TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
عورتوں کے مسجد جانے کا مسئلہ
وَعَنْ بِلَالِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَص عَنْ اَبِےْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تَمْنَعُوا النِّسَاءَ حُظُوْظَھُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِاِذَااسْتَاذَنَّکُمْ فَقَالَ بِلَالٌ وَّاللّٰہِ لَنَمْنَعُھُنَّ فَقَالَ لَہُ عَبْدُاللّٰہِ اَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَتَقُوْلُ اَنْتَ لَنَمْنَعُھُنَّ وَفِیْ رِوَاےَۃِ سَالِمٍ عَنْ اَبِےْہِ قَالَ فَاَقْبَلَ عَلَےْہِ عَبْدُاللّٰہِ فَسَبَّہُ سَبًّا مَّا سَمِعْتُہُ مِثْلَہُ قَطُّ وَقَالَ اُخْبِرُکَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَتَقُوْلُ وَاللّٰہ لَنَمْنَعُھُنَّ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت بلال ابن عبداللہ اپنے والد مکرم (حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک روز) کہا کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " جب عورتیں تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو تم انہیں (روک کر) ان کو مساجد کے حصے سے محروم نہ کرو (یعنی مسجد میں جانے کا ثواب انہیں ملتا ہے تو انہیں مسجدوں میں جانے سے روک کر اس ثواب کے حاصل کرنے سے نہ روکو) بلال نے کہا کہ " اللہ کی قسم ہم تو انہیں ضرور منع کریں گے" حضرت عبداللہ نے بلال سے فرمایا کہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اور تم کہتے ہو کہ تم تو انہیں ضرور منع کرو گے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت سالم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ " پھر (اس کے بعد) حضرت عبداللہ بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں اس قدر برا بھلا کہا کہ میں نے تو کبھی حضرت عبداللہ کی زبان سے انہیں اس قدر برا بھلا کہتے نہیں سنا اور پھر کہا کہ " میں تو کہتا ہوں" یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور منع کریں گے ۔ تشریح حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلال سے اس لیے ناراض ہوئے اور انہیں برا بھلا کہا کہ انہوں نے بظاہر ایسے الفاظ سے جواب دیا جن سے اپنی رائے کے ساتھ حدیث کا مقابلہ کرنا معلوم ہوتا تھا۔ اگر بلال اس نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے کہتے کہ اب اس زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں جانا مناسب نہیں ہے تو حضرت عبداللہ ناراض نہ ہوتے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے ماحول کی نزاکت کے پیش نظر عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کیا ہے چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ ہمارے زمانے میں امام عورتوں کی نیت نہ کرے ۔ اس سلسلے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ موجودہ دور کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اب اس زمانہ میں جب کہ فتنہ و شر کا دور ہے عورتوں کے لیے مسجد میں جانا مکروہ ہے۔
-
وَعَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِاﷲِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلٌ اَھْلَہ، اَنْ یَأتُو الْمَسَاجِدَ فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ فَاِنَّا نَمْنَعُھُنَّ فَقَالَ عَبْدُاﷲِ اُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَتَقُوْلُ ھٰذَا قَالَ فَمَا کَلَّمَہ، عَبْدُاﷲِ حَتّٰی مَاتَ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " کوئی آدمی اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی) کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرے۔" (یہ سن کر) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزداے (بلال) نے کہا کہ " ہم تو انہیں منع کریں گے۔" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ " میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو۔" راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے (آخر عمر تک) گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح اس حدیث کی وضاحت وہی ہے جو پہلے کی جا چکی ہے کہ اپنے صاحبزادے سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس قدر شدید ناراضگی کہ آخر عمر تک ان سے گفتگو نہیں کی محض اس بناء پر تھی کہ ان کے صاحبزادے نے اپنے مافی الضمیر کو اس انداز سے ظاہر کیا جو حدیث نبوی کے مقابل معلوم ہوتا تھا۔ بہر حال اس حدیث سے اتنی بات معلوم ہوئی کہ اگر کسی آدمی کی اولاد سنت کو ترک کر دے یا سنت کے خلاف اپنی رائے کو غلط انداز میں پیش کرے تو اس سے ترک کلام کیا جا سکتا ہے۔ اس باب کی چونکہ یہ آخری حدیث ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے حاصل کرنے میں بعض طریقے اور مسائل جن کا جاننا ضروری ہے نقل کردئیے جائیں۔
-