TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
علم کا بیان
علم اور اس کی فضیلت کا بیان
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰےَۃً وَّحَدِّثُوْا عَنْ بَنِیْ اِسْرَائِےْلَ وَ لَا حَرَجَ وَ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْےَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ۔ (رواہ بخاری)-
" حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ " میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ اور بنی اسرائیل سے جو قصے سنو لوگوں کے سامنے بیان کرو یہ گناہ نہیں ہے اور جو آدمی قصدًا میری طرف جھوٹ بات منسوب کرے اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں ڈھونڈ لے۔" (صحیح البخاری) تشریح : آیت سے مراد وہ احادیث ہے جو بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن افادیت کے اعتبار سے علوم و معارف کر بحر بیکراں اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہیں جیسے ایک چھوٹی سی حدیث ہے کہ الحدیث (من صمت نجا) یعنی جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔ یا اسی طرح دوسری مختصر مگر جامع احادیث ۔ گویا اس جملہ کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ تم میری کسی ایسی حدیث کو پاؤ جو بااعتبار جملہ و الفاظ کے بہت چھوٹی اور مختصر ہو مگر اس کو دوسروں تک ضرور پہنچاؤ اور اس کی افادیت سے دوسروں کو روشناس کراؤ۔ علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا اصل مقصد علم کو پھیلانے اور دوسروں کو علم کی روشنی سے منوّر کرنے کی ترغیب دلانا ہے کہ جہاں تک ہو سکے علم کے پھیلانے اور دین کی بات کو پہنچانے میں سعی و کوشش کرنی چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ تم جس کو دوسروں تک پہنچا رہے ہو اگرچہ وہ بہت مختصر ہے مگر کیا تعجب کہ اسی سے اس کی دنیا بھی سنور جائے اور دین بھی بن جائے اور وہ راہ ہدایت کو پالے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ایک آدمی کی ہدایت ہوگی اور وہ راہ راست پر لگ جائے گا بلکہ اس کی وجہ سے تمہیں بھی اجر ملے گا اور بے شمار حسنات سے نوازے جاؤ گے۔ حدیث میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اگر بنی اسرائیل سے کوئی قصہ سنو یا تمہیں ان سے کوئی واقعہ معلوم ہو تو تم اس کو لوگوں سے بیان کر سکتے ہو مگر ان کے احکام وغیرہ کو نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ گذشتہ احادیث میں گزر چکا ہے ۔ اس لیے کہ کسی واقعہ یا قصہ کو محض خبر کے طور پر بیان کر دینا شرعی امور میں کوئی نقصان پیدا نہیں کرتا مگر ان کے احکام کو نقل کرنا یا ان کی تبلیغ کرنا شریعت محمدی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ جب اس دنیا میں شریعت محمدی کا نفاذ ہوگیا ہے تو اب تمام دوسری شریعتیں منسوخ اور کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ لہٰذا شریعت محمدی کو چھوڑ کو دوسری شریعت کے احکام و اعمال کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اخر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی غلط بات کو منسوب کرنے پر نہایت سخت الفاظ میں زجر و توبیح فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ جو آدمی میری طرف کسی غلط بات کا انتساب کرتا ہے اور مجھ پر بہتان باندھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جہنم کی آگ میں جلنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس لیے کہ ایسا بد بخت جو دنیا کی سب سے بڑے صادق و مصدوق ہستی پر بہتان باندھتا ہے وہ اسی سزا کا مستحق ہے کہ اسے جہنم کے شعلوں کے حوالے کر دیا جائے۔ اس بارہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے علماء متفقہ طور پر یہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف کسی ایسی بات یا ایسے عمل کی نسبت کرنا جو واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور ایسا کا ذب انسان اللہ کے سخت عذاب میں گرفتار کیا جائے گا اور بعض علماء مثلاً امام محمد جوینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تو اس جرم کو اتنا قابل نفرت اور سخت خیال کیا ہے کہ وہ ایسے آدمی کے بارے میں کفر کا حکم لگاتے ہیں۔ حدیث " من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار" یعنی جو آدمی قصدا میری طرف جھوٹ بات کی نسبت کرے اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرے۔" کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بڑے پایہ اور اونچے درجہ کی حدیث ہے اور اس کا شمار متواترات میں ہوتا ہے بلکہ دوسری متواتر حدیثیں اس کے مرتبہ کو نہیں پہنچتی ہیں۔ اس لیے کہ اس حدیث کو صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت نقل کرتی ہے چنانچہ بعض محدثین نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو باسٹھ صحابہ کرامن رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
-
وَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍص وَالْمُغِےْرَۃِص بْنِ شُعْبَۃَ قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ حَدَّثَ عَنِّیْ بِحَدِےْثٍ ےَّرٰی اَنَّہُ کَذِبٌ فَھُوَ اَحَدُ الْکَاذِبِےْن ۔ (مسلم)-
" اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی سمرہ ابن جندب اور کنیت ابوسعد ہے ٥٨ھ، ٥٩ھ میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ (اسد الغابہ) اور مغیرہ بن شعبہ رضی عنہما (اسم گرامی مغیرہ بن شعبہ ہے کنیت ابوعبداللہ اور بعض حضرات کے قول کے مطابق ابوعیسٰی ہے ٥٠ھ میں انتقال فرمایا۔ (اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی میری (طرف منسوب کر کے کوئی ایسی) حدیث بیان کرے جس کے بارے میں اس کا خیال ہو کہ وہ جھوٹی ہے تو وہ جھوٹے آدمیوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح : مطلب یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی حدیث کو لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اس کی اشاعت کرے جو واقعتًہ میری حدیث نہیں ہے اور پھر اس کو یہ معلوم بھی ہو کہ میں جو حدیث بیان کر رہا ہوں وہ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں ہے بلکہ وضع کی گئی ہے تو وہ آدمی جس نے یہ جھوٹی حدیث وضع کی ہے اس لیے جھوٹا ہے کہ اس نے ذات رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط اور جھوٹ بات کی نسبت کی ہے تو یہ آدمی بھی جو اس حدیث کو بیان کر رہا ہے اس لیے جھوٹا اور کذّاب ہے کہ وہ اشاعت کر کے اور یہ جان کر بھی کہ یہ غلط حدیث ہے دوسروں تک پہنچا کر اس آدمی کی مدد کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جس طرح جھوٹی حدیث بنانے والا اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوگا اسی طرح اس کو بیان کرنے والے سے بھی آخرت میں مواخذہ کیا جائے گا اور اسے سخت سزادی جائے گی۔
-
وَعَنْ مُّعَاوِیَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْل ُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ ےُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَےْرًا ےُّفَقِّھْہُ فِی الدِّےْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ ےُعْطِیْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں (علم کو) تقسیم کرنے والا ہوں عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : اس حدیث سے علم اور عالم کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کہ جس آدمی کو خداوند تعالیٰ خیر و بھلائی کے راستہ پر لگانا چاہتا ہے اسے علم کی دولت عنایت فرماتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ کسی آدمی کو دینی امور یعنی احکام شریعت اور راہ طریقت و حقیقت کی سمجھ عنایت فرما دے جو ہدایت و راستی اور خیر و بھلائی کی سب سے بڑی شاہراہ ہے۔ حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ علم کا مبداء حقیقی تو باری تعالیٰ کی ذات ہے میرا کام تو صرف یہ ہے کہ میں دینی مسائل اور شرعی احکام لوگوں تک پہنچا دوں اور حدیث بیان کر دوں۔ اب آگے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ جسے جتنا چاہے ان پر عمل کرنے کی توفیق اور غور و فکر کی صلاحیت عنایت فرمائے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ خِےَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِےَّۃِ خِےَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقِھُوْا (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ آدمی کان ہیں جس طرح سونے اور چاندی کی کان ہوتی ہے جو لوگ ایام جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بہتر ہیں اگر وہ سمجھیں۔" (صحیح مسلم) تشریح : انسان کو معدن یعنی کان سے تشبیہ دی گئی ہے اور یہ تشبیہ نیک اخلاقی و عادات اور صفات و کمالات کی استعداد و صلاحیت کے تفاوت میں دی گئی ہے کہ جس طرح ایک کان میں لعل و یاقوت پیدا ہوتے ہیں تو دوسری کان میں سونا، چاندی اور بعض کان میں چونا، سرمہ ، پتھر وغیرہ ہی پیدا ہوتے ہیں اسی طرح انسان کی ذات ہے کہ بعض تو اپنے اخلاق و عادات اور صفات و کمالات کی بنا پر با عظمت اور با شوکت ہوتے ہیں بعض ان سے کچھ کم درجہ کے ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان صفات میں انتہائی کمتر و بے وقعت ہوتے ہیں۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لانے سے پہلے حالت کفر میں بہترین خصائل و عادات کے مالک تھے مثلاً سخاوت و شجاعت، اخلاق و دیانتداری اور محبت و مروّت کی بہترین صفات سے متصف تھے تو وہ اسلام لانے کے بعد بھی ان صفات کی بناء پر بہترین قرار دئیے گئے ہیں۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے کہ سونا اور چاندی جب تک کان میں پڑے رہتے ہیں کہ وہ خاک میں پڑے رہنے کی وجہ سے اپنی اصلی حالت میں نہیں ہوتے جب انھیں کان سے نکال لیا جاتا ہے اور بھٹی میں ڈال کر تیار کیا جاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اصلی صورت میں آجاتے ہیں بلکہ ان کی آب و تاب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب تک کوئی آدمی کفر کی ظلمت میں چھپا رہتا ہے تو خواہ وہ کتنا باوقار ہو اور اس کے اندر کتنی ہی سخاوت ہو کتنی ہی شجاعت ہو اسے برتری حاصل نہیں ہوتی، مگر جب کفر کے تمام پردوں کو چاک کر کے ظلم سے باہر نکلتا ہے اور ایمان و اسلام کو قبول کر کے علم دین میں کمال حاصل کر لیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ریاضت و مجاہد اور دینی محنت و مشقت کی بھٹیوں کے حوالہ کر دیتا ہے تو اس کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے بلکہ علم و معرفت کی روشنی سے اس کا قلب و دماغ منوّر ہو جاتا ہے اور وہ عزت کی انتہائی بلندیوں پر جا پہنچتا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا حَسَدَ اِلَّا فِی اثْنَےْنِ رَجُلٌ اَتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اَتَاہُ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ ےَقْضِیْ بِھَا وَےُعَلِّمُھَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ دو آدمیوں کے بارے میں حسد کرنا ٹھیک ہے ایک تو وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا اور پھر اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق عنایت فرمائی۔ دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے علم دیا چنانچہ وہ اس علم کے مطابق حکم کرتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : حسد اسے فرماتے ہیں کہ " کسی دوسرے کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزو کی جائے کہ یہ نعمت میرے پاس آجائے اور اس کے پاس سے ختم ہو جائے۔ " ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بری خصلت اور انتہائی ذلت نفس کی بات ہے۔ اسلام جو اخلاق، پاکیزگی کا سب سے بڑا علمبردار ہے اس غیر اخلاقی اور ذلیل خصلت کو پسند نہیں کرتا اور اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے ۔ حسد کے مقابلہ میں غِبطہ ہے۔ غِبط اسے فرماتے ہیں کہ کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر یہ آرزو کی جائے کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے خدا اس نعمت سے مجھے بھی سر فراز فرمائے۔ شریعت اس کو جائز قرار دیتی ہے مگر یہ بھی اچھی باتوں مثلاً نیک اخلاق و عادات، بہترین خصائل اور فضل و کمال کے بارے میں جائز ہے چنانچہ اس حدیث میں جس حسد کے بارے میں فرمایا گیا ہے وہ غِطبہ ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلَّا مِنْ ثَلاَثَۃً اِلاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ ےُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ ےَّدْعُوْ لَہُ ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ (٢) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (٣) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعا کرے۔" (صحیح مسلم) تشریح : ایسے اعمال جن کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہوتا ہے ان کے اثرات مرنے کے بعد دنیا ہی میں ختم ہو جاتے ہیں مثلاً نماز، روزہ وغیرہ ایسے اعمال ہیں جو انسان کی زندگی میں ادا ہوتے تھے گو کہ ان کا ثواب بأیں طور باقی رہتا ہے کہ وہ ذخیرہ آخرت ہو جاتے ہیں اور مرنے کے بعد اس پر جزاء ملتی ہے مگر ان کا سلسلہ مرنے کے بعد آئندہ جاری نہیں رہتا۔ کیونکہ زندگی میں جب تک یہ اعمال ہوتے تھے اس کا ثواب ملتا رہتا تھا جب زندگی ختم ہوگئی تو یہ اعمال بھی ختم ہوگئے اور جب یہ اعمال ختم ہوگئے تو اس پر جزاء سزا کا ترتب بھی ختم ہو گیا۔ لیکن کچھ اعمال ایسے بھی ہیں جن کے ثواب کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ زندگی میں ملتا ہے بلکہ مرنے کے بعد باقی و جاری رہتا ہے۔ ایسے ہی اعمال کے بارے میں اس حدیث میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تین اعمال ایسے ہیں کہ زندگی ختم ہو جانے کے بعد بھی ان کے ثواب کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے اور مرنے والا برابر اس سے منتفع ہوتا رہتا ہے۔ پہلی چیز صدقہ جاریہ ہے، یعنی اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں زمین وقف کر گیا ہے یا کنواں و تالاب بنوا گیا ہے یا ایسے ہی اللہ کی مخلوق کے فائدہ کی خاطر کوئی دوسری چیز اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے تو جب تک یہ چیزیں قائم رہیں گی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کو برابر ثواب ملتا رہے گا۔ دوسری چیز علم نافع ہے یعنی کسی ایسے عالم نے وفات پائی جو اپنی زندگی میں لوگوں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچاتا رہا اور پھر اپنے علوم و معارف کو کسی کتاب کے ذریعہ محفوظ کر گیا جو ہمیشہ لوگوں کے لیے فائدہ مند اور رشد و ہدایت کا سبب بنی ہے یا کسی ایسے آدمی کو اپنا شاگرد بنا گیا جو اس کے علم کا صحیح وارث ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو زندگی ختم ہونے کے بعد اس کے لیے سرمایہ و سعادت ثابت ہوں گی اور جن کا ثواب اسے وہاں برابر ملتا رہے گا۔ تیسری چیز اولاد صالح ہے ظاہر ہے کہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی سعادت اور وجہ افتخار اس کی اولاد صالح ہی ہوتی ہے اس لیے کہ صالح اولاد نہ صرف یہ کہ ماں باپ کے لیے دنیا میں سکون و راحت کا باعث بنتی ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے وسیلہ نجات اور ذریعہ فلاح بھی بنتی ہے اور اس طرح سے کہ لائق و نیک لڑکا اپنے والدین کی قبروں پر جاتا ہے وہاں فاتحہ پڑھتا ہے دعائے مغفرت کرتا ہے، قرآن پڑھ کر ان کو بخشتا ہے اور ان کی طرف سے خیرات و صدقات کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب چیزیں مردہ کے لیے ثواب کا باعث ہیں جن سے وہ اخروی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔
-
وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْےَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ ےَوْمِ الْقِےٰمَۃِ وَمَنْ ےَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ ےَسَّرَ اللّٰہُ عَلَےْہِ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِےْہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِےْقًا ےَّلْتَمِسُ فِےْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہٖ طَرِےْقًا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَےْتٍ مِّنْ بُےُوْتِ اللّٰہِ ےَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَےَتَدَارَسُوْنَہُ بَےْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَےْھِمُ السَّکِےْنَۃُ وَغَشِےَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلٰئِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِےْمَنْ عِنْدَہُ وَمَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہُ لَمْ ےُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ ۔ (مسلم)-
" اور حضر ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی دنیا کی سختیوں میں سے کسی مسلمان کی کوئی سختی اور تنگی دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہاں کی سختیاں اس سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندوں کی مدد کرتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد کرتا رہتا ہے اور جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کے راستہ کو آسان کر دیتا ہے اور جب کوئی جماعت اللہ کے گھر (مسجد یا مدرسہ) میں قرآن پڑھتی پڑھاتی ہے تو اس پر (اللہ کی جانب سے) تسکین نازل ہوتی ہے۔ رحمت خداوندی اس کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے اور فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ اس جماعت کا ذکر ان (فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں اور جس نے عمل میں تاخیر کی آخرت میں اس کا نسب کام نہیں آئے گا۔ " (صحیح مسلم) تشریح : اس حدیث سے اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی عظمت و برتری کا پتہ چلتا ہے ، اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعہ پوری انسانی براداری کے درمیان محبت و مروت، انسانی ہمدردی و رواداری، امدادومعاونت اور حسن سلوک کی اعلیٰ روح پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان اخلاق و محبت کی ایک کڑی میں منسلک ہو کر پورے امن و سکون اور چین و راحت کے ساتھ حقوق عبدیت ادا کر سکیں۔ چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم قیامت کے دن کی سختی سے بچنا چاہتے ہو تو تم اپنے بھائی کی خبر گیری کرو جو دنیا کی سختی میں پھنسا ہوا ہے، اگر اس پر کوئی سخت وقت آپڑا ہے تو اس کی مدد کرو۔ اگر وہ زندگی کی کسی الجھن میں پھنسا ہوا ہے تو اسے چھٹکارادلاؤ۔ اگر وہ مصائب و تکلیف میں مبتلا ہے تو ان کو اس سے دور کرو۔ اس لیے کہ حسن سلوک کا یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر تم آخرت کی سختیوں سے نہایت آسانی کے ساتھ گزر جاؤ گے۔ اعلان کیا جا رہا ہے کہ اگر تم دین و دنیا دونوں جگہ کی آسانیاں چاہتے ہو، اگر تم اس کے متمنی ہو کہ دنیا کی کامیابی و کامرانی تمہارے قدم چومے اور آخرت کی فلاح و سعادت تمہارے حصہ میں آئے تو اپنے اس بھائی کی مدد کرو جو تنگدست ہے۔ مفلسی و متلاشی کے جال میں پھنسا ہوا ہے، بے روزگاری و تباہ حالی کی چکی میں پس رہا ہے ، مثلاً اگر وہ مقروض ہے اور اللہ نے تمہیں وسعت دی ہے تو اس کا قرض ادا کردو۔ اگر کوئی خود تمہارا مقروض ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ قرض ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو تم اس کا قرض معاف کر دو، اگر کوئی انتہائی تباہ حال و پریشان ہے تو اس کی مدد کر کے تنگدستی سے اسے چھٹکار دلاؤ۔ اگر کوئی اپنی ناداری و مفلسی کی بناء پر اپنی کسی سخت ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا تو تم اس کی اس ضرورت کو پورا کردو اور پھر دیکھو اللہ کی رحمت کسی طرح بڑھ کر تمہیں اپنے دامن میں چھپاتی ہے ۔ دنیا کی عزت و عظمت تمہارے قدموں میں کھیلتی نظر آئے گی اور زندگی کی ہر آسانی تمہارے لیے مہیا ہوگی اور نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اللہ کی رحمت تمہارے ساتھ ہوگی، وہاں کی ہر سختی اور ہر آزمائش میں تمہارا ہی حسن سلوک مددگار و معاون ہوگا اور تم وہاں کے ہر امتحان میں کامیاب رہو گے۔ اسی طرح فرمایا گیا ہے کہ اگر تم دنیا و آخرت میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی چاہتے ہو تو تم دنیا میں اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرو۔ یعنی کسی کے عیب کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے اسے رسوا اور ذلیل نہ کرو۔ اگر کسی سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر کے اور برسر عام اچھال کے اسے شرمندہ نہ کرو کیونکہ یہ اللہ کا معاملہ ہے وہ اگر چاہے گا تو اسے دنیا ہی میں یا آخرت میں سزا دے دے گا ورنہ اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے گا۔ یا پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی ناداری و مفلسی کی بنا پر لباس کی نعمت سے محروم ہے اور اتنا تنگدست و غریب ہے کہ اپنے ستر کو بھی نہیں چھپا سکتا تو چاہئے کہ اپنے اس نادار بھائی کی ستر پوشی کرے اس لیے کہ جو اپنے بھائی کی ستر پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا میں اور قیامت میں اس کے عیوب اور گناہوں کی پردہ پوشی فرمائے گا اور آخر میں عمومی طور پر یہ کلیہ بتا دیا گیا ہے کہ جب تک کوئی بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور اللہ کی مخلوق کی خبر گیری میں مصروف رہتا ہے تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت رہتی ہے۔ حدیث میں طلب علم اور طالب علم کی فضیلت بھی ظاہر فرمائی جا رہی ہے، چنانچہ ارشاد ہے ہو رہا ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لیے اپنے وطن و شہر کو چھوڑ کر عزیز و اقا رب سے جدا ہو کر اور عیش و آرام پر لات مار کر حصول علم کے جذبہ سے باہر نکلتا ہے اور تلاش علم کے لیے راہ مسافرت پر گامزن ہوتا ہے تو رب قدوس اس کی ریاضت و مشقت اور جان کاہی وپر یشانی کی وجہ سے اس پر بہشت کی راہ آسان کر دیتا ہے یعنی طالب علم کی کوششوں کے صلہ میں اسے جنت میں داخل کیا جائے گا یا یہ کہ اسے خداوند کیجانب سے اس عظیم سعادت کی توفیق ہوگی کہ اس نے جس علم کی تلاش میں اتنی مصیبتوں اور پریشانیوں کو برادشت کیا اس پر وہ نیک عمل بھی کرے جو جنت میں داخل ہونے کا سبب اور باعث ہے۔ اسی طرح جو لوگ مساجد و مدارس میں حصول علم میں منہمکم ہوتے ہیں اور قرآن کے علوم و معارف سے استفادہ کرنے اور دوسروں کو پڑھانے میں مشغول ہوتے ہیں ان پر اللہ کی جانب سے بے پایاں رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ان پر اللہ کی جانب سے تسکین کا نزول ہوتا ہے یعنی طلب علم کے سلسلہ میں ان کے اندر خاطر جمعی اور دل بستگی ودیعت فرمائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے قلوب دنیا کے عیش و عشرت، راحت وآرام اور غیر اللہ کے خوف و ڈر سے پاک صاف ہو کر ہر وقت اللہ کی طرف لو لگائے رہتے ہیں اور ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل نور الہٰی کی مقدس روشنی سے جگمگا اٹھتے ہیں نیز فرشتے ان کی عزت و توقیر کرتے ہیں اور فرط عقیدت سے ان لوگوں کو گھیرے رہتے ہیں اور پھر رب قدوس اس مقدس جماعت کا تذکرہ جو درس و تدریس میں مشغول ہوتی ہے اپنے ان فرشتوں کے درمیان کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں یہ اس جماعت کی انتہائی عظمت و فضیلت کی دلیل ہے۔ آخر حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی کامیابی و کامرانی اور فلاح و سعادت کا درا و مدار عمل پر ہے۔ اگر دنیا میں عمل خیر میں کوتاہی نہیں تو آخرت میں عزت و عظمت کا حقدار ہوگا اور دنیا میں کسی نے عمل میں کوتاہی کی اگرچہ وہ دنیا میں کتنا ہی با اقبال و با عظمت کیوں نہ رہا ہو اور کتنا ہی بڑا حسب و نسب والا کیوں نہ ہو آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی اور وہاں دنیا کی عالی نسبی اور وجاہیت کچھ کام نہیں دے گی بندئہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست (یعنی اے جامی) جب تم اسیر عشق ہوگئے تو حسب و نسب کے چکر میں نہ پڑو کیونکہ اس راہ میں فلاں ابن فلاں کوئی چیز نہیں ہے۔
