TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان
عرفات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی
عن هشام بن عروة عن أبيه قال : سئل أسامة بن زيد : كيف كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسير في حجة الوداع حين دفع ؟ قال : كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص-
حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات سے واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار کیا تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار تیز تھی اور جہاں کہیں کشادہ راستہ ملتا (اپنی سواری ) دوڑاتے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن ابن عباس أنه دفع مع النبي صلى الله عليه و سلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه و سلم وراءه زجرا شديدا وضربا للإبل فأشار بسوطه إليهم وقال : " يا أيها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع " . رواه البخاري-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عرفہ کے دن (عرفات سے منی کی طرف) واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے چنانچہ (ان کا بیان ہے کہ راستہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیچھے (بلند آوازوں کے ساتھ جانوروں کو ہانکنے اور اونٹوں کو مارنے کا ) شور و شغب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا (تاکہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنیں) اور فرمایا " لوگوں! آرام و اطمینان کے ساتھ چلنا تمہارے لئے ضروری ہے کیونکہ دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے۔ (بخاری) تشریح " دوڑانا کوئی نیکی نہیں ہے" کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اپنی سواری کو دوڑانے ہی میں نہیں ہے بلکہ نیکی کا اصل تعلق افعال حج کی ادائیگی اور ممنوعات سے اجتناب و پرہیز سے ہے، حاصل یہ ہے کہ نیکیوں کی طرف جلدی و مسابقت، اگرچہ پسندیدہ اور اچھی چیز ہے لیکن ایسی جلدی و مسابقت پسندیدہ نہیں ہے جو مکروہات تک پہنچا دے اور جس پر گناہ کا ترتب ہو۔ اس مفہوم کی روشنی میں اس حدیث میں اس پہلی حدیث میں منافات اور کوئی تضاد نہیں ہو گا۔
-