غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا مسئلہ

وَعَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ رحمۃ اللّٰہ علیہ قَالَ سَاَلْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ ص عَنِ التَّطَوُّعِ بَعْدَالْعَصْرِ فَقَالَ کَانَ عُمَرُ ےَضْرِبُ الْاَےْدِیَ عَلٰی صَلٰوۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ وَکُنَّا نُصَلِّیْ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَکْعَتَےْنِ بَعْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ قَبْلَ صَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ فَقُلْتُ لَہُ اَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّےْھِمَا قَالَ کَانَ ےَرَانَا نُصَلِّےْھِمَا فَلَمْ ےَاْمُرْنَا وَلَمْ ےَنْھَنَا۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت مختار ابن فلفل فرماتے ہیں کہ میں نے (ایک دن) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ (اس معاملے میں) امیر االمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( کا تو اتنا سخت رویہ تھا کہ وہ) عصر کے بعد نفل نماز کی نیت باندھنے والے کے ہاتھ پر مارتے تھے (یعنی انتہائی سختی اور شدت سے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے ) اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں (نفل نماز کی) پڑھا کرتے تھے ۔ (یہ سن کر) میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑتے دیکھتے تھے لیکن ہمیں اس کے پڑھنے کا نہ تو حکم ہی دیتے تھے اور نہ ہمیں اس کے پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔" (صحیح مسلم) تشریح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول نہ تو ہمیں حکم ہی دیتے تھے اور نہ منع فرماتے تھے، سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر ثابت کی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھنے کو درست سمجھتے تھے کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور منع فرماتے ، لیکن خلفائے راشدین کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ حضرات اس وقت نماز پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا اس سلسلے میں خلفائے راشدین کی اقتداء کافی ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر فقہاء نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس سے مغرب کی نماز کی تاخیر لازم آتی ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کُنَّا بِالْمَدِےْنَۃِ فَاِذَا اَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ لِصَلٰوۃِ الْمَغْرِبِ اِبْتَدَرُواالسَّوَارِیَ فَرَکَعُوْا رَکْعَتَےْنِ حَتّٰی اِنَّ الرَّجُلَ الْغَرِےْبَ لَےَدْخُلُ الْمَسْجِدَ فَےَحْسِبُ اَنَّ الصَّلٰوۃَ قَدْ صُلِّےَتْ مِنْ کَثْرَۃِ مَنْ ےُّصَلِّےھِمَا۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے (اس وقت یہ حال تھا کہ ) جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو (بعض صحابہ یا تابعین) مسجد کے ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت نماز پڑھنے لگتے، یہاں تک کہ کوئی (مسافر آدمی اگر مسجد میں آتا تو اکثر لوگوں کو (تنہا تنہا) دو رکعت نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ نماز ہو چکی ہے (اور اب لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔)" (صحیح مسلم) تشریح علامہ طیبی شافعی فرماتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد اور مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز کے اثبات کی یہ حدیث ظاہری دلیل ہے۔ اس سلسلہ میں ملا علی قاری حنفی کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ حدیث اس وجہ سے ان دونوں رکعتوں کے اثبات کی دلیل نہیں ہو سکتی کہ اس طریقے کے نادر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر مغرب کی نماز کی ادائیگی میں جلدی فرماتے تھے جب کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ مغرب کی ادائیگی میں تاخیر لازم آتی ہے بلکہ بعض علماء کے قول کے مطابق تو نماز کا اپنے وقت سے خروج ہی لازم آجاتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یا تو یہ کی جائے گی کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ ہمیشہ کا طریقہ نقل نہیں کر رہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک دن بعض لوگوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہو کہ مغرب کی اذان سنتے ہی مسجد آگئے ہوں اور وہاں نماز مغرب سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھ لی ہو یا پھر اس کی سب سے بہتر تاویل جیسا کہ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ پہلے یہ نماز پڑھی جاتی تھی مگر پھر بعد میں اسے چھوڑ دیا گیا، لہٰذا اب اس نماز کا پڑھنا مکروہ ہے۔
-
وَعَنْ مَّرْثَدِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ ص قَالَ اَتَےْتُ عُقْبَۃَ الْجُھَنِیَّ فَقُلْتُ اَ لَا اُعَجِّبُکَ مِنْ اَبِیْ تَمِےْمٍ ےَّرْکَعُ رَکْعَتَےْنِ قَبْلَ صَلٰوۃِ الْمَغَرِبِ فَقَالَ عُقْبَۃُ اِنَّا کُنَّا نَفْعَلُہُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْتُ فَمَا ےَمْنَعُکَ الْاٰنَ قَالَ الشُّغْلُ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت مرثد ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عقبہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ کیا میں آپ کو ابوتمیم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کا ایک تعجب انگیز فعل نہ بتا دوں؟ (وہ یہ کہ) ابوتمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نماز (نفل) پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ نے فرمایا کہ یہ نماز تو ہم (میں سے بعض صحابہ کبھی کبھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی پڑھا کرتے تھے، جب میں نے پوچھا کہ پھر یہ نماز پڑھنے سے آپ کو کس چیز نے روک رکھا ہے ؟ تو فرمایا کہ دنیا کی مشغولیت ) مشغولیت زیادہ ہو تو نوافل کو دوسرے وقت پر چھوڑا جا سکتا ہے۔ (نے۔" (صحیح البخاری ) تشریح اس حدیث سے کم سے کم اتنی بات تو ثابت ہو ہی گئی کہ یہ نماز سنت نہیں ہے بلکہ مباح ہے کیونکہ اگر مسنون ہوتی تو حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو صحابیت جیسے عظیم مرتبے پر فائز تھے دنیا کی مشغولیت سنت کی ادائیگی یعنی اس نماز کے پڑھنے سے نہ روکتی۔
-