-
ووَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ ےُقْضٰی عَلَےْہِ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ رَجُلٌ اُسْتُشْھِدَ فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہ، نِعَمَہ، فَعَرَفَھَا فَقَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِےْھَا قَالَ قَاتَلْتُ فِےْکَ حَتَّی اسْتُشْھِدْتُّ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِاَنْ ےُّقَالَ جَرِیٌّ فَقَدْ قِےْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہٖ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَہُ وَقَرَءَ الْقُرْآنَ فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَھَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِےْھَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُہُ وَقَرَاْتُ فِےْکَ الْقُرْآنَ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِےُقَالَ اِنَّکَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِیُقَالَ ھُوَ قَارِیٌ فَقَدْ قِےْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہٖ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ وَّسَّعَ اللّٰہُ عَلَےْہِ وَاَعْطَاہُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّہٖ فَأُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَھَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِےْھَا قَالَ مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِےْلٍ تُحِبُّ اَنْ ےُّنْفَقَ فِےْھَا اِلَّا اَنْفَقْتُ فِےْھَا لَکَ قَالَ کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ فَعَلْتَ لِےُقَالَ ھُوَ جَوَّادٌ فَقَدْ قِےْلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہٖ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْھِہٖ ثُمَّ اُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ قیامت کے دن پہلا آدمی جس پر (خلوص نیت کو ترک کر دینے کا) حکم لگایا جائے گا وہ ہوگا جسے (دنیا میں) شہید کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ (میدان حشر میں) وہ پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنی (دی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا کام کیا؟ یعنی اللہ اسے اپنی نعمتیں جتا کر الزاماً فرمائے گا کہ تونے ان نعمتوں کے شکرانہ میں کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گا میں تیری راہ میں لڑا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے کیونکہ تو اس لیے لڑا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے چنانچہ تجھے (بہادر کہا گیا) اور تیرا اصل مقصد مخلوق سے حاصل ہوا اب مجھ سے کیا چاہتا ہے، پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل کھینچا جائے، یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر (دوسرا) وہ آدمی ہوگا جس نے علم حاصل کیا، دوسروں کو تعلیم دی اور قرآن کو پڑھا چنانچہ اسے بھی (اللہ کے حضور میں) لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو (اپنی عطا کی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی پھر اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا اور دوسروں کو سکھایا اور تیرے ہی لیے قرآن پڑھا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو علم محض اس لیے حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا تھا تاکہ تجھے لوگ قاری کہیں، چنانچہ تجھے (عالم و قاری) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر (تیسرا) وہ آدمی ہوگا جس کو اللہ نے (معیشت میں) وسعت دی اور ہر قسم کا مال عطا فرمایا۔ اس کو بھی اللہ کے حضور میں لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو (اپنی عطا کی ہوئی) نعمتیں یاد دلائے گا جو اسے یاد آجائیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے شکر میں کیا اعمال کئے ؟ وہ کہے گا میں نے کوئی ایسی راہ نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا ہو اور تیری خوشنودی کے لیے میں اس میں خرچ نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے خرچ اس لیے کیا تاکہ تجھے (سخی) کہا جائے اور تجھے (سخی) کہا گیا۔ پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے یہاں تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔" (صحیح مسلم) تشریح : اعمال میں نیت کا کیا درجہ ہے ؟ اور خلوص کی کتنی ضرورت ہے؟ اس حدیث سے بخوبی واضح ہوتا ہے بندہ کتنا بڑے سے بڑا عمل خیر کرے، بڑی سے بڑی نیکی کر ڈالے لیکن اگر اس کی نیت بخیر نہیں ہے تو اس کا وہ عمل اور نیکی کسی کام نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کو وہی عمل پسند ہے جس میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کی نیت ہو اور جذبہ اطاعت خلوص سے بھر پور ہو، ورنہ جو بھی عمل بغیر اخلاص اور بغیر نیت خیر کیا جائے گا چاہے وہ کتنا ہی عظیم عمل کیوں نہ ہو بارگاہ الوہیت سے ٹھکرا دیا جائے گا اور اس پر کوئی مفید نتیجہ مرتب نہیں ہوگا بلکہ الٹا اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کیا جائے گا جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔
-
وعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍورَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اللّٰہَ لَا ےَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا ےَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلٰکِنْ ےَّقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَآءِ حَتّٰی اِذَا لَمْ ےَبْقَ عَالِمًا اتَّخَذَالنَّاسُ رُءُ ْوسًا جُھَّالاً فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَےْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
-
وَعَنْ شَقِےْقٍ قَالَ کَانَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ص ےُّذَکِّرُ النَّاسَ فِیْ کُلِّ خَمِےْسٍ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ ےَا اَبَا عَبْدِالرَّحْمٰنِ ص لَوَدِدْتُّ اَنَّکَ ذَکَّرْتَنَا فِیْ کُلِّ ےَوْمٍ قَالَ اَمَا اِنَّہُ ےَمْنَعُنِیْ مِنْ ذَالِکَ اَنِّیْ اَکْرَہُ اَنْ اُمِلَّکُمْ وَاَنِّیْ اَتَخَوَّلُکُمْ بِالْمَوْعِظَۃِ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَخَوَّلُنَا بِھَا مَخَافَۃَ السَّامَۃِ عَلَےْنَا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت شقیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (شقیق ابن مسلمہ نام اور کنیت ابووائل ہے۔ آپ تابعی ہیں حجاج کے زمانہ میں وفات ہوئی بعض فرماتے ہیں کہ ٩٩ ھ میں وفات پائی ہے۔) راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جمعرات کے روز لوگوں کے سامنے وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے (ایک روز) ایک آدمی نے عرض کیا۔ اے ابوعبدالرحمن! میری خواہش ہے کہ آپ ہمارے درمیان روزانہ وعظ و نصیحت کیا کریں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے تم لوگ تنگ ہو جاؤ گے، میں نصیحت کے معاملہ میں تمہاری خبر گیری اس طرح کرتا ہوں جیسا کہ ہماری نصیحت کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبر گیری کیا کرتے تھے اور ہمارے اکتا جانے کا خیال رکھتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح : اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ وعظ و نصیحت اور تبلیغ کے معاملہ میں اعتدال سے کام لینا چاہئے۔ ہر وقت اور ہر موقعہ پر وعظ و نصیحت نہیں کرنی چاہئے اس لیے کہ اس سے لوگوں کے دل اچاٹ ہو جاتے ہیں اور وہ اکتا جاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی بات دل جمعی و سکون خاطر سے نہیں سنتے اس لیے ان پر کوئی اچھا اثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ، لعنت پھٹکار اور بد مزاجی و بد اخلاقی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے مخاطب کے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے جس سے بجائے اس کے کہ وہ اس کا کوئی نیک اثر قبول کرے اور زیادہ منحرف ہو جاتا ہے۔ جو نصیحت اپنے وقت پر اور نہایت اخلاق و متانت اور انتہائی محبت و شفقت سے کی جاتی ہے دراصل وہی مخاطب کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا بہترین ثمرہ مرتب ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَۃٍ اَعَادَھَا ثَلَاثًا حَتّٰی تُفْھَمَ عَنْہُ وَاِذَا اَتٰی عَلٰی قَوْمٍ سَلَّمَ عَلَےْھِمْ سَلَّمَ عَلَےْھِمْ ثَلٰثًا۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کہتے تو اس کو تین مرتبہ فرماتے یہاں تک کہ لوگ اسے اچھی طرح سمجھ لیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جماعت کے پاس آتے اور سلام کرنے کا ارادہ فرماتے تو تین مرتبہ سلام کرتے۔" (صحیح البخاری) تشریح : اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گفتگو کے موقع پر ایسا عمل اختیار فرماتے ہوں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بہت اہم بات فرماتے ہوں گے یا کسی خاص مسئلہ کی وضاحت مقصود ہوتی ہوگی، یا کوئی دینی حکم بیان کرنا ہوتا ہوگا اور یہ ارادہ ہوتا ہو کہ اس بات کو بطور خاص بیان کرنا ہے یا یہ خیال گزرتا ہو کہ لوگوں نے بات اچھی طرح سنی نہ ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ اعادہ فرماتے اور اس بات کو بار بار کہتے تاکہ لوگ خوب سن لیں اور اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایسے ہی تین مرتبہ سلام اس طرح کرتے تھے کہ ایک سلام تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کرتے تھے جب مکان میں اندر جانے کی اجازت طلب فرماتے تھے، دوسرا سلام تحیہ کرتے تھے (یہ سلام ملاقات کے وقت کیا جاتا ہے) اور تیسرا سلام رخصت کے وقت کرتے تھے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِ الْاَنْصَارِیِّ صقَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّہُ اُبْدِعَ بِیْ فَاحْمِلْنِیْ فَقَالَ مَا عِنْدِیْ فَقَالَ رَجُلٌ ےَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَا اَدُلُّہُ عَلٰی مَنْ ےَّحْمِلُہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ دَلَّ عَلٰی خَےْرٍ فَلَہُ مِثْلُ اَجْرِ فَاعِلِہٖ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابومسعود انصاری ) آپ کا اسم گرامی عقبہ عبداللہ ابن عمرہ ہے مگر یہ بھی کنیت ابومسعود انصاری سے مشہور ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کے زمانہ خلافت میں انتقال ہوا ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ان کی وفات ٤١ھ یا ٤٢ھ میں ہوئی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ (راوی ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور عرض کیا کہ میری سواری چلنے سے عاجز ہوگئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سواری عنایت فرمادیجئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے ( کہ تمہیں دے دوں) ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اسے ایسا آدمی بتلاتا ہوں جو اسے سواری دے دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی کسی بھلائی کی طرف راہ نمائی کرے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس بھلائی پر عمل کرنے والے کو۔" (صحیح مسلم)
-
وَعَنْ جَرِیرٍ قَالَ کُنَّا فِی صَدْرِ النَّھَارِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَآءَ ہُ قَوْمٌ عُرَاۃٌ مُّجْتَابِیْ النِّمَارِ اَوِ الْعَبَآءِ مُتَقَلِّدِی السُّےُوْفِ عَآمَّتُھُمْ مِّنْ مُّضَرَ بَلْ کُلُّھُمْ مِّنْ مُّضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلملِمَا رَاٰی بِھِمْ مِّنَ الْفَاقَۃِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَاَمَرَ بِلَالًا فَاَذَّنَ وَاَقَامَ فَصَلّٰی ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ ''ےَا اَےُّھَا النَّاسُ'' اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِلٰی اٰخِرِ الْاٰےَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَےْکُمْ رَقِےْبًا''(النساء : پ٤ ع١٢) وَّالْاٰےَۃَ الَّتِیْ فِی الْحَشْرِ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ''(الحشر :پ٢٨ ع ٦) تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِّنْ دِےْنَارِہٖ مِنْ دِرْھَمِہٖ مِنْ ثَوْبِہٖ مِنْ صَاعِ بُرِّہٖ مِنْ صَاعٍ تَمْرِہٖ حَتّٰی قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِّنَ الأَنْصَارِ بِصُرَّۃٍ کَادَتْ کَفُّہُ تَعْجِزُ عَنْھَابَلْ قَدْ عَجَزَتْ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتّٰی رَأَ ےْتُ کَوْمَےْنِ مِنْ طَعَامٍ وَّثِےَابٍ حَتّٰی رَاَےْتُ وَجْہَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَتَھَلَّلُ کَاَنَّہُ مُذْھَبَۃٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ ےُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَےِّئَۃً کَانَ عَلَےْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ ےُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیئٌ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کا اسم گرامی جریر بن عبداللہ ہے اور کنیت ابوعمرو یا ابوعبداللہ ہے قبیلہ بحیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس دن قبل اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے اور مقام قرئیسیا میں ٥١ھ یا ٥٤ھ میں وفات پائی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) راوی ہیں کہ (ایک روز) ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی جو ننگے بدن تھی اور عبایا کمبل لپیٹے ہوئے تھی اور گلے میں تلواریں لٹکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے اکثر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان پر فاقہ کا اثر دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے لیے کھانے کی تلاش میں) گھر تشریف لے گئے اور (جب گھر میں کچھ نہ ملا) تو واپس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اذان کہنے کا ) حکم دیا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی اور تکبیر پڑھی اور جمعہ کی یا ظہر کی نماز پڑھی گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور یہ آیت پڑھی آیت (يٰ اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ) 4۔ النساء : 1) ترجمہ!" اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم ) سے پیدا کیا ہے۔" پوری آیت تلاوت کی جس کا آخری حصہ یہ ہے۔ " البتہ اللہ تعالیٰ تمہارا نگہبان ہے۔" اور پھر یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی جو سورۂ حشر میں ہے آیت (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) 59۔ الحشر : 18) ترجمہ! " (اے ایمان والو!) اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر آدمی دیکھ بھال لے کہ کل (قیامت کے واسطے اس نے کیا ذخیرہ بھیجا ہے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔ " خیرات کرے آدمی اپنے دینار میں سے، اپنے درہم میں سے، اپنے کپڑے میں سے، اپنے گہیوں کے پیمانے میں سے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خیرات کرے اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ راوی فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی دینار یا در ہم سے بھری ہوئی ایک تھیلی لایا جس کے وزن سے اس کا ہاتھ تھکنے کے قریب تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر لوگوں نے پے در پے چیزوں کا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ میں نے دو تو لے غلّہ اور کپڑے کے (جمع شدہ) دیکھے پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس (خوشی کی وجہ سے ) کندن کی طرح چمک رہا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔" (صحیح مسلم) تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلی آیت تلاوت فرمائی وہ سورۂ نساء میں ہے، اس آیت میں خیرات کرنے اور قرابت داروں سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خیرات کرنے اور آنے والی جماعت کی امداد و اعانت پر ترغیب دلائی۔ شروع حدیث میں راوی کا بیان ہے کہ آنے والی جماعت کمبل یا عبا لپٹے ہوئے تھی۔ راوی کا اشتباہ ہے کہ یا تو حدیث میں لفظ النمار ہے یا العباء ہے۔ بہر حال دونوں کمبل کی قسمیں ہیں اور دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا اِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ الْاَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِاَنَّہُ اَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) صحیح البخاری و صحیح مسلم وسنذ کر حدیث معادیۃ لایزال طائفۃ من امتی فی باب ثواب حذہ الامۃ ان شاء اﷲ تعالی۔-
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی ظلم کے طریقہ پر قتل کیا جاتا ہے تو اس کے خون کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر ہوتا ہے اس لیے کہ وہ پہلا آدمی ہے جس نے قتل کا طریقہ نکالا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جس کی ابتداء یہ ہے " لا یزال امتی " ہم انشاء اللہ " باب ثواب حذہ الامۃ" میں بیان کریں گے۔" تشریح : انسانی ظلم و ستم کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے قابیل کی زندگی سے شروع ہوتی ہے جس نے اپنی ایک انتہائی معمولی نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور انسانی تاریخ کا یہ سب سے پہلا خونی واقعہ تھا جس نے ناحق خون بہانے کی بنیاد ڈالی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ جب کوئی نیک طریقہ رائج کرتا ہے تو اسے اس نیک کام کا ثواب بھی ملتا ہے، اسی طرح برا طریقہ رائج کرنے والے کو خود اس عمل کا اور اس طریقہ پر عمل کرنے والے کا بھی گناہ ملتا ہے۔ اسی لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی کوئی آدمی ظلم کے طریقہ پر قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے خون کا ایک حصہ قابیل پر بھی ہوتا ہے اس لیے کہ ناحق خون بہانے اور ظلم و ستم کے ساتھ قتل کا اول موجد وہی ہے۔
-
عَنْ کَثِیْرِ بْنِ قَیْسِ قَالَ: کُنْتُ جَالِسًا مَعَ اَبِی الدَّرْدَاءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا اٰبَا الدَّرْدَاءِ اِنِّی جِئْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ صلی اللہ علیہ وسلم (لِحَدِیْثِ بَلَغَنِیْ اَنَّکَ تُحَدِّثَہ، عَنَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم) مَا جِئْتُ لِحَاجَۃِ قَالَ فَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہٖ عِلْمًا سَلَکَ اﷲُ بِہٖ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَتَضَعُ اَجْنِحَتَھَا رِضْیً لِّطَالِبِ الْعِلْمِ وَاِنَّ الْعَالِمِ لِیَسْتَغْفِرْ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الْحِیْتَانُ فِی جَوْفِ الْمَآءِ وَاِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَآئِرِ الْکَوَاکِبِ وَاِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَہُ الْاَنْبِیَاءَ وَاِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارَاوَّلَا دِرْھَمًا وَاِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ فَمَنْ اَخَذُہ، اَخَذَ بِحَظِّ وَّافِرِرَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِّیُ وَاَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَادَّرِامِیُّ وَسَمَّاہُ التِّرْمِذِیُّ قَیْسَ بْنَ کَثِیْرً۔-
