی نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے) تشریح اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ غسل جنابت میں سر کے بالوں کو اچھی طرح دھویا جائے تاکہ پانی بالوں کی جڑ میں پہنچ جائے اس لیے اگر پانی بالوں کی جڑ تک نہیں پہنچے گا تو پاکی حاصل نہیں ہو گی، چنانچہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک بال کے نیچے کی بھی جگہ خشک رہ جائے گی تو غسل ادا نہ ہوگا۔ بالوں کے ساتھ ساتھ بدن کو بھی اچھی طرح دھونے کا حکم دیا جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہانے کے وقت بدن کو خوب اچھی طرح مل کر میل وغیرہ کو صاف کرنا چاہئے اور پورے بدن پر پانی اس طرح بہانا چاہئے کہ بدن کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہ جائے کیونکہ اگر بدن پر خشک مٹی، آٹا یا موم وغیرہ لگا رہا اس کے نیچے پانی نہ پہنچا تو ناپاکی دور نہ ہوگی۔
-
وَعَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَکَ مَوْضِعَ شَعْرَۃٍ مِنْ جَنَابَۃٍ لَّمْ یَغْسِلْھَا فُعِلَ بِھَا کَذَا وَکَذَا مِنَ النَّارِ قَالَ عَلِیٌّ فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأسِیْ فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی ثَلَاثًا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَاَحْمَدُ وَالدَّارِمِیُّ اِلَّا اَنَّھُمَا لَمْ یُکَرِّرَ ا فَمِنْ ثَمَّ عَادَیْتُ رَأْسِی۔-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جس نے غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ (خشک) چھوڑ دی کہ اسے نہ دھویا تو اسے اس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا " حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی (کہ منڈا ڈالا) تین مرتبہ یہی کہا۔ " (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، دارمی) مگر احمد بن حنبل نے یہ الفاظ " اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی " مکرر ذکر نہیں کئے ہیں۔) تشریح یہ حدیث مزید وضاحت کے ساتھ اوپر کی حدیث کی تائید کر رہی ہے اور غسل جنابت میں بالوں کے سلسلے میں غفلت برتنے والوں کو متنبہ کر رہی ہے چنانچہ " اس طرح" یہ تعدد سے کنایہ ہے یعنی ایسے آدمی کو جس نے غسل احتیاط سے نہیں کیا اور بالوں کی جڑوں میں پانی اچھی طرح نہیں پہنچایا کئی قسم کے اور بہت زیادہ عذاب دئیے جائیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مبارک سے یہ تہدید اور وعید سنی تو اس خوف سے کہ اگر بال رہے تو غسل جنابت کے وقت شاید ان کی جڑیں خشک رہ جائیں اپنے بالوں سے بالکل دشمنوں جیسا معاملہ کیا جس طرح ایک آدمی اپنے دشمن کو اپنے لیے خطرے کا سبب اور باعث سمجھ کر موقع ملتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، ایسے ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہدید اور وعید کی بنا پر ان بالوں کو اپنی عاقبت کی خرابی کا باعث سمجھتے ہوئے ان کا صفایا کر دیا۔ اس حدیث اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ سر کے بال ہمیشہ مڈاتے رہنا جائز ہے مگر اولیٰ اور سنت بالوں کا رکھنا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اپنے سروں پر بال رکھتے تھے اور صرف حج کے موقع پر منڈواتے تھے۔ جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے، اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اپنے سر کے جو بال منڈاوئے ہیں، ان کی کوئی دوسری غرض نہیں ہے یعنی اس سے زیبائش اور آرائش یا کسی راحت و آرام کا طلب مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا، اس طرح گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک ایسے فعل کے ترک پر عذر بیان کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مداومت کے ساتھ ثابت ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَتَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ۔ ( ترمذی و ابوداؤد، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنے کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے پہلے جو وضو غسل کے لیے فرماتے تھے غسل کے بعد پھر دوبارہ وضو نہیں فرماتے تھے، چنانچہ مسئلہ بھی یہی ہے کہ غسل کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے وہ کافی ہوتا ہے غسل کے بعد اگر نماز وغیرہ پڑھی جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے غسل کے وضو سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
-
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَغْسِلُ رَأْسَہُ بِالْخِطْمِیِّ وَھُوَ جُنُبٌ یَجْتَزِیُ بِذٰلِکَ وَلَا یَصُبُّ عَلَیْہِ الْمَآئ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ناپاکی کی حالت میں (غسل کے وقت ) خطمی سے سر کو دھو لیتے تھے اور اسی پر کفایت کرتے اور دوبارہ سر پر خالص پانی نہ ڈالتے تھے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح جس طرح یہاں آنولہ وغیرہ سے دھونے کا رواج تھا ایسے ہی عرب میں خطمی سے سر دھوئے جاتے تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے سر کے بال خطمی کے پانی سے دھویا کرتے تھے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر پر خطمی لگا کر اسے دھونے کے لیے سر پر خطمی ملا ہوا پانی ڈالتے تھے تو پھر دوبارہ پانی بہانے کے وقت سر پر پانی نہیں ڈالتے تھے بلکہ اسی پہلے دھوئے ہوئے کو کافی سمجھتے تھے جیسا کہ عام طور پر نہانے والے یہ کرتے ہیں کہ پہلے سر کو دھوتے ہیں، اس کے بعد غسل کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سر پر بھی پانی ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس پانی سے سر کو دھویا کرتے تھے اس میں خطمی کے اجزاء کم ہوتے ہوں گے کہ جس سے پانی کی حقیقت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ہوگا یعنی سیلان باقی رہتا ہوگا۔
-
وَعَنْ یَعْلٰی قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاَی رَجُلًا یَغْتَسِلُ بِالْبَرَازِ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اﷲَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اﷲَ حَیِّیٌّ سِتِّیْرٌ یُحِبُ الْحَیَاءَ وَالتَّسَتُّرَ فَاِذَا اغْتَسَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَوَالنِّسَائِیُّ وَفِی رِوَایَتِہٖ قَالَ اِنَّ اﷲَ سِتِّیْرٌ فَاِذَا اَرَادَاَحَدُکُمْ اَنْ یَغْتَسِلَ فَلْیَتَوَا رَ بِشَیْیئٍ)-
' اور حضرت یعلیٰ ( یہاں تحقیق سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ یعلیٰ بن امیہ تمیمی ہیں یا یعلی ابن مرہ ثقفی ہیں بہر حال یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔ ( فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (وعظ کے لیے) منبر پر چڑ ھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بہت حیا دار ہے (یعنی اپنے بندوں سے حیاداروں کا سا معاملہ کرتا ہے، بایں طور کہ انہیں معاف کر دیتا ہے اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کر لیا کرے ۔ ( ابوداؤد اور نسائی ) اور نسائی کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہانے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی چیز سے پردہ کر لیا کرے) تشریح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اہم اور عظیم مسئلے کو بیان کرنا چاہتے یا کسی خاص چیز سے آگاہ کرنا چاہتے تو منبر پر تشریف لے جاتے اور پہلے اللہ جل شانہ کی حمد و ثنا کرتے اس کے بعد اصل مسئلے کو بیان فرماتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا وہ شرم کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلی جگہ (میدان میں ننگا نہا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین شرم و حیا پر بل پڑ گئے، فورًا مسجد نبوی میں پہنچے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم و حیا کی اہمیت کو بڑے بلیغ اور ناصحانہ انداز میں بیان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رب قدوس کی ذات پاک تمام محاسن و اوصاف کی جامع ہے چنانچہ شرم و حیا اور پردہ پوشی جو بہت بڑے وصف ہیں یہ بھی اللہ تعالےٰ کے اوصاف میں سے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے اوصاف کی نورانی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو روشن کریں، اس کی جو صفات ہیں ان کو حتی الامکان اپنے اندر پیدا کریں اس لیے وہ پسند کرتا ہے ۔ بندے شرم و حیاء کے اصولوں پر کار بند رہیں، ان عظیم اوصاف سے اپنے دامن کو مالا مال کریں اور پردہ پوشی کو کسی حال میں ترک نہ کریں، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شرم اور پردے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی نہ برتیں۔
