TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
قریب المرگ کے سامنے جو چیز پڑھی جاتی ہے اس کا بیان
عالم برزخ میں مومن کی روح
وعن عبد الرحمن بن كعب عن أبيه قال : لما حضرت كعبا الوفاة أتته أم بشر بنت البراء بن معرور فقالت : يا أبا عبد الرحمن إن لقيت فلانا فاقرأ عليه مني السلام . فقال : غفر الله لك يا أم بشر نحن أشغل من ذلك فقالت : يا أبا عبد الرحمن أما سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " إن أرواح المؤمنين في طير خضر تعلق بشجر الجنة ؟ " قال : بلى . قالت : فهو ذاك . رواه ابن ماجه والبيهقي في كتاب البعث والنشور-
حضرت عبدالرحمن بن کعب اپنے والد مکرم (حضرت کعب رضی اللہ عنہ) کے بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو حضرت براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام بشر رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگھیں کہ اے ابوعبدالرحمن! (یہ حضرت کعب کی کنیت ہے) اگر آپ مرنے کے بعد عالم برزخ میں فلاں شخص سے ملیں تو ان سے میرا سلام کہئے گا! حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ام بشر! اللہ تجھے بخشے وہاں ہماری مشغولیت اس سے زیادہ ہو گی! ام بشر نے کہا کہ ابوعبدالرحمن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ کہ (عالم برزخ میں) مومنین کی روحیں سبز جانوروں کے قالب میں ہوں گی اور جنت کے درختوں سے میوے کھاتی ہوں گی۔ حضرت کعب نے کہا کہ ہاں! (میں نے یہ ارشاد گرامی سنا ہے) ام بشر نے فرمایا یہی وہ ) فضل و کرامت) ہے جس سے تمہارے نوازے جانے کی امید ہے) (ابن ماجہ بیہقی) تشریح حضرت عبدالرحمن اجل تابعین میں سے ہیں اور ان کے والد مکرم حضرت کعب کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے اسی طرح حضرت براء بن معرور بھی صحابی ہیں اور انصار میں سے ہیں حضرت ام بشر ان کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ جب دار آخرت کے سفر کی تیاری میں تھے اور ان کی اجل قریب تھی تو ام بشر نے اس بات کی درخواست کی کہ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں پہنچیں تو اگر فلاں شخص سے ملاقات ہو تو انہیں میرا سلام کہہ دیں۔ بظاہر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص راوی کے الفاظ ہیں۔ ام بشر نے اس موقع پر حضرت براء یا حضرت بشر کا نام لیا ہو گا۔ حضرت کعب نے ام بشر سے کہا کہ اللہ تجھے بخشے۔ یہ الفاظ اس موقع پر بولے جاتے ہیں جب کہ متکلم اپنے مخاطب سے کوئی ایسی بات سنتا ہے جو اسے کہنی نہیں چاہئے تھی۔ گویا حضرت کعب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہ کیا کہہ رہی ہو! وہاں تو ہماری مشغولیت اس سے کہیں زیادہ ہو گی کہ کو وہاں پہنچ کر کسی کو پہچانیں اور ان تک کسی کا سلام پہنچائیں۔ یعنی وہاں پہنچ کر میں اپنے ہی حال میں گرفتار ہوں گا کہ اپنی بھی خبر نہ ہو گی چہ جائیکہ دوسروں کی خبر، اسی طرح وہاں سب ہی اپنے اپنے حال میں گرفتار ہوں گے حاصل یہ کہ وہاں کون اپنے آپ میں ہو گا اور کسے اپنے حال سے فرصت ملے گی کہ کسی کو کوئی سلام و پیام پہنچائے۔ ام بشر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کی روشنی میں ان کے اسی عذر کا یہ جواب دیا کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے کہ جو گرفتار وحشت ہوں بلکہ آپ تو ان مومنین میں سے ہوں گے جن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عظیم خوشخبری دی ہے گویا آپ بھی وہاں خوش حال و مطمئن ہوں گے اور اللہ رب العز کے بے پایاں رحم و کرم سے بہرہ ور ہوں گے۔ ایک اور روایت میں عالم برزخ میں ارواح مومنین کا حال کچھ تفصیل سے اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز جانوروں کے قالب میں ہوں گی۔ جو جنت میں چرتی ہوں گی وہاں کے میوے کھاتی ہوں گی وہاں کا پانی پیتی ہوں گی اور عرش کے نیچے سونے کے قندیلوں میں اپنا مسکن بنائے ہوئے ہوں گے۔
-
وعن عبد الرحمن بن كعب عن أبيه قال : أنه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إنا نسمة المؤمن طير طير تعلق في شجر الجنة حتى يرجعه الله في جسده يوم يبعثه " . رواه مالك والنسائي والبيهقي في كتاب البعث والنشور-
حضرت عبدالرحمن اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ (یعنی عبدالرحمن کے والد حضرت کعب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بیان کرتے تھے کہ " عالم برزخ میں مومن کی روح پرندہ کے قالب میں جنت کے درختوں سے میوے کھاتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اسے اٹھائے گا (یعنی قیامت کے دن) اسے اس کے بدن میں واپس بھیج دے گا " ۔ (مالک، نسائی، بیہقی) تشریح اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ جب انسان کی روح کو جانور کا بدن ملا تو اس کا مرتبہ گھٹ گیا کیونکہ اس صورت میں وہ انسان سے جانور ہو گیا اور قلب حقیقت لازم آیا؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ روح مومن کو پرندہ کے جسم کے ساتھ ایسا تعلق نہیں ہوتا جیسا کہ اپنے حقیقی جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور اس پر اپنا تصرف کرتی ہے بلکہ یہ تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی قیمتی چیز مثلاً لعل یا جواہر کو اس کی حفاظت اور احتیاط کی خاطر صندوق میں رکھ دیا جائے۔ لہٰذا روح مومن کو پرندہ کے قالب میں کر دینے سے نہ تو اس کے رتبہ میں کمی ہوتی ہے اور نہ قلب حقیقت لازم آتا ہے بلکہ اس طرح اس کی تعظیم و تکریم ہی ہوتی ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ حدیث میں روح مومن کے بارہ میں جو کیفیت بیان فرمائی گئی ہے اس کا تعلق شہداء کے ساتھ ہے جب کہ دوسرے بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس کا تعلق عام مومنین سے ہے جیسا کہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
-
وعن محمد بن المنكدر قال : دخلت على جابر بن عبد الله وهو يموت فقلت : اقرأ على رسول الله صلى الله عليه و سلم السلام . رواه ابن ماجه-
حضرت محمد بن منکدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ (عالم برزخ میں پہنچ کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرا سلام عرض کر دیں۔ (ابن ماجہ)
-