" حضرت کثیر ابن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک صحابی) حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دمشق (شام) کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے آپ کے پاس ایک حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں ۔ آپ کے پاس میرے آنے کی اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں ہے ( یہ سن کر) حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ جو آدمی کسی راستہ کو (خواہ لمبا ہو یا مختصر) علم دین حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بہشت کے راستہ پر چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لیے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے ہر وہ چیز جو آسمانوں کے اندر ہے (یعنی فرشتے) اور جو زمین کے اوپر ہے (یعنی جن وانس) اور مچھلیاں جو پانی کے اندر ہیں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت ہے جیسے کہ چودہویں کا چاند تمام ستاروں پر فضیلت رکھتا ہے اور عالم انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ انیباء وراثت میں دینار و در ہم نہیں چھوڑ گئے ہیں، ان کا ورثہ علم ہے لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے کامل حصہ پایا۔ مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، درامی اور جامع ترمذی نے راوی کا نام قیس ابن کثیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر کیا ہے (لیکن صحیح کثیر بن قیس ہی ہے جیسا کہ صاحب مشکوۃ نے نقل کیا ہے۔" تشریح : صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آنے والے کی علمی طلب اور حصول دین کے حقیقی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے آتے ہی سب سے پہلے یہی کیا تھا کہ آپ کے پاس آنے سے میری غرض کوئی دینوی منفعت یا محض ملاقات نہیں ہے بلکہ میں تو علم دین کے حصول کا حقیقی اور پر خلوص جذبہ لے کر آیا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ کی زبان سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حدیث سن کر اپنے قلب و دماغ کو علوم نبوی کی ایک روشنی سے منور کروں۔ ہو سکتا ہے کہ طالب مذکور نے جس حدیث کے سننے کی طلب کی تھی وہ حدیث انھوں نے اجمالی طور پر سنی ہو اب ان کی خواہش یہ تھی کہ اس کو تفصیلی طور پر سن لیں یا یہ کہ وہ حدیث انہوں نے تفصیل کے ساتھ ہی (کسی دوسرے سے) سن رکھی ہو مگر اس جذبہ کے ساتھ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ حدیث کو بلا واسطہ صحابی سے سنیں۔ ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سائل کے جواب میں جو حدیث بیان فرمائی ہو سکتا ہے کہ وہ یہی حدیث ہو اور یہی حدیث اس کا مطلوب ہو، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حدیث جو یہاں نقل کی گئی ہے وہ طالب کا مطلوب نہ ہو بلکہ چونکہ طالب نہایت مشقّت وپریشانی برداشت کر کے اور دور دراز کا سفر طے کر کے طلب علم اور حصول حدیث کی خاطر آیا تھا۔ اس لیے اس کی سعادت و خوش بختی کے اظہار کے طور پر اس کا ثواب بیان کیا اور اس کی مطلوبہ حدیث انھوں نے بیان کی وہ چونکہ اس باب کے مناسب نہیں تھی اس لیے مصنف کتاب نے اسے یہاں نقل نہیں کیا۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب طالب علم، علم کی خاطر اپنے گھر سے نکلتا ہے اور راہ مسافرت اختیار کرتا ہے تو فرشتے اس کی رضا مندی کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اس کی تشریح میں کہا جاتا ہے کہ یا تو واقعی طالب علم کے شرف و عزت کی خاطر فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں یا پھر طالب علم کی عظمت اور اس کی طرف رحمت خداوندی کے نزول کے لئے یہ کنا یہ ہے۔ نیز فرمایا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کی جتنی بھی مخلوق ہے سب کی سب عالم کی مغفرت کے لیے دعا کرتی ہے۔ اس کے بعد پھر صراحت کی گئی کہ پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں بھی اس کے لیے استغفار کرتی ہیں ظاہر ہے کہ زمین کی مخلوق میں مچھلیاں بھی شامل ہیں ان کا بظاہر الگ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی مگر اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس سے دراصل عالم کی انتہائی فضیلت و عظمت کا اظہار مقصود ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ پانی کا برسنا جو رحمت خداوندی کی نشانی اور نعمت الہٰی کی علامت ہے اور دنیا کی اکثر آسانیاں و راحتیں جو اسی سے حاصل ہوتی ہیں اور تمام خیر و بھلائی جو اس کے علاوہ ہیں سب کی سب عالم ہی کی برکت سے ہیں یہاں تک کہ مچھلیوں کا پانی کے اندر زندہ رہنا جو خود قدرت خداوندی کی ایک نشانی ہے، علماء ہی کی برکت کی بنا پر ہے۔ اس حدیث میں عالم اور عابد کے فرق کو بھی ظاہر کرتے ہوئے عابد پر عالم کو فوقیت اور برتری دی گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم کا فائدہ متعدی ہے یعنی اس کا فیضان صرف اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہے اسی لیے عالم اور عابد کو چاند ستاروں سے مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح چودہویں کا چاند جب اپنی پوری تابانی اور جلوہ ریزی کے ساتھ آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو دنیا کی تمام مخلوق اس سے مسینر ہوتی ہے اور اس کی روشنی تمام جگہ پہنچتی ہے جس سے دنیا فائدہ اٹھاتی ہے مگر ستارہ خود اپنی جگہ تو روشن و منور ہوتا ہے مگر اس کا فیضان اتنا عام نہیں ہوتا کہ اس کی روشنی تمام جگہ پھیل سکے اور سب کو فائدہ پہنچا سکے۔ اگر کوئی یہ اشکال کر بیٹھے کہ عالم اور عابد میں کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ اگر کوئی عالم محض علم پر بھروسہ کر بیٹھے اور علم پر نہ عمل کرے تو ظاہر ہے کہ اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اسی طرح عابد بغیر علم کے عابد نہیں ہو سکتا کیونکہ عبادت کی حقیقی اور اصل روح علم ہی میں پوشیدہ ہے اس لیے عبادت بغیر علم کے صحیح طور پر ادا نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جو عالم بالکل با عمل ہوگا وہی عابد بھی ہوگا اور جو عابد ہوگا وہی عالم با عمل بھی ہوگا۔ اس لیے دونوں میں فرق کیا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عالم سے مراد وہ آدمی ہے جو تحصیل علم کے بعد عبادات ضرور یہ مثلاً فرائض واجبات اور سنن و مستحبات پر اکتفا کر کے اپنے اوقات کا بقیہ حصہ درس و تدریس میں مشغول رکھتا ہے یعنی اس کا کام درس و تدریس، دعوت و تبلیغ اور دین کی ترویج و اشاعت ہوتا ہے۔ اور عابد سے مراد وہ آدمی ہے جو تحصیل علم کے بعد اپنی زندگی کا تمام حصہ صرف عبادت ہی عبادت میں صرف کرتا ہے، نہ اسے علم کی اشاعت سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ تعلیم و تعلم اس کا مقصد ہوتا ہے بلکہ وہ ہمہ وقت عبادت ہی میں مشغول رہتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر علم کی اشاعت اور تعلیم و تعلم کی فضیلت کا گہرا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ عمل افادیت کے اعتبار سے سب سے بلند مقام رکھتا ہے اور جو ہر حال میں عبادت پر افضل ہے جیسا کہ اکثر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ عالم اور عابد میں اس اعتبار سے فرق ہے اور عابد پر عالم کو فوقیت حاصل ہے۔ شرح السنتہ میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول منقول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں آج طالب علم سے افضل کوئی دوسری چیز نہیں جانتا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ کیا لوگوں کے خلوص نیت میں فضیلت نہیں ہے۔ انھوں نے فرمایا طلب علم خود نیت کا سبب ہے یعنی نیت اس سے اپنے آپ ہی سنور جاتی ہے۔ چنانچہ بعض علماء کا قول نقل کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا ہم نے علم غیر اللہ کے لیے حاصل کیا مگر بعد میں وہ اللہ ہی کے لیے ہوگیا، یعنی ہماری نیت پہلے مخلص اور صاف نہیں تھی مگر جب طلب علم کا حقیقی جذبہ پیدا ہوا اور علم کی روشنی نے قلب کو منور کیا تو نیت مخلص اور صحیح ہوگئی۔ علم کی فضیلت کا اس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں علم کا طلب کرنا نماز نفل سے افضل ہے کیونکہ وہ علم جسے طلب کیا جارہا ہے یا تو وہ فرض عین ہوگا یا فرض ہوگا یا فرض کفایہ ہوگا اور ظاہر ہے یہ دونوں نفل سے بہر حال افضل ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِی اُمَامَۃَ الْبَاھِلِیِّ قَالَ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلَانِ: اَحَدُھُمَا عَابِدٌ وَالْاٰخَرُ عَالِمً فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَا کُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہ، وَاَھْلَ الْسَمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ حَتّٰی الَّنْمَلَۃَ فِی جُحْرِھَا وَحَتّٰی الْحَوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلَی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہَ الدَّرِامِیُّ عَنْ مَکْحُوْلِ مُرْسَلًا وَلَمْ یَذْکُرْ رَجُلَانِ وَقَالَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِی عَلٰی اَدْنَا کُمْ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہٖ الْاٰیَۃَ (اِنَّمَا یَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ) وَسَرَدَ الْحَدِیْثَ اِلٰی اٰخِرِہٖ۔ (جامع ترمذی)-
" اور حضرت ابی امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جس میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم (یعنی آپ سے پوچھا گیا کہ ان دونوں میں افضل کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عالم کو عابد پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی کہ میری فضیلت اس آدمی پر جو تم میں سے ادنیٰ درجہ کا ہو۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور آسمانوں و زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں اس آدمی کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی (یعنی علم دین) سکھاتا ہے جامع ترمذی اور دارمی نے اس روایت کو مکحول سے مرسل طریقہ پر نقل کیا ہے جس میں لفظ رجلان کا ذکر نہیں ہے اور کہا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت ہے جیسی مجھے تمہارے میں سے ادنیٰ آدمی پر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی آیت ( اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰ ؤُا) 35۔فاطر : 28) ترجمہ : ' اللہ کے بندوں میں علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔" اور پھر پوری حدیث آخرتک اسی طرح بیان کی ہے۔" تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عالم کو بہت زیادہ عظمت و فضیلت حاصل ہوتی ہے اور اسے عابد پر فوقیت اور برتری حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عابد اور عالم دونوں میں یہ فرق ظاہر کیا ہے کہ جس طرح میں تم میں سے اس آدمی پر فضیلت رکھتا ہوں جو تم میں سے سب سے ادنیٰ درجہ کا ہو اسی طرح ایک عالم بھی عابد پر فضیلت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ادنیٰ آدمی پر جو فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح اب اس کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایک عالم کو عابد پر فضیلت کس مرتبہ اور درجہ کی ہوگی۔ آخر حدیث میں کہا گیا ہے کہ اسی حدیث کو دارمی نے مکحول سے طریق مرسل نقل کیا ہے اور اس میں اس حدیث کے ابتدائی الفاظ رجلان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے یعنی ان کی روایت میں یہ الفاظ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جس میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم بلکہ ان کی روایت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتی ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ النَّاسَ لَکُمْ تَبَعٌ وَاِنَّ رِجَالًا یَا تُوْ نَکُمْ مِنْ اَقْطَارِ الْاَرْضِ یَتَفَقَّھُوْنَ فِی الدِّیْنِ فَاِذَا اَتَوْ کُمْ فَاسْتَوْ صَوْابِھِمْ خَیْرًا۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ لوگ تمہارے (یعنی صحابہ کرام کے ) تابع ہیں اور بہت سے لوگ علم دین سمجھنے اطراف عالم سے تمہارے پاس آئیں گے ۔ لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا۔ " (جامع ترمذی) تشریح : اس ارشاد کا مقصد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ بتانا ہے کہ میرے بعد چونکہ تمہاری ہی ذات دنیا کے لیے راہ بر و راہنما ہوگی اور تم ہی لوگوں کے پیشوا و امام بنوگے اس لیے تمام دنیا کے لوگ تمہارے پاس علم دین طلب کرنے اور میری احادیث حاصل کرنے آئیں گے۔ لہٰذا تمہیں چاہئے کہ وہ آئیں تو تم ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو، ان کی نگہداشت اور تربیت میں کوتاہی نہ کرو، اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرو، نیز ان کے قلوب کو علم دین کی اس مقدس روشنی سے جس سے تمہارے قلوب براہ راست فیضیاب ہو چکے ہیں منوّر کرو۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْحَکِیْمِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَا حَقُّ بِھَا رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ وَاِبْرَاھِیْمُ بْنُ الْفَضْلِ الرَّاوِی یُضَعَّفَ فَی الْحَدِیْثِ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ (دین میں) فائدہ دینے والی بات دانش مند آدمی کا مطلوب ہے لہٰذا وہ جہاں اسے پائے اس کا مستحق ہے۔ اور جامع ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس حدیث میں ایک راوی ابراہیم ابن فضل ہیں جو کو (روایت حدیث میں) ضعیف خیال کیا جاتا ہے۔ " (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ) تشریح : یہ حدیث دانشمندی اور صاحبِ فہم انسان کو یہ احساس و شعور بخش رہی ہے کہ جب کسی سے دین کی کوئی فائدہ مند بات سنی جائے تو عقل کا یہ تقاضہ ہونا چاہئے کہ فوراً اسے قبول کر کے اس پر عمل کیا جائے اس لیے کہ عقل و خرد کا یہی تقاضا انسان کی معراج کا ضامن ہوتا ہے۔ یہ انتہائی بے وقوفی اور کم ظرفی کی بات ہے کہ اگر کوئی مفید اور بہتر بات کسی ایسے آدمی سے سنی جائے جو اپنے سے کمتر و کم رتبہ ہو تو اس کو اس لیے ناقابل اعتناء اور ناقابل عمل قرار دے دیا جائے کہ وہ بڑی بات اور چھوٹا منہ ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی اس بہتر و حق بات کو تو قابل قبول عمل جانے جو حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے صاحب عقل و تقدس ہستی سے منقول ہو۔ مگر جب وہی بات اپنی کسی کنیز اور لونڈی سے سنے تو اسے ناقابل اعتناء سمجھے تو وہ آدمی مغرور و متکبر کہلائے گا۔ مرد باید کہ گیرد اندر گوش گرنوشت ست پند بردیوار
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدِ۔(راوہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ایک فقیہ (یعنی عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔" (جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ) تشریح : مقابلہ کا یہ مسلم اصول ہے کہ کامیابی اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے مد مقابل کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہو اور اس کا توڑ جانتا ہو۔ چنانچہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ مقابلہ کے اکھاڑہ میں وہ آدمی جو اپنے ظاہری قویٰ اور جسم کے اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اپنے اس مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے جو جسم و بدن کے اعتبار سے اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ جب مقابلہ میں آتا ہے تو اس کا دماغ بنیادی طور پر مقابل کے ہر وار سے بچاؤ کی شکل اور اس کے ہر داؤ کا جواب اپنے خزانہ میں رکھتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابی اسی ہی سے ہوتی ہے۔ دنیا میں باطنی طور پر انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے جو اپنے مکر و فریب کی طاقت سے لوگوں کو گمراہی کی وادی میں پھینکتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے مکر و فریب سے واقف نہیں ہوتے اور اس کی طاقت و قوت کا جواب نہیں رکھتے وہ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر ایسے لوگ جو اس کے ہر داؤ کا جواب رکھتے ہیں اور اس کی طاقت و قوت کی شہ رگ پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود اس کی گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہی عالم ہوتے ہیں جن کے قلب و دماغ نور الہٰی کی مقدس روشنی سے منوّر اور ان کے ذہن و فکر علم و معرفت کی طاقت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس حدیث میں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عابد جتنی طاقت رکھتے ہیں اتنی طاقت تنہا ایک عالم کے پاس ہوتی ہے کیونکہ جب شیطان لوگوں پر اپنے مکر و فریب کا جال ڈالتا ہے اور انھیں خواہشات نفسانی میں پھنسا کر گمراہی کے راستہ پر لگا دینا چاہتا ہے تو عالم اس کی چال سمجھ لیتا ہے چنانچہ وہ لوگوں پر شیطان کی گمراہی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی تدابیر انھیں بتا دیتا ہے جن پر عمل کرنے سے وہ شیطان کے ہر حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے وہ عابد جو صرف عبادت ہی عبادت کرنا جانتا ہے اور علم و معرفت سے کو سوں دور ہوتا ہے وہ تو محض اپنی ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہتا ہے اسے یہ خبر بھی نہیں ہونے پاتی کہ شیطان کس چور دروازے سے اس کی عبادت میں خلل ڈال رہا ہے اور اس کی تمام سعی و کوشش کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے، مگر لا علم ہونے کی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اس لیے نہ وہ خود شیطان کی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے اور نہ وہ دوسروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
-
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمِ وَمُسْلِمَۃِ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غَیْرِ اَھْلِہٖ کَمُقَلِّدِ الْخَنَازِیْرِ الْجَوْھَرَوَاللُّؤْلُؤْوَالذَّھَبَ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی الْبَیْھَقِیُّ فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ اِلٰی قَوْلِہٖ مُسْلِمِ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ مَتْنُہ، مَشْھُوْرٌوَاِسْنَادُہ، ضَعِیْفٌ وَقَدْرُوِیَ مِنْ اَوْجُہِ کُلُّھَا ضَعِیْفٌ۔-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور نا اہل کو علم سیکھانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی سور کے گلے میں جواہرات، موتیوں اور سونے کا ہار ڈال دے۔ (ابن ماجہ) اور بیہقی نے اس روایت کو شعب الایمان میں لفظ " مسلم" تک نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے اور اسناد ضعیف ہیں اور یہ حدیث مختلف طریقوں سے بیان کی گی ہے اور وہ سب ضعیف ہیں ۔" (ابن ماجہ) تشریح : اس حدیث سے علم کی اہمیت و عظمت اور اس کی ضرورت واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے علم کا حاصل کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ انسان جس مقصد کے لیے خلیفۃ اللہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ بغیر علم کے پورا نہیں ہو سکتا۔ انسان بغیر علم کے نہ اللہ کی ذات کو پہچانتا ہے اور نہ اسے اپنی حقیقت کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں علم سے مراد " علم دین" ہے جس کی ضرورت زندگی کے ہر دور اور ہر شعبہ میں پڑتی ہے ، مثلاً جب آدمی مسلمان ہوتا ہے یا احساس و شعور کی منزل کو پہنچتا ہے تو اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے اور عرفان الہٰی کی مقدس روشنی سے قلب و دماغ کی ہر ظلمت و کجروی کو ختم کرے۔ اسی طرح رسول کی نبوت و رسالت کا جاننا یا ایسی چیزوں کا علم حاصل کرنا جن پر ایمان و اسلام کی بنیاد ہے اس کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پھر جب عملی زندگی سے اسے واسطہ پڑتا ہے تو اسے ضرورت ہوتی ہے کہ اعمال کے احکام کا علم ہو۔ یعنی جب نماز کا وقت آئے گا تو اس پر نماز کے احکام و مسائل سیکھنا واجب ہوگا۔ جب رمضان آئے گا تو روزے کے احکام معلوم کرنا اس کے لیے ضروری ہوگا۔ اگر اللہ نے اسے مالی وسعت دی ہے اور صاحب نصاب ہے تو زکوۃ کے مسائل جاننا ضروری ہوگا۔ جب شادی کی تو بیوی کو گھر میں لایا تو حیض و نفاس کے مسائل طلاق وغیرہ اور ایسی چیزیں جن کا تعلق میاں بیوی کی باہمی زندگی اور ان کے تعلقات سے ہے ان کا علم حاصل کرنا واجب ہوگا۔ اسی طرح تجارت و زراعت اور خرید و فروحت کے احکام و مسائل سیکھنا بھی واجب ہوگا گویا زندگی کا کوئی شعبہ ہو خواہ اعتقادات ہوں یا عبادات، معاملات ہوں یا تعلقات، تمام چیزوں کی بصیرت حاصل کرنا اور ان کو جاننا سیکھنا اس پر فرض ہوگا، اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اس کی وجہ سے وہ ہر جگہ حدود شریعت سے تجاوز کرتا رہے گا اور دینی احکام و مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر اس کا ہر فعل و عمل خلاف شریعت ہوگا جس کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں علم سے مراد علم اخلاص اور آفات نفس کی معرفت ہے۔ یعنی ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نفس کی تمام برائیوں مثلاً حسد، بغض، کینہ اور کدورت کو پہچانیں اور ان چیزوں کا علم حاصل کریں جو اعمال خیر کو فاسد کرتی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کی مقدس روشنی تو انھیں کے نصیب میں ہوتی ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیت طبع کا میلان اس طرف ہوتا ہے نیز جس کی جتنی استعداد و صلاحیت ہوتی ہے اسے علم سے اتنا ہی حصہ ملتا ہے ۔ لہٰذا علم سکھانے میں اس بات کا خیال بطور خاص رکھنا چاہئے کہ جس کی جتنی استعداد ہو اور وہ جس معیار کی صلاحیت رکھتا ہو اسی اعتبار سے اسے علم سکھایا جائے۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ کسی آدمی کی استعداد و صلاحیت تو انتہائی کم درجہ کی ہے مگر علم اسے انتہائی اعلیٰ و ارفع سکھایا جا رہا ہو اسی طرح ہر علم کے سکھانے کا موقع و محل ہوتا ہے۔ جو علم جس موقع پر ضروری ہو اور جس علم کا جو محل ہو اس کے مطابق سکھایا جائے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی عوام اور جہلاء کے سامنے یکبارگی تصوف کے اسرار و معانی اور اس کی باریکیاں بیان کرنے لگے تو انھیں اس سے فائدہ ہونا تو الگ رہا اور زیادہ گمراہ ہو جائیں گے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِی مُنَافِقِ حُسْنُ سَمْتِ وَلَا فِقْہٌ فِی الدِّیْنِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دو خصلتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں۔ ایک تو خلق نیک دوسری دینی سمجھ۔" (جامع ترمذی) تشریح : اس حدیث میں اس بات کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ یہ دو وصف چونکہ ایسے ہیں جو مخلص مومن ہی کا حصہ ہیں اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ دونوں خصلتوں کو اپنے اندر پیدا کر لے یعنی نیک عادتیں، اچھے اخلاق اور بہترین اوصاف کے جوہر اپنے اندر سموئے اور علم حاصل کر کے دینی سمجھ پیدا کرے۔ علامہ تور بشتی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تفقہ فی الدّین یعنی دینی سمجھ کی حقیقت یہ ہے کہ دل میں دین کی معرفت جاگزیں ہو پھر زبان سے اس کا اظہار ہو اور اس کے مطابق عمل کرے جس کے سبب سے خوفِ خدا اور تقویٰ حاصل ہو۔
-