-
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ اِنَّمَا کَانَ الْمَآءُ مِنَ الْمَآءِ رُخْصَۃً فِی اَوَّلِ الْاِسْلَامِ ثُمَّ نُھِیَ عَنْھَا۔(رواہ ترمذی و ابوداؤد والدارمی)-
" حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی) تشریح اس باب کی حدیث نمبر ٢ کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا ذکر آچکا ہے، وہاں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ غسل اسی صورت میں واجب ہوگا جب کہ جماع کے وقت انزال بھی ہو یعنی اس وقت بغیر انزال کے محض ادخال ذکر سے ہی غسل واجب نہیں ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ یہ حکم (جو اس باب کی حدیث ٢ میں گزرا ہے) پہلے تھا، اب منسوخ ہوگیا ہے اور اب یہ حکم ہو گیا ہے کہ محض جماع (ادخال ذکر ) سے غسل واجب ہو جائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔"
-
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیٍّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنِّی اغْتَسَلْتُ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَصَلَّیْتُ الْفَجْرَ فَرَاَیْتُ قَدْرَ مَوْضِعِ الظَّفْرِ لَمْ یُصِبْہُ الْمَآءُ فَقَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَوْ کُنْتَ مَسَحْتَ عَلَیْہِ بِیَدِکَ اَجْزَأَکَ۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا اور صبح کی نماز پڑھ لی، پھر میں نے دیکھا کہ (بدن پر ) ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی کہ وہاں) پانی نہیں پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم (اس جگہ اپنے بھیگے) ہاتھ سے مسح بھی کر لیتے تو کافی ہو جاتا ۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم غسل کے وقت اس جگہ جو خشک رہ گئی تھی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر لیتے یا اسے معمولی طور پر دھو دیتے تو یہ کافی ہو جاتا اور تمہارا غسل پورا ہو جاتا ۔ اور اگر تمہیں اس جگہ خشکی کا احساس کچھ عرصہ کے بعد ہوا تھا تو تمہیں چاہئے تھا کہ اس جگہ کو دھو لیتے خواہ معمولی طور پر ہی کیوں نہ ہوتا اور جو نماز پڑھ لی تھی اس کی قضا ادا کرتا۔"
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَتِ الصَّلَاۃُ خَمْسِیْنَ وَالْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَغَسْلُ الْبَوْلِ مِنَ الثَّوْبِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْأَلُ حَتّٰی جُعِلَتِ الصَّلَاۃُ خَمْسًا وَغُسْلُ الْجَنَابَۃِ مَرَّۃً وَغُسْلُ الثَّوْبِ مِنَ الْبَوْلِ مَرَّۃً۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (پہلے) پچاس نمازیں فرض ہوئیں تھیں، نیز جنابت (ناپاکی) سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب دھونا سات سات مرتبہ (فرض ہوا تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متواتر ( اللہ تعالیٰ سے ان میں تخفیف کی دعا مانگتے رہے، یہاں تک کہ نمازیں تو پانچ فرض رہ گئیں اور جنابت سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب کا دھونا ایک ایک مرتبہ رہ گیا۔" (ابوداؤد) تشریح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب روحانی اور جسمانی بلندیوں کی تمام منازل کو طے فرما کر شب معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا شرف حاصل فرمایا تو اس مقدس اور انسانی زندگی کی سب سے بڑی سعادت و رفعت کی یادگار کے طور پر بارگاہ حق میں جل مجدہ کی طرف سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے بندوں کے لیے " نماز" کا تحفہ عنایت فرمایا گیا ہے جسے معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم سعادت کی مناسبت سے " معراج مومنین' کہا گیا ہے ۔ نماز چونکہ تمام عبادات الہٰی میں اپنے اجر و ثواب اور اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے بندوں کے لیے سعادت و نیک بختی اور رضائے مولیٰ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لیے کہ اس عظیم اور مقدس فریضہ کے ذریعہ اللہ کے نیک اور اطاعت گزار بندے زیادہ سے زیادہ سعادت نیک بختی کی دولت سے اپنے دامن مالا مال کر سکیں اور دن و رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔" ظاہر ہے کہ پچاس نمازوں کے فریضے کا یہ تحفہ بندوں کی سعادت و نیک بختی کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اہمیت و عظمت کا حامل کیوں نہ ہو مگر سوال یہ تھا کہ انسان کے قویٰ اور ذہن و فکر اس عظیم فریضے کی ادائیگی کا بار برداشت بھی کر سکیں گے؟ صدقے جائیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کے! کہ انسانی فطرت و مزاج کا یہ سب سے بڑا راز دان اور انسانیت کا یہ عظیم محسن اور عظیم شفیق راہبر ( صلی اللہ علیہ وسلم) سمجھ لیتا ہے کہ انسان کے قوائے فکر و عمل اس عظیم بار کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور اللہ کے بندے نماز کی اتنی بڑی تعداد کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اگر آج پچاس نمازیں فرض ہو رہی ہیں تو کل پوری مخلوق زبردست اخروی خسران اور روحانی اذیت میں مبتلاء ہو جائے گی کیونکہ پچاس نمازیں ادا ہوں گی نہیں، جس کا نتیجہ حکم خداوندی کی نافرمانی کی بنا پر عذاب کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟ چنانچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں اور بار گاہ خداوندی میں نماز کی اس تعداد میں تخفیف چاہتے ہیں، پھر ادھر سے بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے اور اس میں کمی کر دی جاتی ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی مطمن نہیں ہوتے تو مزید تخفیف کی درخواست پیش کرتے ہیں جب کچھ اور تخفیف ہوتی ہے تو آپ اسے بھی زیادہ اور امت کے حق میں مالایطاق سمجھتے ہوئے کمی چاہتے ہیں یہاں تک کہ درخواست اور قبولیت کا یہ سلسلہ پانچ پر آکر ختم ہو جاتا ہے اور پانچ نمازیں فرض قرار دے دی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں اسی طرف اشارہ دیا جا رہا ہے کہ شب معراج میں تو نمازیں پچاس ہی فرض ہوئیں تھیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے حق میں انتہائی شفقت و رحمت کے پیش نظر یہ جان کر کہ امت سے اتنی نمازیں ادا نہیں ہوں گی اس تعداد میں تخفیف کرائی جب بھی آپ تخفیف کی درخواست پیش کرتے پانچ نمازیں کم کر دی جاتیں یہاں تک کہ آخر میں پانچ نمازیں رہ گئیں۔ اسی طرح پہلے ناپاکی دور کرنے کے لیے سات مرتبہ غسل کرنے کا حکم تھا مگر بعد میں اسے بھی منسوخ قرار دیدیا گیا اور صرف ایک مرتبہ غسل واجب کیا گیا یعنی پورے دن پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے فرض ادا ہو جاتا ہے مگر مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ جسم پر پانی بہایا جائے، صحیح البخاری و صحیح مسلم میں اس سلسلہ میں جو حدیث منقول ہے اس میں صرف نماز کا ذکر ہے، غسل اور کپڑے سے پیشاب دھونے کا ذکر نہیں ہے مگر یہاں یہ ابوداؤد کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں ان دونوں چیزوں کا بھی ذکر ہے چنانچہ اس روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ بہر حال اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کپڑے پر پیشاب اور غلاظت وغیرہ لگ جائے تو اسے صرف ایک بار دھولینا ہی کافی ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ کپڑا ایک مرتبہ دھو لینے سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر پیشاب اور غلاظت لگ جائے تو اسے اتنا دھویا جائے کہ اس کی پاکی کا ظن غالب حاصل ہو جائے اور اس کی حد یہ مقرر کی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کپڑے کو نچوڑا جائے کیونکہ تین مرتبہ دھو لینے سے پاکی کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔ اس موقع پر تفصیل بتا دینی مناسب ہے کہ غسل کن کن مواقع پر واجب اور مستحب ہو جاتا ہے۔ (١) غسل اس شکل میں فرض ہوتا ہے کہ منی کود کر نکلے اور ریڑھ کی ہڈی سے جدا ہونے کے وقت شہوت بھی ہو ا گرچہ باہر نکلتے وقت شہوت یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منی نکلی ہے۔ (٢) اگر کوئی آدمی سو کر اٹھے اور اپنے بستر وغیرہ پر منی کی تری پائے خواہ وہ مذی ہی کیوں نہ ہو تو غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ ایسا کوئی خواب یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منی نکلی ہے۔ (٣) اگر زندہ عورت کے آگے یا پیچھے ستر میں ذکر داخل کیا جائے یا لواطت کی جائے تو دونوں یعنی فاعل و مفعول پر غسل فرض ہوگا خواہ انزال نہ ہو۔ (٤) حیض اور نفاس ختم ہونے کے بعد غسل فرض ہوتا ہے۔ (٥) اگر چو پائے یا مردہ کے آگے یا پیچھے کے حصہ میں ذکر داخل کیا تو اگر انزال ہوگا تو غسل واجب ہوگا ورنہ نہیں۔ (٦) مذی اور ودی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اسی طرح اگر محض جواب یاد ہو اور بستر وغیرہ پر منی کی تری یا اس کی کوئی علامت موجود نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔ (٧) اگر کوئی غیر مسلم اس حال میں مسلمان ہوا کہ وہ ناپاکی کی حالت میں تھا تو اس پر غسل واجب ہوگا اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہیں تھا تو واجب نہیں ہوگا البتہ مستحب ہوگا۔ (٨) زندوں پر میت کو غسل دینا واجب کفایہ ہے، یعنی اگر کچھ لوگ نہلا دیں تو سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں، ورنہ سب گناہ گار ہوتے ہیں۔ (٩) جمعہ عید ین، احرام اور عرفہ کے لیے غسل کرنا سنت ہے۔ (١٠) محدث (بے وضو) کو قرآن کریم چھونا ناجائز ہے، ہاں اگر قرآن کریم جزدان یا کسی کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو جائز ہے اور اگر قرآن کی جلد پر محض چولی چڑھی ہوئی ہو تو چھونا درست نہیں ہے۔ (١١) اگر کوئی آدمی بے وضو ہے تو اسے کرتے وغیرہ کے آستین یا کسی ایسے کپڑے کے ساتھ جو اس کے بدن پر ہے (مثلاً چادر وغیرہ اوڑھ رکھی ہو تو) قرآن کریم کو پکڑنا اور چھونا مکروہ ہے، ہاں اگر اس کپڑے کو اپنے بدن سے الگ کر کے پھر اس کی ساتھ قرآن کریم کو پکڑے اور چھوئے تو جائز ہوگا۔ (١٢) بے وضو کو تفسیر اور حدیث کی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے لیکن آستین کے ساتھ چھونا متفقہ طور پر جائز ہے۔ (١٣) جس درہم (سکے) پر قرآن کی کوئی سورت لکھی ہو تو بے وضو کے لیے اسے چھونا جائز نہیں ہاں اگر وہ تھیلی وغیرہ میں ہو تو پھر جائز ہے۔ (١٤) جنبی کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو داخل ہو سکتا ہے اسی طرح اس کے لیے قرآن پڑھنا خواہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے البتہ دعا اور ثنا کے طور پر پڑھ سکتا ہے، ایسے ہی جنبی کا ذکر کرنا تسبیح پڑھنی اور دعا کرنی جائز ہے، ان مسائل میں حیض اور نفاس والی عورتوں کا بھی وہی حکم ہے جو جنبی کا ہے۔ باب مخالطۃ الجنب ومایباح لہ جنبی آدمی سے ملنے جلنے اور جنبی کے لیے جو امور جائز ہیں ان کا بیان اس باب میں دو چیزوں سے متعلق احادیث ذکر کی جا رہی ہیں، پہلی چیز تو یہ ہے کہ جنبی آدمی (یعنی غسل جس پر واجب ہو) کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کلام کرنا، مصافحہ کرنا اور اس طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں دوسری چیز یہ ہے کہ جنبی آدمی کے لیے کیا چیزیں جائز ہیں کہ وہ انہیں حالت ناپاکی میں کرسکتا ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ لَقِےَنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَنَا جُنُبٌ فَاَخَذَ بِےَدِیْ فَمَشَےْتُ مَعَہُ حَتّٰی قَعَدَ فَانْسَلَلْتُ فَاَتَےْتُ الرَّحْلَ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ وَھُوَقَاعِدٌ فَقَالَ اَےْنَ کُنْتَ ےَا اَبَاھُرَےْرَۃَ ص فَقُلْتُ لَہُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ اِنَّ الْمُؤْمِنَ لَا ےَنْجُسُ ھٰذَا لَفْظُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ مَعْنَاہُ وَزَادَ بَعْدَ قَوْلِہٖ فَقُلْتُ لَہُ لَقَدْ لَقِےْتَنِیْ وَاَنَا جُنُبٌ فَکَرِھْتُ اَنْ اُجَالِسَکَ حَتّٰی اَغْتَسِلَ وَکَذَا الْبُخَارِیُّ فِیْ رَوَاےَۃٍ اُخْرٰی۔-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی اور میں جنبی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے نکل کر اپنے مکان آیا اور نہا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تم کہاں تھے؟" میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اصل واقعہ) ذکر کیا (کہ میں ناپاک تھا اس لیے چلا گیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سبحان اللہ ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔" روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ (انہوں نے کہا) چونکہ میں حالت ناپاکی میں تھا اس لیے یہ مناسب معلوم نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھوں جب تک کہ نہانہ لوں۔ " اسی طرح صحیح البخاری کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں۔" تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنابت نجاست حکمی ہے کہ شریعت نے اس کا حکم کیا ہے اور اس پر غسل کو واجب قرار دیا ہے، لہٰذا حالت جنابت میں آدمی حقیقۃً نجس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی کا نہ تو جھوٹا ناپاک ہوتا ہے اور نہ اس کا پسینہ ہی ناپاک ہے، اس لیے جنبی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا، مصافحہ کرنا ، کلام کرنا یا اسی طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ ذَکَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِص لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہُ تُصِےْبُہُ الْجَنَابَۃٌ مِنَ اللَّےْلِ فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَکَرَکَ ثُمَّ نَمْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت ہو جاتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو تناسل کو دھو کر سو جایا کرو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لیے طہارت ہے، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہو جائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بے وقت غسل جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کر لینا سنت ہے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورت مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضو تناسل کو دھویا جائے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضو تناسل کو دھونا چاہئے اس کے بعد وضو کرنا چاہئے، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لیے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا۔
