عیب دار جانور کی قربانی نہ کرنی چاہیے

وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْاُذُنَ وَاَنْ لَّا نُضَحِّیَ بِمُقَابَلَۃٍ وَلَا مُدَآبَرَۃٍ وَّلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَلنِّسَائِیُّ وَالدَّارِمِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَانْتَھَتْ رِوَایَتُہ، اِلَی قَوْلِہٖ وَالاذُنَ۔-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ، فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ( قربانی کے جانور کے ) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں ( کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں " یہ رویات جامع ترمذی ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن ابن ماجہ کی روایت لفظ " والاذن' ' ختم ہو گئی ہے۔" تشریح حضرت امام شافعی کے نزدیک اس بکری کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تھوڑا سا بھی کٹا ہوا ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز ہے اگر کان آدھے سے کم کٹا ہوا ہو۔" حضرت امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام شافعی کا عمل اس حدیث پر ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے جو بہت جامع ہے کیونکہ اس مسلک سے اس حدیث میں اور فتادہ کی حدیث میں تطبیق ہو جاتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ " حضرت قتادہ حضرت ابن کلیب سے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عضبائے قرن و اذن ( کی قربانی) سے منع فرمایا ہے ۔ " قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید ابن المسیب سے پوچھا کہ " یہ عضائے اذن کیا ہے؟ " تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ حنیفہ کے نزدیک کیسے جانور کی قربانی جائز نہیں؟ اس مسئلہ میں حنیفہ کا جو مسلک ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ " ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے جس کا کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔ ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے جس کے کان پیدائشی نہ ہوں، اسی طرح ایسے جانور کی قربانی بھی درست نہیں جس کی دم اور ناک تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو، جو جانور اندھا یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے جس جانور کے تھن خشک ہوگئے ہوں اس کی قربانی بھی درست نہیں او ایسے جانور کی بھی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو اور نہ ایسے لنگڑے کی جو قربانی کی جگہ تک نہ جا سکے اور نہ ایسے بیمار کی جو گھاس نہ کھا سکے نہ ایسے جانور کی جس کے خارش ہو، وہ بغیر دانت کے جانور کی جو گھاس نہ کھا سکتا اور نہ نجاست خور جانور کی ، ہاں ایسے جانور کی قربانی درست ہے جس کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا یا پیچھے کی طرف پھٹا ہوا، اس صورت میں کہا جائے گا یہ حدیث کہ جس سے ایسے جانور کی قربانی کی ممانعت معلوم ہو رہی ہے نہی تنز یہی پر محمول ہے۔
-
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نُّضَحِّیَ بِا عَضَبِ الْقَرَنِ وَالْاُذُن (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ، راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ ہم ایسے جانور کی قربانی کر دیں جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ہوں۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح حنفی مسلک میں ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے جس کے پیدائش ہی سے سینگ نہ ہوں یا ٹوٹے ہوئے ہوں یا ان کا خول اتر گیا ہے لہٰذا یہ حدیث نہی تنزیہی پر محمول کی جائے گی ۔ البتہ ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی جس کے سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں۔
-
وَعَنِ البْرَاءِ بْنِ عَازِبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُئِلَ مَاذَا یُتَّقَی مِنَ الضَّحَایَا فَاَشَارَ بِیَدِہٖ فَقَالَ اَرْبَعًا اَلْعَرْجَاءُ الْبَیِّنُ ظَلْعُھَا وَالْعَوْرَاءُ الْبَیِّنُ عَوْرُھَا وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرْضُھَا وَالْعَجْفَاءُ الَّتِی لَا تَنْقِیْ۔(رواہ موطا امام مالک و احمد بن حنبل والترمذی وابوداؤو السنن نسائی و ابن ماجۃ والدارمی)-
" اور حضرت براء ابن عازب راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیسے جانور کی قربانی لائق نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانور قربانی کی قابل نہیں ہیں۔ (١) لنگڑا۔ جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی جو چل نہ سکے۔ (٢) کا نا جس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی آنکھ سے بالکل دکھائی نہ دیتا ہو یا تہائی یا تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔ (٣) بیمار۔ جس کی بیماری ظاہر ہو یعنی جو بیماری کی وجہ سے گھاس نہ کھا سکے۔ (٤) ایسا دبلا کہ جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو۔' ' (مالک ، احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)
-