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَرَجَ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ فَھُوَفِی سَبِیْلِ اﷲِ حَتّٰی یَرْجِعَ۔ (رواہ الجامع ترمذی والدارمی)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے نکلا تو وہ جب تک کہ (گھر) واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔" (جامع ترمذی، درامی) تشریح : اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنے عزیز و اقا رب کو چھوڑ کر ماں باپ کی محبت و شفقت سے منہ پھیر کر اور اپنے گھر بار کی تمام راحتیں ترک کر کے علم دین حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن و شہر سے نکلتا ہے خواہ وہ علم فرض عین ہو یا فرض کفایہ یعنی ضرورت و حاجت سے زیادہ، تو وہ طالب علم مجاہد فی سبیل اللہ کے مرتبہ کا ہوتا ہے جو ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو ہوتا ہے وہی ثواب اس طالب کو بھی ملتا ہے، اس لیے کہ جس طرح ایک مجاہد سر پر کفن باندھ کر محض اس جذبہ سے میدان جنگ میں پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے دین کو سر بلند کرے اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا کرے اسی طرح طالب علم محض اس مقصد کے لیے علم دین حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے تاکہ وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو ختم کر کے اور کسر نفسی اختیار کر کے علم الہٰی کی مقدس روشنی سے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کردے، اللہ کے دین کو تمام عالم میں پھیلائے اور شیطان کے مکر و فریب سے لوگوں کو محفوظ رکھ کر شیطان کو ذلیل و خوار کرے۔ لہٰذا یہ جب تک علم حاصل کر کے اپنے گھر واپس نہیں آجاتا برابر میدان جِہاد کا ثواب حاصل کرتا رہتا ہے۔ پھر اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جب طالب علم حصول علم سے فارغ ہو کر اپنے گھر واپس آجاتا ہے تو اس سے بھی زیادہ مرتبہ اور درجہ پاتا ہے کیونکہ جب وہ تعلیم کو مکمل کر کے لوٹتا ہے تو دنیا میں علم و معرفت کی روشنی پھیلانے، لوگوں کو تعلیم دینے اور انسانی زندگی کو علم و عمل سے کامل کرنے کے لیے ایک مصلح اور معلم کی حیثیت میں آتا ہے جس کی وجہ سے وہ وارث انبیاء کے معزز و مقدّس لقب سے نوازا جاتا ہے۔
-
وَعَنْ سَخْبَرَۃَ الازْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کَفَّارَۃً لِّمَا مَضَی رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَالدَّرِامِیُّ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ ضَعِیْفُ الْاِسْنَادِ وَ اَبُوْدَ اؤدَ الرَّاوِیُّ یُضَعَّفُ۔-
" اور حضرت سنجرہ ازدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی سنجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کنیت ابوعبداللہ ہے آپ ازدی ہیں بعض اسدی بتاتے ہیں) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی علم طلب کرتا ہے تو وہ اس کے گزرے ہوئے (صغیرہ) گناہوں کے لیے کفارہ ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کے ایک راوی ابوداؤد (روایت حدیث میں) ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔"
-
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَنْ یَّشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَیْرِ یَّسْمَعَہُ حَتّٰی یَکُوْنَ مُنْتَھَاہُ الْجَنَّۃَ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مومن بھلائی (یعنی علم) سے سیر نہیں ہوتا وہ اس کو سنتا (یعنی حاصل کرتا) ہے یہاں تک کہ اس کی انتہا جنت ہوتی ہے۔" (جامع ترمذی ) تشریح : طلب علم، ایمان کا خاصہ ہے چونکہ ایمان نور ہی نور ہے اس لیے وہ علم کو جو نور الہٰی ہے پوری طرح سے اپنے اندر جذب کر لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے فرمایا جا رہا ہے کہ جب انسان کا قلب و دماغ ایمان کی روشنی سے منوّر ہو جاتا ہے تو وہ علم و معرفت کے نور سے انسانی معراج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جانا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مومن کا پیٹ علم سے کبھی نہیں بھرتا وہ جوں جوں علم کی بلندیوں پر پہنچتا رہتا ہے اس کی خواہش و تمنا یہی رہتی ہے کہ وہ اس منزل کی آخری حدود تک پہنچ جائے اگرچہ علم کا میدان چونکہ اتنا وسیع ہے کہ اگر انسان اپنی بڑی سے بڑی زندگی کے ساتھ بھی ایک لمحہ گزارے بغیر اس میں دوڑتا رہے تو وہ اس کی انتہائی حدود کو نہیں پہنچ سکتا، مگر اس کے باوجود مومن تمام عمر علم کی تلاش میں رہتا ہے اور وہ عمر کے آخری حصے تک علم کے دامن کو چھوڑنا نہیں چاہتا یہاں تک کہ اس کی زندگی اپنے مقررہ وقت پر آکر ختم ہو جاتی ہے اور وہ علم اس صادق طلب اور سچی دھن کے عوض جس میں وہ زندگی بھر مصروف رہا جنت کی ابدی سعادتوں سے نوازا جاتا ہے۔ در حقیقت اس حدیث میں طالب علم اور اہل علم کے لیے بڑی عظیم خوشخبری ہے کہ یہ لوگ اس دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں اور رضائے مولی سے ان کا دامن پر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر اہل اللہ اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک حصول علم میں منہمک رہے ہیں باوجودیکہ ان کی علمی فضیلت و عظمت انتہائی درجہ کی ہوتی تھی مگر وہ اس سعادت کے حصول کی خاطر طلب علم میں ہمیشہ مشغول رہتے تھے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات بھی ذہن میں رکھ لینی چاہئے کہ علم کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یہ اپنے بہت سے گوشوں پر حاوی ہے اس لیے وہ حضرات جو تصنیف و تالیف اور تعلیم و تعلّم میں مشغول رہتے ہیں وہ بھی دراصل طالب علم میں ہی مشغول ہوتے ہیں اس لیے ان کو بھی طلب علم اور تکمیل علم کا ثواب ملتا ہے اور وہ اسی زمرہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمِ عَلِمَہ، ثُمَّ کَتَمَہ، اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامِ مِّنْ نَّارِ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَاَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِیُّ۔ (ورواہ ابن ماجۃ عن انس)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس آدمی سے علم کی کوئی ایسی بات پوچھی گئی جو اسے معلوم تھی مگر اس نے چھپایا (یعنی بتایا نہیں) تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ سنن ابوداؤد، جامع ترمذی اور ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ " (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ) تشریح : اس حدیث میں ایسے عالم کے بارے میں و عید بیان کی جا رہی ہے جو دینی باتیں معلوم ہونے کے باوجود لوگوں کو نہیں بتاتا اور سائل کو جواب نہیں دیتا۔ مگر یہ وعید ایسے علم کے بارے میں ہے جس کی تعلیم ضروری اور واجب ہو۔ مثلاً کوئی آدمی اسلام لانے کا ارادہ کرے اور کسی عالم سے کہے کہ اسلامی تعلیمات سے مجھے آگاہ کرو اور بتاؤ کہ اسلام کیا چیز ہے یا وہ نماز کے وقت عالم سے پوچھتا ہے کہ نماز کے جو احکام و مسائل ہیں ان سے مجھے آگاہ کرو، یا کسی حلال و حرام چیز کا کوئی فتوٰی معلوم کرنا چاہتا ہے تو ان سب چیزوں کا جواب دینا اور جہاں تک اسے معلوم ہوں صحیح صحیح بات بتانا عالم کے لیے ضروری اور واجب ہے۔ البتہ نوافل و مباح چیزوں کے بارے میں یہ حکم نہیں ہوگا۔
-
وَعَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ طَلَبَ الْعِلْمُ لِیُجَارِیَ بِہِ لْعُلَمَآءَ اَوْلِیُمَارِیَ بِہِ السُّفَھَآءَ اَوْیَصْرِفَ بِہٖ وُجُوْہَ النَّاسِ اِلَیْہٖ اَدْخَلَہُ اﷲُ النَّارْرَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ۔-
" اور حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے علم کو اس غرض سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعے علماء پر فخر کرے، بیوقوفوں سے جھگڑے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا۔ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نے اس حدیث کو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔" (جامع ترمذی ) تشریح : علم اپنی لطافت اور نورانیت کے سبب ریاکاری، خودنمائی، غرور و تکبر اور بےجا فخر و مباہات کی غلاظتوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ جب علم کی اوّلین کرن یہی چاہتی ہے کہ وہ انسان کے دل و دماغ سے ظلم و جہل کی ہر تاریکی کو دور کر دے تو یہ کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے کہ ایک عالم جس کے دماغ میں علم کی مقدّس روشنی بھری ہو، ان غیر اسلامی وغیر اخلاقی چیزوں کا مظاہرہ کرے۔ علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان تہذیب و شرافت اور تعلیم و ترقی کی انتہائی بلندیوں پر ہونے کے باوجود بھی سراپا انکسار متواضع بنا رہے، ریاکاری و خودنمائی سے الگ رہے اور اخلاق و احسان کی زندگی اختیار کئے رہے۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ اگر کوئی علم محض دینوی منفعت اور ذاتی و جاہت و عزت کی خاطر حاصل کرتا ہے۔ اگر اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے بعد لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں، عوام پر اپنی علم دانی کا سکّہ جما کر ان سے مال و دولت حاصل کیا جائے علم کو دنیا کے کاروبار اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے آلہ کار بنایا جائے اور نہ صرف یہ بلکہ علم حاصل کرنے کے بعد وہ علماء حق کے ساتھ غرور و تکبر کا معاملہ کرتا ہے، جاہلوں سے خواہ مخواہ الجھتا رہتا ہے، لوگوں کے سامنے بے جا فخر و مباہات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ تو ایسے عالم کو کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے اور تقدیر الہٰی اس کی خواہشات اور اغراض کی سیادت و وجاہت بلکہ اس کو اس عدم اخلاص کی سزا بایں طور بھگتنی ہوگی کہ اسے جہنم کے شعلوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ہاں، ایسا آدمی جو پہلے اپنی نیت میں مخلص تھا، اس کے ارادہ میں کسی قسم کو کوئی کھوٹ نہیں تھا اور اس کا مقصد حاصل کرنے سے محض اعلاء کلمۃ اللہ اور رضائے مولیٰ تھا مگر بعد میں بتقضائے فطرت و انسانی جبلت اس کی نیت میں کھوٹ پیدا ہوگیا اور اس میں نمود و نمائش اور ریاکاری کا اثر ہوگیا تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ اس معاملہ میں بہر حال وہ معذور ہے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغَی بِہٖ وَجْہُ اﷲِ لَا یَتَعَلَّمَہ، اِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِی رِیْحَھَا۔(رواہ مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس نے اس علم کو جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کی جاتی ہے، اس غرض سے سیکھا کہ وہ اس کے ذریعہ دنیا کی متاع حاصل کرے تو قیامت کے دن اسے جنت کی خوشبو بھی میسر نہیں ہوگی۔" (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤ، ابن ماجہ) تشریح : جو کوئی علم دین محض اس لیے حاصل کرے کہ اس کے ذریعہ دنیا کی دولت و عزت سمیٹے اور اسے حصول دنیا کے لیے وسیلہ بنائے تو اس کے لیے یہ وعید بیان فرمائی جارہی ہے۔ ہاں اگر علم دینی نہ ہو دنیاوی ہو تو اس کو اس مقصد کے لیے اسے حصول دنیا کے لیے وسیلہ اور ذریعہ معاش بنا لیا جائے گا حاصل کرنا کوئی برا نہیں ہے لیکن اس میں بھی یہ شرط ہے کہ وہ علم ایسا نہ ہو جس کے حصول کو شریعت درست قرار نہیں دیتی۔ مثلاً علم نجوم وغیرہ یا دوسرے ایسے علوم جو عقیدہ و عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ کہنا کہ ایسا عالم جس کی نیت حصول علم کے سلسلہ میں خالصاً اللہ کی رضا نہ ہو اسے جنت کی خوشبو بھی میسر نہیں آئے گی ، یہ کنایہ ہے بہشت میں عدم دخول سے اور مبالغہ ہے محرومی جنت میں اور اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا آدمی مخلص اور مقرب بندوں کے ہمراہ، بغیر عذاب کے جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَضَّرَ اﷲُ عَبْدًاسَمِعَ مَقَالَتِی فَحَفِظَھَا وَوَعَاھَا وَاَدَّاھَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہِ غَیْرُ فَقِیْہِ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہِ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَفْقَہ، مِنْہ،۔ ثَلَاثٌ لَا یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ قَلْبُ مُسْلِمِ، اِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ وَالنَّصِیْحَۃُ لِلْمُسْلِمِیْنَ وَلُزُوْمُ جَمَا عَتِھِمْ فَاِنَّ دَعْوَتَھُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَائِھِمْ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَالبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ وَرَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَاَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃً وَالدَّارِمِیُّ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتِ اِلَّا اَنَّ التِّرْمِذِیَّ وَاٰبَا دَاوُدَ لَمْ یَذْکُرَا ثَلَاثٌ لاَ یَغُلُّ عَلَیْھِنَّ اِلٰی اٰخِرِہٖ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس بندہ کو تر و تازہ رکھے (یعنی اس کی قدر و منزلت بہت کافی ہو اور اسے دین و دنیا کی خوشی و مسرت کے ساتھ رکھے) جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور ہمیشہ یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا ہو پہر لوگوں تک پہنچایا۔ کیونکہ بعض حامل فقہ (یعنی علم دین کے حامل) فقیہ (یعنی سمجھ دار) نہیں ہوتے اور بعض حامل فقہ ان لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ (سمجھ دار) ہوتے ہیں۔ اور تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا ۔ ایک تو عمل خاص طور پر اللہ کے لیے کرنا، دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنا اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا۔ اس لیے کہ جماعت کی دعا ان کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔" (شافعی، بیہقی) تشریح : مطلب یہ کہ حدیث کو محفوظ اور یاد رکھنے والے بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو خود زیادہ سمجھ دار نہیں ہوتے اور بعض سمجھ رکھتے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جس کے سامنے حدیث بیان کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ سمجھ رکھتا ہے لہٰذا چاہئے کہ حدیث جس طرح سنی جائے اسی طرح دوسروں تک اسے پہنچایا جائے تاکہ جس کو حدیث پہنچائی جارہی ہے اور جس کے سامنے بیان کی جارہی ہے وہ حدیث کا مطلب بخوبی سمجھ لے۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ راویان حدیث کو چاہئے کہ وہ حدیث کو جن الفاظ میں سنیں بعینہ انہیں الفاظ میں نقل کریں۔ " یغل" اگر یاء کے زبر اور غین کے زیر کے ساتھ ہو تو اس کے معنی حقد یعنی کینہ کے ہوتے ہیں اور اگر یا کے پیش اور غین کے زبر کے ساتھ ہو یا حرفِ یا کے زبر غین کے پیش کے ساتھ ہو تو اس کے معنی خیانت کے ہو جاتے ہیں چنانچہ فرمایا جا رہا ہے کہ مومن ان تین چیزوں میں خیانت نہیں کرتا یعنی مومن کے اندر یہ تینوں چیزیں ضرور پائی جاتی ہیں اور جب مومن سے یہ تینوں اعمال صادر ہوتے ہیں تو اس میں کینہ داخل ہوتا کہ وہ ان چیزوں سے منحرف کردے۔ " خلوص عمل" کا مطلب اور اس کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ بندہ جو عمل کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضاء کے لیے کرے۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد کوئی دوسرا نہ ہو، نہ کوئی دنیوی غرض ہو اور نہ کوئی اخروی منفعت صرف رضائے مولا ہی سامنے ہو اور وہی حاصل مقصد پھر اس میں بھی دو درجے ہوجاتے ہیں۔ عام لوگوں کا جو خلوص عمل ہوتا ہے وہ خاص یعنی اہل اللہ کے خلوص عمل سے کمتر درجہ کا ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی ریاضت و مجاہدہ اور تلعق مع اللہ کی بنا پر خلوص کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کا طریقہ یہ ہے کہ حتی المقدور اپنے دوسرے بھائیوں کو خیر و بھلائی کی نصیحت کرتا رہے اور انھیں سیدھی راہ پر لگانے کی کوشش کرتا رہے، نیز دنیاوی اعتبار سے ان کی امداد و اعانت کرے اور ان کی ہر مشکل میں خبر گیری رکھے۔ " مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے" کے معنی یہ ہیں کہ زندگی کے ہر مرحلہ پر اجتماعیت کے اصول پر کار بند رہے اور اپنے آپ کو کبھی انفرادیت کی راہ پر نہ ڈالے، علماء دین اور علمائے امت کے متفقہ عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی موافقت کرتا رہے اور ان کے ساتھ رہے۔ مثلاً نماز جمعہ اور جماعت وغیرہ میں ان لوگوں کے ہمراہ رہ کر اجتماعیت کو فروغ دے تاکہ اسلامی طاقت و قوت میں بھی اضافہ ہو اور رحمت خداوندی کے نزول کا سبب بھی کیونکہ جماعت پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ لفظ من و رائھم مشکوۃ کے بعض نسخوں میں میم کے زیر کے ساتھ ہے اور بعض نسخوں میں زبر کے ساتھ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے جماعت کو مسلمانوں کی دعا گھیرے ہوئے ہے جس کی بنا پر وہ شیطان کی گمراہی سے بچتے ہیں۔ اس میں اس بات پر تنبیہہ مقصود ہے کہ جو کوئی علمائے دین اور صلحائے امت کی جماعت سے اپنے آپ کو الگ کر لیتا ہے اس کو نہ جماعت کی برکت میسر ہوتی ہے اور نہ مسلمانوں کی دعا حاصل ہوتی ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ نَضَّرَ اﷲُ اِمْرَاً سَمِعَ مِنَّا شَیْئًا فَبَلَّغَہ، کَمَا سَمِعَہُ فَرُبَّ مُبَلَّغِ اَوْعٰی لَہُ سَامِعِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ الدَّرِامِیُّ عَنْ اَبِی الدَّرْدَآئِ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کو تازہ رکھے (یعنی خوش اور باعزت رکھے) جس نے مجھ سے کوئی بات سنی اور جس طرح سنی تھی اسی طرح اس کو پہنچا دیا چنانچہ اکثر وہ لوگ جنھیں پہنچا دیا جاتا ہے سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ (جامع ترمذی سنن ابن ماجہ) اور دارمی نے اس حدیث کو ابوداؤد سے روایت کیا ہے۔" تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس احادیث کو سننا، ان کے احکام پر عمل کرنا اور ان احادیث کو دوسرے لوگوں تک پہنچانا سعادت و برکت اور دین و دنیا میں فلاح و کامیابی کا ذریعہ ہے اس پر پوری امت کا عقیدہ و ایمان ہے کہ احادیث نبوی کی تعلیم و تعلّم دونوں جہان کی خوش نصیبی اور رضائے الہٰی کا سبب ہے لیکن اس کے باوجود علماء لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کے حاصل کرنے، اس کے یاد رکھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں اگر بفرض محال کوئی فائدہ نہ ہوتا تو احادیث کی عظمت و رفعت کی بنا پر دین و دنیا دونوں جگہ حصول برکت و رحمت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مقدّس دعا ہی کافی ہوتی۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِتَّقُوا الْحَدِیْثَ عَنِّی اِلَّا مَا عَلِمْتُمْ فَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ وَّ جَابِرِ وَلَمْ یَذْکُرْ اِتَّقُوْا الْحَدَیْثَ عَنِّی اِلَّا مَاعَلِمْتُمْ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری جانب سے حدیث بیان کرنے سے بچو مگر! اس حدیث کو بیان کرو جسے تم (سچ) جانو۔ چنانچہ جس آدمی نے (جان کر) مجھ پر جھوٹ بولا اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرے۔ (جامع ترمذی ) اور سنن ابن ماجہ نے اس حدیث کو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور (حدیث کے پہلے جزء) میری جانب سے حدیث بیان کرنے سے بچو جسے تم جانو کا ذکر نہیں کیا ہے۔" تشریح : مقصد یہ ہے کہ حدیث کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے اور جس حدیث کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ معلوم نہ ہو کہ واقعی یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے اسے لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہئے۔ انہی احادیث کو بیان کرنا چاہئے جن کے بارے میں یقین یا ظن غالب کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی حدیث ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف غلط حدیث کی نسبت نہ ہو اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب جھوٹ بات کا انتساب ہو جس پر اللہ کی جانب سے سخت عذاب کی قید ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِرَاِیْہٖ فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہ، مِنَ النَّارِ وَ فِی رِوَایَۃِ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِغَیْرِ عِلْمِ فَلْیَتَبَوَّا مَقْعَدَہ، مِنَ النَّارِ۔ (رواہ الجامع ترمذی )-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے قرآن کے اندر اپنی عقل سے کچھ کہا اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کرے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس آدمی نے بغیر علم کے قرآن میں کچھ کہا اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرے۔ " (جامع ترمذی ) تشریح : جس طرح حدیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی گئی ہے اسی طرح قرآن کا ترجمہ کرنے اور اس کی تفسیر بیان کرنے کے بارے میں بھی اسی احتیاط سے کام لینے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ آیات کی وہی تفسیر بیان کی جائے جو احادیث سے ثابت اور علماء امت سے منقول ہو اور جس پر نقلاً سند موجود ہو۔ یہ نہ ہونا چاہئے کہ آیتوں کی تفسیر اور ان کے مطالب و مقاصد بیان کرنے میں اپنی عقل اور رائے کو دخل دیا جائے کیونکہ اس طرح قرآن کے معنی و مفہوم میں فرق پیدا ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہے۔
-
وَعَنْ جُنْدُبِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِرَاِیْہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ۔(رواہ الجامع ترمذی و ابوداؤد)-