-
وَعَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانَ جُنُبًا فَاَرَادَ اَنْ ےَّاُکَل اَوْ ےَنَامَ تَوَضَّأَ وُضُوْئَہُ لِلصَّلٰوۃِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ناپاکی میں ہوتے اور کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر لیتے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
-
وعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍالْخُدْرِیِّ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَتٰی اَحَدُکُمْ اَھْلَہُ ثُمَّ اَرَادَ اَنْ ےَّعُوْدَ فَلْےَتَوَضَّاْ بَےْنَھُمَا وُضُوْئً۔(صحیح مسلم)-
" حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کے پاس آنے کا ( یعنی دوبارہ صحبت کرنے کا ) ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان وضو کرلے۔" (صحیح مسلم) تشریح ابن مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے دو مرتبہ صحبت کرے اور دونوں مرتبہ کے درمیان وضو کرے تو دو فائدے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے، دوسری یہ کہ نشاط اور لذت زیادہ ہو جاتی ہے۔ بہر حال اس حدیث سے اور اس سے پہلی حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ حالت ناپاکی میں اگر سونے اور کھانے پینے کا یا دو بارہ جماع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عضو تناسل کو دھو کر وضو کرلے۔ بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے کھانے پینے کے سلسلے میں ان احادیث میں جس وضو کا ذکر ہے، اس سے مراد حقیقۃً وضو نہیں ہے بلکہ اس کا مقصدیہ ہے کہ ایسے وقت میں ہاتھ دھو لئے جائیں اور یہی رائے جمہور علماء کرام کی ہے کیونکہ سنن نسائی کی روایت میں اس مراد کی صراحت بھی موجود ہے ۔ لیکن مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے، لہٰذا اب ان روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہی کہا جائے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مواقع پر کبھی کبھی اختصار کے طور پر محض ہاتھ ہی دھو لینے کو کافی سمجھتے تھے۔ مگر اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل وضو فرماتے تھے۔"
-
وعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَطُوْفُ عَلٰی نِسَآئِہٖ بِغُسْلٍ وَّاحِدٍ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غسل کے ساتھ اپنی ازواج مطہرات سے صحبت کر لیا کرتے تھے۔" (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شب میں اپنی تمام ازواج مطہرات سے صحبت کیا کرتے تھے اور غسل ایک ہی مرتبہ آخر میں فرماتے تھے یہ نہیں تھا کہ ایک بیوی سے صحبت کے بعد پہلے غسل کرتے ہوں، پھر بعد میں دوسری بیوی کے پاس جاتے ہوں۔ ہاں اس کا احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وضو فرما لیتے ہوں گے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کو ترک کر دیا ہو ۔ اس موقع پر ایک ہلکا سے اعتراض ہو سکتا ہے وہ یہ کہ قاعدہ شرعی کے مطابق اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کا اقل درجہ ایک رات ہے۔ یعنی اگر کسی آدمی کے پاس چند بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنے کا قاعدہ یہ ہے کہ، ہر ایک بیوی کے یہاں کم از کم ایک پوری شب قیام کیا جائے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی رات میں تمام ازواج مطہرات کے پاس کس طرح جایا کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لیے باری مقرر کرنے کا یہ وجوب مختلف فیہ ہے، چنانچہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود راہ احسان باری مقرر فرما رکھی تھی مگر اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی باری مقرر کرنا واجب تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ایک ہی شب میں خود ان کی رضا و خوشی سے جایا کرتے تھے لہٰذا اس پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہو سکتا۔
-
وَعَنْ عَائِشَۃَص قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلمیَذْکُرُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ عَلٰی کُلِّ اَحْیَانِہٖ۔رواہ صحیح مسلم-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت یاد الہٰی میں مصروف رہا کرتے تھے۔" (صحیح مسلم اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جو صاحب مصابیح نے اس موقع پر نقل کی ہے ) ہم انشاء اللہ کتاب الا طعمہ میں ذکر کریں گے" ) تشریح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی حالت میں ذکر خداوندی اور یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواہ حالت ناپاکی میں ہوتے یا بے وضو ہوتے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی حالت میں ہوتے اللہ رب العزت کی یاد میں ہمیشہ مشغول رہتے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد ذکر قلبی اور قدرت خداوندی کا تفکر ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول اور پرور دگار کی قدرتوں پر غور و فکر کرنے میں منہمک رہتا تھا۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اغْتَسَلَ بَعْضُ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی جَفْنَۃٍ فَاَرَا دَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّتَوَضَا مِنْہ، فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی کُنْتُ جُنُبًا فَقَالَ اِنَّ الْمَآءَ لَاَ یَجْنِبُ رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدُ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی الدَّارِمِیُّ نَحْوَہ، وَفِی شَرْحِ السُّنَّۃِ عَنْہُ عَنْ مَیْمُوْنَۃَ بِلَفْظِ الْمَصَابِیْحِ۔-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے لگن سے (یعنی لگن میں بھرے ہوئے پانی سے ) چلو لے کر غسل کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (لگن میں بچے ہوئے) پانی سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو! انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں جنبی تھی (اور میں نے اس سے غسل کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پانی تو جنبی نہیں ہوتا۔" (یعنی جنبی کے نہانے سے یا اس کے کسی عضو کے پڑنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا) (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور دارمی نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصابیح کے ہم الفاظ روایت نقل کی ہے۔" تشریح اس حدیث سے تو بصراحت یہ معلوم ہوا کہ عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے لیکن اسی باب کی تیسری فصل میں ایک حدیث (نمبر ٢) آرہی ہے جس میں منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں مطابقت کے لیے کہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث تو جواز پر دلالت کرتی ہے اور وہ دوسری حدیث ترک کی اولیت پر دلالت کرتی ہے، یعنی اگر کوئی مرد عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے وضو کرنا چاہئے تو اس حدیث کی رو سے اس کا وضو جائز تو ہو جائے گا لیکن دوسری حدیث کے پیش نظر اس پانی سے وضو نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہوگا۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ یَسْتَدْ فِئُ بِیْ قَبْلَ اَنْ اَغْتَسِلَ ۔ ( رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی التِّرِمِذِیُّ نَحْوَہ، وَفِی شَرْحِ السُّنَّۃِ بِلَفْظِ الْمَصَابِیْحِ)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (میرے ساتھ) صحبت سے فراغت کے بعد غسل فرماتے، پھر میرے نہانے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے ۔" (سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں مصابیح کے ہم لفظ روایت منقول ہے) تشریح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بستری سے فارغ ہوتے تو مجھ سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہا لیتے تھے اور چونکہ سرد موسم میں نہانے کی وجہ سے ٹھنڈ محسوس ہوتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لاتے اور اپنے اعضاء مبارک میرے بدن سے چمٹا کر لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ گرمی حاصل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا بدن پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ مل کر لیٹ جانے میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔
-
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْرُجُ مِنَ الْخَلَاءِ فَیُقْرِئُنَا الْقُرْاٰنَ وَ یَاْ کُلُ مَعَنَا الَّلْحْمَ وَلَمْ یَکُنْ یَحْجُبُہ، اَوْ یَحْجُرُہ، عَنِ الْقُرْاٰنِ شَیْیءٌ لَیْسَ الْجَنَابَۃَ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ النِّسَائِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہ،)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکل کر وضو سے پہلے ہمیں قرآن کریم پڑھا دیا کرتے تھے اور (اسی وقت) ہمارے ساتھ گوشت کھا لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم پڑھنے سے سوائے جنابت کے کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔" (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابن ماجہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔ تشریح اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے ۔ اول تو یہ کہ بغیر وضو کے قرآن کریم پڑھنا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ ہاتھوں سے قرآن کریم کو نہ چھوئے کیونکہ بغیر و ضو قرآن کریم کو چھونا ناجائز ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَقْرَءُ الْحَائِضُ وَ لَا الْجُنُبُ شَیْئًا مِنَ الْقُرْاٰنِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " حائضہ (ایام والی عورت) اور جنبی قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں پڑھیں۔" (جامع ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جو عورت ایام حیض میں ہو یا جو آدمی حالت ناپاکی میں ہو وہ قرآن شریف بالکل نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک آیت سے کم بھی قرآن کے الفاظ کی تلاوت نہ کرے چنانچہ حضرت امام اعظم اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ اور جنبی کو قرآن کریم کی تلاوت بالکل نہ کرنی چاہئے خواہ وہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ مگر بعض علماء کرام کے ہاں حائضہ اور جنبی کا ایک آیت یا زیادہ حصہ کی تلاوت تو حرام ہے البتہ ایک آیت سے کم کی تلاوت حرام نہیں ہے۔" اگر حائضہ یا جنبی قرآن کریم کا کوئی حصہ تلاوت کے مقصد سے نہیں بلکہ شکر کے ارادے سے پڑھے تو یہ جائز ہے، مثلاً کوئی حائضہ یا جنبی کسی ایسے موقع پر جب کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ہو کہے " الحمد اللہ رب العالمین" تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجِّھُوْاھٰذِہِ الْبُیُوْتَ عَنِ الْمَسْجِدِ فَاِنِّی لَا اُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضِ وَلَا جُنُبٍ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مکانوں کے یہ دروازے مسجد کی طرف سے پھیر دو کیونکہ حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخل ہونا (خواہ وہاں ٹھہرنے کے لیے ہو یا وہاں سے گزرنے کے لیے) جائز نہیں ۔" (ابوداؤد) تشریح مسجد اللہ کا گھر ہونے کی وجہ سے ایک مقدس اور محترم جگہ ہے، اس پاک جگہ کی عظمت و احترام اور اس کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس میں داخل نہ ہو جو حالت ناپاکی میں ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد کی طرف (گھروں کو ایسے دروازے جن میں گزرنے کے لیے مسجد سے گزرنا پڑتا ہے ان ) کے رخ تبدیل کر دئیے جائیں تاکہ جنبی اور حائضہ جو اپنے مکانوں میں جانے کے لیے مسجد سے گزرنے کے لیے مجبور ہیں اس شکل میں مسجد سے نہ گزر سکیں، حضرت امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر جنبی اور حائضہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے مسجد سے گزرنا چاہیں تو وہ گزر سکتے ہیں لیکن انہیں مسجد کے اندر بحالت ناپاکی بیٹھنا جائز نہیں ہے۔" مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح جنبی اور حائضہ کو مسجد کے اندر ٹھہرنا ناجائز ہے اسی طرح انہیں مسجد کے اندر سے گزرنا بھی حرام ہے چنانچہ یہ حدیث امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی اور حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے مطلقاً منع فرمایا ہے اس میں گزرنے یا ٹھہرنے کی کوئی قید نہیں ہے۔ لہٰذا اس عموم کا تقاضہ یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کو مطلقاًمسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے خواہ وہ گزرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوں یا وہاں ٹھہرنے کے لیے۔
-
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ صُوْرَۃٌ وَلَا کَلْبٌ وَلَا جُنُبٌ۔ (رواہ ابوداؤد ونسائی )-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔" (سنن نسائی، سنن ابوداؤد) تشریح " یہاں" فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں یعنی جس مکان میں یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں اس میں وہ فرشتے داخل نہیں ہوتے جو رحمت و برکت لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر سننے کو آسمان سے اترتے ہیں۔ تصویر کا مسئلہ یہ ہے کہ تصویر اگر جاندار کی ہو اور بلند جگہ پر ہو مثلاً دیواروں پر آویزاں ہو، یا چھت پر لگی ہوئی ہو یا ایسے ہی پردوں پر تصویر بنی ہوئی ہوں تو اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ ہاں اگر تصویر بچھونے پر ہو یا اسی طرح پاؤں رکھنے کی جگہ پر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اگر تصویر غیر جاندار کی ہو مثلاً درخت و پہاڑ کی ہو یا کسی عمارت وغیرہ کی ہو تو ان کو رکھنا جائز ہے یا تصویر تو جاندار کی ہو مگر اس کا سر کٹا ہوا ہو تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح جو تصویر ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو مثلاً فرش پر ہو یا تکیہ وغیرہ پر ہو تو وہ بھی مکان میں فرشتوں کے دخول کو مانع نہیں ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکیوں کے لیے گھروں میں گڑیاں رکھنا بھی جائز ہے۔ ایسے سکے جن پر تصویریں بنی ہوئیں ہوں جیسے کہ آج کل سکے یا نوٹ چل رہے ہیں ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے الفاظ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ گھر میں ہوں تو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مکان میں ان کا رکھنا جائز ہے، یہاں تک کہ ان کو اپنے پاس رکھنا خواہ پگڑی ہی میں رکھے جائز ہے کیونکہ اگر پچھلے تمام علماء ایسے سکوں کو پاس رکھتے رہے ہیں اور ان کالین دین کرتے رہے ہیں اور کسی عالم نے بھی ان کے رکھنے کو منع نہیں فرمایا ہے۔ " کتوں" کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مکان میں کتے ازراہ شوق و فیشن ہوں گے تو یا جائز نہیں ہوگا ہاں اگر ضرورت اور حاجت کی وجہ سے مثلاً شکار کے لیے ہوں یا کھیتوں اور مویشیوں کی حفاظت کے لیے ہوں تو جائز ہے اور ان کا پالنا درست ہے۔ جنبی سے مراد ہر جنبی نہیں ہے بلکہ وہ جنبی ہے جسے غسل جنابت میں سستی اور کاہلی کی بنا پر تاخیر کرنے کی عادت ہو یعنی وہ غسل کرنے میں اتنی ہی تاخیر کرتا ہو کہ نماز کا وقت بھی نکل جاتا ہو یا پھر وہ جنبی مراد ہے جو وضو نہ کر لیتا ہو۔" (دیکھئے باب کی حدیث نمبر ٢)
