عاملین کو خوش رکھو

عن جابر بن عتيك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " سيأتيكم ركيب مبغضون فإذا جاؤكم فرحبوا بهم وخلوا بينهم وبين ما يبتغون فإن عدلوا فلأنفسهم وإن ظلموا فعليهم وأرضوهم فإن تمام زكاتكم رضاهم وليدعوا لكم " . رواه أبو داود-
حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تمہارے پاس ایک چھوٹا سا قافلہ آئے گا (یعنی زکوۃ وصول کرنے کے عامل آئیں گے) جو مبغوض ہوں گے (یعن طبعی طور پر تم ان سے متنفر ہوں گے کیونکہ وہ ان کا مال لینے آئیں گے) لہٰذا جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں مرحبا کہو اور ان کی خدمت میں زکوۃ کا مال حاضر کر دو گویا ان کے اور ان کی طلب کردہ چیز یعنی زکوۃ کے درمیان کوئی چیز حائل و مانع نہ رکھو۔ لہٰذا اگر وہ زکوۃ لینے کے بارہ میں عدل سے کام لیں گے تو یہ اپنے لیے کریں گے کہ عدل کا ثواب پائیں گے اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے تو اس کا وبال ان پر ہو گا تم تو زکوۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو اور جان لو کہ تمہاری طرف سے پوری زکوۃ کی ادائیگی ہی ان کی رضا مندی ہے نیز حائل وصول کرنے والے کو چاہئے کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے۔ ( ابوداؤد ) تشریح وان ظلموا اور اگر ظلم کا معاملہ کریں گے۔ کا مطلب یہ ہے کہ زکوۃ وصول کرنے کے معاملہ میں اگرچہ تم اپنے گمان و طبیعت کے مطابق یہی کیوں نہ جانو کہ عامل تمہارے ساتھ ظلم کر رہا ہے پھر بھی ان کو راضی کرو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال وہ ظلم بھی کریں تو تم ان کی رضا کا پھر بھی خیال کرو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ بطور مبالغہ کے ارشاد فرمایا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ عامل کو راضی کرنے کی کتنی اہمیت ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقۃً اور واقعۃً ظلم ہی کرے تو اس کو راضی کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ وارضوھم کا مطلب جیسا کہ خود حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ تم زکوۃ وصول کرنے والوں کو خوش و راضی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو بایں طور کہ زکوۃ کا جو مال تم پر شرعی طور پر واجب ہے اس کی ادائیگی میں خیانت اور کوتاہی کا معاملہ نہ کرو بلکہ انہیں پوری زکوۃ ادا کرو۔ اگرچہ ادائیگی زکوۃ کا اصل فریضہ مال ادا کرتے ہی پورا ہو جاتا ہے پھر بھی زکوۃ وصول کرنے والے کو خوش کرنا ادائیگی زکوۃ کا جزو کمال ہے لہٰذا اس بارہ میں بھی احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص زکوۃ وصول کرنے جائے اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ زکوۃ دینے والے کے حق میں رحمت و برکت اور خیر و بھلائی کی دعا کرے۔
-
عن جرير بن عبد الله قال : جاء ناس يعني من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا : إن ناسا من المصدقين يأتونا فيظلمونا قال : فقال : " أرضوا مصدقيكم وإن ظلمتم " رواه أبو داود-
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دیہات کے کچھ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ زکوۃ وصول کرنے والے کچھ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کرتے ہیں آپ نے ان سے فرمایا کہ زکوۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگرچہ وہ ہم پر ظلم ہی کیوں نہ کریں؟ آپ نے فرمایا تم تو زکوۃ وصول کرنے والوں کو راضی ہی کرو اگرچہ تمہارے ساتھ ظالم ہی کا معاملہ کیوں نہ کیا جائے۔ ( ابوداؤد ) تشریح نفسیاتی بات یہ ہے کہ جس شخص کے پاس سے مال جاتا ہے اس کے دل میں کچھ نہ کچھ تنگی ہوتی ہے اسی لیے زکوۃ وصول کرنے والوں کی طرف سے بھی زکوۃ دینے والوں کے دل میں کچھ اچھے خیالات نہیں ہوتے۔ اسی لیے آپ نے ان دیہاتیوں سے فرمایا کہ اپنے مال سے نفسیاتی اور طبعی طور پر محبت ہونے کی وجہ سے اگرچہ تم یہی سمجھو اور تمہارا گمان یہی ہو کہ زکوۃ وصول کرنے والے ہمارے ساتھ ظلم کا معاملہ کر رہے ہیں مگر تم اس صورت میں بھی انہیں راضی اور خوش کرنے کی کو شش کرو۔
-