" اور حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کا اسم گرامی جندب ابن عبداللہ بجلی علقی ہے حضرت عبداللہ ابن زبیر اور یزید کے حامیوں میں جو جنگ چل رہی تھی اس وقت یہ حیات تھے اس فتنہ کے چار دن بعد آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور وہ حقیقت و واقع کے مطابق بھی ہو تو اس نے تب بھی غلطی کی۔" (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد) تشریح : یعنی کسی آدمی نے قرآن کی کسی آیت کی ایسی تفسیر بیان کی جو نہ تو احادیث سے ثابت تھی اور نہ علمائے امت سے منقول بلکہ محض اپنی عقل و رائے پر بھروسہ کر کے آیت کی تفسیر بیان کر دی مگر اتفاق سے اس کی بیان کردہ تفسیر صحیح اور حقیقت و واقعہ کے بالکل مطابق ہوئی کہ اس سے آیت کے معنی و مطالب میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بھی اس نے غلطی کی کیونکہ تفسیر گو صحیح ہوئی مگر چونکہ اس نے قصدًا اپنی عقل اور رائے کو قرآن کی تفسیر میں دخل دیا اور تفسیر کا جو شرعی قاعدہ و طریقہ ہے اس سے انحراف کیا اس لیے وہ بھی خطا کار کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔ مجتہد کا معاملہ اس کے برعکس ہے کہ اگر مجتہد اپنے اجتہاد میں غلطی بھی کر جائے تو اس پر نہ صرف یہ کہ کوئی مواخذہ نہیں بلکہ اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ " تفیسر" اسے فرماتے ہیں کہ آیت کے جو معنی و مطالب بیان کئے جائیں اس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ آیت کی مراد اور اس کا حقیقی مطلب یہی ہے اور یہ بات سوائے اہل تفسیر کی نقل کے جس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہو درست نہیں ہے یعنی ایسا یقین اور اطمیان اسی تفسیر پر صحیح ہوگا جو اجلہ علماء اور مستند مفسرین سے منقول ہو کیونکہ انھوں نے وہی معنی و مطالب بیان کئے ہیں جو براہ راست سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں اور جو واسطہ بالواسطہ ان تک پہنچے ہیں۔ " تاویل" اسے فرماتے ہیں کہ کسی آیت کے معنی و مطالب بیان کرتے ہوئے بطریق احتمال کے یہ کہا جائے کہ میں جو معنی بیان کر رہا ہوں اور آیت کی جو تفسیر کر رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ مراد اصلی یہی ہو۔ یہ چیز درست اور صحیح ہے لیکن یہ بھی جب ہی صحیح ہوگی کہ بیان کردہ تفسیر قواعد عربی اور شرع کے مطابق ہو۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ الْمِرَاءُ فِی الْقُراٰنِ کُفْرٌ۔ (رواہ ابوداؤد مسند احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا۔ قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔ " (مسند احمد بن حنبل و سنن ابوداؤد) تشریح : ان لوگوں کا دائرہ کفر کے قریب کر دیا گیا ہے جو قرآن کے معنی و مطالب اور مقاصد و مراد کے تعیین میں جھگڑتے رہتے ہیں اور جس کی عقل میں جو آتا ہے اس کو حق اور صحیح سمجھتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیز ایسے کم فہم لوگوں کو جب ظاہری طور پر قرآن کی آیتوں میں معنی و مقصد کے لحاظ سے فرق نظر آتا ہے تو وہ ان میں سے ایک آیت کو ناقابل اعتناء و نا قابل قبول اور ناقابل استشہاد قرار دے کر دوسری آیت کو راحج قرار دے دیتے ہیں۔ گویا اس طرح وہ قرآن ہی کی ایک آیت سے دوسری آیت کو ساقط کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا شرعی نقطۂ نظر سے انتہائی جرم ہے بلکہ ایسی شکل میں جبکہ دو آیتوں میں باہم اختلاف و تضاد نظر آئے تو حتی الامکان دونوں میں تطابق اور توافق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہو تو اسے یہ اعتقاد کر لینا چاہئے کہ یہ میری کم علمی اور بد فہمی کی بنا پر ہے اور حقیقی مفہوم و مراد کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سونپ دے کہ وہی بہتر جاننے والے ہیں۔ مثلاً اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ خیر اور شر سب اللہ ہی کی جانب سے ہے اور وہ اپنے اس عقیدہ کی بنیاد اس آیت پر رکھتے ہیں کہ ارشاد بانی ہے۔ آیت ( قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ) 4۔ النساء : 78) " یعنی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) فرما دیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کی جانب سے ہے۔" اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ اور ان کی دلیل بالکل صحیح اور صاف واضح ہے۔ لیکن اہل قدر اس کی تردید کرتے ہیں اور اس کے برخلاف اپنا عقیدہ یہ قائم کئے ہوئے ہیں کہ خیر کا خالق اللہ ہے اور شر کا خالق اللہ نہیں ہے اور شر کا خالق خود انسان ہے اور اپنے عقیدہ کی بنیاد اس آیت پر رکھتے ہیں جو بظاہر پہلی آیت کے متضاد ہے یعنی ارشاد ربانی ہے۔ آیت (مَا اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَمَا اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ) 4۔ النساء : 79) " جو کچھ از قسم نیکی تمہیں پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو کچھ از قسم برائی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے نفس کی جانب سے ہے۔" بہر حال اس قسم کے اختلافات اور آیتوں میں تضاد پید اکرنا منع ہے بلکہ یہ چاہئے کہ اس قسم کی آیتوں میں ایسی آیت پر عمل کیا جائے جس پر مسلمانوں کا اتفاق و اجماع ہو اور دوسری آیت میں ایسی تاویل کی جائے جو شرع کے مطابق ہو، جیسا کہ انھیں دونوں مذکورہ بالا آیت میں دیکھا جائے کہ پہلی آیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ خیر و شر تمام اللہ ہی کی جانب سے ہے اور ہر چیز تقدیر الہٰی کے مطابق ہی ہوتی ہے اس پر عمل کیا جائے۔ اور دوسری آیت کی یہ تاویل کی جائے کہ دراصل اس آیت کا تعلق ما قبل کی آیت سے ہے کہ اس میں منافقین کی برائی اور ان کا عقیدہ بیان کیا جا رہا ہے کہ ان منافقوں کو کیا ہوا ہے جو کہ اس چیز کو جو صحیح اور واضح ہے نہیں سمجھتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ نیکی و بھلائی تو اللہ کی طرف سے ہے اور برائی خود بندہ کے نفس کی جانب سے ہے۔ گویا اس طرح دونوں آیتوں میں تطبیق ہو جائے گی۔ اس طرح دیگر آیتوں میں بھی مطابقت پیدا کی جائے۔
-
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ سَمِعَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم قَوْمًا یَتَدَارَؤُوْنَ فِی الْقُرْاٰنِ فَقَالَ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِھٰذَا۔ ضَرَبُوْا کِتَابَ اﷲِ بَعْضَہُ بِبِعْضِ وَاِنَّمَا نَزَلَ کِتَابُ اﷲِ یُصَدِّقُ بَعْضَہُ بَعْضًا فَلَا تُکَذِّبُوا بَعْضَہ، بِبَعْضِ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْہُ فَقُوْلُوْا وَمَا جَھِلْتُمْ فَکِلُوْہُ اِلَی عَالِمِہٖ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ)-
" حضرت عمرو ابن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( عمرو ابن شعیب تابعی ہیں، عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہیں۔) اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ آپس میں قرآن کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور جھگڑ رہے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک تم سے پہلے کے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے انھوں نے کتاب اللہ کے بعض حصہ کو بعض پر مارا (یعنی آیات میں تضاد اور اختلاف ثابت کیا کہ فلاں آیت فلاں آیت کے مخالف ہے اور یہ آیت فلاں آیت کے مخالف ہے) اور بے شک کتاب اللہ کا بعض حصہ بعض کی تصدیق کرتا ہے لہٰذا تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض سے نہ جھٹلاؤ، اور اس کے بارے میں جتنا تم جانتے ہو اس کو بیان کرو اور جو نہیں جانتے ہو اسے جاننے والوں کی طرف سونپ دو۔" (مسند احمد بن حنبل و ابن ماجہ) تشریح : جیسا کہ اس سے پہلے حدیث میں گزر چکا ہے کہ جن لوگوں کا علم ناقص ہوتا ہے اور جن کے ایمان و عقیدہ میں کمزوری اور ذہن و فکر میں کمی ہوتی ہے وہ آیات میں باہم اختلاف پیدا کرتے رہتے ہیں اور آیت کے حقیقی مفہوم و مراد سے ہٹ کر ان کے ناقص ذہن و فکر میں جو مفہوم آتا ہے اسے بیان کرتے ہیں اور پھر اسی طرز پر اپنے نظریات و اعتقادات کی بنیاد بھی رکھ دیتے ہیں جس کی مثال ماقبل کی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے۔ اس کے بارے میں یہاں بھی فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں کچھ آیتوں میں اختلاف نظر آئے تو اس میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعہ ساقط نہ کرو اور نہ اس کی تکذیب کرو بلکہ جہاں تک تمہارا علم مدد کر سکے ان میں تطبیق پیدا کرو، اگر ایسا نہ کر سکو تو پھر تم بجائے اس کے کہ اس میں اپنی عقل و سمجھ کے تیر چلاؤ اس کے حقیقی معنی و مفہوم کا علم اللہ اور اللہ کے رسول کی جانب سونپ دو، یا پھر ایسے علماء و صلحاء جو علم کے اعتبار سے تم سے اعلیٰ و افضل ہوں اور تم پر فوقیت رکھتے ہیں ان سے رجوع کرو۔
-
وَعِنْ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ عَلَی سَبْعَۃِ اُحْرُفِ لِکُلِّ اٰیَۃِ مِّنْھَا ظَھْرٌوَّ بَطْنٌ وَلِکُلِّ حَدِ مُطَّلَعٌ۔ (رواہ فی شرح النسۃ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ قرآن کریم سات طرح پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے ہر آیت ظاہر ہے اور باطن ہے، اور ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے۔" (شرح السنۃ) تشریح : دنیا کی ہر زبان میں فصاحت و بلاغت اور لب ولہجہ کے اعتبار سے مختلف اسلوب اور مختلف لغات ہوتی ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں بھی سات لغات عرب میں مشہور تھیں، اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سات طرح یعنی سات لغات پر نازل ہوا ہے۔ اس سات لغات کی تفصیل اس طرح ہے۔ لغت قریش، لغت طی، لغت ہوازن، لغت اہل یمن، لغت ثقیف، لغت ہذیل اور لغت بنی تمیم۔ قرآن کریم سب سے پہلے قریش کی لغت کے مطابق نازل ہوا تھا جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لغت تھی لیکن جب تمام عرب میں اس لغت کے مطابق قرآن کا پڑھنا جانا اس لیے دشوار و مشکل ہوا کہ ہر قبیلہ اور ہر قوم کی اپنی ایک مستقل لغت اور زبان کے لب و لہجہ کا الگ الگ انداز تھا تو سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ اس سلسلہ میں وسعت بخشی جائے تو حکم دے دیا گیا کہ ہر آدمی قرآن کو اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے چنانچہ حضرت عثمان غنی کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ تک اسی طرح چلتا رہا اور لوگ اپنی اپنی لغت کے اعتبار سے قرآن پڑھتے رہے۔ لیکن جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کلام اللہ کو جمع کیا اور اس کی کتابت کرا کر اسلامی سلطنت کے ہر ہر خطہ میں اسے بھیجا تو انھوں نے اسی لغت کو مستقل قرار دیا جس پر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورہ سے قرآن کو جمع کیا تھا اور وہ لغت قریش تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حکم بھی فرمایا کہ تمام لغات منسوخ کر دی جائیں صرف اس ایک لغت کو باقی رکھا جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ قرآن صرف ایک لغت میں جمع ہوگیا جس سے دنیا کے ہر خطہ کے لوگوں کے لیے آسانیاں ہوگئیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک بڑے فتنہ کی جڑ بھی ختم کر دی گئی اور فتنہ یہ تھا کہ لغات کے اختلافات کی وجہ سے مسلمان آپ میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور نوبت بأیں جا رسد کہ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کو اپنی لغت کے خلاف قرآن پڑھتا دیکھتا تو یہ سمجھ کر کہ صرف میرے قبیلہ ہی کی لغت صحیح ہے اسے کافر کہہ دیا کرتا تھا، چنانچہ لغت قریش کے علاوہ جس پر قرآن نازل ہوا تھا بقیہ تمام لغات ختم کر دی گئیں اور اگر کوئی لغت باقی بھی رہی تو وہی رہی جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق رہا اور جو سند متصل اور تواتر کے ساتھ آخر میں قراء سبعہ تک پہچنی اس کے علاوہ لغت میں مکرر یعنی امالہ و ادغام وغیرہ کا اختلاف بھی باقی رہا جو آج تک قراء سبعہ میں موجود ہے۔ بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ قرآن سات طرح پر نازل ہوا ہے تو ساتھ طرح سے مراد وہ سات قراتیں ہیں جو قراء سبعہ پڑھتے ہیں، پھر علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ قراتیں ساتھ سے زیادہ ہیں لیکن یہاں سات کی تحدید اس لیے کی گئی ہے کہ اختلاف کی بھی سات ہی قسمیں ہیں جن کی طرف یہ سات قراتیں راجع ہیں۔ جیسے (١) کلمہ کی ذات میں اختلاف یعنی کلمہ میں کمی و زیادتی ہیں۔ (٢) جمع اور مفرد کا اختلاف (٣) مذکر اور مونث کا اختلاف (٤) صرفی اختلاف یعنی تخفیف و تشدید اور فتح و کسرہ وغیرہ کا اختلاف جیسے مَیَّتٌ اور مِیَتٌ یَقنط اور یقنط (٥) اعراب کا اختلاف (٦) حروف کا اختلاف جیسے لکن الشیطین میں نون کی تشدید اور تخفیف (٧) ادائیگی لغات کا اختلاف جیسے تفخیم اور امالہ وغیرہ حدیث کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ہر آیت کا ظاہر ہے اور باطن ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیت کے ایک ظاہر معنی ہیں جو تمام اہل زبان سمجھتے ہیں اور ایک باطنی معنی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے وہی بندگانِ خاص سمجھتے ہیں جن کے قلب و دماغ معرفت کی روشنی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے حد کے معنی طرف اور نہایت کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ظاہر اور باطن کی ایک حد اور نہایت ہے اور حد و نہایت کے لیے ایک مطلع یعنی ایسا مقام ہے جس پر پہنچنے اور اس کے حاصل کرنے کے بعد آدمی اس حد اور نہایت پر مطلع ہوتا ہے۔ چنانچہ ظاہر کا مطلع یعنی وہ مقام جس پر پہنچ کر حد اور نہایت معلوم ہوتی ہے، یہ ہے کہ عربی زبان اور اس کے اصول و قواعد سیکھے جائیں، علم صرف و نحو حاصل کیا جائے کہ قرآن کے ظاہری معنی انہیں سے متعلق ہیں، نیز ہر آیت کا شان نزول اور ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرے، یا اسی طرح وہ دوسری چیزیں ہیں جن پر قرآن کے ظاہری معنی کے سمجھنے کا انحصار ہے۔ باطن کا مطلع یہ ہے کہ ریاضت و مجاہدہ کیا جائے، قرآن کے ظاہری معنی اور ان کے احکام کا اتباع اور ان پر عمل کیا جائے نفس کو تمام برائی اور گناہ و معصیت سے پاک و صاف کیا جائے دل کو عبادت خداوندی اور رضائے الہٰی کے نور سے جلا بخشی جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے حصول کے بعد قرآن کے باطنی علوم اور اس کے اصرار و معارف کا قلب انسان پر انکشاف ہوتا ہے۔ امام محیّ السنۃ نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ حدیث کے الفاظ " ظہر" سے مراد قرآن کے الفاظ ہیں اور " باطن" سے مراد الفاظ کی تاویل ہے۔ " مطلع" سے مراد فہم یعنی وہ سمجھ ہے جس کی وجہ سے قرآن کے اندر غور و فکر کرنے والے پر قرآن کے جن علوم و معنی اور تاویل کا انکشاف ہوتا ہے وہ دوسروں پر نہیں ہوتا۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَلْعِلْمُ ثَلَاثَۃٌ اٰیَۃٌ مُحْکَمَۃٌ اَوْسُنَّۃٌ قَائِمَۃٌ اَوْ فَرِیْضَۃٌ عَادِلَۃٌ وَمَا کَانَ سِویَ ذٰلِکَ فَھُوَ فَضْلٌ۔ (رواہ ابوداؤد وابن ماجۃ)-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ علم تین ہیں (١) آیت محکم (یعنی مضبوط)۔ (٢) سنت قائمہ (٣) فریضہ عادلہ۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) تشریح : مطلب یہ ہے کہ دین کے علم تین ہیں، یا یہ کہ علم دین کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ " آیت محکم" وہ آیتیں ہیں جو مضبوط اور غیر منسوخ ہیں، اس سے کتاب اللہ کی طرف اشارہ ہے جو کہ اصل قرآن آیات محکمات ہی ہیں اس لیے یہاں صرف انھیں کو ذکر کیا گیا ہے اور وہ دوسرے علوم جو اس کے لیے وسیلہ ہیں وہ بھی اس کے ساتھ متعلق ہیں۔ " سنت قائمہ" یعنی وہ حدیث جو متن اور اسناد کی مخالفت کے ساتھ ثابت ہیں۔ " فریضۃ عادلہ" سے اشارہ ہے قیاس اور اجماع کی طرف جو کتاب و سنت سے مستنبط ہوتا ہے ۔ اس کو فریضہ اس لیے کہا گیا ہے قیاس و اجماع پر بھی عمل کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چنانچہ " عادلہ" کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسا فریضہ جو کتاب و سنت کے مثل اور عدیل ہے۔ بہر حال حدیث کی توضیح یہ ہوئی کہ دین کے اصول چار ہیں جس پر دین و شریعت کی پوری بنیاد ہے۔ (١) کتاب یعنی قرآن مجید (٢) سنت یعنی احادیث (٣) اجماع (٤) قیاس اور اس کے علاوہ جو بھی علم ہوگا وہ زائد اور دینی حیثیت سے بے معنی ہوگا۔
-
وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکِ الْاَ شْجَعِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ لَا یَقُسُّ اِلَّا اَمِیْرٌ اَوْ مَامُوْرٌ اَوْ مُخْتَالٌ۔ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَاہُ الدَّارِمِیُّ عَنْ عَمْرِوبْنِ شُعَیْبِ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ وَفِیْ رِوَایِۃِ اَوْمُرَاءِ بَدَلَ اَوْ مُخْتَالِ۔-
" اور حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اسم گرامی عوف بن مالک اشجعی ہے کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ بعض حضرات نے ابوحماد اور بعض نے عمرو بھی لکھا ہے۔ دمشق میں ٧٣ھ میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔ (اسد الغابہ)) راوی ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تین آدمی قصہ بیان کریں گے، حاکم یا محکوم یا تکبر کرنے والا۔ اور دارمی نے اس حدیث کو عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے انھوں نے اپنے باپ سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے اور دارمی کی روایت میں لفظ" مختال" یعنی تکبر کرنے والا کی بجائے " اومراء " (یا ریاکار) ہے۔" تشریح : قصہ بیان کرنے سے مراد و عظ و نصیحت کرنا اور حکایات وقصص بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وعظ و تقریر عمومًا تین آدمی کرتے ہیں ان میں سے دو حق پر ہیں یعنی حاکم و محکوم ۔ ان ہی لوگوں کو وعظ بیان کرنا چاہئے۔ تیسرا آدمی متکبر ہے اس کو وعظ نہیں کہنا چاہئے کیونکہ وہ وعظ کہنے کا اہل نہیں ہے۔ گویا حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ وعظ کہنا اوّل تو امیر یعنی حاکم کا حق ہے کیونکہ وہ رعیت پر سب سے زیادہ مہربان ہوتا ہے۔ اور رعایا کی اصلاح کے امور کو بخوبی جانتا ہے۔ اگر حاکم خود وعظ نہ کہے تو علماء میں سے جو عالم تقویٰ و تقدس میں سب سے افضل و اعلیٰ ہو اور دنیاوی طمع نہ رکھتا ہو، وہ اسے مقرر کرے گا تاکہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتا رہے، لہٰذا " مامور" سے مراد ایک تو وہ عالم ہوگا جس کو حاکم وقت نے رعایا کی اصلاح کے لیے مقرر کیا ہو یا مامور سے مراد دوسرا وہ آدمی ہے جو منجانب اللہ مخلوق کی ہدایت اور اصلاح کے لیے مامور کیا گیا ہو، جیسے علماء کرام اور اولیاء اللہ عظام جو لوگوں کے سامنے وعظ بیان کیا کرتے ہیں اور اللہ کی مخلوق کی اصلاح و ہدایت میں لگے رہتے ہیں، لہٰذا اس حدیث سے ایسے لوگوں پر زجر و توبیخ مقصود ہے جو طلب جاہ اور دولت کی خاطر وعظ بیان کیا کرتے ہیں حالانکہ نہ وہ علمی حیثیت سے اس عظیم منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نہ عملی طور پر وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ لوگوں کی اصلاح کر سکیں۔ وعظ بیان کرنا صرف انہی دو آدمیوں کا حصہ ہے اور یہی اس کے مستحق اور اہل ہیں۔ ان کے علاوہ جو وعظ بیان کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ ازراہِ فخر و تکبر اور حصول جاہ و منفعت کی خاطر یہ کام کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا باعث ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ اُفْتِیَ بِغَیْرِ عِلْمِ کَانَ اِثْمُہ، عَلَی مَنْ اَفْتَاہُ وَمَنْ اَشَارَ عَلَی اَخِیْہٖ بِاَمْرِ یَّعْلَمُ اَنَّ الرُّشْدَ فِی غَیْرِ ہٖ فَقَدْ خَانَہ،۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا ہوگا تو اس کا گناہ اس آدمی پر ہوگا جس نے اس کو (غلط) فتویٰ دیا ہے اور جس آدمی نے اپنے بھائی کو کسی ایسے کام کے بارے میں مشورہ دیا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے تو اس نے خیانت کی۔" (سنن ابوداؤد) تشریح : مثلاً ایک جاہل آدمی کسی عالم کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آیا عالم نے سائل کو اس کے سوال کا صحیح جواب نہیں دیا بلکہ کم علمی یا کسی دوسری وجہ سے غلظ مسئلہ بتا دیا۔ اس جاہل نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ مسئلہ غلط ہے۔ اس پر عمل کر لیا تو اس کا گناہ اس جاہل آدمی پر نہیں ہوگا بلکہ اس عالم پر ہوگا جس نے اسے غلط مسئلہ بتا کر غلط عمل کرنے پر مجبور کیا لیکن شرط یہ ہے کہ عالم نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی ہو۔ حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا۔
-
وَعَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ الْاُغْلُوْطَاتِ۔ (راوہ ابوداؤد)-
" اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغالطہ دینے سے منع فرمایا ہے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح : اس ارشاد کا مقصد اس چیز پر تنبیہ ہے کہ علماء سے ایسے مسائل نہ پوچھے جائیں جو مشکل اور پیچیدہ ہونے کی وجہ سے انھیں مغالطہ میں ڈال دیں یا جن سے سائل کا مقصد ہی علماء کو پریشان کرنا اور ان کو مغالطہ میں ڈالنا ہو اس لیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے بعض حضرات جن کے قلب و دماغ علماء کی عزت و عظمت سے خالی ہوتے ہیں وہ انھیں آزمائش میں ڈالنے یا لوگوں کے سامنے ان کی ہتک کرانے کے لیے ان کے سامنے ایسے مسائل بنا بنا کر پیش کرتے ہیں جن میں وہ چکرا جاتے ہیں اور مغالطہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی نے ابتداء ہی میں ایسا سوال کیا تو یہ حرام ہے کیونکہ اس سے ایک مومن کی ایذاء رسانی اور ذہنی تکلیف کا سامان فراہم ہوتا ہے، نیز یہ فتنہ و فساد اور عداوت و نفرت کا سبب ہے، دوسرے یہ کہ ایسے مواقع پر ازراہِ فخر و تکبر اپنی فضیلت و قابلیت کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تمام چیزیں حرام ہیں۔ لیکن اگر ایسی شکل ہے کہ دوسرے نے اس سے ایسا سوال کیا اور اس نے اس کے جواب میں الزاماً ایسا ہی سوال کیا تو یہ حرام نہیں ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوْا الْفَرَائِضَ وَالْقُرْاٰنَ وَعَلِّمُوْا النَّاسَ فَاِنِّی مَقْبُوْضٌ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ تم فرائض (یعنی فرض چیزیں یا علم فرائض) اور قرآن کریم سیکھ لو اور دوسروں کو بھی سکھلاؤ اس لئے کہ میں قبض کیا جاؤں گا (یعنی اس عالم سے اٹھالیا جاؤں گا۔" (جامع ترمذی )