-
وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ یَا سِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَۃٌ لَا تَقْرَ بُھُمُ الْمَلَائِکَۃُ جِیْفَۃُ الْکَافِرِ وَالْمُتَضَمِّخُ بِالْخُلُوْقِ وَالْجُنُبُ اِلَّا اَنْ یَتَوَضَّأَ۔ (رواہ ابواؤد)-
" اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمار بن یا سر اور کنیت ابوالیقطان ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی، ان کی والدہ سمیہ تھیں اور وہ پہلی خاتون تھیں جو اللہ عزو جل کی راہ میں شہید کی گئیں، یہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد سب کے سب پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں حضرت عمار کا شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں ہوتا ہے جو اسلام لانے کی وجہ سے ظلم و ستم کی ہر بھٹی میں ڈالے گئے مگر جب وہاں سے نکلے تو کندن ہو کر نکلے ۔ حضرت عمار اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم کے گھر میں پوشیدہ تھے۔ یہ اور حضرت صہیب بن سنان دونوں ساتھ ہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عمار بن یا سر اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ستائے گئے ، یہاں تک کہ جب مشرکین مکہ انہیں مارتے مارتے تھک گئے اور یہ اپنے ایمان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹتے تو انہیں آگ میں جلایا کرتے تھے اسی ثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان کی طرف ہوا کرتا تو آپ انہیں آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر اپنا دست مبارک ان کے اوپر پھیر کر فرمایا کرتے تھے کہ اے آگ ! تو عمار پر ایسی ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جسیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی تھی۔ جب آپ زخمی ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے انہی کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا کیونکہ میں انہی کپڑوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں گا، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کو ان ہی کپڑوں میں دفن کیا۔ ربیع الاول ٣٧ھ میں ٩٤ برس کی عمر میں جنگ صفین کے دوران آپ نے شہادت پائی۔ اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ رحمت کے فرشتے ان کے قریب نہیں آتے ۔ (١) کافر کا بدن (٢) خلوق کا ملنے والا (٣) جنبی جب تک کہ وضو نہ کرے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح " جیفہ" سے مراد کافر کا بدن ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، ویسے تو اصل میں " جیفہ" مردار کو کہتے ہیں ظاہر ہے کہ کافر بھی بمنزلہ مردار کے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ نجاست مثلا ًشراب اور سود وغیرہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے نجس و ناپاک ہوتا ہے۔ " خلوق" ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے اور چونکہ رنگ دار ہوتی ہے اس لیے عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس کا لگانا ممنوع ہے صرف عورتیں اسے استعمال کر سکتی ہیں، اس لیے اگر کوئی مرد اسے لگا لیتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ اس میں رعونیت پائی جاتی ہے۔ اور عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔ دراصل اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی سنت کے خلاف کام کرتا ہے تو اگرچہ وہ بظاہر بازیب و زینت او خوشبو سے معطر ہوتا ہے نیز لوگوں میں صاحب عزت و احترام بھی ہوتا ہے مگر سنت کے خلاف عمل کی وجہ سے حقیقت میں وہ نجس اور کتے سے بھی زیادہ خسیس ہوتا ہے۔ جنبی کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و تہدید اور زجر و توبیخ کے لیے ہے تاکہ جنبی غسل جنابت میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس سے جنبی رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ اَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ حَزْمِ اَنَّ فِی الْکِتَابِ الَّذِی کَتَبَہُ رَسُوْلُ اﷲُ صلی اللہ علیہ وسلم لِعَمْرِ وْ بْنِ حَزْمٍ اَنْ لَّا یَمُسَّ الْقُرْاٰنَ اِلَّا طَاھِرٌ۔ (رواہ موطا امام مالک والدار قطنی)-
" اور حضرت عبدا اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم (اسم گرامی عمرو بن حزم اور کنیت ابوضحاک، آپ انصاری ہیں سب سے پہلے غزوہ خندق میں شریک ہوئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (نواح یمن) میں اہل نجران پر عامل بنا کر بھیجا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال تھی بمقام مدینہ منورہ ٥١ ھ یا ٥٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت نامہ عمر و بن حزم کے لیے لکھا تھا اس میں یہ (حکم بھی) مرقوم تھا کہ قرآن کریم کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگایا کریں۔" (مالک ، دارقطنی) تشریح سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر و بن حزم کو نواح یمن کے کسی شہر کا عامل بنا کر بھیجا تھا اور ایک ہدایت نامہ لکھ کر انہیں دیا تھا جس میں فرائض اور صدقات و دیات وغیرہ کے احکام و مسائل کی تفصیل تحریر کی تھی۔ اسی مکتوب گرامی میں یہ حکم بھی تھا جسے راوی یہاں بیان کر رہے یں۔
-
وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِیْ حَاجَۃٍ کَانَ مِنْ حَدِیْثِہٖ یَوْمَئِذٍ اَنْ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ فِیْ سِکَّۃٍ مِنَ السِّکَکِ فَلَقِیَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ خَرَجَ مِنْ غَآئِطٍ أَوْ بَوْلٍ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ حَتّٰی اِذَا کَادَ الرَّجُلُ اَنْ یَّتَوارَی فِی السِّکَّۃِ ضَرَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدِہٖ عَلَی الْحَآئِطِ وَ مَسَحَ بِھِمَا وَجْھَہ، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً اُخْرٰی فَمَسَحَ ذِرَاعَیْہِ ثُمَّ رَدَّ عَلَی الرَّجُلِ السَّلَام وَقَالَ اِنَّہ، لَمْ یَمْنَعْنِیْ اَنْ اَرُدَّ عَلَیْکَ السَّلَامَ اِلَّا اَنِّی لَمْ اَکُنْ عَلٰی طُھْرٍ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت نافع رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عبداللہ ابن عمر استنجے کے لیے جا رہے تھے میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیا (پہلے تو ) انہوں نے استنجاء کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس روز یہ حدیث بیان کی کہ ایک آدمی کسی گلی محلہ میں جا رہا تھا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر تشریف لا رہے تھے اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں دیا جب یہ آدمی (دوسرے) گلی محلے میں مڑنے لگا تب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تیمم کے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مار کر منہ پر پھیرے پھر (دوسری مرتبہ) مار کر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیرے، اس کے بعد اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا فقط یہ بات تھی کہ میں بے وضو تھا۔" (ابوداؤد) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ دراصل " سلام " اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام ہے گوکہ عام طور پر ایسے موقع پر سلام کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے بلکہ اس سے سلامت کے معنی مراد ہوتے ہیں، مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اصل معنی کا احترام کرتے ہوئے بغیر وضو کے اللہ عزوجل کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔ اسی باب میں پہلے کچھ حدیثیں گزری ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے آکر بغیر وضو کے قرآن پڑھتے اور پڑھاتے تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر وضو کے ذکر اللہ کیا کرتے تھے۔ بظاہر وہ احادیث اور یہ حدیث آپس میں متعارض نظر آتی ہیں؟ اس تعارض کا دفعیہ یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے وضو قرآن پڑھنا یا ذکر اللہ کرنا جیسے کہ پہلی حدیثوں میں گزرا رخصت (آسانی) پر عمل تھا۔ اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم کے لیے عزیمت (اولیٰ) پر عمل فرمایا ہے۔ یعنی یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا جائز تو ہے مگر افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ با وضو ذکر اللہ کیا جائے۔ اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں اوّل تو یہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بناء پر سلام کا جواب نہ دے سکے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کے بعد اپنا وہ عذر جس کی وجہ سے وہ سلام کا جواب نہیں دے سکا، سلام کرنے والے کے سامنے بیان کر دے تاکہ اس کی طرف غرور و تکبر کی نسبت نہ کی جا سکے یعنی سلام کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے غرور و تکبر کی بنا پر میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔
-
وَعَنِ الْمُھَا جِرِ بْنِ قٌنْفُذٍ أَنَّہ، اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَبُوْلُ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ حَتّٰی تَوَضَّأْ ثُمَّ اعْتَذَرَ اِلَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ کَرِھْتُ اَنْ اَذْکُرَ اﷲِ اِلَّا عَلٰی طُھْرٍرَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی النَّسَائِیُّ اِلٰی قَوْلِہٖ حَتّٰی تَوَضَّأْ وَقَالَ فَلَمَّا تَوَضَّأَ رَدَّ عَلَیْہِ۔-
' اور حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( حضرت مہاجر بن قنفذ قریشی تیمی ہیں کہا جاتا ہے کہ مہاجر اور قنفذ دونوں لقب ہیں اصل میں ان کا نام عمرو بن خلف ہے۔ آپ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ہیں اور ہجرت کے بعد بصرہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا۔ ( کے بارے میں مردی ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، انہوں نے سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور پھر یہ عذر بیان فرمایا کہ " میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ بے وضو اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کروں۔" (ابوداؤد) اور نسائی نے یہ روایت لفظ حتی توضاء (یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا) تک نقل کی ہے اور کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمالیا تو سلام کا جواب دیا۔ تشریح " مکروہ" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا حرام ہے بلکہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقدس و مبارک نام با وضو لیا جائے، اگر کسی نے بغیر وضو اللہ کا نام لیا تو اس پر گناہ نہیں ہوگا۔
-
عَنْ اُمِّ سَلَمَۃ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُجْنِبُ ثُمَّ یَنَا مُ ثُمَّ یَتَنَبَّہُ ثُمَّ یَنَامُ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ناپاکی میں سوجایا کرتے اور پھر جاگتے اور سو جاتے ۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح اسی باب کی حدیث نمبر ٣ میں گزر چکا ہے کہ جب آپ حالت جنابت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو پہلے وضو فرما لیا کرتے تھے اس کے بعد سویا کرتے تھے، اس حدیث میں گو اس کی صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں سونے سے پہلے وضو فرماتے تھے مگر یہاں بھی مراد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے کے بعد ہی آرام فرماتے تھے۔ یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بغیر وضو کے بھی بیان جواز کے لیے سوجایا کرتے تھے تاکہ اس سے یہ معلوم ہو کہ بغیر وضو بھی سو جانا جائز ہے مگر افضل اور بہتر یہی ہے کہ وضو کرنے کے بعد سویا جائے۔
-
وَعَنْ شُعْبَۃَ قَالَ اِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ کَانَ اِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ یُفْرِغُ بِیَدِہٖ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی سَبْعَ مَرَّاتٍ ثُمَّ یَغْسِلُ فَرْجَہُ فَنَسِیَ مَرَّۃً کَمْ اَفْرَغَ فَسَأَلَنِیَ فَقُلْتُ لَا اَدْرِیْ فَقَالَ لَا اُمَّ لَکَ وَمَا یَمْنَعُکَ اَنْ تَدْرِیَ ثُمَّ یَتَوضَّأُ وُضُوْءَ ہ، لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ یُفِیْضُ عَلٰی جِلْدِہٖ الْمَآءَ ثُمَّ یَقُوْلُ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَطَھَّرُ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت شعبہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ناپاکی کا غسل فرماتے تو (پہلے) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ دھوتے۔ ایک مرتبہ بھول گئے کہ پانی کتنی مرتبہ ڈالا ہے؟ چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا " مجھے یاد نہیں" انہوں نے فرمایا " تمہاری ماں مرے تمہیں یاد رکھنے سے کس نے روک دیا تھا " ؟ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کر کے اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور کہنے لگے کہ " سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح پاک ہوا کرتے تھے۔" (ابوداؤد) تشریح غسل جنابت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ستر دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بارے میں اس سے پہلے جو احادیث گزری ہیں یا تو وہ مطلق ہیں یعنی ان میں یہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے یا جن میں تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک دو مرتبہ دھوئے ہیں یا تین مرتبہ، چنانچہ باب الغسل کی پہلی فصل میں خود حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت (نمبر ٥) گزری ہے جس میں یہ تو منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک دھوئے ان کی تعداد زکر نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ دھوئے ؟ لیکن یہاں حضرت شعبہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ عمل نقل فرما رہے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے وقت سات مرتبہ پانی ڈال کر ہاتھ دھوتے تھے۔ لہٰذا اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل کسی خاص صورت میں ہوگا یعنی آپ کو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہو گئی۔ جس کی بنا پر بہت زیادہ طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ساتھ مرتبہ دھونا ضرور سمجھا ہوگا۔ یا پھر اس کی تاویل یہ ہوگی کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں ہوئی ہوگی اس لیے انہوں نے اسی پہلے حکم کے مطابق سات مرتبہ دھویا ہو گا۔ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ شاگرد کو اپنے شیخ و استاد کے سامنے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ شیخ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کو ذہن نشین کر کسے۔ نیز شیخ و استاد کو یہ حق ہے کہ وہ شاگرد کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔"
