غسل مسنون کا بیان

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْےَغْتَسِلْ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھنے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر لے۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مختار مسلک تو یہ ہے کہ غسل جمعہ کی نماز کے لیے ہے کہ اسی طہارت سے جمعہ اداء کرنا چاہئے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ غسل یوم جمعہ کی تعطیم و تکریم کے لیے ہے۔ بہر حال : تمام علماء کے نزدیک نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا سنت مؤ کدہ ہے مگر حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔
-
وعَنْ اَبِیْ سَعِےْدِ الْخُدْرِیِّص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم غُسْلُ ےَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہر بالغ پر جمعہ کے روز نہانا واجب ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح " واجب" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی جمعہ کے روز غسل نہ کرے تو وہ گنہگار ہوگا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ " یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز غسل کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔" یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں عام طور کسی مستحق رعایت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ " فلاں آدمی کی رعایت ہم پر واجب ہے۔" چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہاں اور اسی طرح ایسے دوسرے مواقع پر " واجب" کا لفظ استعمال فرما نا دراصل استحباب کے حکم کو موکد کرنا ہے، اور اس کی وجہ خاص طور پر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسجدیں بہت تنگ اور چھوٹی ہوتی تھیں اور مسلمان صوف (موٹا اونی کپڑا) کا استعمال کرتے تھے نیز محنت و مشقت بہت زیادہ کیا کرتے تھے چنانچہ جب ان کو پسینہ آتا تھا تو اس کی بو کی وجہ سے آس پاس کے لوگ تکلیف محسوس کرتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم میں واجب کا لفظ استعمال فرمایا ہے تاکہ لوگ جمعہ کے روز غسل کے اس حکم کو جلدی قبول کر لیں اور اس پر پابندی سے عمل پیرا ہوں۔
-
وَ عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ اَنْ ےَّغْتَسِلَ فِیْ کُلِّ سَبْعَۃِ اَےَّامٍ ےَّوْمًا ےَغْسِلُ فِےْہِ رَاسَہ، وَجَسَدَہ،۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہر (عاقل بالغ) مسلمان پر حق ہے (یعنی ثابت اور لازم ہے یا لائق ہے) کہ ہر ہفتہ میں ایک دن (یعنی جمعہ کو) نہائے اور اپنا سارا بدن دھوئے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
-
وَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَبِھَا وَنِعْمَتْ وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ اَفْضَلُ۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوداؤد الترمذی و النسائی والدارمی)-
" حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے جمعہ کے روز وضو ہی کر لیا تو اس نے فرض ادا کیا اور یہ بہت اچھا فرض ہے اور جس آدمی نے (نماز جمعہ کے لیے ) غسل کیا تو یہ بہت اچھا ہے۔" (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤدِ، جامع ترمذی ، سنن نسائی، دارمی) تشریح فبھا و نعمت کا مطلب یہ ہے کہ فبھا بفریضہ اخذ ونعمت الفریضہ یعنی (جس آدمی نے نماز کے لیے غسل کیا اس نے فرض ادا کیا اور وہ فرض کیا ہی خوب ہے؟ اس سے پہلے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو معلوم ہوتا تھا کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے مگر یہ حدیث بصراحت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ۔ (رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَ زَادَ اَحْمَدُ وَ التِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ مَنْ حَمَلَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جس آدمی نے مردے کو نہلایا ہو اسے خود بھی نہا لینا چاہئے۔" (ابن ماجۃ) اور مسند احمد بن حنبل، ترمذی اور ابوداؤد نے (اس حدیث میں) مزید نقل کیا ہے کہ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ) جو آدمی جنازہ کو کندھا دینے کا ارادہ کرے اسے وضو کر لینا چاہئے " ) تشریح اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں۔ اول تو یہ کہ جب کوئی آدمی کسی مردے کو نہلائے تو اسے چاہئے کہ غسل میت سے فراغت کے بعد خود بھی نہائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اس کے اوپر چھینٹیں وغیرہ پڑ گئی ہوں لہٰذا پاکی اور صفائی کے لیے نہا لینا مناسب ہے۔ اکثر علماء کرام کے نزدیک غسل میت کے بعد نہانے کا یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے کیونکہ ایک حدیث صحیح میں یہ ارشاد منقول ہے کہ " اگر تم مردے کو نہلاؤ تو تم پر غسل لازم نہیں ہے۔ اس حدیث سے دوسری چیز یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی آدمی جنازے کو اٹھانے کا ارادہ کرے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی باوضو ہو کر جنازے کو اٹھائے گا تو جب نماز پڑھنے کی جگہ جنازہ رکھا جائے گا اور نماز جنازہ شروع ہوگی تو وہ فورًا نماز میں شریک ہو جائے گا یہ نہیں ہوگا کہ وہ تو جنازہ رکھ کر وضو کرنے چلا جائے اور ادھر نماز بھی ہو جائے۔ اس حکم کے بارے میں بھی متفقہ طور پر سب کی رائے یہی ہے کہ یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے یعنی جنازہ اٹھانے سے پہلے وضو کر لینا مستحب ہے ضروری اور واجب نہیں ہے۔"
-
وَعَنْ عَائِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَغْتَسِلُ مِنْ اَرْبَعٍ مِنَ الْجَنَابَۃِ وَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَمِنَ الْحِجَامَۃِ وَمِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ (١) جنابت یعنی ناپاکی سے (٢) جمعہ کے واسطے (٣) سینگی کھنچوانے سے (٤) مردے کو نہلانے سے۔" (ابوداؤد) تشریح یغتسل کا اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے ۔" مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چونکہ یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی مردے کو نہلایا ہو اس لیے یغتسل کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔" بہر حال : ان چار چیزوں میں سے جنابت یعنی ناپاکی کا غسل تو فرض ہے باقی سب مستحب ہیں۔ سینگی کھنچوانے یعنی پچھنے لگوانے کے بعد غسل کرنے کا حکم صفائی و ستھرائی کے لیے ہے گویا پچھنے لگوانے کے بعد اس لیے نہا لینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جو خون وغیرہ لگ گیا ہوا اس سے پاکی وصفائی حاصل ہو جائے۔
-
وَعَنْ قَیْسِ بْنِ عَاصِمٍ اَنَّہُ اَسْلَمَ فَاَمَرَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یَّغْتَسِلُ بِمَآءٍ وَسِدْرٍ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد والنسائی )-
" اور حضرت قیس ابن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ جب اسلام کی دولت سے بہرورہ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہائیں۔" (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد اور سنن نسائی) تشریح اگر کوئی کافر ایسی حالت میں مسلمان ہو کہ وہ حالت جنابت میں تھا تو اس شکل میں اس پر غسل کرنا واجب ہے۔ ورنہ توا سلام لانے کے بعد نہانا مستحب ہے اور اس سلسلے میں صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے کلمہ شہادت پڑے لے اس کے بعد نہائے ۔ اس طرح اس کے لیے یہ بھی سنت ہے کہ نہانے سے پہلے سر منڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانی کے ساتھ بیری کے پتوں سے بھی نہانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ پاکی اور صفائی پوری طرح حاصل ہو جائے۔
-
عَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ اِنَّ اُنَا سًا مِنْ اَھْلٍ العِرَاقٍ جَاءُ وْ ا فَقَالُوْا یَا ابْنَ عَبَّاسٍ اَتَرَی الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ وَاجِبًا قَالَ لَا وَلَکِنَّہُ اَطْھَرُ وَ خَیْرُ لِّمَنِ اغْتَسَلَ وَمَنْ لَمْ یَغْتَسِلْ فَلَیْسَ عَلَیْہِ بِوَاجِبٍ وَ سَأُخْبِرُ کُمْ کَیْفَ بَدَءَ الْغُسْلُ کَانَ النَّاسُ مَجْھُوْ دِیْنَ یَلْبَسُوْنَ الصُّوْفَ وَیَعْمَلُوْنَ عَلَے ظُھُوْرِھِمْ وَ کَانَ مَسْجِدُ ھُمْ ضَیِّقًا مُقَارِبَ اِلسَّقْفِ اَنَّمَا ھُوَ عَرِیْشٌ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِی یَوْمٍ حَارٍوَ عَرِقَ النَّاسُ فِی ذٰلِکَ الصُّوْفِ حَتّٰی صَارَتْ مِنْھُمْ رِیَاحٌ آَذٰی بِذٰلِکَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا فَلَمَّا وَجَدَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تِلْکَ الرِّیَاحَ قَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِذَاکَانَ ھٰذَا الْیَوْمُ فَاغْتَسِلُوْا وَلْیَمَسَّ اَحَدُکُمْ اَفْضَلَ مَا یَجِدُ مِنْ دُھْنِہٖ وَطِیْبِہٖ قَالَ ابْنُ عَبَّاٍس ثُمَّ جَآءَ اﷲُ بِالخَیْرِ وَ لَبِسُوْا غَیْرَ الصُّوْفِ وَکُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِعَ مَسْجِدُ ھُمْ وَ ذَھَبَ بَعْضُ الَّذِی کَانَ یُؤْذِی بَعْضُھُمْ بَعْضًا مِنَ الْعِرَقِ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عراق کے چند آدمی آئے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کی رائے میں جمعہ کہ دن نہانا واجب ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں !مگر (جمعہ کے دن نہانا ) بہت زیادہ صفائی اور ستھرائی ہے اور جو آدمی غسل کر لے اس کے لیے بہتر ہے اور جو آدمی نہ نہائے اس پر واجب بھی نہیں ہے اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ جمعہ کے دن غسل کی ابتداء کیوں کر ہوئی ؟ (یعنی جمعہ کے روز غسل کس وجہ سے شروع ہوا تو اصل بات یہ تھی کہ اسلام کے شروع زمانہ میں) بعض نادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اونی لباس پہنے تھے اور پیٹھ پر (بوجھ اٹھانے کا) کام کرتے تھے، ان کی مسجد تنگ تھی جس کی چھت نیچی اور کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ایک مر تبہ جمعہ کے دن جب سخت گرمی کی وجہ سے) اونی لباس کے اندر لوگ پسینہ سے تر ہوگئے، یہاں تک کہ (پسینہ کی) بدبو پھیلی جس سے لوگ آپس میں تکلیف محسوس کرنے لگے۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو کا احساس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لوگو! جب جمعہ کا دن ہو تو غسل کر لیا کرو بلکہ تم میں سے جسے تیل یا خوشبو مثلاً عطر وغیرہ میسر ہو وہ استعمال کرے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی کی تو لوگوں نے اونی لباس چھوڑ کر (عمدہ) کپڑے استعمال کرنے شروع کر دیئے محنت و مشقت کے کام بھی چھوٹ گئے، مسجد بھی وسیع ہوگی اور پسینے کی وجہ سے جو لوگوں کو آپس میں تکلیف ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔" ( ابوداؤد) تشریح شروع میں جب کہ اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمانوں کی زندگی محنت و مشقت اور تنگی و ناداری سے بھر پور تھی، ایسے بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو مال دار اور خوش حال تھے۔ زیادتی اور کثرت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو دن بھر محنت و مشقت کرتے اور جنگلوں اور شہروں میں مزدوری کرتے۔ اس طرح وہ حضرات مشکلات و پریشانی کی جکڑ بندیوں میں رہ کر اپنے دین و ایمان کی آبیاری کیا کرتے تھے۔ لیکن تنگی و پریشان حالی کا یہ دور زیادہ عرصہ نہیں رہا جب اسلام کی حقیقت آفریں آواز مکہ اور مدینہ کی گھاٹیوں سے نکل کر عالم کے دوسرے حصوں میں پہنچی اور مسلمانوں کے لشکر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لیے ان تمام سختیوں اور پریشانیوں کو زادہ راہ بناتے ہوئے قیصر و کسری جیسے والیان ملک کی حشمت وسلطنت اور شان و شوکت سے جا ٹکراے اور جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر اپنی فتح و نصرت کے عَلم گاڑ دئیے تو تنگی و پریشان حالی کا وہ دور خدانے فراخی و وسعت میں تبدیل کر دیا۔ اب مسلمان نادار اور پریشان حال نہ رہے بلکہ مالدار اور خوش حال ہوگئے اور محنت و مشقت کی جگہ دنیا کی جہانبائی و مسند آرائی نے لے لی۔ اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کے روز غسل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے ان دونوں ادوار کا ایک ہلکا اور لطیف خاکہ پیش فرمایا ہے کہ پہلے تو مسلمان اتنے نادار اور تنگ دست تھے کہ نہ تو ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کے کپڑے تھے اور نہ معیشت کی دوسری آسانیاں میسر تھیں بلکہ وہ لوگ دن بھر محنت و مزدوری کر کے سوکھا روکھا کھاتے اور اونی لباس پہنا کرتے تھے جس کہ وجہ سے جب سخت گرمی میں ان کو پسینہ آتا تو مسجد میں بیٹھے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو پسینے کی بو سے تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و زر کے دروازے کھول دئیے تو وہ بغیر کسی کوشش اور محنت کے مال دار اور خوش حال ہوگئے اور اللہ نے ان پر اسباب معیشت کی بے انتہا فراوانی کر دی۔ حدیث کے آخری لفط بَعْضًا مِنَ الْعِرَقِ میں لفظ من بیان کیلئے ہے لفظ بعض کا اور یہاں بعض سے مراد اکثر ہے اس طرح اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اکثر لوگوں کے پسینے جو آپس میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے خوشحالی اور اسباب معیشت کی فراوانی کی وجہ سے ختم ہوگئے۔ بہر حال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پسینے کی بدبو کی کثرت کی وجہ سے ابتدائے اسلام میں جمعہ کے روز غسل کرنا واجب تھا مگر جب اسباب معیشت کی فراوانی اور مسلمانوں کی خوشحالی کی وجہ سے یہ چیز کم ہوگئی تو غسل کے وجوب کا حکم منسوخ ہوگیا اور اس کی جگہ سنت کے حکم نے لے لی۔ اس طرح اب جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔
-