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَشَخَصَ بِبَصَرِہٖ اِلَی السَّمَآءِ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا أَوَانٌ یُخْتَلَسُ فِیْہِ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتّٰی لَا یَقْدِرُوْا مِنْہ، عَلَی شَیْئِ۔ (رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا۔ یہ وقت ہے کہ علم آدمیوں میں سے جاتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ علم کے ذریعہ کسی چیز پر قدرت نہ رکھیں گے۔ " ( جامع ترمذی ) تشریح : یہاں علم سے مراد وحی ہے اور اشارہ ہے اپنی وفات کی طرف یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے منتظر تھے۔ چنانچہ بارگاہ الوہیت سے وحی نازل ہوئی اور خبر دے دی گئی کہ اب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اجل آگئی ہے اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس دنیا سے رخصت ہو کر واصل بحق ہونے والے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت آگیا ہے کہ اس دنیا سے وحی منقطع ہو جائے گی۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً یُوْشِکُ اَنْ یَّضْرِبَ النَّاسُ اَکْبَادَ الْاِبِلِ یَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا یَجِدُوْنَ اَحَدًا اَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِیْنَۃِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَفِی جَامِعِہٖ قَالَ ابْنُ عُیَیْنَۃَ اَنَّہ، مَالِکُ بْنُ اَنَسِ و شْلُہ، عَنْ عَبْدِالرَّزَّاقِ وَقَالَ اِسْحٰقُ ابْنُ مُوْسٰی وَسَمِعْتُ ابْنَ عُیَیْنَۃَ اِنَّہُ قَالَ ھُوَ الْعُمَرِیُّ الزَّاھِدُوَاِسْمُہ، عَبْدِالْعَزِیْزِ ابْنُ عَبْدِاﷲِ۔(رواہ الجامع ترمذی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایۃً منقول ہے کہ وہ زمانہ قریب ہے جبکہ لوگ علم حاصل کرنے کے لئے اونٹوں کے جگر کو پھاڑ ڈالیں گے لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی کو نہیں پائیں گے۔ (جامع ترمذی ) اور جامع ترمذی میں ابن عیینہ سے منقول ہے کہ مدینہ کے وہ عالم مالک ابن انس رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں اور عبدالرزاق نے بھی یہی لکھا ہے اور اسحٰق ابن موسیٰ کا بیان ہے کہ میں نے ابن عیینہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مدینہ کا وہ عالم عمری زاہد ہے (یعنی وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان سے ہے جن کا نام عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔" (جامع ترمذی ) تشریح : " روایۃً منقول" کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ہی روایت کی ہے۔ لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ چونکہ یاد نہیں رہے اس لئے انھوں نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا۔ " اونٹوں کے جگر کو پھاڑنے" کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان علم کا چرچہ پڑھے گا اور حصولِ علم کا شوق افزوں ہوگا تو لوگ دور دراز کا سفر کریں گے اور علم کی خاطر دنیا بھر کی خاک چھانٹتے پھریں گے، یا یہ کہ درِ علم تک جلد پہنچ جانے کے لیے اونٹوں کو تیزی سے چلائیں گے اور تیزگامی کے ساتھ علم کی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ حدیث کے الفاظ کے مصداق میں کلام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ مدینہ کے عالم سے زیادہ کوئی بڑا عالم نہیں ملے گا تو مدینہ کے عالم سے کون مراد ہے؟ حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے اصحاب اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے مراد حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ محترم ہے۔ اسی طرح حضرت عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ جو حدیث کے جلیل القدر اور مشہور امام ہیں یہی فرماتے ہیں کہ حدیث میں جس " عالم مدینہ" کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ ہی ہیں۔ لیکن حضرت ابن عیینہ کے ایک شاگرد حضرت اسحٰق بن موسیٰ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عیینہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " عالم مدینہ سے مراد حضرت عمری زاہد ہیں۔" جن کا اسم گرامی عبدالعزیز بن عبداللہ ہے۔ چونکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اس لیے عمری کہا جاتا ہے اور " زاہد" ان کی صفت ہے اس لیے کہ یہ اپنے زمانہ میں مدینہ کے ایک جلیل القدر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے پائے کے زاہد و متفی آدمی تھے ان کا نسب اس طرح ہے۔ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عمرو بن حفص بن عاصم بن عمر فاروق۔ بہر حال امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ کے واسطہ سے ابن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا جو قول نقل کیا ہے وہ اس قول کے مخالف ہے جو ابن عیینہ سے اسحٰق بن موسیٰ نقل کرتے ہیں اس طرح حضرت ابن عیینہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے اقوال میں اختلاف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے عیینہ سے جو قول نقل کیا ہے، وہ بااعتبار ظن کے ہے یقینی اور حتمی طور پر ان لوگوں نے نقل نہیں کیا ہے۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور کے اعتبار سے ہے کہ ان کے زمانوں میں مدینہ کے عالم سے زیادہ بڑا عالم کسی دوسری جگہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تابعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے بعد جب علم کی مقدّس روشنی مدینہ سے نکل کر اطراف عالم میں پھیلی تو اس کے نتیجہ میں دیگر ممالک اور دوسرے شہروں میں ایسے ایسے عالم و فاضل پیدا ہوئے جو اپنے علم و فضل اور دینی فہم و فراست کے اعتبار سے مدینہ کے عالموں سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس حدیث کے ظاہری معنی جو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قریب اور انسب ہیں یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس ارشاد سے اس بات کی خبر دینا ہے کہ آخر زمانہ میں علم اپنی وسعت و فراخی کے باوجود صرف مدینہ منورہ میں منحصر ہو جائے گا جیسا کہ دیگر احادیث سے یہ بات بصراحت معلوم ہوتی ہے۔ وا اللہ اعلم۔
-
وَعَنْہُ فِیْمَا اَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اﷲَ عَزَّوَ جَلَّ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃِ مَنْ یُّجَدِّدُلَھَا دِیْنَھَا۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے جو کچھ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے نفع کے واسطے ہر سو برس پر ایک آدمی کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کو تازہ کرتا ہے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح : اکثر علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حدیث سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں امت کے اندر اپنے علم و فضل کے اعتبار سے سب میں ممتاز ایک ایسا آدمی موجود ہوتا ہے جو دین کو نکھارتا اور تجدید کرتا ہے جسے مجدّد کہا جاتا ہے۔ مجدّد اپنے زمانہ میں دین کے اندر ہر پیدا ہونے والی برائی اور خرابی کو دور کرتا ہے۔ بدعت اور رسم و رواج کے جو گہرے پردے دین کی حقیقت پر پڑ جاتے ہیں وہ اپنے علم و معرفت کی قوّت سے انھیں چاک کرتا ہے اور امت کے سامنے پورے دین کو نکھار کر اور صاف و ستھرا کر کے اس کی اپنی شکل میں پیش کر دیتا ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تعین بھی کیا ہے کہ فلاں مجدّد پیدا ہوا تھا اور فلاں صدی میں فلاں مجدّد موجود تھا۔ بعض علماء نے حدیث کے معنی کو عمومیت پر محمول کیا ہے، یعنی خواہ دین کی تجدید کرنے والا کوئی ایک آدمی واحد ہو خواہ کوئی جماعت ہو جو دین میں پیدا کی گئی برائیوں اور خرابیوں کو ختم کرے۔
-
وَعَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفِ عُدُوْلُّہ، یَنْفُوْنَ عَنْہُ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطَلِیْنَ وَ تَأْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ وَسَنَدْکُرُ حَدِیْثُ جَابِرِ فَاِنَّمَا شِفَاءُ الْعَیِّ السُّؤَالُ فِی بَابِ التَّیَمُّمِ اِنْ شَاءَ اﷲُ تَّعَالیٰ۔ (رواہ)-
" اور حضرت ابراہیم بن عبدالرحمن عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہر آئندہ آنے والی جماعت میں سے اس کے نیک (یعنی ثقہ اور معتمد) لوگ اس علم (کتاب و سنت) کو حاصل کریں گے اور وہی لوگ اس (علم) کے ذریعہ (آیات و احادیث میں) حد سے گزرنے والوں کی تحریف کو باطلوں کی افتراء پردازی کو اور جاہلوں کی تاویلات کو دور کریں گے، (اس حدیث کو بیہقی نے اپنی کتاب " مدخل" میں حدیث بقیۃ ابن ولید سے نقل کیا ہے اور انھوں نے معان بن مرفاعہ سے اور انھوں نے ابراہیم بن عبدالرحم عذری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے) اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (جس کی ابتداء یہ ہے) فانما شفاء العی السوال ہم باب تیمّم میں بیان کریں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔"
-
عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَنْ جَاءَ ہُ الْمَوْتُ وَھُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لِیُحْیَی بِہٖ الْاِسْلَامَ فَبَیْنَہُ وَبِیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ۔ (رواہ الدرامی)-
" حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی کی موت اس حال میں آئے کہ وہ علم حاصل کر رہا ہو اور (وہ علم) اس غرض سے (حاصل کر رہا ہو) کہ وہ اس کے ذریعہ اسلام کو رائج کرے گا تو جنت میں اس کے اور انبیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا اور وہ مرتبہ نبوت ہے۔" (درامی)
-
وَعَنْہُ مُرْسَلًا قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ رَجُلَیْنِ کَانَا فِی بَنِیۤ اِسْرَآئِیْلَ اَحَدُھُمَا کَانَ عَالِمًا یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ ثُمَّ یَجْلِسُ فَیُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَیْرَ، وَالْاٰخِرُ یَصُوْمُ النَّھَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ اَیُّھُمَا اَفْضَلُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ فَضْلُ ھٰذَا الْعَالِمِ الَّذِی یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ ثُمَّ یَجْلِسُ فَیُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَیْرَ عَلَی الْعَابِدِ الَّذِیْ یَصُوْمُ النَّھَارَ وَ یَقُوْمُ اللَّیْلَ کَفَضْلِی عَلَی اَدْنَا کُمْ۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ ( حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ تابعی ہیں آپ کی پیدائش مدینہ میں ہوئی تھی۔ ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) سے بطریق مرسل روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے بارے میں سوال کیا گیا، ان میں سے ایک تو عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا تھا پھر بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھاتا تھا۔ اور دوسرا آدمی وہ تھا جو دن کو تو روزے رکھتا تھا اور تمام رات عبادت کیا کرتا تھا (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا) کہ ان دونوں میں بہتر کون ہے؟ آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس عالم کو جو فرض نماز پڑھتا ہے اور بیٹھ کر لوگوں کو علم سکھلاتا ہے اس عابد پر جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتا ہے ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی کہ مجھے تمہارے میں سے ایک ادنیٰ آدمی پر فضیلت حاصل ہے۔" (درامی) تشریح : بنی اسرائیل کے مذکورہ دونوں عالم یوں تو اپنے علم و فضل کے اعتبار سے ہم رتبہ تھے مگر فرق یہ تھا کہ ایک عالم نے تو اپنی زندگی کا مقصد صرف عبادت خداوندی بنا لیا تھا چنانچہ وہ دن رات ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہا کرتا تھا بندگان خدا کی اصلاح و تعلیم سے اسے غرض نہیں تھی، مگر دوسرا عالم فرض عبادت بھی پوری طرح ادا کرتا تھا اور اپنے اوقات کا بقیہ حصہ لوگوں کی اصلاح و تعلیم میں بھی صرف کیا کرتا تھا۔ لہٰذا دونوں میں افضل اسی آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو خود بھی اپنے علم پر عمل کرتا تھا اور دوسروں کو بھی علم سکھلا کر انھیں راہِ ہدایت پر لگاتا تھا۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ نِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اَنِ احْتِیْجَ اِلَیْہٖ نَفَعَ وَاِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنَی نَفْسَہ،۔ (رواہ رزین)-
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بہتر آدمی وہ ہے جو دین کی سمجھ رکھتا ہو۔ اگر اس کے پاس کوئی حاجت لائی گئی تو اس نے نفع پہنچایا اور اگر اس سے بے پروائی برتی گئی تو اس نے بھی اپنے نفس کو بے پرواہ رکھا۔" (رزین) تشریح : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم کی یہ شان ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کا محتاج کر کے اپنی حیثیت کو کمتر نہ کرے، نیز غلط اغراض و مقاصد کی خاطر عوام کی مصاحبت کی طرف میلان نہ رکھے اور نہ ان سے کسی دنیاوی غرض و منافع کی طمع کرے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے آپ کو عوام سے بالکل بے تعلق کر لیا جائے اور اپنے علم سے اللہ کی مخلوق کو محروم رکھا جائے۔ بلکہ اگر عوام دینی ضروریات کے سلسلے میں صرف اسی کے محتاج ہوں اور اس کے علاوہ کسی دوسرے عالم کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی رجوع اس کی طرف ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے درمیان جائے اور ان کی دینی و اسلامی ضروریات کو پورا کر کے انہیں نفع پہنچائے۔ ہاں اگر عوام خود اس سے لاپرواہی برتیں کہ انھیں اس سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہو اور نہ وہ اس کے محتاج ہوں تو چاہئے کہ وہ بھی ان سے بے پروائی برتے اور ان سے ترک تعلق کر کے اپنے اوقات کو عبادت خداوندی میں مشغول رکھے یا پھر خدمت علم دین کی خاطر دینی کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں منہمک ہو کر اس ذریعہ سے علم کی روشنی پھیلائے۔
-
وَعَنْ عِکْرِمَۃَرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالیٰ اَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍص قَالَ حَدِّثِ النَّاسَ کُلَّ جُمُعَۃٍ مَّرَّۃً فَاِنْ اَبَےْتَ فَمَرَّتَےْنِ فَاِنْ اَکْثَرْتَ فَثَلٰثَ مَرَّاتٍ وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَلَا اُلْفِےَنَّکَ تَاْتِیْ الْقَوْمَ وَھُمْ فِیْ حَدِےْثٍ مِّنْ حَدِےْثِھِمْ فَتَقُصَّ عَلَےْھِمْ فَتَقْطَعُ عَلَےْھِمْ حَدِےْثَھُمْ فَاتُمِلَّھُمْ وَلٰکِنْ اَنْصِتْ فَاِذَا اَمَرُوْکَ فَحَدِّثْھُمْ وَھُمْ ےَشْتَھُوْنَہُ وَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ فَاِنِّیْ عَھِدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابَہُ لَا ےَفْعَلُوْنَ ذٰلِکَ۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ تم ہر جمعہ کو ایک بار لوگوں کے سامنے حدیث بیان کرو۔ اگر اسے قبول نہ کرو ( یعنی ہفتہ میں ایک بار وعظ نصیحت کو کافی نہ جانو تو ہفتہ میں) دوبار اور زیادہ چاہو تو (ہفتہ میں تین بار و عظ و نصیحت کر سکتے ہو) اور تم لوگوں کو اس قرآن سے تنگ نہ کرو ( یعنی ہفتہ میں تین بار سے زیادہ وعظ و نصیحت بیان کر کے لوگوں کو ملول نہ کرو) اور میں تمہیں اس حالت میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں مشغول ہوں اور تم ان کی باتوں کو منقطع کر کے ان کے سامنے وعظ و نصیحت شروع کر دو اور (اس طرح) تم ان کو کبیدہ خاطر کرو۔ ایسے موقع پر تمہیں چاہئے کہ تم خاموش رہو البتہ وہ اگر تم سے وعظ و نصیحت کی فرمائش کریں تو جب تک اس کے خواہش مند ہوں تم ان کے سامنے حدیث بیان کرو اور تم دعا میں مقفیٰ عبارت سے صرف نظر کرو اور اس سے بچو، چنانچہ میں نے معلوم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی دعا میں مقفیٰ عبارت استعمال نہیں کرتے تھے۔" (صحیح البخاری ) تشریح : جیسا کہ پچھلے صفات میں گزر چکا ہے اس حدیث میں بھی اس پر زور دیا جا رہا ہے کہ وعظ و نصیحت کے معاملہ میں اعتدال اور موقع و ماحول کی رعایت ضروری ہے اور اثر اندازی کے اعتبار سے دعوت و تبلیغ کا یہ بنیادی پتھر ہے جس پر تبلیغ کی کامیابی کا پورا دار و مدار ہے۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر کچھ لوگ کسی بات چیت اور آپس کی گفتگو میں مشغول ہوں تو ایسے موقع پر پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع نہیں کر دینی چاہئے، چاہے ان کی بات چیت دنیاوی امور سے متعلق ہو یا دینی باتوں پر مشتمل ہو۔ اگر وہ دین کی بات میں مشغول ہیں تو ظاہر ہے کہ بدرجہ اولیٰ ان کی بات کو منقطع کرنا اور اس میں خلل انداز ہونا خواہ وہ تبلیغ ہی کی خاطر کیوں نہ ہو مناسب نہیں ہوگا۔ اگر بات چیت کا موضوع خالص دنیا بھی ہو تو ایسا کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ جب ایک آدمی اپنی کسی ضروری گفتگو میں مشغول ہو اور وہاں پہنچ کر وعظ و نصیحت شروع کر دی جائے تو گفتگو میں خلل پڑنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ وہ بتقاضائے بشریت اسے گوارہ نہ کرے اور وہ ایسے موقع پر قرآن وحدیث کی باتیں سننا پسند نہ کرے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ خواہ مخواہ گناہ میں مبتلا ہوگا بلکہ اس کے قلب پر دین کی عظمت و اہمیت کا نقش بھی قائم نہ ہوگا۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا ہی یہ ہو کہ انھیں اس گفتگو سے باز رکھا جائے تو پھر ایسا انداز اور طریقہ اختیار کرنا چاہئے جس سے انھیں ناگواری بھی نہ ہو اور وہ اس کلام و گفتگو سے رک بھی جائیں ، غرض کہ نظر مصلحت ضرورت وقت پر رکھنی چاہئے۔ ویسے جہان تک عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ ان کا عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دینا اکثر کے اعتبار سے تھا یعنی یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ اکثر و بیشتر لوگ محض دنیاوی باتوں ہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ " دعا میں مقفیٰ عبارت" کا مطلب یہ ہے کہ دعا تایثر کے اعتبار سے وہی بہتر ہوتی ہے جو بغیر تصنع و بناوٹ کے سیدھی سادھی ہو اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہو۔ اس لیے دعا کی عبارت کو شعر و شاعری کا رنگ دینا، الفاظ میں قافیہ اور تکلف نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دعاؤں پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقفی و مسجع ثابت ہیں اور جن میں قفیہ بندی بھی ہے۔ اس لیے یہ چیزیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے تکلف اور از خود صادر ہوتی تھیں ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکلف اور کوشش کو دخل نہیں ہوتا تھا۔
-
عن واثلہ بن اسقع قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من طلب العلم فادرکہ کان لہ کفلان من الاجر جان لم یدرکہ کان لہ کفل من الاجر-
" حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو آدمی علم کا طالب ہو اور اسے علم حاصل بھی ہوگیا تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا اور اگر اسے علم حاصل نہ ہو تو اس کو ایک حصہ ثواب ملے گا۔ " '(درامی) تشریح : دو ثواب اس طرح ملیں گے کہ ایک ثواب تو طلب علم اور اس کی مشقت و محنت کا ہوگا جو اس نے حصول علم کے سلسلے میں اٹھائی ہیں اور دوسرا ثواب علم کے حاصل ہونے کا اور پھر دوسروں کو علم سکھلانے کا ہوگا یا دوسرا ثواب عمل کا ہوگا جو اس نے علم پر کیا ہے۔ ہاں اس آدمی کو جسے اس کی طلب اور کوشش کے باوجود حاصل نہیں ہوا صرف ایک ثواب اس کی محنت و مشقت ہی کا ملے گا۔ بہر حال اتنی بات تو طے ہے کہ بہتر تقدیر طلب علم میں لگے رہنا چاہئے۔ اگر علم حاصل ہوگیا تو نور علیٰ نور کہ اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر علم حاصل نہ ہوا تو یہی کیا کم ہے کہ طلب علم میں مر جانا بھی سعادت ہے گرچہ نہ تواں بد دست رہ برون شرط یاری ست در طلب مردن
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنُ مِنْ عَمَلِہٖ وَحَسَنَاتِہِ بَعْدَ مَوْتِہٖ عِلْمًا عَلَّمَہ، وَنَشَرَہ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَہ، اَوْمُصْحَفًا وَرَّثَہ، اَوْ مَسْجِدًا بَنَاہُ اَوْبَیْتًا لِاِ بْنِ السَّبِیْلِ بَنَاہُ اَوْنَھْرًا اَجْرَاہُ اَوْصَدَقَۃً اَخْرَجَھَا مِنْ مَالِہٖ فِیْ صِحَّتِہٖ وَحَیَاتِہٖ تَلْحَقُہُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہٖ۔ (رواہ ابن ماجۃ والبیہقی فی شعب الایمان)-
" اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مومن کو اس کے جس عمل یا جن نیکیوں کا مرنے کے بعد ثواب پہنچتا ہے اس میں ایک تو علم ہے جس کو اس نے سیکھا اور رواج دیا تھا، دوسرے نیک اولاد ہے جس کو اپنے بعد چھوڑا۔ تیسرے قرآن ہے جو وارثوں کے لیے چھوڑا ہو۔ چوتھے مسجد ہے جس کو اپنی زندگی میں بنالیا گیا ہو، پانچویں مسافر خانہ ہے جس کو اس نے تعمیر کیا ہو، چھٹے نہر ہے جس کو اس نے جاری کیا ہے اور ساتویں وہ خیرات ہے جس کو اس نے اپنی تندرستی اور زندگی میں اپنے مال سے نکالا ہو، ان تمام چیزوں کا ثواب اس کے مرنے کے بعد اس کو پہنچتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، بیہقی)
-
وَعَنْ عَآئِشَۃَ اَنْھَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ اَوْحٰی اِلَیَّ اَنَّہ، مَنْ سَلَکَ مَسْلَکًا فِی طَلَبِ الْعِلْمِ سَھْلَتُ لَہ، طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ وَمَنْ سَلَبْتُ کُرِیْمَتَیْہِ اَثَبْتُہُ عَلَیْھِمَا الْجَنَّۃَ وَفَضْلٌ فِی عِلْمِ خَیْرٌ مِنْ فَضْلِ فِی عِبَادَۃِ وَمِلَاکُ الدِّیْنِ الْوَرَعُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)-
" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ وحی (خفی) بھیجی ہے کہ جو طلب علم کے لیے راستہ اختیار کرے تو میں اس پر جنت کے راستے کو آسان کردوں گا اور جس آدمی کی میں نے دونوں آنکھیں چھین لی ہوں (یعنی کوئی آدمی نابینا ہوگیا ہو) تو اس دنیاوی نعمت سے محرومی اور اس پر صبر و شکر کی بناء پر میں اس کا بدلہ اسے جنت دوں گا اور علم کے اندر زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی جڑ پرہیز گاری ہے۔" (بیہقی) تشریح : ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ جو آدمی علم دین کے حصول کے لیے کسی راستہ کو اختیار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی راہ آسان کر دے گا یعنی دنیا میں معرفت و حقیقت کی دولت سے نوازا جائے گا اور عبات خداوندی کی توفیق عنایت فرمائی جائے گی تاکہ وہ اس کے سبب جنت میں داخل ہوسکے، یا اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی پر آخرت میں جنت کے دروازے کا راستہ اور جنت میں جو محل اہل علم کے لیے مخصوص ہے اس کی راہ آسان کردی جائے گی۔ گو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں علم کی جو راہ ہے وہی آخرت میں جنت کی بھی راہ ہے اور علم کے دروازوں کے علاوہ جنت کی تمام راہیں بند ہیں یعنی بغیر علم کے جنت میں داخل ہونا مشکل ہے مگر شرط یہی ہے کہ علم خلوص نیت اور للّٰہیت کے جذبہ سے حاصل کیا گیا ہو اور پھر اس عمل کی توفیق بھی ہوتی ہو رونہ علم بغیر خلوص اور بغیر عمل کے کوئی حقیقت نہیں رکھے گا اور اس کا مصداق ہوگا کہ چار پایہ بروکتا بے چند آخر حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ دین کی اصل اور جڑ ورع (یعنی پرہیزگاری) ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حرام، منکرات اور طمع سے بچنا چاہئے تاکہ عبادات میں ریاء اور عدم اخلاص پیدا نہ ہو۔
