عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی ممانعت

وعَنْ مُعَاوِیَۃَص قَالَ اِنَّکُمْ لَتُصَلُّوْنَ صَلٰوۃً لَقَدْ صَحِبْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَمَا رَأَیْنَاہُ یُصَلِّیْہِمَا وَلَقَدْ نَہٰی عَنْہُمَا یَعْنِی الرَّکْعَیْنِ بَعَدَ الْعَصْرِ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ۔-
" اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا کہ تم لوگ نماز پڑھتے ہو اور ہم سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دو رکعتیں پرھتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان سے ( یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے سے) منع فرمایا ہے۔" (صحیح البخاری ) تشریح دیگر روایات میں تو صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے تھے لیکن یہاں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے انکار کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کی مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں باہر لوگوں کے سامنے تو پڑھتے نہیں تھے۔ البتہ گھر میں عام لوگوں کی نگاہوں سے الگ ہو کر پڑھتے ہوں گے تاکہ دوسرے لوگ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کریں کیونکہ عصر کے بعد یہ دو رکعتیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو پڑھنی درست تھیں دوسرے لوگوں کے لیے جائز نہیں تھیں۔ حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسئلے میں کہ آیا عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا جائز ہیں یا نہیں؟ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث ثابت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی فرض نماز پڑھ لینے کے بعد کوئی دوسری نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے نیز صحابہ کا عمل بھی اسی پر رہا ہے اس واسطے یہ کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اس کے کچھ خلاف کرے یعنی عصر کے بعد نماز پڑھنے کو جائز قرار دے۔
-
وَعَنْ اَبِی ذَرٍّ قَالَ وَقَدْ صَعِدَ عَلٰی دَرَجَۃِ الْکَعْبَۃِ مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی وَمَنْ لَمْ یَعْرِفُنِیْ فَاَنَا جُنْدُبٌ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَا صَلٰوۃَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ اِلَّا بِمَکَّۃَ اِلَّا بِمَکَّۃَاِلَّابِمَکَّۃَ۔ (رواہ احمد بن حنبل ورزین)-
" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے زینے پر چڑھ کر فرمایا کہ جس آدمی نے مجھے پہچانا (یعنی میرا نام جان لیا) اس نے مجھے (یعنی میری سچائی کو) پہچان لیا اور جس نے مجھ کو نہیں پہچانا تو (میں اس کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ " میں جندب ہوں" میں نے سرور کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد جب تک آفتاب طلوع نہ ہو جائے کوئی نماز نہیں ہے اور نہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز ہے جب تک آفتاب غروب نہ ہو جائے مگر مکہ میں مگر مکہ میں مگر مکہ میں" (مسند احمد بن حنبل، رزین) تشریح خانہ کعبہ کا دوازہ چونکہ بلند ہے اس لیے اس پر چڑھنے کے لیے زینہ تھا چنانچہ اب بھی ایک چوبی زینے منبر کی شکل میں ہے جو خانہ کعبہ کے سامنے چاہ زمزم کے پاس رکھا رہتا ہے جب خانہ کعبہ کے اندر داخلہ ہوتا ہے تو اس کو دروازے کے سامنے لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس زینے کو وہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ رکھ دیتے ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ اس وقت بھی اس قسم کا یا کسی دوسری طرح کا زینے ہوگا جس کے ذریعے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوں گے۔ بہر حال حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ جن کا نام جندب تھا۔ خانہ کعبہ کے زینے پر چڑھ کر یہ بات کہی تاکہ لوگ ان کی صداقت شعاری اور سچائی کی بناء پر حدیث کو صحیح جانیں۔ اس طرح حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ابوذر سے زیادہ کسی راست گو اور سچے انسان پر نہ تو آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر اٹھایا۔ مکہ مکرمہ میں اوقات مکروہہ میں نماز کے جائز ہونے کے مسئلے کو اس سے پہلے حدیث نمبر سات میں بتایا جا چکا ہے اس موقعہ پر تو صرف اتنی بات جان لیجئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
-