-
وَعَنْ اَبِیْ رَافِعِ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَافَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلٰی نِسَآئِہٖ یَغْتَسِلُ عِنْدَہ ھٰذِہِ قَالَ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَلَّا تَجْعَلُہ، غُسْلًا وَّاحِدًاٰخِرًا قَالَ ھٰذَا اَزْکی وَاَطْیَبُ وَاَظْھَرُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل ابوداؤد)-
" اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز اپنی تمام بیویوں کے پاس آئے (یعنی سب سے جماع کیا) اور ہر ایک بیوی سے (جماع سے فارغ ہو کر علیحدہ علیحدہ) غسل فرمایا۔ ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ غسل کر لیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یہ (یعنی ہر جماع کے بعد غسل کرنا، خوب پاک کرتا ہے، (نفس کے لیے) بہت خوش آئند ہے اور (جسم کو) خوب صاف کرتا ہے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٥ سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب میں تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرما کر آخر میں ایک ہی مرتبہ غسل فرمایا اور یہاں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک دن تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرمائی اور غسل کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہر بیوی کے ساتھ جماع سے فراغت کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ پہلا عمل جو اوپر بیان ہوا وہ امت کی آسانی کے لیے تھا یعنی اس بات کا اظہار مقصود تھا تمام بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے فراغت کے بعد آخر میں ایک مرتبہ غسل کر لینا کافی ہے لیکن افضل اور بہتر چونکہ یہی ہے کہ ہر جماع کے بعد غسل کیا جائے اس لیے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جماع کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں ہر مرتبہ غسل کرنے کی جو وجہ بیان فرمائی ہے اس میں تین لفظ استعمال فرمائے ہیں (١) از کی (٢) اطیب (٣) اطہر۔ ان تینوں الفاظ کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ " تطہیر" کا استعمال ظاہری مناسبت سے ہے اور تزکیہ و تطیب کا استعمال باطنی مناسبت سے ہے یعنی تطہیر اخلاق بد کے ازالہ کے لیے ہے اور تزکیہ و تطیب اچھی خصلتوں کے حصول کے لیے ہے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح غسل کرنے سے برے اخلاق مثلاً غصہ وغیرہ دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حلم و تقوی وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔
-
وَعَنِ الْحَکَمِ بْنِ عَمْرٍ و قَالَ نَھَی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طُھُوْرِ الْمَرْاَۃِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَ زَادَاَوْقَالَ بِسُوْرِھَا وَقَالَ ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ)-
' اور حضرت حکم بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حکم ابن عمر ہے قبیلہ غفار کی نسبت سے مشہور ہیں آپ صحابی ہیں وفات نبی کے بعد بصرہ چلے گئے ان کے سو تیلے بھائی زیاد نے انہیں خراسان کا حاکم بنایا تھا چنانچہ ان کی وفات بھی خراسان کے مضافات مقام مرو میں پچاس ہجری میں ہوئی۔ ) فرماتے ہیں کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ، عورت کے (وضو کے) بقیہ پانی سے " نیز ( ترمذی ) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے) تشریح لفظ سؤر یہاں غسل یا وضو کے " بقیہ پانی" کے معنی میں ہے، اس کے لغوی معنی " جھوٹھا (کسی کا استعمال کیا ہوا)" مراد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ راوی کو فقط لفظ میں شک واقعہ ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو " فضل" کہا ہے یا " سور" فرمایا ہے۔ اس فصل کی حدیث نمبر ٧ کے فائدے میں اس حدیث کا تذکرہ آچکا ہے ان دونوں میں جو تعارض واقع ہو رہا ہے اس کی وضاحت وہاں کی جا چکی ہے علامہ سید جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث نمبر (٢١ ) سے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے کی جو ممانعت ثابت ہو رہی ہے اس کو " نہی تنزیہی" پر محمول کیا جائے تاکہ اس حدیث اور اس حدیث نمبر (٧ ) میں جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرمایا تھا تعارض پیدا نہ ہو سکے اور دونوں حدیثیں اپنی جگہ جگہ قابل عمل رہیں۔
-
وَعَنْ حُمَیْدِ نِ الْحِمْیَرِی قَالَ لَقِیْتُ رَجُلًا صَحِبَ النَّبِیَّ صَلی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَرْبَعَ سَنِیْنَ کَمَا صَحِبَہ، اَبُوْھُرَیْرَۃَ قَالَ نَھٰی رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ تَغْسِلَ الْمَرْأَۃُ بِفَضْلِ الرَّجُلِ اَوْیَغْتَسِلَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ الْمَرْأَۃِ زَادَ مُسَدَّدٌ وَّلْیَغْتَرِ فَاجَمِیْعًا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالنِّسَائِیُّ وَزَادَ اَحْمَدُ فِی اَوْلِہٖ نَھٰی اَنْ یَّمْتَشِطَ اَحَدُنَا کُلَّ یَوْمٍ اَوْ یَبُوْلَ فِی مُغْتَسَلٍ وَّرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ سَرْجِسٍ۔-
" حضرت حمید حمیری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ ( اسم گرامی حمید بن عبدالرحمن ہے، قبیلہ حمیر سے تعلق کی وجہ سے حمیر کی نسبت سے مشہور ہیں جلیل القدر تابعی ہیں اپنے علم وفضل کی بنا پر اہل بصرہ کے امام سمجھے جاتے تھے، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سماعت کا شرف حاصل ہے۔ (فرماتے ہیں کہ میں ایک آدمی سے ملا جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح چار برس سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہ چکے تھے انہوں نے کہا کہ " سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت مرد ( کے غسل ) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے یا مرد عورت (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے۔ (ایک راوی) مسدد نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ " دونوں اکٹھے ہو کر (علیحدہ علیحدہ) چلو لے کر نہا لیں تو جائز ہے۔ " (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) " اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے (بھی) منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی کرے اور نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور ابن ماجہ نے یہ روایت عبداللہ بن سر جس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔" تشریح روزانہ کنگھی کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جن کا مقصد صرف بناؤ سنگار اور زیب و زینت ہوتا ہے لہٰذا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کنگھی تیسرے روز کی جائے یعنی درمیان میں ایک دن کا ناغہ کرنا چاہئے۔ غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرنا اس لیے منع ہے کہ اس سے وسوسے پیدا ہوتے جو عبادت میں حضوری قلب کے لیے سد راہ بنتے ہیں۔
-