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعْۃً مِّنَ اللَّیْلِ خَیْرٌ مِّنْ اِحْیَائِھَا۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ رات میں تھوڑی دیر علم کا درس دنیا کی تمام رات کو زندہ رکھنے سے بہتر ہے۔" (دارمی) تشریح : یعنی تمام رات نماز پڑھنے اور عبادت خداوندی میں مشغول رہنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ تھوڑی دیر تک آپس میں تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کا مشغلہ رکھا جائے اسی حکم میں حصول مقصد کے لیے علم کا لکھنا یعنی تصنیف و تالیف اور دینی و علمی کتابوں کا مطالعہ کرنا بھی داخل ہے۔
-
وَعَنْ عَبْداﷲِ بْنِ عَمْرِو اَنَّ رَسُْولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ بِمَجْلِسَیْنِ فِی مَسْجِدِہٖ فَقَالَ کِلَا ھُمَا عَلَی خَیْرِ وَاَحَدُھُمَا اَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِہٖ اَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَدْعُوْنَ اﷲَ وَیَرْغَبُوْنَ اِلَیْہٖ فَاِنْ شَآءِ اَعْطَاھُمْ وَاِنْ شَآءَ مَنَعَھُمْ وَاَمَّا ھٰؤُلَآءِ فَیَتَعَلَّمُوْنَ الْفِقْہَ اَوِالْعِلْمَ وَیُعَلِّمُوْنَ الْجَاھِلَ فَھُمْ اَفْضَلُ وَاِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلَّمًا ثُمَّ جَلَسَ فِیْھِمْ۔ (رواہ لدارمی)-
" اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو مجلسوں پر ہوا، جو مسجد نبوی میں منعقد تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دونوں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک (نیکی میں) دوسرے سے بہتر ہے۔ ایک جماعت عبادت میں مصروف ہے، اللہ سے دعا کر رہی ہے اور اس سے اپنی رغبت کا اظہار کر رہی ہے (یعنی حصول مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف امید ہے اور حصول مقصد خواہش الہٰی پر موقوف ہے ) لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انھیں دے اور اگر چاہے نہ دے اور دوسری جماعت فقہ یا علم حاصل کر رہی ہے اور جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، چنانچہ یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلّم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان میں بیٹھ گئے۔" (دارمی) تشریح : ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ صحابہ کی دو جماعتیں الگ الگ بیٹھی ہوئی ہیں ایک جماعت تو ذکر و دعا میں مشغول تھی اور دوسری جماعت مذاکرہ علم میں مشغول تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے اس جماعت کو بہتر قرار دیا جو مذاکرئہ علم میں مشغول تھی اور پھر نہ صرف یہ کہ زبان ہی سے ان کی فضیلت کا اظہار فرمایا بلکہ خود بھی اس جماعت میں بیٹھ کر علماء کی مجلس کو مزید عزّت و شرف کی دولت بخشی۔ علم اور عالموں کی اس سے زیادہ اور کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے عابدوں کی مجلس کو چھوڑ کر عالموں ہی کی ہم نشینی اختیار فرمائی ہے اور اپنے آپ کو ان ہی میں سے شمار کیا گدایان را ازیں معنی خبر نیست کہ سلطان جہاں باما ست امروز
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَاحَدُّ الْعِلْمِ الَّذِی اِذَا بَلَغُہُ الرَّجُلُ کَانَ فَقِیْھًا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ حَفِظَ عَلَی اُمَّتِی اَرْبَعَیْنَ حَدِیْثًا فِی اَمْرِ دِیْنَھَا بَعْثَہُ اﷲُ فَقِیْھًا وَکُنْتُ لَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَافِعًا وَّشَھِیْدًا۔-
" اور حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ علم کی مقدار کیا ہے کہ جب انسان اتنا علم حاصل کرے تو فقیہہ (عالم) ہو جائے اور آخرت میں اس کا شمار زمرہ علماء میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی میری امت کو فائدہ پہنچانے کے لیے امر دین کی چالیس حدیثیں یاد کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت میں فقیہ اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کا شفاعت کرنے والا اور (اس کی اطاعت پر) گواہ بنوں گا۔" تشریح : علماء لکھتے ہیں کہ اس سے مراد چالیس حدیثوں کا دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے اگرچہ وہ یاد نہ ہوں چنانچہ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے علماء نے چالیس احادیث جمع کر کے لوگوں تک پہنچائی ہیں اور اس طرح وہ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور گواہی کے امیدوار ہوئے ہیں۔
-
وَعَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَنْ اَجْوَدُ جُوْدًا قَالُو اﷲُ وَرَسُوْلُہ، اَعْلَمُ قَالَ اﷲُ اَجْوَدُ جُوْدًا ثُمَّ اَنَا اَجْوَدُ بَنِی اٰدَمَ وَاَجْوَدُ ھُمْ مِنْ بَعْدِ رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَہ، یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَمِیْرًا وَّحْدَہ، اَوْقَالَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۔-
" اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ سخاوت کے معاملہ میں سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سخاوت کرنے میں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے اور بنی آدم میں سے سب بڑا سخی میں ہوں، پھر لوگوں میں میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ آدمی ہوگا جس نے علم سیکھا اور اسے پھیلایا۔ وہ آدمی قیامت کے دن ایک امیر یا فرمایا کہ ایک گروہ کی طرح آئے گا۔" تشریح : آخر روایت میں راوی کو شک ہوگیا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر اوحدہ فرمایا یا امۃ واحدۃ فرمایا یعنی ایسا آدمی جس نے علم سیکھا اور اس کو لوگوں کے درمیان پھیلایا تو اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ آخرت میں ایک امیر کی مانند آئے گا کہ وہ کسی کے تابع نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ تابع اور خدام ہوں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ وہ تن تنہا آدمی ایک گروہ جماعت کی مانند ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان معزز و مکرم ہوگا اور آخرت میں بصد شوکت و حشمت آئے گا۔
-
وَعَنْہُ اَنْ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْھُوْمَانِ لَا یَشْبَعَانِ مَنْھُوْمٌ فِی الْعِلْمِ لَا یَشْبَعُ مِنْہ، وَ مَنْھُوْمٌ فِی الدُّنْیَا لَا یَشْبَعُ مِنْھَا رَوَی الْبَیْھَقِیُّ اَ لْاَحَادِیْثَ الثَّلَاثَۃَ فِی شُعْبِ الْاِیْمَانِ وَقَالَ قَالَ الْاِمَامُ اَحْمَدُ فِی حَدِیْثِ اَبِی الدَّرْدَآءِ ھٰذَا مَتْنٌ مَشْھُوْدٌ فِیْمَا بَیْنَ النَّاسِ وَلَیْسَ لَہ، اِسْنَادٌ صَحِیْحٌ۔-
" اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ حرص کرنے والے دو آدمی ہیں جن کا پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک علم میں حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ کبھی علم سے نہیں بھرتا، اور دوسرا دنیا کی حرص کرنے والا کہ اس کا پیٹ دنیا سے کبھی نہیں بھرتا۔ مذکورہ بالا تینوں حدیثیں بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔ حضرت امام مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے سنن ابوداؤد کی حدیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا متن لوگوں میں مشہور ہے مگر اس کی اسناد صحیح نہیں ہے۔" تشریح : امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے طرق متعدد ہیں جن میں بعض کو دوسرے بعض کی بناء پر تقویت ملی ہے لیکن ویسے بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔
-
وَعَنْ عَوْنِ قَالَ قَالَ عَبْدُاﷲِ ابْنُ مَسْعُوْدِ مَنْھُو مَانِ لَا یَشْبَعَانِ صَاحِبُ الْعِلْمِ وَ صَاحِبُ الدُّنْیَا وَلَا یَسْتَوِیَانِ اَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ فَیَزْ دَادُ رِضَیً لِلرَّحْمٰنِ وَاَمَّا صَاحِبُ الدُّنْیَا فَیَتَمَارَی فِی الطُّغْیَانِ ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُاﷲِ کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیُطْغَی اَنْ رَّاَہُ اسْتَغْنٰی قَالَ وَقَالَ الْاٰخِرُاِنَّمَا یَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمََأُ۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ دو حریص ہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا، ایک عالم اور دوسرا دنیا دار لیکن یہ ( درجہ میں) برابر نہیں ہیں کیونکہ عالم تو اللہ کی خوشنودی و رضا مندی کو زیادہ کرتا ہے اور دنیا دار سرکشی میں زیادتی کرتا ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دنیا دار کے حق میں ( دلیل کے طور پر ) یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) خبردار ! انسان البتہ سرکشی کرتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو (کثرت مال کی بنا پر لوگوں سے) غنی دیکھتا ہے حضرت عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوسرے یعنی عالم کے حق میں یہ آیت پڑھی۔ (آیت کا ترجمہ) اللہ کے بندوں میں عالم اللہ سے ڈرتے ہیں۔" (درامی)
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اِنَّ اُنَاسًا مِنْ اُمَّتِی سَیَتَفَقَّھُوْنَ فِیْ الدِّیْنِ وَیَقْرَ اُوْنَ الْقُرْاٰنَ یَقُوْلُوْنَ نَأْتِی الْاُمَرَاءَ فَنَصِیْبُ مِنْ دُنْیَا ھُمْ وَنَعْتَزِلُھُمْ بِدِیْنِنَا وَلَا یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَمَا لَا یُجْتَنٰی مِنَ لْقَتَادِ اِلَّا الشَّوْکُ کَذٰلِکَ لَا یُجْتَنٰی مِنْ قُرْبِھِمْ اِلَّا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ کَاَنَّہ، یَعْنِی الْخَطَایَا۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری امت میں بہت سے لوگ دین میں سمجھ یعنی دین کا علم حاصل کریں گے اور قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے کہ ہم امراء کے پاس جا کر ان کی دنیا اور (دولت) میں سے اپنا حصّہ حاصل کریں گے اور اپنے دین کو ان سے یکسو رکھیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا (کہ دین و دنیا ایک جگہ جمع ہو جائیں اور امراء کی صحبت میں بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے) جیسا کہ جس طرح خاردار درخت سے صرف کانٹا ہی حاصل ہو سکتا ہے اسی طرح امراء کی صحبت سے نہیں حاصل ہوتا مگر! حضرت محمد ابن صباح رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد (لفظ الا کے بعد ) خطایا تھی۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح : حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الا کے بعد کسی لفظ کا تکلّم نہیں فرمایا چنانچہ حضرت محمد بن صباح رحمہ اللہ تعالیٰ جو ایک جلیل القدر محدّث اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ وامام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ جیسے ائمہ حدیث کے استاد ہیں۔ اس کی وضاحت فرما رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد الفاظ الا کے بعد خطایا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حذف فرمایا اور اس کا تکلّم نہیں کیا۔ اس طرح حدیث کے آخری الفاظ اب اس طرح ہو جائیں گے لَا یُجْتَنِی من قربھم الا الخطایا یعنی امراء کی صحبت سے حاصل نہیں ہوتا مگر گناہ۔ بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ایسے بھی عالم پیدا ہوں گے جن کا مقصد حصول علم سے محض یہ ہوگا کہ وہ علم حاصل کر کے اور قرآن پڑھ کر امراء کے پاس جائیں اور ان کے سامنے اپنی بزرگی و فضیلت کا اظہار کر کے ان سے مال و دولت حاصل کریں اور علم کی جو حقیقی منشاء و مدعا ہوگی یعنی اللہ کی مخلوق کی ہدایت اور عوام الناس کی بغیر کسی لالچ اور طمع کے دینی راہبری اس سے انھیں قطعاً کوئی مطلب نہ ہوگا۔ اور جب ان سے کہا جائے گا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بیک وقت تفقہ فی الدّین اور امراء کی قربت و صحبت جمع ہوجائے؟ تو وہ جواب میں یہ کہیں گے کہ ہم ان سے مال و دولت تو حاصل کریں گے مگر اپنے دین کو ان سے بچائیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے حالانکہ یہ امر محال ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُوْدِقَالَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْعِلْمِ صَانُوْا الْعِلْمَ وَوَضَعُوْہ، عِنْدَاَھْلِہٖ لَسَادُوْابِہٖ اَھْلَ زَمَانِھِمْ وَلَکِنَّھُمْ بِذَلُوْہ، لِاَ ھْلِ الدُّنْیَا لِیَنَا لُوْابِہٖ مِنْ دُنْیَا ھُمْ فَھَا نُوْا عَلَیْھِمْ سَمِعْتُ نَبِیَّکُمْ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ ھَمًّا وَاحِدًا ھَمَّا اٰخِرَتِہٖ کَفَاہُ اﷲُ ھَمَّ دُنْیَاہُ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِہٖ الْھُمُوْمُ (فِی) اَحْوَالِ الدُّنْیَا لَمْ یُبَالِ اﷲُ فِی اَیْ اَوْدِیَتِھَا ھَلَکَ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَاہُ الْبَیْھِقِیُّ فِی شُعَبِ الْاِیْمَانِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِنْ قَوْلِہٖ مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ اِلٰی اٰخِرِہٖ۔-
" اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا اگر اہل علم (یعنی علماء) علم کی حفاظت کریں اور علم کو اس کے اہل ہی (یعنی قدر دانوں) کے سامنے رکھیں تو وہ بے شک اپنے علم کے سبب دنیا والوں کے سردار بن جائیں لیکن (علماء) نے اگر ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے علم کو دنیا داروں پر خرچ کیا تاکہ اس کے ذریعہ وہ دنیا (یعنی جاہ و جلال) کو حاصل کریں اور علم کا حقیقی مقصد یعنی دنیا والوں کی ہدایت و نصیحت کو موقوف کر دیں تو وہ دنیا والوں کی نظر میں ذلیل ہوئے۔ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس آدمی نے اپنے مقاصد میں سے صرف ایک مقصد یعنی آخرت کے مقصد کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی مقصد کو پورا کر دیتا ہے جس آدمی کے مقاصد پراگندہ ہوں جیسے کہ دنیا کے حالات ہیں تو پھر اللہ کو پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ خواہ کسی جنگل (یعنی دنیا کی کسی حالت) میں ہلاک ہو۔ (ابن ماجہ، بیہقی نے اس حدیث کو شعب الایمان میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قول " من جعل الھموم" سے آخر تک روایت کیا ہے۔" تشریح : یہ حدیث علماء کو احساس و شعور کی ایک دولت بخش رہی ہے اور علم کے سب سے اعلیٰ و بلند مقام کی نشاندہی کر رہی ہے چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ علماء اپنا مرتبہ و مقام پہچانیں اور وہ جس عرفانی مقام پر فائز ہیں اس کی اہمیت و نزاکت کا احساس کریں۔ اس لیے کہ علم دین جن بلند و اعلیٰ احساسات کا حامل ہے اسی طرح وہ اپنا ظرف بھی بلند و اعلیٰ چاہتا ہے۔ علم کی شان عظمت ہی یہ ہے کہ وہ قدر دانوں اور باشعور اشخاص کے پاس رہے۔ اگر حصول جاہ و جلال کی خاطر علم کو دنیا دار سرداروں اور ظالموں کی چوکھٹ کا سجدہ ریز بنایا جاتا ہے تو یہ علم کی سب سے بڑی توہین اور عالم کی سب سے بڑی ذلت ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بات اس سے بڑی فرما رہے ہیں ۔ وہ کہتے کہ دنیاوی اعتبار سے سرداری، شوکت و حشمت اور عزت و عظمت کوئی بڑی چیز نہیں ہے بلکہ اصل اور حققیی سرداری و امارت تو وہ ہے جو فضل و کمال اور بزرگی کے اعتبار سے ہو یہی وجہ ہے کہ علماء کی یہ شان نہیں ہوا کرتی کہ وہ بادشاہ و امیر بنیں یا حاکم و سردار ہوں، وہ تو علم و فضل اور بزرگی کی طاقت سے دنیا کے روحانی تاجدار ہوتے ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ پر حکمران ہوتے ہیں اور ان کے ماسواء ان کے زیر قدم، زیر قلم اور ان کی عقل و احکام کے تابع دار ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شاہد ہے : آیت ( يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ )۔ (58۔ المجادلۃ : 11) " یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کے جو ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا درجات بلند کرتا ہے۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ بندہ کا احساس اور اس کا شعور اتنا پاکیزہ اور لطیف ہو جانا چاہئے کہ اس کے دل و دماغ کے ایک ایک گوشہ میں صرف ایک ہی مقصد کی روشنی ہو اور وہ مقصد آخرت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہ ہو اور کوئی غرض نہ ہو تو پھر اللہ کی جانب سے اس پر دنیاوی وسعت کے دروازے بھی خود بخود کھول دیئے جاتے ہیں۔ لیکن بندہ کا دل و دماغ اگر اتنا پر اگندہ ہو کہ وہ ہمہ وقت دنیا کی چیزوں میں تو لگا رہے اور دنیا کے تفکرات میں مستغرق رہے تو اللہ کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی اچھا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اللہ اس سے اتنا بے تعلق ہو جاتا ہے کہ اگر وہ بندہ دنیا کی کسی تکلیف اور کسی بھی مصیبت میں ہلاک ہو جائے تو اللہ کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ دنیاوی اعتبار سے اور نہ دینی اعتبار سے رحمت خداوندی کی نظر کرم اس کی طرف ہوتی ہے۔ اس طرح وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کے خسران و نقصان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
-
وَعَنِ الْاَ عْمَشِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اٰفَۃُ الْعُلْمِ النِّسْیَانُ وَاِضَاعَتُہ، اَنْ تُحَدِّیْثَ بِہٖ غَیْرَ اَھْلِہٖ رَوَاہُ الدَّارِمِیُّ مُرْسَلًا۔-
" اور حضرت اعمش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا علم کی آفت بھولنا ہے اور علم کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو نا اہل کے سامنے بیان کیا جائے۔" (دارمی نے بطریق ارسال کیا ) تشریح : علم کے حاصل ہونے سے پہلے تو بہت آفات اور مصیبتیں ہوتی ہیں لکل شئی آفۃ والعلم اٰفات یعنی ہر چیز کی ایک ہی آفت ہوتی ہے مگر علم کے لیے بہت سے آفات ہیں لیکن حصول علم کے بعد ایک ہی آفت ہے اور وہ نسیان یعنی بھولنا ہے اور یقینا کسی چیز کا حاصل ہوجانے کے بعد زائل ہو جانا اور ذہن میں آکر پھر محو ہو جانا زبردست روحانی اذیت ہے۔ دراصل اس حدیث سے اس پر تنبیہ مقصدود ہے کہ طالب علم اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ایسی باتوں سے اجتناب کریں جو نسیان کا سبب ہیں یعنی گناہ و معصیت سے بچیں اور ان چیزوں میں دل نہ لگائیں جو ذہن و فکر کو غافل کر دیتی ہیں جیسے دنیا کی سحر آفرینیوں اور خواہشات نفسانی میں دلچسپی لینا چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے شکوت الی وکیع سوء حفظی فاوصانی الی ترک المعاصی ترجمہ : " میں نے اپنے استاد وکیع سے اپنے حافظہ کی کمزروی کی شکایت کی تو انھوں نے مجھے ترک معصیت کی نصیحت کی۔" فان العلم فضل من الٰہ وفضل اللہ لا یعطی لعاص ترجمہ : " کیونکہ علم تو اللہ کا ایک فضل ہے اور اللہ کا فضل گناہ گار کے حصہ میں نہیں آتا۔" آخر حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ علم کو اس کے نااہل اور ناقدردان کے سامنے پیش کرنا دراصل علم کو ضائع کرنا ہے اور نا اہل وہ آدمی ہے جو نہ تو علم کو سمجھتا ہے اور نہ علم کی قدر جانتا ہے لہٰذا جب اس کے سامنے علم پیش کیا جائے گا تو علم ضائع ہوگا۔ اس لیے علم انھی کو سکھانا چاہئے جو اس کے اہل اور قدردان ہوں، یعنی وہ علم سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ بھی ان کے اندر موجود ہو۔
-
وَعَنْ سُفْیَانَ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ، قَالَ لِکَعْبِ مَنْ اَرْبَابُ الْعِلْمِ؟ قَالَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ بِمَا یَعْلَمُوْنَ قَالَ فَمَا اَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوْبِ الْعُلَمَآءِ قَالَ اَلطَّمْعُ۔ (رواہ الدرامی)-
" اور حضرت سفیان رحمہ اللہ تعالیٰ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا (تمہارے نزدیک) صاحب علم کون ہے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم کے موافق عمل کریں، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کون سی چیز عالموں کے دلوں سے علم کو نکال لیتی ہے؟ حضرت کعب نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ جواب دیا۔" لالچ" (دارمی) تشریح : حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ علماء کے دلوں سے نور علم اور علم کی عظمت و برکت کو نکالنے والی کونسی چیز ہے اور وہ کیا شے ہے جس کی موجودگی علم کے منافی ہے؟ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " لالچ" ۔ وہ بری خصلت ہے جو علم کے نور کو عالم کے دل سے ضائع کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب کسی عالم کے اندر جاہ و جلال کی محبت اور لالچ اور دنیاوی اسباب عیش و عشرت کی طمع پیدا ہو جائے گی تو پھر علم کا نور اور علم کی برکت اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور عالم کے دل و دماغ علم کی حقیقی روشنی سے منوّر نہ رہ سکیں گے۔
-
وَعَنِ الْاَحْوَصِ بْنِ حَکِیْمِ عَنْ اَبِیْہٖ قَالَ سَأَلُ رَجُلٌ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الشَّرِّ فَقَالَ لَا تَسْئَلَوْنِی عَنِ الشَّرِّوَسَلُوْنِی عَنِ الْخَیْرَ یَقُوْلُھَا ثَلَاثُا ثُمَّ قَالَ اَلَا اِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِّرَارُ الْعُلَمَآءِ وَاِنَّ خَیْرَ الْخَیْرِ خِیَارُالْعُلَمَآئِ۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت احوض بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے " برائی" کے بارے میں سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے برائی کے بارے میں مت پوچھو بلکہ بھلائی کے بارے میں سوال کرو۔ اور ان جملوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ادا فرمایا۔ خبردار ! بد لوگوں میں بد ترین برے عالم ہیں اور بھلے لوگوں میں سب سے بہتر بھلے علماء ہیں۔ " (دارمی) تشریح : صحابی کے سوال کا مقصد یا تو نفسِ برائی کے بارے میں دریافت کرنا تھا جیسا کہ ترجمہ سے معلوم ہوا یا وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ بد ترین آدمی کون ہےَ اور جواب کو دیکھتے ہوئے یہی مقصد زیادہ واضح ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال سے منع فرمایا، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سراپاءِ رحمت اور سراپاءِ خیر ہے اس لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محض بدی اور برائی کا سوال کیا جاتا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برائی اور بھلائی دونوں کے بارے میں جواب دے کر اسی طرف اشارہ فرمایا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء کی ذات چونکہ عوام کے اندر ایک معیار اور نمونہ ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع و معتقد ہوتے ہیں لہٰذا عالم کی ہر صفت اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کے اثرات تک بھی پہنچتے ہیں، عالم اگر نیک اخلاق و عادات اور اچھے خصائل کا ہوتا ہے تو اس کے ماننے والے اور اس کی اتباع کرنے والے بھی نیک اخلاق و عادات کے مالک ہوتے ہیں اور خدانخواستہ بد اخلاق، بد کردار ہو جائے تو پھر اس کے جراثیم دوسرے تک پہنچتے ہیں اور اس کے ماننے والے بھی اسی کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ اِنَّ مِنْ اَشَرِالنَّاسِ عِنْدَاﷲِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَا یَنْتَفِعُ بِعِلْمِہٖ۔ (رواہ الدارمی)-
' اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبہ میں سب سے بد تر وہ عالم ہے جس نے اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھایا۔" (دارمی) تشریح : یا تو اس سے مراد وہ عالم ہے جس نے ایسا علم سیکھا جو فائدہ پہنچانے والا نہیں ہے۔ یعنی غیر شرعی علوم اس نے حاصل کئے جو نفع بخش نہیں ہیں یا پھر وہ عالم مراد ہے جس نے علم تو شرعی اور دینی حاصل کیا مگر اس پر عمل نہیں کیا۔ لہٰذا ایسے عالم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ قیامت کے روز مرتبہ کے اعتبار سے وہ اللہ کے نزدیک سب سے بد تر ہوگا یعنی یہ جاہل سے بھی زیادہ برا ہوگا یہی وجہ ہے کہ اس پر جو عذاب ہوگا وہ جاہل کے عذاب سے سخت ہوگا، جیسا کہ منقول ہے۔ ویل للجاھل مرۃ و ویل اللعالم سبع مرات۔ یعنی جاہل کے لیے ایک مرتبہ بربادی ہے اور عالم کے لیے سات مرتبہ بربادی ہے، نیز یہ وارد ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ اور سب سے شدید عذاب جس پر ہوگا وہ ایسا عالم ہے کہ جسے اللہ نے علم دیا اور اس نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
-
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ حُدَیْرِ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ قَالَ لِیْ عُمَرُ ھَلْ تَعْرِفُ مَا یَھْدِمُ الْاِسْلَامَ قُلْتُ لَا قَالَ یَھْدِمُہ، زَلَّۃُ الْعَالِمِ وَجِدَالُ الْمُنَافِقِ بِالْکِتَابِ وَحُکْمُ الْاَئِمَّۃِ الْمُضَلِّیْنَ۔ (رواہ الدارمی)-
" اور حضرت زیاد بن حدیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کی عمارت کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم! حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ عالم کا پھسلنا (یعنی کسی مسئلہ میں عالم کا غلطی کرنا اور اس کا گناہ کرنا، منافق کا کتاب اللہ میں جھگڑنا اور گمراہ سرداروں کا حکم جاری کرنا اسلام (کی عمارت ) کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔" (دارمی) تشریح : اسلام کی عمارت کو ڈھا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو پانچ بنیادی اصول ہیں، یعنی کلمہ، تو حید، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج۔ وہ بیکارِ محض ہو کر رہ جائیں، چنانچہ جب عالم اپنے حقیقی فرائض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی کو اپنی خواہشات نفسانی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے تو ان چیزوں میں سستی اور فساد واقع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح منافق یعنی وہ آدمی جو بظاہر تو اسلام کا دم بھرتا ہے مگر اندرونی طور پر وہ کفر و بدعت کا پوری طرح ہمنوا ہوتا ہے۔ جب قرآن میں جھگڑتا ہے بایں طور پر وہ قرآن کے معنی و مفہوم کی غلط تاویلات کر کے احکام شرعیہ کو رد کرتا ہے تو اس سے ارکان اسلام میں سستی اور دین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ اسی زمرہ میں وہ روافض اور خوراج نیز دیگر باطل عقائد کے لوگ بھی داخل ہیں جو اپنی خواہشات نفسانی اور ذاتی اغراض کی خاطر غلط سلط تاویلیں کر کے دین و شریعت میں شک و شبہہ کا بیج بوتے ہیں۔
-
وَعَنِ الْحَسَنِ قَالَ الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِی الْقَلْبِ فَذَاکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ فَذٰلِکَ حُجَّۃُ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ۔ (رواہ الدرامی)-
" اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ علم جو دل کے اندر ہوتا ہے یہ علم تو نفع دیتا ہے اور دوسرا وہ علم ہے جو زبان کے اوپر ہوتا ہے یہ علم آدمی پر اللہ عزوجل کی دلیل و حجت ہے۔" (دارمی) تشریح : حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے علم کی جو دو قسمیں کی ہیں ان میں سے پہلے کو علم باطن کہا جاتا ہے اور دوسرے کو علم ظاہر چنانچہ جب تک ظاہر کی اصلاح نہیں ہوتی علم باطن سے کچھ میسر نہیں آتا، اسی طرح جب تک باطن کی اصلاح نہیں ہو جاتی علم ظاہر کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ابوطالب مکی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں علم اصل اور بنیادی ہیں اور ان دونوں میں اس درجہ کا ارتباط و تعلّق ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا۔ جس طرح ایمان و اسلام کہ ایک دوسرے کے بغیر صحیح نہیں ہوتے یا جیسے دل و جسم کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ٹھیک اسی طرح ان دونوں علوم کا آپس میں ارتباط و تعلق ّہے۔ (ملاقاری) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے کہ جب اس کی روشنی سے دل منوّر ہو جاتا ہے تو دل کے وہ پردے اٹھ جاتے ہیں جو حقائق اشیاء کی معرفت و فہم کے لیے مانع ہیں۔ علم نافع کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو علم معاملہ جو عمل کا باعث ہوتا ہے اور دوسرا علم مکاشفہ جو عمل کا اثر ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے دل میں یہ نورانی علم ڈال دیتا ہے اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ نے جس علم کو نافع قرار دیا ہے وہ یہی علم ہے اور جو علم زبان کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو نہ تو تاثیر رکھتا ہے اور نہ دل میں نورانیت پیدا کرتا ہے علم چوں بردل زند یاری شود علم چوں برتن زند ماری شود چنانچہ اسی علم کو کہا جا رہا ہے کہ یہ بندوں پر اللہ کی جانب سے حجت اور دلیل ہے کہ خدا بندوں کو الزام دیتے ہوئے فرمائے گا کہ میں نے تو تمہیں علم دیا تھا تم نے اس پر علم کیوں نہیں کیا؟ اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ جاہل کے لیے ایک بار بربادی ہے اور عالم کے لیے سات بار کیونکہ یہ دیدہ و دانستہ گمراہ ہوا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وِعَائَیْنِ فَاَمَّا اَحَدُھُمَا فَبَثَثْتُہ، فِیْکُمْ وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُہ، قُطِعَ ھٰذَا الْبُلْعُوْمُ یَعْنِی مِجْرَی الطَّاعَامِ۔ (رواہ البخاری)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باسن (یعنی دو طرح کے علم) یاد رکھے ہیں، ان میں سے ایک کو تمہارے درمیان میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا علم وہ ہے کہ اگر میں اسے بیان کروں تو میرا یہ گلا کاٹ ڈالا جائے۔" (صحیح البخاری ) تشریح : پہلے علم سے مراد تو علم ظاہر ہے جس کا تعلق احکام و اخلاق وغیرہ سے ہے۔ دوسرے علم کے دو مفہوم لیے جا سکتے ہیں اول تو یہی کہ اس سے مراد وہ علم باطن ہے جس کے اسرار و معانی عوام سے ان کے ناقص فہم کی بنا پر پوشیدہ ہیں اور وہ علم خواص علماء عارفین کے ساتھ محضوص ہے یا دوسرے معنیٰ یہ ہو سکتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ میرے بعد ایک جماعت کی طرف سے ایک زبردست فتنہ اٹھے گا جس سے بدعات کی بنیاد پڑ جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس قوم اور قوم کے افراد کے ناموں کا بھی علم تھا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مراد یہی علم ہو جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اگر میں اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دوں گا تو میری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍص قَالَ ےَا اَےُّھَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَےْئًا فَلْےَقُلْ بِہٖ وَمَنْ لَّمْ ےَعْلَمْ فَلْےَقُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ فَاِنَّ مِنَ الْعِلْمِ اَنْ تَقُوْلَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اَللّٰہُ اَعْلَمُ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِنَبِےِّہٖ قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَےْہِ مِنْ اَجْرٍ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِےْنَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور مروی ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) اے لوگو! جو آدمی کسی بات کو جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ اسے بیان کر دے، اور جو نہ جانتا ہو تو چاہئے کہ وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے اس لیے کہ جس چیز کا اسے علم نہیں ہے، اس کے بارے میں اللہ زیادہ جانتا ہے۔ کہنا بھی علم کی ایک قسم ہے (یعنی معلوم کا غیر معلوم سے تمیز کرنا بھی علم کی ایک قسم ہے ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے فرمایا ہے کہ آیت (قُلْ مَا اَسْ َ لُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ) 38۔ص : 86) ترجمہ : " یعنی اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کہ میں اس قرآن پر تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہو۔" (صحیح البخاری ) تشریح : اس آیت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ خدا نے جو کچھ علم مجھے دیا اور جتنا مجھے سکھا دیا اور پھر اس کو پھیلانے اور لوگوں کو سکھانے کا حکم دیا اسی کو لوگوں تک پہنچاتا اور انھیں سکھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی دوسری چیز کا دعویٰ اپنی طرف سے نہیں کرتا اور نہ ان چیزوں سے بحث کرتا ہوں جو مشکل اور سخت ہونے کی وجہ سے عوام کے فہم سے بلند و بالا ہیں کیونکہ ایسا کرنا خواہ مخواہ کا تکلف کرنا ہے۔
-
وَعَنِ بْنِ سِےْرِےْنَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ قَالَ اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِےْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَاْخُذُوْنَ دِےْنَکُمْ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ علم (یعنی کتاب و سنت کا علم) دین ہے ۔ لہٰذا جب تم اس کو حاصل کرو تو یہ دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔ " (صحیح مسلم) تشریح : اس ارشاد سے دراصل اس بات پر تنبیہ مقصود ہے کہ جب علم حاصل کرنے کا ارادہ کرو یا حدیث حاصل کرو تو اس بات کو خوب اچھی طرح جانچ پرکھ لو کہ تم جس سے علم حاصل کر وہے ہو وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ آیا وہ قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ جب تمہیں اس عالم یا راوی کے حالات کا پوری طرح علم ہوجائے اور سمجھ لو کہ واقعی وہ دیندار، پرہیزگار اور قوی الحافظہ ہے تو اس سے علم حاصل کرو۔ اس طرح ہر کس و ناکس کو اپنا استاد نہ بناؤ اور ہر آدمی سے حدیث کی روایت نہ کرو خصوصاً اہل بدعت، نفسانی خواہشات کے غلام اور غیر دیندار لوگوں سے اس معاملہ میں اجتناب برتو۔
-
وَعَنْ حُذَےْفَۃَ صقَالَ ےَا مَعْشَرَ الْقُرَّآءِ اسْتَقِےْمُوْا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِےْدًا وَّاِنْ اَخَذْتُمْ ےَمِےْنًا وَّشِمَالًا لَّقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِےْدًا۔ (صحیح البخاری)-
" اور مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاریوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے قاریوں کی جماعت سیدھے رہو! اس لیے کہ تم سبقت لے گئے ہو دور کی سبقت اگر تم (سیدھے راستہ سے ہٹ کر) ادھر ادھر ہوگئے تو البتہ بڑی گمراہی میں پڑ جاؤ گے۔" ( صحیح البخاری ) تشریح : یہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خطاب ہے جو ابتداء ہی میں اسلام کی دولت سے مشرف ہوگئے تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے شروع ہی میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ اس لیے یہ اپنے فضل و کمال کی بناء پر ان لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں جو بعد میں مسلمان ہوئے ہوں گے اگرچہ ان کے اعمال بھی ان ہی جیسے ہوں گے لیکن بعد کے لوگ پہلے والوں کے مرتبہ و درجہ کو ان کی سبقت اسلام کی بناء پر نہیں پہنچ سکتے۔ بہر حال انھیں مقدّس حضرات کو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخاطب فرما رہے ہیں کہ تم لوگ شریعت، طریقت اور حقیقت کی راہ پر مستقیم رہو اس لیے کہ استقامت کرامت سے بہتر ہے۔ استقامت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اچھے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہا جائے، نفع دینے والے علم اور صالح پر مداومت اختیار کی جائے، اخلاص خالص رکھے اور اللہ تعالیٰ کے سوا تمام چیزوں سے دھیان ہٹا کر حق تعالیٰ کے ساتھ لو لگائے رہے۔
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ تَعَوَّذُوْابِاﷲِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ قَالُوْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَمَا حُبُّ الْحُزْنِ قَالَ وَادِ فِی جَھَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہ، جَھَنَّمُ کُلَّ یَوْمِ اَرْبَعَ مِائَۃَ مَرَّۃِ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَمَنْ یَّدْخُلُھَا قَالَ الْقُرَاءُ الْمُرَاءُ وْنَ بِاَعْمَالِھِمْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَکَذَا بْنُ مَاجَۃَ زَادَفِیْہِ وَاِنَّ مِنْ اَبْغَضِ الْقُرَّآءِ اِلَی اﷲِ تَعَالیٰ اَلَّذِیْنَ یَزُوْرُوْنَ الْاُمَرَآءَ قَالَ الْمُحَارِبِیُّ یَعْنِی الْجَوْرَۃَ۔ (رواہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا۔ تم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو حب الحزن یعنی غم کے کنویں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دوزخ میں ایک نالہ ہے جس سے دوزخ دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! اس میں کون داخل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے اعمال کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ) اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اللہ کے نزدیک مبغوض ترین وہ قاری ہیں جو سرداروں سے ملاقات کرتے ہیں اس حدیث کے راوی حاربی نے کہا ہے کہ سرداروں سے مراد ظالم سردار ہیں۔" ( جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ) تشریح : " جب الحزن" دوزخ کی ایک وادی کا نام ہے جو بہت گہری ہے اور کنوئیں کے مشابہ ہے یہ اتنی زیادہ ہیبت ناک اور وحشت ناک ہے کہ دوزخی تو الگ رہے خود دوزخ دن میں چار سو مرتبہ اس سے پناہ مانگتی ہے۔ چنانچہ فرمایا جا رہا کہ وہ قاری جو اپنا عمل یعنی قرآن پڑھنا محض دکھلا وے و ریاء کے لیے کرتے ہیں اسی وحشت ناک وادی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ اسی حکم میں ریاکار عالم اور عابد بھی داخل ہیں، کیونکہ علم کی اصل بنیاد تو قرآن ہی ہے اسی طرح عبادت بھی قرآنی احکام ہی کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے عالم اور عابد جو ریاء کار ہیں وہ انھیں قاریوں کے ہمراہ اسی کنواں کا لقمہ بنیں ۔ " سرداروں سے ملاقات " کا مطلب یہ ہے کہ جو قاری سرداروں سے محض حب جاہ و مال اور دنیاوی طمع و لالچ کی خاطر ملتا ہے وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین ہے۔ ہاں اگر سرداروں سے ملنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہو یا بطریق جبر اور ان کے شرک کے دفعیہ کے لیے ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نیز یہاں سرداروں سے بھی وہی سردار مراد ہیں جو ظالم اور جابر ہوں، نیک بخت سردار یا عادل امیر و حاکم کا یہ حکم نہیں ہے۔ کیونکہ ایسے امراء و سردار جو اللہ کے نیک بندے ہوں ان سے ملاقات کرنا عبادت میں داخل ہے۔
-
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)-
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انھیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انھیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انھیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی) تشریح : یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لیے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لیے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لیے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لیے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرات سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔ مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔
-
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ لَبِیْدِ قَالَ ذَکَرً النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم شَیْئًا فَقَالَ ذٰلِکَ عِنْدَ اَوَنِ ذَھَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَکَیْفَ یَذْھَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَنُقْرِئُہُ اَبْنَاءَ نَا وَ یُقْرِئُہُ اَبْنَاءُ نَا اَبْنَاءَ ھُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ زِیَادُ اِنْ کُنْتُ لَاَرَاکَ مِنْ اَفْقَہٖ رَجُلِ بِالْمَدِیْنَۃِ اَوْلَیْسَ ھٰذِہٖ الْیَھُوْدُ وَ النَّصَارَی یَقْرَاُوْنَ التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ لَا یَعْمَلُوْنَ بِشَئْیِ مِمَّا فِیْھِمَا۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ ابْنُ مَاجَۃَ وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ عَنْہُ نَحْوَہُ وَ کَذَا الدَّارِمِیُّ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل، ابن ماجۃ)-
' اور حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز (یعنی فتنہ اور ابتلاء ) کا ذکر کیا۔ پھر فرمایا یہ اس وقت ہوگا جبکہ علم جاتا رہے گا۔ (یہ سن کر ) میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) علم کس طرح جاتا رہے گا؟ حالانکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے، ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ زیاد! تمہیں تمہاری ماں گم کردے! میں تو تمہیں مدینے کے لوگوں میں بڑا سمجھ دار سمجھتا تھا کیا یہود و نصاری توریت و انجیل کو نہیں پڑھتے ہیں۔ لیکن ان کی کتابوں کے اندر جو کچھ ہے ۔ (یعنی احکام) اس میں وہ کسی چیز پر عمل نہیں کرتے (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ) اور ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی ہی روایت زیاد سے اور اسی طرح دارمی نے ابی امامہ سے نقل کی ہے۔" ( مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ، جامع ترمذی ) تشریح : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ تم نے میرے کلام کا منشاء جانے بغیر یہ خیال کر لیا کہ صرف قرآن کا پڑھ لینا اور اس کا علم حاصل کر لینا ہی کافی ہے یعنی جس نے قرآن پڑھ لیا اور اس کا علم حاصل کر لیا گویا اس نے اس پر عمل بھی کر لیا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ محض قرآن کو پڑھ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اصل چیز تو اس کا اتباع اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے اور یہی چیز اس وقت مقصود ہوگی، چنانچہ قرآن کو مسلمان پڑھیں گے اور اس کا علم حاصل کریں گے مگر ان کا عمل قرآن کے مطابق نہیں ہوگا جس طرح کہ یہود و نصاریٰ کہ وہ بھی اپنی کتابوں یعنی تو ریت و انجیل کو پڑھتے ہیں اور اس کا علم بھی حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے احکام پر ذرہ برابر بھی عمل نہیں کرتے۔
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودِ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم تَعَلَّمُوْا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسَ تَعَّلَمُوْالْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوْھَا النَّاسَ تَعَلَّمُوْا الْقُرْاٰنَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسَ فَاَنِّی امْرُءٌ مَقْبُوْضٌ وَالْعِلْمُ سَیُقْبَضُ وَتَظْھَرُ الْفِتَنُ حَتّٰی یَخْتَلِفَ اِثْنَانِ فِی فَرِیْضَۃِ لَّا یَجِدَانِ اَحَدً یَّفْصِلُ بَیْنَھُمَا۔ (رواہ الدارمی والدار قطنی)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ علم کو سیکھو اور سکھلاؤ، علم فرائض (یا فرض احکام) کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ (اسی طرح) قرآن کو سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھلاؤ۔ اس لیے کہ بے شک میں ایک آدمی ہوں جو اٹھایا جاؤں گا اور علم بھی اٹھا لیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی ایک فرض چیز میں اختلاف کریں گے اور کسی کو ایسا نہ پائیں گے جو ان دونوں کے درمیان فیصلہ کرے (یعنی علم کے کم ہو جانے اور فتنوں کے بڑھ جانے) سے یہ حال ہو جائے گا۔ " (دارمی ، دار قطنی)
-
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مَثَلُ عِلْمِ لاَّ یُنْتَفَعُ بِہٖ کَمَثَلِ کَنْزِ لاَّ یُنْفَقُ مِنْہُ فِی سَبِیْلِ اﷲِ ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل والدارمی)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس علم کی مثال جس سے نفع نہ اٹھایا جائے (یعنی نہ دوسروں کو پڑھایا جائے اور نہ اس پر عمل کیا جائے، اس خزانہ کی مانند ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا جائے۔" (مسند احمد بن حنبل، دارمی)
-